Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1432ھ

19 - 19
***
فن اسماء الرجال کی اہمیت
مولانا محمد حسین صدیقی
صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم بھی آپس میں ایک دوسرے کے واسطے سے احادیث کو روایت کیا کرتے تھے۔ نیز عربوں کی خصوصیات میں سے تھا کہ وہ اکثر زمانہٴ جاہلیت میں بھی اشعار وحکایات کو سند کے ساتھ نقل کرتے تھے۔
اس لیے احادیث کو بھی صحابہ رضی الله تعالیٰ عنہم وتابعین رحمہم الله تعالیٰ عام طور پر اسناد کے ساتھ ہی بیان کرتے او رکبھی ترک بھی کر دیا کرتے تھے، مگر اس فتنہ کے شروع ہونے کے بعد اس کا خصوصیت سے التزام کیا جانے گا۔
امام مسلم نے اپنی صحیح کے مقدمہ میں حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہما کے متعلق یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ:” بشیر بن کعب عدوی ابن عباس کی خدمت میں حاضر ہوئے اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے کچھ حدیثیں بیان کرنے لگے، مگر حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ کا یہ حال تھا کہ:” لا یاذن لحدیثہ ولا ینظر الیہ․“
ترجمہ:” ابن عباس نہ ان کی حدثیوں کی طرف کان لگاتے تھے اور نہ کوئی توجہ فرماتے تھے۔“
بشیر کو تعجب ہوا۔ اس پر حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ نے بشیر کے سامنے اس کی وجہ ان الفاظ میں بیان کی:”انا کنا اذا سمعنا رجلا یقول: ”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم“ ابتدرتہ ابصارُنا واصغینا الیہ اٰذاننا فلما رکب الناس الصعب والذلول لم نأخذ من الناس الا ما نعرف“․
ترجمہ: ” ایک زمانہ ہم پر ایسا گزرا ہے کہ جب ہم سنتے کہ کوئی آدمی قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم کہہ رہا ہے تو ہماری نگاہیں فوراً اس کی طرف اٹھ جاتی تھیں اور ہم ہمہ تن گوش ہو کر اس کی بات کو سنتے تھے، پھر جب لوگ ہر سرکش (اونٹ) اور غیر سرکش پر سوار ہونے لگے ( یعنی غلط و صحیح میں تمیز جاتی رہی، رطب ویابس ہر طرح کی باتیں بیان کرنے لگے) تو اب ہم صرف انہیں حدیثوں کو قبول کرتے ہیں جنہیں ہم خود جانتے ہیں۔“
حضرت ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ کے قول کی شرح مولانا شبیر احمد عثمانی رحمہ الله تعالیٰ نے ان الفاظ میں کی ہے: ”ای ما یوافق المعروف او نعرف امارات الصحة وسمات الصدق“․
ترجمہ:” یعنی جو جانی پہچانی ہوئی روایتوں کے موافق ہوں یا ان میں صحت کی نشانیاں اور سچائی کی علامتیں پائی جائیں۔“
