Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

7 - 16
***
مسعودہ بیگم
حترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ
17 سالہ مظلوم لڑکی کو حالات نے دو بچوں کی ماں بنا دیا تھا، انہوں نے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کرنے کی خاطر اپنی اولادکو ٹھکرا دیا
اس مضمون میں جتنے واقعات مذکور ہیں وہ سو فی صد سچے ہیں ۔ جس وقت کا یہ واقعہ ہے اس وقت کے تمام اخبار، خاص کر روزنامہ ” الجمعیہ“ اور ہفت روز اخبار ”بے باک“ میں اسے پابندی سے شائع کیا گیا۔ میرے لیے اس سے بڑی بات کیا ہو سکتی ہے کہ مجھے ایک باکردار، عفت وحیا کی پیکر، فخر خواتین اور قوم کی بیٹی مسعودہ بیگم کے حالات زندگی قلم بند کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
مجاہد آزادی وناظم اعلی جمعیت علمائے ہند مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی، مسعودہ بیگم کے بارے میں اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ” ہم نے اس بچی کی قدر نہ کی، جس نے ہماری سوئی ہوئی غیرت ایمان پر ہتھوڑا مار کر جگادیا۔ حفظ الرحمن اسی بچی کا ذکر کرکے تازہ دم ہوتا ہے ۔“
جمعیت علمائے ہند کے نائب صدر مولانا سعید احمد نے یوں کہا کہ ”یہ بچی وہ شمع ہے جو خود تو جل گئی لیکن ہمارے قلوب کو منور کر گئی ۔“ صدر مدرس عالیہ فتح پوری ، دہلی، مولانا سجاد حسین نے کہا کہ ” مسعودہ نے اپنے بچوں پر لات مار کر یہ ثابت کر دیا کہ مسلمان کے یہاں ہر چیز کی اصل اساس الله کریم اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت ہے ۔“
مسعودہ بیگم کا نام زبان پر آتے ہی 1947ء کے دور کا نقشہ سامنے آجاتا ہے، جب برصغیر پاک وہند میں انسانیت پر وحشت اور درندگی غالب تھی ، حق وانصاف مٹ گیا تھا، وقتی طور پربدی، نیکی پر چھا گئی تھی۔ اس دور میں انسان نے انسان کا خون پیا، معصوم بچوں کے گلوں پر چھری چلائی گئی ، ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کی بے حرمتی کی گئی ، انہیں اغوا کیا گیا ، ان کے ساتھ زیادتیاں کی گئیں اور وہ مظالم کیے گئے جنہیں سن کر سنگ دل سے سنگ دل انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ مسعودہ بیگم کا خاندان گنگوہ، سہارن پور، یوپی کا وہ انصاری خاندان تھا جو صحابی رسول الله صلی الله علیہ وسلم، سیدنا ابو ایوب انصاری رضی الله عنہ کی اولاد میں سے تھا۔ مسعودہ بیگم اسی خاندان کے چشم وچراغ حافظ وہاج اجمل شہید کی بیٹی تھیں جو بھٹنڈا اسٹیشن پر ہیڈ کلرک تھے ۔ ان کی والدہ رشیدہ بیگم شہیدہ، نانوتہ، یوپی کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں ۔ اس خاندان نے جنگ آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا او رملک اور وطن کی خاطر اس کے بے شمار افراد نے جام شہادت نوش کیا۔
