Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1432ھ

8 - 19
***
فریضہٴ دعوت سے غفلت کے نتائج
مولانا سید محمد رابع حسنی
بزرگو دوستو! حقیقت میں یہ ( دعوت والا کام) بہت اہمیت والا کام ہے ، اس کی اہمیت کو بتانا آسان کام نہیں ہے او رمسلمانوں کی جوادھر سو سال کی پستی ہے وہ اسی کام کو چھوڑنے کی وجہ سے ہوئی ہے ، اگر مسلمانوں نے اس کام کوتھوڑا بھی کیا ہوتا تو اس پستی میں نہ پڑتے جس میں وہ آج پڑے ہوئے ہیں ، ایک زمانہ تھا جو اسلام کے بعد چھ سو سال تک رہا ، دنیا میں مسلمانوں سے زیادہ تعلیم یافتہ سمجھ دار، حکمت رکھنے والی ، طاقت اور اثر رکھنے والی قوم کوئی نہیں تھی ، دنیا میں اس کا مقام سب سے بلند تھا اور دنیا دیکھ رہی تھی اور رشک کر رہی تھی ، لیکن آپ جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے شیطان کو اس بات کا موقع دیا ہے کہ انسانوں کو بہکائے غفلت میں مبتلا کرے ، ان کے ذہن کو الجھا دے تاکہ دنیا میں اچھے کاموں کی کمی ہو جائے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے دنیا سے رخصت ہونے سے پہلے لوگوں کو اصلاح اور لوگوں کو خیر کی طرف بلانے او رانسان کو انسانیت کے اخلاق اور اقدار اختیار کرنے کے لیے کوشش کرنے کی ذمہ داری اپنی امت پر ڈالی اور الله تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:﴿ کنتم خیر امة اخرجت للناس تأمرون بالمعروف وتنھون عن المنکر﴾․
اسی طرح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے سلسلہ میں اس امت کی اہمیت، اس کے مقام اور کام کو بتاتے ہوئے فرمایا تھا:﴿ وکذلک جعلنا کم امة وسطالتکونوا شھدآء علی الناس ویکون الرسول علیکم شھیدا﴾․
یہ اتنا بڑا اعزاز تھا کہ اس سے زیادہ اعزاز کا تصور نہیں کیا جاسکتا ہے، ہم نے تم کو معیاری امت بنایا ہے ، امت وسط کا یہی مطلب ہے ، وسط کا لفظ عربی میں معیار ی اور کامل کے لیے استعمال ہوتا ہے الله تعالیٰ نے اس امت کو معیار ی امت اور کامل امت بنایا، پھر اس کے بعد فرمایا کہ تمہارے ذمہ یہ کام ہے کہ تم ساری دنیا کی گواہی دو گے ، تم ان کے گواہ ہو گے، ان کے اعمال کے ، ان کے کردار کے ، تم قیامت کے روز گواہ ہو گے، الله کے سامنے تم گواہی دینے جاؤ گے کہ دنیا میں دوسری امتوں نے کیا کام کیا اور کیا کوتاہیاں کیں، جیسے کوئی شخص گواہ اور رہبر بنایا جائے اور وہ دیکھے ،جائزہ لے کہ کیا ہو رہا ہے کیا صحیح ہور ہا ہے ؟ کیا غلط ہو رہا ہے ؟ اس امت کو یہی کام دیا گیا تھا کہ دوسری امتوں کو دیکھے کہ وہ کیا کر رہی ہیں کیا غلط کر رہی ہیں ؟ کیا صحیح کر رہی ہیں ؟ اور کس طرح کے ان کے اعمال ہیں ، کس طرح ان کا طریقہ کار ہے ؟ تاکہ الله تعالیٰ کے یہاں جاکر بتاسکیں کہ ان لوگوں نے ایسا ایسا کیا تھا ، ان لوگوں نے یہ یہ کیا تھا، ان لوگوں نے یہ یہ کوتاہیاں کی تھیں، ان لوگوں نے یہ یہ فساد پھیلایا تھا، جس کو گواہ بنایا جائے ، جس کو گواہی کے معیار پر لاکر رکھاجائے ، جس کو رہبر بنایا جائے ، ظاہر ہے کہ اس کا کردار کتنا معیاری ہو گا، کوئی معمولی آدمی رہبر اور گواہ نہیں بنایا جائے گا، وہی رہبر اور گواہ بنایا جائے گا جس کا کوئی وزن ہو ، الله تعالیٰ نے اس امت کا انتخاب فرمایا کہ یہ امت سارے انسانوں کی رہبری او رگواہی کا کام کرے گی، کوئی قوم بغیر دعوت کے کام کے، دوسروں کو پیغام پہنچائے، بغیر دوسروں کو واقف کرائے، حق او رناحق کا فرق بتلائے اس مقام کے لائق نہیں ہو سکتی اور اس کام کو انجام نہیں دے سکتی ، الله تعالیٰ نے اس کا امتیاز اسی کام میں رکھا ہے، یہ کام جب نہیں ہو گا تو اس کا امتیاز ختم ہو جائے گا، پھر اس کی حیثیت باقی نہیں رہے گی ، چناں چہ یہی ہوا کہ آخری چار پانچ سو سال میں مسلمان بہت نیچے چلے گئے الله کی رحمت سے محروم ہو گئے ، جب انہوں نے الله تعالیٰ کے دیئے ہوئے کام کو الله کے دیے ہوئے مقام کو نظر انداز کر دیا او راپنے کو ان امتوں میں شامل کیا جو الله تعالیٰ کے غضب میں مبتلا ہو گئیں اور ان ہی کا کردار اختیار کر لیا، انہیں کا طرز اختیار کر لیا تو ظاہر ہے کہ الله تعالیٰ کی رحمت کے مستحق نہیں رہے لیکن اس امت کے متعلق الله تعالیٰ کا فیصلہ یہی ہے کہ قیامت تک اسی امت کو یہ کام کرنا ہے ، چناں چہ ہمیں یہ نظر آتا ہے کہ کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت کام ہوتا رہا اس امت کے ذریعہ سے اسی وجہ سے یہ امت باقی ہے ورنہ امت ختم کر دی جاتی، اسی لیے الله تعالیٰ صاف صاف فرماتا ہے کہ اگر تم یہ کام نہیں کرو گے تو ہم تم کو چھوڑ دیں گے اور دوسری امت لے آئیں گے ، ہم یہ کام دوسروں کے سپرد کر دیں گے ، تمہارے ہم محتاج نہیں ہیں ، تو الله تعالیٰ نے قیامت تک کے لیے اس امت کو یہ کام دیا ہے اور تھوڑا بہت یہ کام ہوتا رہا ہے اس لیے یہ امت بچی رہی ختم ہونے سے اور اب الحمدلله! بہت ٹھوکریں کھانے کے بعد امت کوایسے افراد ملنے لگے جن کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہونے لگا اور کام تھوڑا بہت ہونے لگا، یہ بات فال نیک ہے ، اس سے بڑی امید کی جاسکتی ہے اسی طرح کام ہوتا رہا ، دعوت کا کاکام غیر مسلموں کو اور جو لوگ اسلام کی عظمت سے او راسلام کے پیغام سے ناواقف ہیں ان کو اسلام سے واقف کرانے کا کام تاکہ یہ لوگ قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکیں کہ اے پرورد گار! ہم کو کسی نے بتایا ہی نہیں تھا تو ہم کیا کرتے اور ان کا یہ کہنا اس امت کے خلاف گواہی ہو جاتا کہ ان کو بتانے کے لیے تم کو ہم نے مقرر کیا تھا ، تم نے نہیں بتایا، یہ بہت خطرہ کی بات ہے او راب یہ توجہ ہونا بہت فال نیک ہے ( اس کام کی) جو تفصیلات آپ کے سامنے رکھی گئیں، وہ بہت دل بڑھانے والی اورامید دلانے والی ہیں اور وہ اس امت کے لیے ضروری ہیں ، جہاں جہاں مسلمانوں کی حکومتیں ہیں ، وہاں حکومت پر بڑی ذمہ داری ہوتی ہے ، تھوڑی بہت عوام پر آتی ہے او رجہاں مسلمان اقلیت میں ہیں وہاں ساری ذمہ داری مسلمانوں پر آتی ہے ۔ ان کو اپنے مسائل طے کرنا پڑیں گے ان کوجس طرح اپنے مسائل طے کرنا پڑیں گے ان کو جس طرح اپنے معاش کی فکر ہوتی ہے اس دعوتی کام کی بھی فکر کرنی پڑے گی ، معاش تو ان کو دنیا کی زندگی میں کام دے گا، وہ اپنے معاش سے اورکمائی سے اور جو کچھ ان کو مالی فوائد حاصل ہوتے ہیں ، اس سے اس دنیا کی زندگی میں فائدہ اٹھائیں گے ، الله تعالیٰ کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے اوروہاں اپنے فرض کی ادائیگی دکھانے کے لیے ضرورت پڑے گی کہ تم نے اس امت کا جو فریضہ تھا اس کو انجام دیا یا نہیں ؟ تم جہاں اقلیت میں تھے، تم پر براہ راست ذمہ داری آتی تھی ، تم آپس میں مل جل کر کمیٹیاں بنا سکتے تھے، ادارے قائم کر سکتے تھے اور جمعیتیں قائم کر سکتے تھے جن کے ذریعہ سے اس کام کو کرنا چاہیے تھا جس کام کی تم پر ذمہ داری الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ڈالی تھی اور الله تعالیٰ نے ان پر نبوت ختم کر دی تاکہ یہ کام ان کی امت کرے ، الله تعالیٰ نے جب امت پر کام ڈالا تو نبوت ختم کر دی ورنہ اس امت تک برابر انبیا ء آتے رہتے گاؤں گاؤں انبیاء آتے تاکہ الله کا پیغام او رالله کے اوامر لوگوں تک پہنچاتے رہیں ، یہ سلسلہ برابر قائم رہا کہ الله تعالیٰ کا پیغام اور اس کے احکام پہنچائے جاتے رہیں تاکہ پوری دنیا کے لوگ چاہے جہاں بھی رہتے ہوں الله تعالیٰ کے سامنے یہ نہ کہہ سکیں:
”اے پروردگار! ہم کو کسی نے بتایا نہیں۔“
الله تعالیٰ نے مسلسل نبی بھیجے لیکن نبوت حضور صلی الله علیہ وسلم پر ختم کر دی گئی اور دعوت کا کام امت کے سپرد کر دیا گیا ، اب امت ایک امتحان میں پڑ گئی، اگر اس کام کو وہ نہیں کرتی اور صرف معاش کی فکر کرتی ہے تو الله تعالیٰ کے یہاں جواب دینے لیے الفاظ نہیں او ربرے لوگوں سے جو الله تعالیٰ کی نافرمانی کرتے ہیں ان کی پکڑ سے خطرہ ہے کہ اس امت کی پکڑ ہو جائے ، تم نے بتایا نہیں تو انہوں نے نافرمانی اختیار کی ، یہ امت بتانے کے لیے آئی کہ تم مجرم ہو طالب علم امتحان میں فیل ہو جائے او رکہے کہ ہمیں استاذ نے پڑھایا ہی نہیں تھا تو کیا ہو گا؟ استاذ پکڑا جائے گا، تمہیں سال بھر سبق پڑھانے کے لیے دیا گیا تھا ، تم نے کیوں نہیں پڑھایا ؟ استاد کے پاس کیا جواب ہو گا؟ کیا استاذ کو معاف کیا جائے گا؟ طالب علم کو چھوڑ دیا جائے گا، طالب علم فیل ہو گیا ، وہ امتحان نہیں دے سکا، اس لیے کہ اس کا قصور نہیں نکلا، اس کو جب پڑھایا ہی نہیں گیا تو وہ کیسے امتحان دے سکتا ہے ؟ یہ بہت خطرہ کی بات ہے کہ کفار الله کے نافرمان یہ کہیں کہ ہمیں بتایا ہی نہیں گیا، کون بتاتا؟ جس کے سپرد الله تعالیٰ نے یہ کام کیا، کچھ لوگ اپنے معاش میں رہ گئے، کچھ لوگ راحت میں رہ گئے، کچھ لوگ کمائی میں رہ گئے اور جو ذمہ داری الله کی طرف سے ڈالی گئی تھی اس سے غافل رہے اور دیکھیے کیا حالت ہو رہی ہے ، ہم اگر غیر مسلموں کی زمین میں رہتے ہیں، دیوار سے دیوار ملی ہوئی ہے، مکان سے مکان ملا ہوا ہے ، دفتر میں ایک ساتھ کام کرتے ہیں لیکن وہ اسلام کے متعلق کچھ بھی نہیں جانتے تو یہ کس کی ذمہ داری ہے ؟ ہم نے ان کو بتایا ہی نہیں ، واقف نہیں کرایا، اپنے عمل سے مظاہرہ نہیں کیا کہ وہ اسلام کی برتری اور اس کی خوبی سے واقف ہو جائیں، یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے ، ہر فرد کے کرنے کا نہیں ہے ، فرض کفایہ ہے اگر ایک معقول مقدار میں یہ کام کرنے والے ہوں تو سب پر سے یہ ذمہ داری دور ہو جائے گی اور اگر کوئی یہ کام کرنے والا نہ ہو تو یہ ایک بڑے خطرہ کی بات ہے ، دوسری بات یہ کہ انسان پیدا ہوتا ہے ، وہ کچھ نہیں جانتا، کوئی علم اس کے پاس نہیں ہوتا، کوئی ہنر اس کے پاس نہیں ہوتا، کسی بات کا سلیقہ اس کے پاس نہیں ہوتا، وہ سب پیدا ہونے کے بعد اپنے ماحول میں ، اپنی تعلیم گاہ میں حاصل کرتا ہے ، اب بتائیے کہ الله تعالیٰ کے احکام اور الله تعالیٰ کی باتوں سے کوئی واقف نہ ہو اور دنیا بھرکی ہر چیز سے واقف ہو جائے تو یہ بہت خطرناک بات ہے ، ظاہر ہے اس کی ذمہ داری کس پر آتی ہے ؟ ماں باپ پر آتی ہے ، اساتذہ پر آتی ہے اور ان لوگوں پر آتی ہے جو ادارے قائم کرتے ہیں ، تو انہوں نے ایسا بھی کوئی انتظام کیا جس سے مسلمان کی نسل پروان چڑھ سکے ؟ مسلمان بچوں کو اسلام کے متعلق بنیادی باتیں تو معلوم ہو جائیں ؟ مسلمان بچے قرآن مجید کی تلاوت تو کر سکیں؟ اگر وہ تلاوت کرنا نہیں جانتے، اگر وہ مسائل نہیں جانتے تو اس کی ذمہ داری ماں باپ پر آتی ہے کہ اس بات کا انتظام کیوں نہیں کیا کہ ان کے بچے مسلمان رہیں ؟ دیکھیے وہ یوں ہی مسلمان نہیں رہ جائیں گے، ہر آدمی اسی دنیا میں سیکھتا ہے لیکن سکھانے سے سیکھتا ہے، اگر ہم نے ان کے لیے الله اور رسول کی باتوں کو جاننے کا، الله کی کتاب پڑھنے کا او رالله کے احکام کو جاننے کا صحیح انتظام نہیں کیا تو یہ نہیں جانیں گے، کیوں کہ ہر بچہ اپنی فطرت پر پیدا ہوتا ہے او راس کے پیدا ہونے کے بعد اس کو کوئی یہودی بنالیتا ہے، کوئی مجوسی بنا لیتا ہے او رکوئی عیسائی بنا لیتا ہے جیسا ماحول ملے گا، جیسا انتظام ملے گا وہ ویسا ہی بن جائے گا، یہ نہیں ہوتا کہ مسلمان گھر میں پیدا ہوا تو مسلمان رہے گا، یہ لازمی نہیں ، اگر اس کو ایسا ماحول ملا، ایسے اساتذہ ملے، ایسے اسکول ملے جہاں اس کو عیسائی بنایا جارہا ہے تو وہ عیسائی بن جائے گا، جہاں اس کو مجوسی بنایا جارہا ہے تو وہ مجوسی بن جائے گا۔ حدیث شریف میں صاف صاف آتا ہے : وہ بچہ بھی الله کے سامنے کہہ سکتا ہے کہ پروردگار! ہمارے ماں باپ نے ہمیں بتایا نہیں ، ہمارے لیے کوئی سیکھنے کا او رجاننے کا انتظام نہیں کیا ، تو کون پکڑا جائے گا؟ ماں باپ پکڑے جائیں گے کہ تم نے کیوں نہیں بچے کو دین کی باتیں بتائیں تم نے اپنے بچہ کو عذاب جہنم سے کیوں نہیں بچایا۔ قرآن میں آتا ہے:
”اے ایمان والو! اپنے کو اور اپنے بچے کو او راپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن انسان او رپتھر ہیں۔“
جہنم کی آگ سے کیسے بچا جائے گا؟ وہاں ہاتھ پکڑ کر روک لیں گے؟ نہیں! بلکہ عمل کے نتیجہ میں وہاں معاملہ ہو گا، آگ سے آدمی اپنے بچہ کی نجات کا راستہ اختیار نہیں کرتا تو اس کی پکڑ ہو گی ، اس پکڑ سے بچنے اور اپنے اہل وعیال کو بچانے کی فکر اسی دنیا میں علم وفضل کے ذریعہ ہم سب کوکرنا چاہیے۔

Flag Counter