ابن عباس رضی الله تعالیٰ عنہ کے اس بیان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ظہور فتنہ اور روایت میں تساہل کے بعد عام طور پر صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم نے روایت کے بیان کرنے اور دوسروں سے سننے میں حزم واحتیاط اور تحقیق کی روش اختیار کر لی تھی، تاکہ کذب علی النبی صلی الله علیہ وسلم کے فتنے کا پوری طرح سد باب ہو جائے، اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ صحابہ کرام رضی الله تعالیٰ عنہم کے تلامذہ، یعنی تابعین جنہوں نے اپنے اساتذہ سے روایتیں کی ہیں ، اسی اصول کی پابندی کرنے لگے۔
محمد بن سیرین رحمہ الله تعالیٰ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: ”ھذا الحدیث دین فانظروا عمن تأخذون دینکم“․
ترجمہ: یہ حدیث دین ہے ، پس خوب غور کر لو ان لوگوں کے بارے میں جن سے تم دین حاصل کر رہے ہو۔“
شعبی نے ربیع بن خثیم رحمہما الله تعالیٰ سے روایت کی کہ ربیع نے روایت بیان کی:”من قال لا الہ الا الله وحدہ لا شریک لہ الخ“ امام شعبی فرماتے ہیں کہ میں نے ربیع بن خثیم سے دریافت کیا کہ آپ سے اس حدیث کو کس نے بیان کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ عمروبن میمون اودی نے، اس کے بعد میری ملاقات عمرو بن میمون اودی سے ہوئی، میں نے عرض کیا کہ آپ سے کس نے اس حدیث کو بیان کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا عبدالرحمن بن ابی لیلیٰ نے ، پھر میری ملاقات ابن ابی لیلیٰ سے بھی ہوئی ، تو میں نے دریافت کیا کہ آپ سے کس نے اس حدیث کو بیان کیا؟ تو انہوں نے جواب دیا حضرت ابوایوب انصاری رضی الله تعالیٰ عنہ نے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔
ان کے بار ے میں حضرت یحییٰ بن سعید رضی الله عنہ فرماتے ہیں: ”وھذا اول من فتش عن الاسناد“․
ترجمہ: ”یہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اسناد کے بارے میں تحقیق وتفتیش سے کام لیا۔“
تابعین اور تبع تابعین اکثر باہم احادیث کا مذاکرہ بھی کرتے تھے اور یہ حضرات صرف ان ہی حدیثوں کو قبول کرتے تھے جو جانی وپہچانی ہوتی ہوں اور ان کو ترک کر دیتے جو نہیں پہچانی جاتی تھیں۔ امام اوزاعی فرماتے ہیں:” ہم حدیث کو سنتے تھے او راس کو اپنے اصحاب کے سامنے اس طرح پیش کرتے تھے جیسے کھوٹے درہم کو صراف کے سامنے پیش کرتے ہیں، جن کو وہ حضرات پہچانتے تھے ، انہیں قبول کرتے، ورنہ ترک کر دیتے تھے ۔“
اعمش کہتے ہیں:
”ابراہیم نخعی حدیث کے صراف تھے، میں بہت سے لوگوں سے حدیثوں کو سنتا، پھر ان کی خدمت میں حاضر ہو کر ان روایات کو ان کے سامنے پیش کرتا، چناں چہ زید بن وہب وغیرہ کے یہاں مہینے میں ایک دو مرتبہ حدیث کے سلسلے میں حاضری ہوتی اور ابراہیم نخعی کی خدمت میں حاضری سے مشکل ہی سے ناغہ ہو تا۔“
اسماء الرجال کی تعریف
