***
فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب… لمحہ فکریہ
قاری محمد حنیف جالندھری
نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے قیامت کی جو علامات بتائی ہیں ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ بہت سے گناہوں اور برائیوں کا ارتکاب مہذب او رشائستہ ناموں سے کریں گے ، شراب نوشی کریں گے، مگر نام بدل دیں گے ، سود خوری کریں گے او راس کو نام کچھ اور دے دیں گے۔ غور کیا جائے تو یہ برائی کی سب سے بد ترین صورت ہوتی ہے ، کیو ں کہ نفس کی غلامی کی راہ ہموار کی جاتی ہے، اسلام جس وقت دنیا میں آیا اس وقت بھی کم وبیش یہی حالت تھی ، اہل عرب اپنے کو دین ابراہیمی کا پیروکار کہتے تھے، لیکن پوری طرح شرک میں ملوث تھے۔
جب کوئی انسانی گروہ گناہ کا عادی ہو جاتا ہے او رجان بوجھ کر گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ وہ بد ی کو نیکی او ربرائی کو اچھائی ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگتا ہے ، مغربی تہذیب نے آج یہی صورت اختیار کر رکھی ہے، آج بہت سی مسلمہ اخلاقی برائیاں ، تہذیب وثقافت کے نام سے رائج ہو گئی ہیں، جو لوگ اس سے اختلاف رکھتے ہوں، اسے برا جانتے ہوں ان کو تہذیب جدید سے نا آشنا، بنیاد پرست اور انتہا پسند جیسے القاب سے نوازا جاتا ہے۔ پوری قوت کے ساتھ اس بات کی کوشش کی جارہی ہے کہ طوعاًیا کرہاً مغربی ثقافت وتہذیب کواہل مشرق پر مسلط کر دیا جائے۔
اسی سلسلے کی ایک کڑی ”فحاشی“ اور بے حیائی کا فتنہ ہے، جو ”روشن خیالی“ کے نام سے پروان چڑھایا جارہاہے۔ قرآن کریم میں جا بجا”فحاشی“ کی مذمت او راسے شیطان کا عمل قرار دیا گیا ہے۔ الله تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے:﴿ إن الله یأمرکم بالعدل والاحسان وإیتاء ذی القربی وینھی عن الفحشاء والمنکر والبغی…﴾ اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ تین چیزوں سے بچنے کا حکم دے رہے ہیں: بے حیائی سے، منکر یعنی ناجائز کام سے سرکشی سے۔ فحشاء، ہر اُس برے اور بے حیائی کے کام کو کہا جاتا ہے جس کی برائی انتہائی درجہ کو پہنچی ہوئی ہو اور عقل وفہم اور فطرت سلیمہ کے نزدیک بالکل واضح ہو او رمنکر کا اطلاق اُس قول وفعل پر ہوتا ہے جس کے حرام اورناجائز ہونے پر اہل شرع کا اتفاق ہو۔
دوسری جگہ ارشاد باری ہے ﴿الشیٰطن یعدکم الفقر ویأمرکم بالفحشاء﴾ یعنی شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے ۔ (البقرة:268) ایک او رجگہ ارشاد باری ہے :﴿ ومن یتبع خطوات الشیطان فانہ یأمر بالفحشاء والمنکر﴾․ یعنی جو شیطان کے پیچھے چلے تو شیطان تو ہمیشہ بے حیائی اور ناجائز کاموں کی تلقین کرے گا۔ ( النور:21)
غور کیا جائے تو لفظ منکر کے تحت فحشاء بھی داخل ہے، اس کے باوجود قرآن کریم کی مختلف آیات میں فحشاء کو الگ اور مستقل ذکر کیا گیا ہے اور دوسری دونوں منہیات سے مقدم فرمایا اس میں اس طرف لطیف اشارہ ہے کہ فحشاء اور بے حیائی بہت سے منکرات او رمعصیتوں کا ذریعہ بنتی ہے، جب کسی معاشرے میں فحشاء کا رواج ہو وہاں بے غیرتی وبے حمیتی عام ہو جاتی ہے ، جذبہ دینی ماند پڑ جاتا ہے ، اسلام وایمان کے لیے زندہ رہنے کی فکر وقوت کمزور ہو جاتی ہے اورکئی گناہوں او رمعصیتوں کی شناعت دل سے اٹھ جاتی ہے۔
