***
الوداع!اے بے لوث خادم دیں
تاثرات:محترم اشرف عباس
گزشتہ 8اکتوبرکو کارگزارمہتمم حضرت مولانا غلام رسول خاموش صاحب کی اچانک رحلت کے جانکاہ حادثے کا غم ابھی تازہ ہی تھاکہ بروز،چہارشنبہ بوقت صبح 8دسمبر 2010ء دار العلوم دیوبند کے مستقل مہتمم امیر الہندحضرت مولانا مرغوب الرحمٰن صاحب بھی طویل علالت کے بعد اپنے مولائے حقیقی سے جاملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون․
مولانامرغوب الرحمٰن صاحب نے 1914ء میں بجنورکے ایک زمین داراور دین دار خاندان میں آنکھیں کھولیں۔والد گرامی مولانامشیت اللہ صاحب، شیخ الہند کے شاگرد،علامہ انورشاہ کشمیری کے رفیق درس اور دارالعلوم کے مجلس شوریٰ کے رکن تھے۔مولانامرغوب الرحمٰن صاحب کی ابتدائی تعلیم اپنے وطن میں ہی ہوئی،پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے دار العلوم دیوبند سے وابستہ ہوئے، جہاں سے 1932ء میں فراغت ہوئی،فراغت کے بعد اپنے وطن میں ہی قیام کیااورچوں کہ ایک زمین دارگھرانے کے چشم وچراغ تھے،اس لیے کسب معاش کی فکروں سے بھی بہت حد تک آزادتھے۔1965ء میں دار العلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے اور دار العلوم کے دولخت ہوجانے کے بعد رجسٹرڈدار العلوم دیوبند کے عہدہٴ اہتمام کے لیے اعتذارکے باوجود16اگست1982ء کو منتخب کرلیے گئے اور اس وقت سے زندگی کے آخری لمحات تک دارالعلوم ہی آپ کی فکروں اورخدمات کا محور رہا۔ تقریباً30سال تک دار العلوم دیوبندجیسی مرکزی دینی دانش گاہ کے اہتمام کی ذمہ داریاں بحسن وخوبی نبھاتے رہے۔
سادگی،بے نفسی،تقویٰ وطہارت اور خلوص وللّٰہیت جیسی اہم صفات کے جامع تھے،حضرت مہتمم صاحب نے اتنے طویل عرصہ تک دار العلوم کی جو بے لوث خدمت کی ہے وہ یقینا مولاناکے حسنات میں جلی حروف سے لکھی جائیگی۔وہ خطہٴ بر صغیر کے موٴقر اور ہمہ گیراثرات رکھنے والی اسلامی یونیورسٹی کے سربراہ ہوتے ہوئے بھی جس سادگی کے ساتھ زندگی گذارنے کے عادی تھے اس کی مثال بہت کم ملتی ہے۔ورع وتقویٰ کایہ عالم تھاکہ جب تک دار العلوم کے مطبخ سے کھانے منگواتے رہے اس کی فیس جیب خاص سے اداکرتے رہے۔انہوں نے اپنی پوری زندگی دارالعلوم کے لیے وقف کر رکھی تھی اور اس کے بدلے میں دارالعلوم سے ایک پائی بھی نہیں لیتے تھے،بلکہ ہر سال ایک خطیررقم دار العلوم کوچندہ کے طور پر دیتے تھے،اگر کبھی کسی ضرورت سے دار العلوم کی گاڑی کے استعمال کی نوبت آتی تو طے شدہ ضابطہ کے مطابق اس کے ایندھن کاخرچہ بھی اپنی جیبِ خاص سے دار العلوم کو اداکردیتے تھے۔اس عہدہ پر رہتے ہوئے اس درجہ احتیاط کی روایات تقریباً ناپیدہوتی جارہی ہیں۔
2000ء میں جب احقر دارالعلوم میں زیرتعلیم تھا تو اس وقت میرے ایک درسی ساتھی مولوی قمر الحسن صاحب حضرت مہتمم صاحب کی خدمت کرتے تھے،مطبخ سے کھانالاکر اس کی اصلاح بھی ان کے ذمہ تھی،ایک بار انہوں نے مجھے بتلایاکہ آج عجیب واقعہ پیش آیا۔”میں نے حضرت مہتمم صاحب سے کہا کچھ پیسہ دیجیے، تاکہ میں بازارسے پیازلاکرکھانے کی اصلاح کرلوں،اسی دوران چنداہم مہمان آگئے،حضرت مہتمم صاحب ان سے محو گفتگوہوگئے۔