مسعودہ بیگم کا گھرانہ علم کا گہوارہ تھا۔ ان کی والدہ بھی بہت تعلیم یافتہ خاتون تھیں۔1947ء کے خونی انقلاب کے وقت مسعودہ بیگم دسویں جماعت کی طالبہ تھیں اور اس وقت یہ اپنے خاندان کے ساتھ بھٹنڈا میں مقیم تھیں۔1947ء کے بلوے میں سکھوں نے ان کے گھر پر حملہ کر دیا۔ اس وقت مسعودہ بیگم کو تیز بخار تھا او روہ اپنی والدہ کے ساتھ کوٹھی کے اندرونی حصے میں تھیں ۔ وہ چیخ وپکار سن کر والدہ کے ساتھ باہر نکلیں تو دل کو ہلا دینے والا منظر دیکھا۔ ان کے والد حافظ وہاج احمد کو ظالم سکھ قتل کر چکے تھے ، وہ بحالت سجدہ دم توڑ رہے تھے ۔ مسعودہ بیگم کی بڑی بہن طاہر بیگم، جن کی عمر اس وقت 15 سال تھی ، ظالم ان کو کھینچ کر لے جارہے تھے اور وہ ان سے پوری طرح نبرد آزما تھیں بالآخر لڑتے لڑتے شہید ہو گئیں۔ انہوں نے اپنے 11 سالہ بھائی سلیم احمد کی لاش خون میں لت پت دیکھی ۔ ان کے 9 سالہ بھائی نسیم احمد کو وہ ظالم بری طرح مار رہے تھے اور وہ معصوم اپنے والد کی لاش سے لپٹا بابوجی، بابوجی چلا رہا تھا، بالآخر ان کی آنکھوں کے سامنے اس نے جام شہادت نوش کر لیا۔ ان کے سوا ماہ کے بھائی کو بھی ان ظالموں نے نہیں چھوڑا، اسے بھی انہوں نے بلم پر لٹکا رکھا تھا۔ ان کے3 سالہ بھائی اعجاز احمد کا کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں ہے ، زندہ ہے یا شہید ہو چکا ہے؟ مسعودہ بیگم اور ان کی والدہ کی آنکھیں وحشت اور قتل وغارت گری کا ناچ دیکھتے دیکھتے جیسے پتھر اگئی تھیں۔ مسعودہ بیگم کا چہرہ بخار کی شدت سے سرخ ہو رہا تھا۔ انہیں ان کی والدہ کے ساتھ ایک کمرے میں قید کر دیا گیا۔ رات تو ماہی بے آب کی طرح تڑپتے ہوئے گزری۔ صبح کچھ لوگ آئے، انہوں نے انہیں لاہور جانے والی ٹرین میں بٹھا دیا، لیکن کچھ غنڈوں نے انہیں ٹرین سے اتار لیا۔ ان کی نظر مسعودہ بیگم پر پڑی ۔ انہوں نے ان کی کلائی پکڑی اور ماں کے پاس سے کھینچتے ہوئے لے گئے ۔ وہ میری ماں میری ماں، چیخ رہی تھیں۔ وہ ماں بیٹی جو اپنی کل کائنات لٹا چکی تھیں اب وہ ایک دوسرے سے جدا کی جارہی تھیں۔ کیسا درد ناک منظر ہو گا؟ قلم تو اس دردناک واقعے کو لکھنے کا حق ادا نہیں کر سکتا۔ عمر صرف 13 سال اور الله کریم کے بعد صرف ماں کا سہارا باقی تھا ، وہ بھی چھن گیا ،ادھر مسعودبیگم کی والدہ رشیدہ بیگم، جن کی عدت سڑکوں، اسٹیشنوں ، پناہ گزین کیمپوں اور سفروں میں گزری، انہیں اتنا بھی موقع نہیں ملا تھا کہ وہ کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے شوہر اور بچوں کا سوگ منا سکتیں۔
ادھر مسعودہ بیگم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے، روزنامہ الجمعیة کے مطابق مسعودہ بیگم کو اغوا کرکے راجستھان کے سری گنگا نگر کے چک میں قید رکھا گیا، حتی کہ ان کو یہ بھی نہ معلوم ہو سکا کہ ان کے رشتہ دار زندہ ہیں یا نہیں۔ انہیں قید میں مجرمہ قیدی کی طرح اذیت دی جاتی تھی۔
لاہور پہنچ کر رشیدہ بیگم نے اپنے بھائیوں کو ہندوستان کے شہر اجین میں اپنے لاہور ہونے کی اطلاع بھیجی۔ خط میں انہوں نے اپنے شوہر اور 5 بچوں کی شہادت اور مسعودہ بیگم کے اغوا ہونے کی اطلاع دی ۔ ہم تصور کریں کہ اس بہن نے کس مصیبت سے وہ خط لکھا ہو گا، بہن نے بھائی کو خط میں یہ بھی لکھا تھا کہ بھائی میں نے وہی کپڑے پہن رکھے ہیں جو میرے شوہر نے عید کے لیے بنائے تھے اور سارے بچے بھی عید کے کپڑوں میں ہی شہید ہوئے ہیں، کیوں کہ بلوہ عید کے اگلے دن سے شروع ہوا تھا۔ اسی لیے سب نے ہی عید کے کپڑے پہن رکھے تھے ۔ جب یہ خط بھائیوں کو ملا تو گھر میں کہرام مچ گیا بھائی فوراً لاہور گئے اور لٹی پٹی بہن کو نانوتہ لے آئے۔ بیمار بھاوج ، نند کی یہ حالت دیکھ کر روتے روتے بیہوش ہو گئیں اور اسی بے ہوشی میں ان کا انتقال ہو گیا۔ یہ صبر او راستقامت کا پہاڑ شخصیت ، اپنے دل پر پتھر رکھ کر ،اپنا سب کچھ لٹا کر، ایک مرتبہ پھر اپنے وطن کو لوٹ آئیں۔ ان کے بھائی اسی سال انہیں لے کر سفر حج پر نکلے، تاکہ بہن کے قلب کو کچھ روحانی تسکین مل سکے، انہوں نے حرمین شریفین میں حاضر ہو کر اپنی فریاد الله کریم کی بارگاہ میں پیش کی۔ وہاں رشیدہ بیگم نے الله کریم سے رو رو کر اپنے شوہر اور بچوں کی طرح شہادت کی دعا مانگی۔
ادھر کپور سنگھ ، جس نے مسعودہ بیگم کے سارے خاندان کو شہید کیا تھا، مسعودہ بیگم کو اغوا کرکے چار سال تک اپنے قبضے میں رکھا اور ان پر ہر طرح کا ظلم روا رکھا۔ اس نے انہیں ایک کمرے میں قید کر رکھا تھا اور ان پر سخت پہرہ لگا رکھا تھا۔ اس درندے نے ان کو تمام انسانی حقوق سے محروم کر رکھا تھا۔ دن رات ان پر مظالم ڈھائے جاتے ،کھانا بھی ایک وقت دیا جاتا اور وہ بھی اتنا جتنا زندہ رہنے کے لیے ضروری ہو۔ بقول مسعودہ بیگم جب وہ مجھ پر ظلم کرتے تو میں حضرات صحابہ رضی الله عنہم پر ڈھائے جانے والے مظالم کو یاد کرتی تو مجھے بھی ظلم سہنے میں مزا آنے لگتا او رایسا محسوس ہو تا جیسے کوئی کہہ رہا ہو،صبر کرتی رہ، جنت تیری منتظر ہے ان شاء الله۔
وہ ظالم ان پر زیادتی کرتا۔ اس وقت ان کی طرف سے اتنی مزاحمت ہوتی تھی کہ وہ بیہوش ہو جاتیں۔ وہ انہیں کچھ سنگھا کر بیہوش بھی کر دیتا تھا۔ وہ ہمیشہ اس سے یہ کہتی تھیں کہ تیرا میرا کوئی تعلق نہیں، تو کافر ہے او رمیں الحمدلله، مسلمان اگر تو اسلام قبول کر لے تو اسلام کی خاطر میں تجھ سے نکاح کر سکتی ہوں ،ورنہ تیرا میرا کوئی میل نہیں۔
اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ اس دوڈھائی سال کے عرصے میں مسعودہ بیگم کے دو بچے ہو گئے ایک لڑکا اور ایک لڑکی۔ کپور سنگھ نے سوچا کہ اب وہ بچوں کی محبت سے مغلوب ہو کر یہیں کی ہو کر رہ جائیں گی۔ جس طرح مسلمانوں کی بے شمار لڑکیاں ہمارے ماحول میں مجبور ہو کر رچ بس گئی ہیں۔اس دور میں ہزاروں مسلمان خواتین نے مجبوراً اپنا عقیدہ فراموش کر دیا تھا اور انہیں کے طوروطریقے اور رسم ورواج اپنا لیے تھے ۔آج بھی ہزاروں ایسی خواتین سکھوں اور ہندوؤں کے گھروں میں موجود ہیں، جو اپنی اصل بھول چکی ہیں ۔ کپور سنگھ نے سوچا اسی طرح یہ بھی رچ بس جائیں گی، لیکن اس نادان کو یہ معلوم نہیں تھا کہ مسعود بیگم اپنی جان دے سکتی تھیں، مگر اپنے ایمان کو نہیں چھوڑ سکتی تھیں۔