دوسری طرف اسلام نے فحشاء کے برعکس حیا کو اس قدر اہمیت دی ہے کہ اسے جزو ایمان قرار دیا۔ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :”الحیاء شعبة من الایمان“ یعنی حیا ایمان کا ایک شعبہ ہے ( صحیح مسلم، رقم :75) دوسری جگہ ارشاد فرمایا:” إذا لم تستحی فافعل ماشئت“ یعنی اگر آپ میں حیا نہیں تو جو جی میں آئے کریں۔( سنن ابی داؤد، رقم:4797)
گزشتہ چند عرصہ سے ملک خداداد پاکستان میں فحاشی اور بے حیائی کا سیلاب جس تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے ، یہ ایک افسوس ناک اور خطرناک صورت حال ہے، جس کا سد باب ضروری ہے، ورنہ فحاشی اور بے حیائی کا یہ سیلاب پورے ملک کو لے ڈوبے گا۔ کسی غیر اسلامی معاشرے میں فحاشی اور بے حیائی کا ہونا کوئی نئی بات نہیں، مگر کسی اسلامی ملک میں خصوصاً وہ ملک، جو نظریہ اسلام کی بنیاد پر وجود میں آیا ہو وہاں فحاشی اور بے حیائی کا ابھرنا ایک لمحہ فکر یہ ہے!! جنسی اشتعال انگیزی پر مشتمل حیا باختہ عورتوں کی تصاویر اس قدر عام ہو گئی ہیں کہ گھریلو استعمال کی عام اشیاء کو بھی ان سے آلودہ کر دیا گیا ہے، اخبارات ورسائل کے سرورق پر فلمی اور ماڈلنگ کی دنیا کی نیم عریاں تصویروں کا چھپنا ایک عام معمول ہے ، جو تھوڑی بہت کسر رہ گئی تھی ، وہ ٹی وی چینلوں اور فیشن شوز نے پوری کر دی ہے ، فحاشی اور بے حیائی پھیلانے والے برقی آلات گھر گھر عام کر دیے گئے ہیں ، انٹرنیٹ او رموبائل کمپنیوں کے نت نئے پیکچز او راسکیمیں اس وبا کو عام کرنے میں مؤثر کردار ادا کر ر ہی ہیں اور یہ برقی آلات جس قدر کم قیمت پر پاکستان میں میسر ہیں پوری دنیا میں اس کی نظیر نہیں ، یہ مغربی قوتوں کا ایک خاص منصوبہ ہے، جس کے تحت یہ سب کچھ بڑھایا جارہا ہے۔
پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ذوالحجہ جیسے حج کے مقدس مہینے کے پہلے ہفتہ کو ”فیشن ویک“ منانے کے لیے منتخب کیا گیا ہے ، اس مقدس مہینے کے پہلے دس دن سال کے تمام دنوں سے افضل ہوتے ہیں ، یہ مسلمانوں کے عبادت وطاعت ، بندگی وعجز کے اظہار کے خاص دن ہیں، لیکن ظالموں نے ان ہی مقدس دنوں کو ”فیشن ویک“ کی بے حیائی کی نذر کر دیا۔
مزید افسوس اور حیرت تو اس پر ہے کہ فحاشی اور بے حیائی کے اس سیل رواں کے آگے بند باندھنے والا اور اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے والوں کو روکنے والا کوئی نہیں ، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس ملک کے اکثریتی باشعور طبقہ پر مجرمانہ بے حسی طاری ہو چکی ہے … لیکن دوسری طرف یہ دیکھ کر ایک ڈھارس بندھتی ہے اور امید کی کرن نظر آتی ہے کہ اب بھی چند درد دل رکھنے والے لوگ موجود ہیں، جو ایسی بے حیائی اور بد تہذیبی کا ادراک کرتے ہیں اور اپنے تئیں اس فحاشی اور بے حیائی کو روکنے کی فکر کرتے ہیں، ایک مشہور صحافی اس موضوع پر اپنے ایک حالیہ مضمون میں دردِ دل کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