میں نے تاخیرسے بچنے کے لیے یہ کیاکہ دار العلوم کے مطبخ سے دوتین پیاز لے آیااور مہتمم صاحب کاکھاناتیارکرکے دسترخوان پر لگادیا،دسترخوان پر بیٹھتے ہی مہتمم صاحب نے مجھ سے استفسارکیاکہ تم نے کہاتھاکہ پیاز نہیں ہے ،تو میں سالن میں پیاز کے اثرات کیسے محسوس کررہاہوں؟اس پر میں نے حقیقت عرض کردی،یہ سنناتھاکہ مہتمم صاحب نہایت خفگی کے عالم میں دسترخوان سے اٹھ گئے اور فرمایادار العلوم کی اشیاء طلبہ کی امانت ہے۔میں اپنی ذات کے لیے ایسی کسی بھی چیز کے استعمال کی اجازت قطعاً نہیں دے سکتا۔تم ابھی جاوٴاوردار العلوم کے دفترمحاسبی میں میرے نام سے دس روپے جمع کرکے آوٴ۔میں بھاگم بھاگ دفترمحاسبی پہنچا،دس روپے جمع کرکے اس کی رسیدلی اور وہ رسید لاکرحضرت مہتمم صاحب کو دکھلائی، تب جاکر آپ نے کھاناتناول فرمایا۔“اگر چہ بظاہر یہ ایک چھوٹاواقعہ ہے، لیکن بڑے آدمیوں کی شخصیت کااندازہ انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں سے لگایاجاتاہے، بلکہ میرے خیال میں موجودہ معاشرے میں اپنے آپ میں یہ ایک انتہائی غیر معمولی واقعہ ہے۔
حضرت مولاناکے30سالہ دوراہتمام میں دار العلوم دیوبند نے تعمیری اور تعلیمی لحاظ سے زبردست ترقی کی،آپ کے زیراہتمام حضرت مولاناعبد الخالق مدراسی صاحب کے اعلیٰ تعمیری ذوق نے دار العلوم کے شعبہٴ تعمیرات کوخوب رنگ وروغن بخشا،جبکہ تعلیمی اعتبار سے آپ کے زمانہٴ اہتمام کاوہ دورنہایت نمایاں ہے،جس میں حضرت مولاناسید ارشد مدنی تعلیمی امورکے ناظم ونگراں رہے،آپ کے زیراہتمام مولاناارشدمدنی کی غیر معمولی تعلیمی اصلاحات اور متحرک وفعال نظام تعلیم نے خصوصیت کے ساتھ ابتدائی درجات میں ایک انقلابی روح پھونک دی تھی۔حضرت مہتمم صاحب نے اپنی فراست وبصیرت اور ذاتی شرافت کی وجہ سے مولاناارشد صاحب کواعتمادکی فضاوٴں میں کھل کرکام کرنے کاموقع فراہم کیا۔عام تاثریہ ہے کہ جمعیت کی صدارت کے قضیہٴ نامرضیہ پیش آنے کے سبب دار العلوم کی نظامت تعلیم سے مولاناارشدصاحب کی سبک دوشی کے بعددارالعلوم کاابتدائی نظام تعلیم کافی متاثرہواہے۔
حضرت مہتمم صاحب کی وفات حسرت آیات کے بعد اب مسئلہ صرف تعلیمات کاہی نہیں، بلکہ پورے نظام دار العلوم کاہے۔ہمارے خیال میں اگر مولانا ارشد صاحب مدنی اب بھی تنازعات سے یکسو ہوجائیں اورمعززاراکین شوری دارا لعلوم دیوبند کے مفادات کی خاطر بلند حوصلگی اوروسعت ظرفی سے کام لیں تو شاید اراکین شوریٰ کوحضرت مہتمم صاحب کامستقل جانشیں تلاش کرنے میں زیادہ دشواری پیش نہ آئے۔
حضرت مہتمم صاحب نے ہمیشہ اپنے آپ کوسیاست کے بکھیڑوں سے پاک رکھا۔ان کی ساری تگ ودوکاخلاصہ صرف دارالعلوم تھااور اپنی عمرگراں مایہ کابڑاحصہ اس طرح اس کی خدمت کرتے ہوئے گزاردیاکہ طلبہ اور اساتذہ جو عموماً اپنے مہتمم سے شاکی ہوتے ہیں، آپ کے اخلاص، انابت،صفائی باطن اورورع وتقویٰ کی وجہ سے ہمیشہ آپ کی عظمت وعقیدت کے گیت گاتے رہے اور آئندہ بھی گاتے اور ایصال ثواب کے اہتمام کے ساتھ خراج عقیدت پیش کرتے رہیں گے۔ انشاء اللہ۔
اللہ پاک اپنے اس بے لوث خادم دین کی تربت پرہزاروں رحمتیں نازل فرمائے۔آمین۔