مسعودہ بیگم ہر ظلم سہتی رہیں ۔ دو بچے ہونے کے بعد بھی وہ ہر وقت اس کافر کی قید سے آزاد ہونے کی ترکیب سوچتی رہیں اور جلدہی ان کو اس کا راستہ مل گیا ۔ کپور سنگھ اس غلط فہمی میں تھا کہ بچوں کی وجہ سے مسعودہ بیگم کہیں نہیں جائیں گی، اس لیے اب ان کو قید میں رکھنے کی ضرورت نہیں ۔ وہاں پر ایک اسکول تھا۔ مسعودہ بیگم نے اس میں نوکری کرنے کی اجازت مانگی ۔ کپور سنگھ نے یہ سوچ کر اجازت دے دی کہ اس سے وہ کپور سنگھ کے قریب ہو جائیں گی ۔ گھر سے باہر نکلتے ہی سب سے پہلے انہوں نے حالات کا جائزہ لیا۔ وہاں ان کو اخبار پڑھنے کا موقع بھی ملتا تھا۔ اخبار کے ذریعہ انہیں مغوی لڑکیوں کے کیمپ کا پتہ چلا۔مسعودہ بیگم نے موقع ملتے ہی مغویوں کو برآمد کرنے والے ادارے کو اپنے متعلق اطلاع بھیج دی ۔ انہوں نے ایک خط مغویوں کے کیمپ کو اپنے اسکول کے پتے کے ساتھ ارسال کیا، کیوں کہ گھر کا پتہ انہیں معلوم نہیں تھا۔ کیمپ کا عملہ خط موصول ہوتیہی حرکت میں آگیا اور اسکول سے ان کے گھر کا پتہ لے کر پولیس کی مدد سے کپور کے گھر پر چھاپا مارا اورمسعودہ بیگم کو برآمد کر لیا۔ پولیس نے انہیں مغوی خواتین کے کیمپ میں پہنچا دیا۔ بعد ازاں انہیں سری گنگا نگر سے فیروز پور کیمپ وہاں سے جالندھر اور جالندھر سے لکھنو لایا گیا، جہاں ان کے ماموں کو اطلاع دے دی گئی۔ اطلاع ملتے ہی ماموں لکھنو پہنچے او رمسعودہ بیگم کو نانوتہ لے آئے۔
اولاد ایسی چیز ہے جو ماں باپ سے نہ جانے کتنے ہی ناجائز کام کروا دیتی ہے، ان کے ایمان بکوا دیتی ہے، حتی کہ کفر تک پہنچا دیتی ہے، مگر مسعودہ بیگم، جن کی عمر صرف 17 سال تھی اور حالات نے انہیں دو بچوں کی ماں بنا دیا تھا ، انہوں نے اپنے دین اور ایمان کی حفاظت کرنے کی خاطراپنی اولاد کو ٹھکرا دیا۔ جب انہیں موقع ملا، انہوں نے اولاد کی محبت کو نہیں، بلکہ ایمان کی حفاظت کو چنا۔
مسعودہ بیگم چار سال کا پُراذیت عرصہ گزار کر اس حال میں اپنی ماں کے سامنے پہنچیں کہ اس ظالم نے کچھ بھی تو نہیں چھوڑا تھا۔ اس کے باوجود کپور سنگھ جیسا ظالم مسعودہ بیگم کے صابرانہ کردار اور ایمانی حرارت کو نہیں توڑ سکا تھا۔
میرا قلم وہ حالات لکھنے سے قاصر ہے جب ماں نے بیٹی کو اور بیٹی نے ماں کو ان نامساعد حالات اور طویل مدت کے بعد دیکھا۔ چوں کہ سخت مصائب وآزمائش کے بعد ماں اور بیٹی ایک ساتھ ملی تھیں فطری، اور طبعی طور پر دونوں یکسوئی چاہتی تھیں، تاکہ باہم ایک دوسرے کے غم کا مداوا کرسکیں۔ اس لیے مسعودہ بیگم نے اپنے ماموں سے اپنی ماں کے ساتھ الگ گھر میں رہنے کی اجازت مانگی۔ ماموں نے دل پرپتھر رکھ کر اجازت دے دی۔ مسلمان کسی بھی حال میں ہو ، کہیں پر بھی رہے ، اپنی ذات کو دوسروں کے لیے نفع کا باعث بناتا ہے ۔ علم کی دولت سے ماں اور بیٹی کو الله کریم نے مالا مال کیا تھا۔ اسی لیے دونوں نے مشورہ کیا اور بچوں کی زیور تعلیم واخلاق سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اب ان کے دو ہی کام رہ گئے تھے ۔ ایک تو بچوں کو تعلیم دینا اور دوسرا اپنے خالق ومالک کی عبادت کرنا۔
کپورسنگھ نے اب ایک نیا داؤ کھیلا۔ وہ جانتا تھا کہ مسعودہ تو اس سے کوئی تعلق رکھنا نہیں چاہتیں اس لیے اگر وہ انہیں لکھے تو وہ اسے پڑھنا بھی گوارا نہیں کریں گی۔ اس لیے اس نے بچوں کو طرف سے ان کی والدہ رشیدہ بیگم کو خط لکھے۔ وہ خطوط ایسے تھے کہ اچھے اچھے دین دار لوگ بھی اپنے جذبات کی رو میں بہہ جائیں۔ سب خطوط تو یہاں نہیں دیے جاسکتے، لیکن ایک خط کا کچھ حصہ اس طرح ہے : 
میری پیاری نانی
آداب