” فیشن شوز اور Cat Walk کے نام پر عریانیت اور بے حیائی پھیلانے کا جو دھندا اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”روشن خیالی“ کے نام پر جس انداز میں زور پکڑ ے جارہا ہے اگر اس کا فوری سد باب نہ کیا گیا تو عریانیت کی یہ آگ مہذب گھرانوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔ بدتہذیبی اور جاہلیت کی ان حدوں کو ہم بھی جلد چھو لیں گے جو مغربی معاشرے کی اخلاقی اقدار کی تباہی کا باعث بن چکی ہیں او رجہاں حیوانیت اس حد تک پروان چڑھ چکی ہے کہ اکثرپیدا ہونے والے بچوں کو اپنے باپ کا پتہ نہیں ہوتا۔ مرد اور عورتیں بغیر شادی کیے ایک ساتھ رہنے کو ترجیح دیتی ہیں، جب کہ مردوں کامردوں کے ساتھ اور عورتوں کا عورتوں کے ساتھ شادی کرنے کا رواج زورپکڑتاجارہا ہے ۔ فحاشی وعریانیت ان معاشروں میں اب بالکل بے معنی ہو کر ان کے رواج وسماج کا حصہ بن چکی ہیں جنہیں اب وہاں قانونی تحفظ حاصل ہے ۔ ایک غیر اسلامی او رکفر کے معاشرہ میں اس بد تہذیبی او رجاہلیت کا ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں، مگر اس قسم کے رحجانات کا کسی اسلامی معاشرے اور اسلام کے نام پر بننے والے ملک میں پنپنا یقینا لمحہ فکریہ ہے۔ حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ ہر دین کا ایک مخصوص شعار ہوتا ہے او راسلام کا شعار ”حیا“ ہے ۔ سورة النور اور سورة الاحزاب میں الله تعالیٰ مؤمنوں کو اپنی نظروں اور عزتوں کی حفاظت کرنے کا حکم دیتا ہے، جب کہ مومن عورتوں کو صاف صاف انداز میں بتایا گیا ہے کہ ان کا ڈریس کوڈ(Dress Code) کیا ہے اور کس حلیہ میں ان کو اپنے گھروں سے باہر نکلنا چاہیے۔ سورة الاحزاب میں بے پردگی کو جاہلیت کے اس زمانہ سے جوڑا گیا ہے، جب عورتیں بناؤ سنگھار کرکے باہر نکلتی تھیں، مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ الله اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے ”حیا اور بے پردگی“ کے بارے میں ان واضح احکامات کے باوجود اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں ذوالحجہ کے مقدس مہینہ کے پہلے عشرہ کو ”فیشن ویک“ منانے کے لیے چنُا گیا۔ جیسے رمضان کے مہینے کو نیکیوں کا موسم بہار کہا جاتا ہے، اسی طرح ذوالحجہ کا پہلا عشرہ بھی عام دنوں کے مقابلے میں نیکیوں کے اجرو ثواب کے لیے نہایت اہم ہے۔ مگر ہم نے ان دنوں کو فیشن کے نام پر بے حیائی او رعریانی پھیلانے کے لیے منتخب کیا۔ الله کی عبادت اور نیکی کے لیے خصوصی طور پر مختص ذوالحجہ کے مقدس پہلے عشرہ کو اسلام کی سر زمین پاکستان میں ”فیشن ویک“ میں بدلنے پر نہ کوئی حکومتی ادارہ حرکت میں آیا اور نہ ہی کسی اور ذمہ دار کی طرف سے کارروائی کی گئی۔ فیشن ویک بھی ایسا جیسا کہ بے لباسی کا مقابلہ ہو ۔ ٹی وی اسکرین پر عریانیت او ربے حیائی کے اس مقابلے کی جھلکیاں دیکھ کر اپنی مسلمانیت پر شبہ ہونے لگا اور پاکستان بننے کا مقصد دھندلا سا گیا۔ جن عورتوں کو الله تعالیٰ نے حکم دیا کہ وہ گھر سے باہر نکلتے وقت باپردہ ہو کر نکلیں، نیم برہنہ ہو کر فیشن شو میں حصہ لیتی دکھائی دی گئیں، جب کہ وہ مومن مرد جن کو اپنی آنکھیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا وہ ان بے حیائی کے شوز میں تماش بینوں کا کردار ادا کرر ہے تھے، بے حیائی کے اس شو کو بڑا کامیاب گردانا گیا او را س میں حصہ لینے والوں نے امید ظاہر کی کہ عریانیت کا یہ سلسلہ جاری رہے گا اور یہ کہ فیشن انڈسٹری کی کامیابی سے پاکستان بہت پیسہ کما سکتا ہے۔ الله ایسی ترقی اور دولت سے بچائے، آمین…