ڈاکٹر ادیب صالح نے علم اسماء الرجال کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے کہ : ”وھو علم یقوم علی مابہ تعرف احوال رواة الحدیث من حیث کونھم رواة الحدیث“ یہ وہ علم ہے کہ جو راویان حدیث کے احوال سے صرف ان کے راوی ہونے کی حیثیت سے بحث کرتا ہے۔ اس تعریف میں ”من حیث کونھم رواة الحدیث“ کی قید اس لیے لگائی گئی، ہر انسان کے بحیثیت انسان بہت سے احوال ہوتے ہیں، لیکن علم اسماء الرجال میں اس کے فقط ان احوال سے بحث ہوتی ہے کہ جن احوال سے اس کے راوی حدیث ہونے کی حیثیت سے بحث کرنا ضروری ہوتا ہے او رجن احوال سے حدیث کی صحت وسقم اور اس کے مراتب کی تعیین کا تعلق ہوتا ہے۔
علامہ سخاوی نے اسماء الرجال کی تعریف اس طرح کی ہے کہ ”التعریف بالوقت التی تضبط بہ الاحوال فی الموالید والوفیات، ویلتحق بہ ما یتفق من الحوادث والوقائع التی ینشأ عنھا معان حسنة من تعدیل وتجریح ونحو ذلک“․
یعنی اس وقت کی معرفت کا نام تاریخ ہے کہ جس کے ساتھ احوال ضبط کیے جاتے ہیں پیدائش ووفات کے اعتبار سے اس کے ملحقات میں سے وہ واقعات بھی ہیں کہ جس سے کسی تعریف یا تنقیص یا دوسرے احوال معلوم کیے جاتے ہیں۔
یہ وہ علم ہے کہ جو جرح وتعدیل کے مخصوص الفاظ وضوابط کے ساتھ راویانِ حدیث کے احوال اوراُن کے ثقہ اور غیر ثقہ ہونے اور سن پیدائش وسنِ وفات اور رحلات واسفار علمیہ او رعلم حدیث میں اُن کے مقام ومراتب سے بحث کرتا ہے۔
اسماء الرجال کا موضوع
اس علم کا موضوع جس سے اس علم میں بحث کی جاتی ہے وہ راویان حدیث کے وہ احوال ہیں جس سے حدیث کے صحت وسقم پر کچھ اثر پڑتا ہو، چناں چہ ڈاکٹر صباغ اپنی کتاب ”الحدیث النبوی مصطلحاتہ وبلاغتہ وکتبہ“ میں لکھتے ہیں کہ ”وموضوعہ البحث فی رواة الحدیث وتاریخھم وکل ما یتعلق بشؤونھم ونشأتھم وشیوخھم وتلامذتھم ورحلاتھم، ومن اجتمعوا بہ، او من لم یجتمعوا بہ، من اھل عصرھم ومرکزھم العلمی فی عصرھم وعاداتھم وطبائعھم واخلاقھم وشھادة عارفیھم لھم، او علیھم وسائر مالہ صلة بتکوین الثقة علیھم جرحا او تعدیلاً․“
اس علم کا موضوع راویان حدیث کے احوال اوران کی تاریخ واساتذہ، تلامذہ، اسفار علمیہ، عادات واخلاق وطبائع اور ہر اس وصف سے بحث کرنا ہے کہ جس کا ان کی ثقاہت یا مجروح وعادل ہونے سے تعلق ہو ۔ غرضے کہ اس علم کا موضوع بڑا وسیع ہے او ران تمام جہات پر محیط ہے کہ جن کا راویان حدیث سے راوی حدیث ہونے کی حیثیت سے کوئی ادنی تعلق ہو ۔ چناں چہ ڈاکٹر عجاج الخطیب اپنی کتاب اصول حدیث میں لکھتے ہیں ۔”فھو یتناول ببیان احوال الرواة وبذکر تاریخ ولادة الراوی ووفاتہ وشیوخہ وتاریخ سماعہ منہم ومن روی عنہ وبلادھم ومواطنھم ورحلات الراوی وتاریخ قدومہ الی البلدان المختلفة وسماعہ من بعض الشیوخ قبل الاختلاط ام بعدہ وغیر ذلک مما لہ صلة بامور الحدیث“․