امید ہے کہ آپ کے مزاج بخیر ہوں گے۔ میں یعنی آپ کا نواسہ اور آپ کی ننھی نواسی رنجیت کور بھی خیریت سے ہیں، ماں اور نانی کے ہوتے ہوئے بھی میں اور میری چھوٹی بہن آپ دونوں کی محبت سے محروم ہیں ۔ ہم دونوں بھائی ، بہن وارث ہونے کے باوجود لاوارثوں کی زندگی گزار رہے ہیں، ہمارا کوئی پرسان حال نہیں ۔ میری چھوٹی سی ، ننھی سی بہن ماں کے دودھ کو ترستی ہے ۔ جب وہ روتی ہے تو میں بھی رونے لگتا ہوں ۔ منھ بند، آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جاتی ہیں۔ مجھے امید ہے کہ میری شفیق نانی مجھ پر شفقت فرماکر میری درخواست کومسترد نہیں کریں گی۔
دعا کا طالب، آپ کا نواسہ موہن سنگھ 
یہ تھا نواسے کا خط نانی کے نام۔ کپور سنگھ نے اور بھی بہت سے خط اپنیبچے کے نام سے رشیدہ بیگم کو لکھے۔ ماں ،بیٹی جانتی تھیں کہ بچوں سے رشتہ جوڑنے کا مطلب تھا، نہ چاہتے ہوئے بھی کپور سنگھ سے رشتہ جوڑنا۔ یہ ان مواقع میں سے ایک موقع تھا جہاں یہ ڈر تھا کہ ان کے قدم ڈگمگا جائیں، مگر یہاں بھی مادری شفقت ، دین کی محبت پر غالب نہ آسکی۔ یہاں پھر انہوں نے کفر سے نفرت کے باعث اولاد سے رشتہ توڑ دیا۔ 
بچوں کی جانب سے خط لکھ لکھ کر بھی جب کپور سنگھ، مسعودہ بیگم کو جھکانے میں ناکام رہا تو ایک بار پھر مسعودہ بیگم کو اغوا کرنے کی تدابیر کرنے لگا۔ اس کے لیے اس نے کچھ غنڈوں کا انتخاب کیا۔ مسعودہ بیگم او ران کی والدہ جس گھر میں رہتی تھیں وہاں رات کو کوئی نہ کوئی ان کے پاس ضرور رہتا تھا۔ کبھی رشیدہ بیگم کا بھائی اور کبھی بھتیجے۔ ان کے علاوہ مکان پر مستقل ایک چوکیدار متعین تھا۔ آخر کار نانوتہ کی تاریخ میں وہ سیاہ رات آہی گئی جس نے مسعودہ بیگم کو ان کے آخری رشتے سے بھی محروم کرکے بے یارومدد گار مقابلہ کرنے کے لیے میدان میں تنہا چھوڑ دیا۔ عجیب اتفاق یہ ہوا کہ اس رات ان کے پاس کوئی نہیں تھا ، شاید اسی لیے کہ یہ حادثہ ہونا تھا۔ کپور سنگھ نے گھرکی بھنگن کو مخبری کے لیے خرید لیا تھا ،اس نے مخبری کر دی کہ آج رات گھر میں ماں بیٹی اکیلی ہیں ۔ بس تین بچیاں یعنی رشیدہ بیگم کی بھتیجیاں ان کے ساتھ ہوں گی ۔ کپور سنگھ رات کی تاریکی میں غنڈوں کے ساتھ دیوار پھلانگ کر مکان میں اتر گیا، سب سے پہلے ان غنڈوں نے چوکیدار کو کلوروفارم سنگھا کر بیہوش کیا، پھر مسعودہ بیگم کو۔ جب وہ مسعود ہ بیگم کو اٹھا کر چلے تو ان کی والدہ کی آنکھ کھل گئی اور وہ دیوار آہن بن کر ان مسلح بدمعاشوں کے سانے کھڑی ہو گئیں اور وہ مجاہدہ تن تنہا ان غنڈوں سے بھڑ گئیں۔ ان بزدلوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ پہلے وار کو رشیدہ بیگم نے اپنے ہاتھ سے روکا پھر پے درپے تینوں مسلح ظالم اس نہتی اور مظلوم عورت پر حملہ کرتے رہے۔ وہ ان کے حملوں کا جواب بڑی شجاعت اور بہادری کے ساتھ دیتی رہیں، آخر کار زخموں کی تاب نہ لاکر زمین پر گر پڑیں اور شہید ہو گئیں ۔ ان پر پورے 13 وار کیے گئے تھے۔
مقابلے کا پورا واقعہ ان ننھی بچیوں نے بتایا جو اس رات پھوپی کے ساتھ سونے کے لیے رک گئی تھیں اور خوف کے مارے چپ سادھے لیٹی رہیں۔ مسعودہ بیگم کو کیا پتہ تھا کہ آج کی رات ان کی ماں کی الوداعی شب ہے۔ اگر پہلے سے خبر ہوتی تو وہ اپنی ماں کو جی بھر کر دیکھ ہی لیتیں اور آخری دعائیں ہی لے لیتیں۔