دکھ اس بات کا نہیں کہ مغرب زدہ ایک چھوٹی سے اقلیت ہمارے معاشرتی اقدار کو کس انداز میں تباہ کرنے پر تلی ہوئی ہے ۔ مگر رنج تو یہ ہے کہ الله اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے واضح احکامات اور آئین پاکستان کے اس وعدے کے باوجودکہ پاکستان میں دینی شعار اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ایسا ماحول پیدا کیا جائے گا جہاں مسلمان قرآن وسنت کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں، اسلامی اقدار کا مذاق اڑانے والوں کو کوئی روکنے والا نہیں ۔ کچھ معلوم نہیں کس نے اس طرز کے فیشن شو کو منعقد کرنے کی اجازت دی۔ کچھ سالوں سے فیشن شوز اور کیٹ واک کا سلسلہ پاکستان میں چل نکلا ہے اور کوئی روک ٹوک نہ ہونے کی وجہ سے مغرب او رانڈیا کی طرح عریانیت کی طرف نکل گیا ہے۔ ٹی وی اسکرینز پراس بے ہودگی کو دیکھنے کے باوجود کسی نے اس کی مذمت کی، نہ ہی کوئی احتجاج ہوا، نہ تو کوئی حکمران بولا، نہ ہی اپوزیشن لیڈر، اسلامی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی خاموش رہے، جب کہ پارلیمنٹ بھی انتظامیہ کی طرح بے حس رہی ۔ اعلیٰ عدلیہ اس پرسوموٹو ایکشن لینے سے کیوں قاصر ہے؟ آخر پاکستان کا میڈیا اس برائی کو برائی سمجھنے سے کیوں قاصر ہے ؟ ان سوالوں کا کم از کم میرے پاس تو کوئی جواب نہیں! تعجب اس بات پر ہے کہ کراچی جیسے شہر میں جہاں کی اکثریتی آبادی پڑھی لکھی اور شعور رکھتی ہے ، کوئی ایک شخص بھی اس عریانیت پر پُر امن احتجاج کے لیے سڑک پر نہیں نکلا۔ اگر ہمارے سیاست دان ، پارلیمنٹ، حکومت، عدلیہ، میڈیا اور عوام اسی بے حسی کا شکار رہے تو پھر مغرب کی طرح ہم بھی اخلاقی پستی کی حدود کو چھو کر رہیں گے۔ ہماری پاس تو ویسے بھی شرم وحیا اور اخلاقی ومعاشرتی اقدار کے علاوہ اب کچھ بچاہی نہیں! ہمارے یہی اقدار ہمیں مغرب سے نمایاں کرتے ہیں۔ اگر آج ہم نے ان کی حفاظت نہ کی او راپنے آپ کو ہوا کے سپرد کر دیا کہ جہاں چاہے اڑالے جائے تو ہم مکمل تباہ ہو جائیں گے… یہ موجودہ خاموشی اور یہ بے حسی انتہائی تکلیف دہ ہے۔ کاش !ہمیں احساس ہو جائے کہ اگر اس عریانیت اور فحاشی پر آج ہم اس لیے خاموش رہے کہ فیشن شوز اور واہیات ٹی وی چینلز پر کام کرنے والی لڑکیاں اور عورتیں ہماری اپنی پچیاں نہیں تو یاد رہے کہ کل ان لڑکیوں اور عورتوں کی جگہ آج کے تماش بینوں اور بے حس معاشرہ کے دوسرے افراد اور ذمہ داروں میں سے کسی کی بھی بیٹی ، بیوی ، بہن یا ماں نیم عریاں لباس میں ہزاروں لوگوں کے سامنے کیٹ واک کر رہی ہوگی!!!“ (روزنامہ جنگ22 نومبر2010، کالم نگار: انصار عباسی)
مذکورہ بالااقتباس میں صاحبِ تحریر نے فحاشی اور بے حیائی نہ روکنے پر اور اس پر خاموش رہنے کی صورت میں جن خطرات سے آگاہ کیا ہے، ان خطرات کے آنے سے قبل ہی ہمیں اس کا سد باب کرنا ہو گا اور اس کے لیے انفرادی واجتماعی حکومتی اور عوامی سطح پر کوشش کرنا ہو گی، ورنہ یہ سیل رواں بہت بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو گا، الله تعالیٰ اس وقت سے ہماری حفاظت فرمائے۔ سردست چند ایسے انقلابی اقدامات کا ذکر کیاجاتا ہے جو آنے والے اس سڑے ہوئے سیلاب کے سامنے بندباندھ سکیں:
1.…ہر آدمی اپنے اور اپنے گھر کی حدتک ضرور کچھ نہ کچھ اثر رکھتا ہے او راپنے زیر اثر حلقے میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے کا ہر شخص مکلف بھی ہے، گھر کی بیٹی،بہن، بیٹے، بھائی اور افرادِ خانہ کو نئی تہذیب کی اس سڑاند سے محفوظ رکھنا، گھر کے ہر باشعور بڑے کی ذمہ داری بنتی ہے ، الله جل شانہ کا ارشاد ہے:” اے ایمان والو! اپنے او راپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ، جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے“… افراد معاشرے سے اورمعاشرہ افراد سے بنتا ہے او رایک صالح معاشرہ، فرد کی ذمہ داری کے بغیر وجود میں نہیں آسکتا۔ جب تک فرد میں برائی روکنے کا احساس پیدا نہ ہو گا، جب تک اس کے دل میں معمارانِ ملت کے مستقبل کے لیے اس زہر قاتل تمدن پر کڑھن پیدا نہیں ہو گی، اس وقت تک انسداد فحاشی وبے دینی کا صحیح سد باب نہیں ہو سکتا۔ برائی کے عام ہونے میں ایک بڑی رکاوٹ یہ ہوتی ہے کہ ہاتھوں ہاتھ قبول کرنے کے بجائے ، معاشرہ اس کو یکسر رد کر دے… اور وہ اسے اسی وقت رد کرے گا جب معاشرے کے افراد کو اپنے دین، اپنی تہذیب او راپنی روایات او رتعلیمات کی فکر ہو گی۔
2.… شہروں کے اندر خیر وبھلائی کی قوتیں ہی لوگوں میں یہ فکرواحساس پیدا کرسکتی ہیں، مساجد کے ائمہ اور اصلاحی مجالس کے واعظین اور دعوت وتبلیغ کے مبلغین اگر پوری دل سوزی کے ساتھ فواحش ومنکرات کے دنیاوی اور اخروی نقصانات لوگوں کے سامنے بیان کریں او رصحافی واہل قلم مجلات واخبارات کے صفحات پر ”ہوشیار باش“ کی صداؤں کو عام کرنے لگیں تو اس سے عام لوگوں میں انسداد فواحش کا جذبہ بیدار ہو گا۔
3.… بے دینی اور فحاشی کی روک تھام کے لیے اُن اداروں پر دباؤں ڈالنا بھی بہت ضروری ہے جو اس کے پھیلانے اور عام کرنے میں سرگرم ہیں، قطع نظر اس کے کہ پس منظر میں کون سی قوتیں کار فرما ہیں ، جن اداروں سے براہ راست شرپھوٹ رہا ہے ، اُن کی سرکشی کو لگام دیے بغیر یہ وبا رُکے گی نہیں۔ ان اداروں پر دباؤ ڈالنے کی ایک صورت تو یہ ہوسکتی ہے کہ شہر کے معززین، اُن اداروں کے ذمہ داروں سے مل کر انہیں اپنے جذبات سے آگاہ کریں او رایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ قانون ہاتھ میں لیے بغیر جمہوری طریقے سے ان اداروں کے سامنے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا جائے۔ یہ کام وہ اسلامی جماعتیں بہت آسانی کے ساتھ کر سکتی ہیں جن کے پاس کارکنوں کا ایک منظم لشکر موجود رہتا ہے۔
4.…اسمبلیوں میں دینی ذہن رکھنے والوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے ، بے حیائی اور بے دینی کی موجودہ لہر کے خلاف اس قومی پلیٹ فارم سے بھی موثر آواز بلندکرنے کی ضرورت ہے ۔ ایک تو پالیسی ساز ذہن وہاں کے صدائے احتجاج کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، دوسرے وہاں کی آواز ملک بھر میں سنائی بھی دیتی ہے۔
ہمارے نزدیک اس کا حل سوائے اس کے او رکچھ نہیں کہ درد دل رکھنے والے اسلامیان پاکستان، اس فضائے معاصی کے خلاف سراپا صدائے احتجاج بن جائیں ، ہر شخص اپنا ایک حلقہ اثر رکھتا ہے، اپنے گھر ، اپنے محلہ، اپنے قبیلہ، اپنی مسجد، اپنی جماعت میں اس آگ کو بجھانے کے لیے آواز بلند کی جائے، خطبائے منبر ومحراب، واعظین، مقررین اسٹیج او راہل علم اپنے قلم سے اس وبا سے بچانے کے لیے صدائیں لگائیں، ان نالوں کا زیادہ نہ سہی، اثر ضرور پڑے گا۔ اس لیے کہ ہم سب کو یہ حقیقت یاد رکھنی چاہیے کہ جس مسلم معاشرے میں برائی کے خلاف آواز اٹھانے والے نہ رہیں، قدرت کی طرف سے اس کی تباہی میں پھر زیادہ دیر نہیں لگتی۔
وما علینا الا البلاغ