کہ یہ علم اسمائے رجال یا تاریخ رجال راویان حدیث کے تمام احوال پر مشتمل ہوا کرتا ہے۔ اس میں راوی کی تاریخ پیدائش ووفات، اس کے اساتذہ اور تلامذہ اور راوی کے شہر ووطن ،اسفار علمیہ اور مقامات سفر، ان اسفار میں کس سے ملاقات ہوئی اور کس سے نہیں ہوئی، کس استاذ سے اختلاط سے پہلے سنا اور کس سے اختلاط کے بعد، غرض کہ راوی کے ان تمام احوال سے اس علم میں بحث کی جاتی ہے کہ جن کا امور حدیث سے کوئی معمولی تعلق ہو۔
اسم الرجال کی غرض وغایت
اس علم کی غرض وغایت یہ ہے کہ راویان حدیث کے احوال سے واقفیت حاصل کی جائے تاکہ اس کے ذریعے سے احادیث کی پہچان کی جائے اور صحیح اور غیر صحیح میں تمیز کی جائے کیوں کہ ان احادیث پر ہمارے دین کے بہت سے اعمال اعتقاد یہ وفقہیہ کا دار ومدار ہے، اس کے علم کے بعد احادیث صحیحہ پر دین او راحکام دین کی بنیاد رکھی جائے او ران لوگوں کی احادیث کو رد کر دیا جائے کہ جو قابل اعتماد نہ ہوں، یہ تمیز وتفتیش اگر نہ کی جائے تو دین میں بعض ایسی باتیں بھی داخل ہو جائیں گی جو بے اصل ہوں گی اور اس کے نتیجے میں دین کے اندر خلط واختلاط پیدا ہو گا اور سارا کا سارا دین بگڑ جائے گا۔
تاریخ اسم الرجال
یہ ان اہم علوم میں سے ہے کہ جو علم حدیث کے نصف حصے پر مشتمل ہے ،کیوں کہ حدیث کے دو حصے ہوتے ہیں، ایک وہ جس کو سند کہتے ہیں، جس کی تعریف حافظ ابن حجر رحمہ الله تعالیٰ عسقلانی نے شرح نخبة الفکر میں ”طریق المتن“ سے کی ہے اور دوسرا حصہ وہ ہے جو متن کہلاتا ہے ، علم اسماء الرجال کا تعلق سند سے ہوتا ہے اور اس کی صحت اور عدم صحت کے اعتبار سے پھر متن سے بھی تعلق ہوتا ہے، گویا پورے علم حدیث سے اس کا تعلق ہے، اس لیے اس کی اہمیت میں کیا شبہ ہو سکتا ہے اسی لیے تو بڑے بڑے محدثین نے اس علم میں اپنی عمریں صرف کیں اور امت کے سامنے راویان حدیث کے حالات پر مشتمل وہ کتابیں پیش کیں کہ جس سے کوئی بھی علم حدیث سے تعلق رکھنے والا مستغنی نہیں ہوسکتا ہے۔
اس لیے امام ابن ابی حاتم نے اپنی کتاب الجرح والتعدیل کے مقدمہ میں لکھا ہے کہ:
”وجب الفحص عن الناقلة والبحث عن احوالھم واثبات الذین عرفناھم بشرائط العدالة والتثبت فی الروایة، مما یقتضیہ حکم العدالة فی نقل الحدیث وروایتہ بان یکونوا اُمناء فی انفسھم، علماء بدینھم، اھل ورع وتقوی وحفظ للحدیث واتقان وتثبت فیہ وان یکونوا اھل تمییز وتحصیل لا یشوبھم کثیر من الفضلات، ولا تغلب علیہم الاوھام فیما قد حفظوہ ووعوہ․“
یعنی روایت کرنے میں واجب ہے کہ اہل تثبت اور عادل راویوں کو تلاش کیا جائے او ران کی روایت کو ثابت کیا جائے، جو عادل او رامین اور اہل تقوی ہوں اور ان پر اوہام وغفلت کاغلبہ نہ ہو، جو کچھ سنا وہ اچھی طرح یاد ہو ۔