رشیدہ بیگم کے پوسٹ مارٹم کے بعد ان کے بھائیوں نے انہیں بغیر غسل او رکفن کے ایک شہیدہ کی طرح سپرد خاک کر دیا۔ ظالموں نے رشیدہ بیگم کے خون سے لدے دوپٹے کو ہی مسعودہ بیگم کے منھ میں ٹھونس دیا، تاکہ جب وہ ہوش میں آئیں تو آواز نہ نکال سکیں۔ مسعودہ بیگم کو جب ہوش آیا تو انہوں نے اپنے آپ کو کپور سنگھ کے غنڈوں کے قبضے میں پایا۔ ماں کے خون میں لت پت دوپٹے دیکھ کر وہ سمجھ گئیں کہ ان کی ماں شہید ہو چکی ہیں ۔ اس وقت مسعودہ بیگم کو لگا کہ وہ پوری طرح ٹوٹ پھوٹ گئی ہیں، مگر اس صابر اور باہمت لڑکی نے اپنے آپ کو سنبھالا اور ذرانہ گھبرائی۔ یہ واقعہ اکتوبر1952ء کا ہے۔
ہفت روزہ بے باک کے ایڈیٹر کو مسعودہ بیگم نے بتایا کہ ایک ماہ تک مجھے ان ظالموں نے جنگلوں میں چھپا کر رکھا۔ اس عرصے میں مجھے اتنا زدوکوب کیا گیا او راتنی ذہنی او رجسمانی اذیتیں دی گئیں کہ آج بھی تصور کرکے میرے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں، مجھے گھنٹوں مارا جاتا اور توہین آمیزباتیں کہی جاتیں کہ تجھے اپنے دھرم پر بہت گھمنڈ تھا۔ اب تجھے اپنا دھرم چھو ڑکر ذلیل بن کر ہمار ے ساتھ رہنا ہو گا، اب ذلت ہی تیرا مقدر ہے۔ جب مجھے مارا جاتا تو سارے غنڈے میرے چاروں طرف کھڑے ہو کر اس طرح تالیاں بجاتے جیسے مداری کاتماشا ہو رہا ہو۔ جب وہ مجھ پر ظلم کرتے تو میں اسلام کی ان عظیم ہستیوں کی مبارک زندگیوں پر نظر ڈالتی جن پر روح فرسا مظالم ڈھائے گئے اور صد آفرین کہ ان کے پائے استقامت میں جنبش تک نہ آئی، ۔ اس طرح مجھے ظلم سہنے میں بھی عجیب لذت محسوس ہوتی، جو ناقابل بیان ہے۔
وہ لوگ مسعودہ بیگم کو کئی کئی دنوں تک بھوکارکھتے۔ ایک ماہ گزرنے بعد وہ انہیں لے کرجالندھر کے لیے روانہ ہوئے، کئی روزتک انہیں پانی نہیں دیا گیا۔ پیاس کی شدت سے ان کی زبان باہر کو آرہی تھی۔ ان کے منھ تک پانی کا گلاس لاکر نیچے گرا دیا جاتا۔ بالآخر پیاس کی شدت سے وہ بیہوش ہو گئیں ۔ انہیں ہوش دلایا گیا اور کپور سنگھ نے ایک گلاس ان کی طرف بڑھایا، جو شراب کا تھا۔ مسعودہ بیگم نے گلاس زمین پر پٹخ دیا۔ کپور سنگھ انہیں لاتوں اور گھونسوں سے مارنے لگا او ران کے منھ پر کئی طمانچے رسید کیے، جس کی وجہ سے ان کا منھ سوج گیا۔ میروپور لے جاکر انہیں دربار سنگھ، جو کپور سنگھ کا گہرا دوست تھا اور پنجاب میں اسمبلی الیکشن بھی لڑ رہا تھا، اس کے ہوٹل میں رکھا گیا۔ اس ہوٹل میں بڑے بڑے افسروں سے لے کر ہر طرح کے شرابی کبابی آدمی آتے تھے۔ مسعودہ بیگم ان لوگوں کے لیے کھانا بناتی تھیں ۔ کپور سنگھ کے آدمی ان کی ہر نقل وحرکتپر نظر رکھتے تھے۔ انہیں کسی سے بات تک کرنے کی اجازت نہیں تھی۔