انہی علمائے جرح وتعدیل کے متعلق ڈاکٹر محمد الصباغ نے اپنی کتاب الحدیث النبوی میں لکھا ہے کہ:”لقد کان موقفھم منھا الموقف الاسلامی السلیم، فلم یقبلوھا کلھا، لانھم لو فعلوا ذالک لحرفوا دین الله، ففیھا المکذوب، ولم یترکوھا کلھا، لانھم لو فعلوا ذالک لضیعوا دین الله، ولکنھم شمروا عن ساقی الجدوصرفوا فی سبیل ذلک کل اوقاتھم، لقد تتبعوا احوال الرواة التی تساعد علی عملیة النقد، وتمییز الطیب من الخبیث، ودونوا فی ذالک المدونات واحصوا فیھا بالنسبة الی کل راوٍ متی ولد؟ ومتی شرع فی الطلب؟ ومتی سمع؟ وکیف سمع؟ ومع من سمع وھل رحل والی این؟ وذکروا شیوخہ الذین یحدث عنھم وبلدانھم ووفیاتھم، وفصلوا القول فی احوال الشخص الواحد تفصیلا یدل علی التتبع الدقیق لکل حوادث حیاتہ، فقد یقبلون روایة شخص فی اول حیاتہ ویردونھا فی آخرھا، لانہ اختلط، او یقبلون عند ما یروی عن ابناء بلدہ، لانہ یعرفھم، ویردون روایتہ عندما یروی عن الاخرین، لقلة معرفتہ بھم․“
یعنی علمائے اسلام نے علم اسمائے رجال میں جو موقف اختیار کیا ہے وہ بالکل صحیح اور اسلامی موقف ہے، کیوں کہ ان حضرات نے نہ تو تمام راویوں کی روایتوں کو قبول کیا، اس لیے کہ اس سے دین میں تحریف کا راستہ کھلتا اور نہ سب کی روایتوں کو ترک کیا کہ اس سے دین کا بہت سا حصہ ضائع ہو جاتا، بلکہ ان حضرات نے اس راہ میں تکالیف او رمشقتیں برداشت کرکے اپنے تمام اوقات صرف کیے اور راویانِ حدیث کے احوال کا علم حاصل کیا، جو ان کے لیے صحیح اور غیر صحیح کی تمیز ونقد میں معاون ثابت ہوئی، اس سلسلے میں ان حضرات نے کتابیں لکھی اور ہر راوی کے حالات کا ازاول تا آخر پورا احصاء کیا کہ کب پیدا ہوا تھا؟ کب اس نے طلب حدیث کی ابتدا کی کب سنا؟ کیسے سنا؟ کس کے ساتھ سنا؟ کب سفر کیا؟ اور کہاں کا سفر اختیار کیا ؟ اس طرح ان کے اساتذہ کا ذکر، ان کے علاقوں کا ذکر او رتاریخ وفات کا ذکر کیا اور بعض راویوں کے حالات میں تو ان کی زندگی کے جزئی حالات بھی خوب تحقیق وتدقیق سے تلاش کیے او ران کی زندگی کے تمام حوادث ذکر کر دیے ہیں۔
طبقات علمائے اسماء الرجال
اس موضوع پر سب سے پہلے ابن عدی نے الکامل میں لکھااور صحابہ، تابعین اور تبع وتابعین کے بعد اپنے زمانے تک ان علماء کا نام لکھا ہے کہ جن سے راویان جرح وتعدیل کے متعلق اقوال منقول ہیں یا جنہوں نے اس موضوع پر کتابیں لکھی ہیں، ان کے بعد پھر امام ذہبی رحمہ الله تعالیٰ نے اس پر ایک مستقل رسالہ لکھا ہے، جس کا نام ”من یعتمد قولہ فی الجرح والتعدیل“ ہے،جو شیخ عبدالفتاح ابوغدہ کی تحقیق کے ساتھ مطبوعہ ہے۔ اس رسالہ میں انہو ں نے بائیس طبقات قائم کیے ہیں اور سات سو پندرہ علماء کا ذکر کیا ہے۔
اس کے بعد علامہ سخاوی رحمہ الله تعالیٰ نے ”المتکلمون فی الرجال“ کے عنوان سے ان کو ”اعلان بالتوبیخ“ اور ”فتح المغیث“ میں 26 طبقات میں ذکر کیا ہے، لیکن کچھ تلخیص بھی کی ،اپنے زمانے تک انہوں نے دو سو دس اشخاص کے نام ذکر کیے۔

Flag Counter