ایک دن مسعودہ بیگم نے ایک عورت کو ہوٹل میں دیکھا۔ وہ اسے دیکھ کر فوراً پہنچان گئیں۔ وہ ر گھبیر کور تھی، جو مغویہ لڑکیوں کے کیمپ کی انچارج تھی۔ کیمپ میں قیام کے وقت انہوں نے اسے دیکھا تھا وہ روز وہاں چائے پینے آتی تھی۔ مسعودہ بیگم سمجھ گئیں کہ مغویہ کیمپ ضرور کہیں آس پاس ہی ہے ۔ اب وہ ہوٹل سے فرار کے بارے میں سوچنے لگیں۔ یکا یک ان کے ذہن میں ایک تدبیرآئی۔ کپور سنگھ رات میں مسعودہ بیگم کو کمرے میں بند کرکے باہر سے تالا لگا دیتا تھا اور خود برآمدے میں لیٹ جاتا تھا ۔ مسعودہ بیگم اسی کمرے میں رات کے اندھیرے میں پانچوں وقت کی نماز پڑھا کرتی تھیں۔ ایک بار کپور سنگھ نے ان کو نماز پڑھتے دیکھ لیا تو نماز میں ہی ان کی کمر پر اتنی زور سے لات ماری کہ وہ گر گئیں۔ پھر ان کو خوب مارا لیکن اس صابر لڑکی نے منھ سے اف تک نہ کی، بلکہ اس کے جانے کے بعد اٹھنے کی کوشش کی۔ جب اٹھانہ گیا تو لیٹے لیٹے ہی نماز مکمل کی۔
اس کمرے میں ایک روشندان تھا، وہ روزانہ اس کی کچھ اینٹیں نکالتیں او ران کو پھر وہیں سلیقے سے لگادیتیں۔ جب اتنی جگہ ہو گئی کہ وہ نکل سکیں تو انہوں نے وہاں سے کود نے کا منصوبہ بنایا۔ کپور سنگھ کے ساتھی رات دیر تک جاگتے تھے اور پھر دن چڑھے تک سوتے رہتے تھے۔ اس لیے وہ صبح کے اول وقت میں روشندان سے باہر کود گئیں اور سیدھی سڑک کی طرف دوڑتی چلی گئیں۔ راستے میں جھاڑو دینے والے جمعدار سے انہوں نے مغویوں کے کیمپ کا راستہ پوچھا اور پھر اسی طرف دوڑنے لگیں۔ اسی دوران کپورسنگھ کی آنکھ کھل گئی ۔ جیسے ہی اسے مسعودہ بیگم کے فرار ہونے کا پتہ چلا اس نے کچھ غنڈے لیے اور مسعودہ بیگم کا تعاقب شروع کر دیا۔ تصور کریں کہ کیا منظر رہا ہو گا؟ غرض یہ کہ آگے آگے مسعودہ بیگم او ران کے تعاقب میں دشمن، جیسے ہی وہ مغویوں کے کیمپ پہنچیں ،انہوں نے کیمپ کے گارڈ سے کہا کہ کچھ غنڈے میرا پیچھا کر رہے ہیں ۔ اس نے انہیں فوراً عمارت کے اندر جانے کا کہا ۔ اتنے میں کپور سنگھ بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے کہا کہ ہماری ایک عورت یہاں بھاگ کر آگئی ہے ۔ گارڈ نے کہا کہ اب ہم اسے پولیس کے حوالے کریں گے، وہیں جاکر انہیں لے لینا۔ کیمپ کو پولیس کی سیکورٹی ملی ہوئی تھی۔ اس لیے کپور سنگھ چپ چاپ واپس چلا گیا۔ وہاں سے مسعودہ بیگم کو فیروز پور بھیج دیاگیا اور ساتھ ہی ان کے ماموں کو بھی اطلاع دے دی گئی۔ اس مرتبہ ان کے ماموں نے نانوتہ آتے ہی سب سے پہلے حکومت ہند سے حفاظتی دستے کا انتظام کرنے کا کہا۔ ان کے ماموں مجاہد آزادی تھے اور بہت اثرورسوخ والے تھے، اس وجہ سے حکومت ہند نے حفاظتی دستے کاانتظام کردیا۔ یہ پوری خبراس وقت کے کئی اخباروں میں شائع ہوئی تھی۔ اب مسعودہ بیگم نے مصمم عزم کر لیا کہ وہ ان کی زندگی برباد کرنے اور ان کے ماں باپ، بہن بھائیوں کو قتل کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گی۔ مسعودہ بیگم کے اصرار پر ان کے بڑے ماموں نے سہارنپور کی عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا،مسعودہ بیگم نے ملزمان کے نام، ان کی ولدیت اور پتوں کے ساتھ درج کرائے۔
یہ ہندوستان کا ایک تاریخی مقدمہ تھا۔ آج بھی ہزاروں لوگ ایسے موجود ہیں جنہوں نے مسعودہ بیگم کے اس مقدمے کو بچشم خود دیکھا یا اخباروں میں پڑھا تھا۔ وہ بتاتے ہیں کہ جس دن مقدمے کی سماعت ہوتی اس سے ایک دن قبل ہی دور دراز سے لوگ مسعودہ بیگم کے تاریخی اور ایمانی جوابات سننے کے لیے کچہری میں اکٹھے ہو جاتے۔ سڑکوں پر ٹریفک جام ہو جاتا، یہ ایک ایسی بچی کا مقدمہ تھا جس کی عمر ابھی 20 سال بھی نہیں ہوئی تھی، مگر شجاعت وبہادری سے ان کا دامن بھرا ہوا تھا۔
مقدمے کی دوسری تاریخ پر کپور سنگھ بچوں کو بھی لے کر آیا اور مسعودہ سے کہا کہ یہ تیری اولاد ہے، ان کے واسطے میرے ساتھ چل ۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ اپنے سامنے بچوں کو دیکھ کر مسعودہ بیگم کے قدموں میں کہیں لغزش نہ آجائے، کیوں کہ بچوں کی محبت فطری ہوتی ہے، مگر مسعودہ بیگم نے کپور سنگھ سے کہا کہ انسانی پیٹ میں تو غلاظت بھی ہوتی ہے، کیا اس وجہ سے اس سے بھی محبت ہوجاتی ہے ؟ اپنے ایمان کی حفاظت کی خاطر یہ اولاد تو کیا میں ہزاروں اولادیں قربان کر سکتی ہوں ۔ ان کا یہ جواب سن کر پوری عدالت میں ”الله اکبر“ کے نعرے بلند ہونے لگے۔
وکیل اس مقدے کی سماعت کے دوران مسعودہ بیگم سے ایسے ایسے سوال پوچھتا کہ وہ گھبرا جائیں، لیکن مجال ہے کہ یہ بچی اس کے مکروفریب میں آجائے ۔ ایک بار ملزم کے وکیل نے مسعودہ بیگم سے پوچھا کہ بتاؤ جس کمرے سے تم کود کر بھاگی تھیں اس کی چھت میں کتنی کڑیاں تھیں ؟ “ اس سوال نے پورے مجمع کو پریشان کر دیا، لیکن مسعودہ بیگم کے چہرے پر پریشانی کا نام ونشان نہیں تھا، انہوں نے وکیل سے کہا کہ” سردار جی! میں تو اس کمرے میں پریشانی کی حالت میں رہی ایسے میں کڑیاں کیا گنتی؟ میرا بھی آپ سے ایک سوال ہے کہ آپ نے جو سر پر پگڑی باندھ رکھی ہے ، آپ روز ہی اسے باندھتے ہوں گے، آپ بتائیں اس پگڑی کے اندر کتنے پیچ وخم اورکتنے بل ہیں ؟ بس آپ کا جواب ہی آپ کے سوال کا جواب ہو گا ۔“ وکیل ان کا یہ جواب سن کر ششدروحیران رہ گیا اور پوری کچہری ” الله اکبر“ کے نعروں سے گونج اٹھی۔ لوگ اتنے زیادہ جذباتی ہو کر نعرے لگانے لگے کہ عدالت کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی اور جج نے اگلی تاریخ لگا دی ۔ یوں یہ مقدمہ 1951 سے1953 تک چلا۔24 سے زیادہ پیشیاں ہوئیں۔ ان ساری پیشیوں کو روزنامہ الجمعیة اور بہت سے اخباروں نے تفصیل سے شائع کیا۔
مسعودہ بیگم ایک زندہ لاش تھیں، ان کی طبیعت لگارتار خراب ہوتی جارہی تھیں ۔ طبیعت کی خرابی کے باوجود وہ ایک پیشی کے سوا سب پیشیوں میں حاضررہیں۔ کمزوری کی وجہ سے مقدمے کے دوران وہ بیہوش ہو گئیں ۔ ناسازی طبع کے باوجود مسعودہ بیگم نے یہ مقدمہ بڑی استقامت کے ساتھ لڑا او رملزمان کو سزا دلوا کر ان کو کیفر کردار تک پہنچایا۔ ان میں سے کچھ مجرم مسعودہ بیگم کے انتقال تک سلاخوں کے پیچھے رہے او رکچھ ایسے تھے جو بھاری رشوت دے کر کچھ وقت کے لیے ضمانت پر چھوٹ گئے تھے۔
یہ مقدمہ لڑنے کے لیے امر سنگھ سنگھل جیسے غیر مسلم بھی تھے، جنہوں نے مسعودہ بیگم کا مقدمہ بڑی جاں فشانی اور سمجھ داری کے ساتھ اپنا ذاتی مقدمہ سمجھ کر لڑا۔ مقدمہ کے دوران بھی کپور سنگھ نے دوبارہ مسعود بیگم کو اغوا کرنے کی کوشش کی، مگر وہ کامیاب نہ ہو سکا۔ اس دوران ایک خوش کن واقعہ یہ ہوا کہ 8 سالہ پہلے بلوے میں گم ہونے والا 3 سالہ بھائی اعجاز برآمد ہو گیا۔ ان 8 سالوں میں یہ بچہ سیکڑوں گھروں میں رہا ۔ شری کلونترائے جو پرانے کانگریسی تھے ان کی کوشش سے یہ بچہ اپنے ورثا تک پہنچ گیا۔ بھائی کی برآمدگی سے بہن میں ایک نئی جان آگئی ۔ جب اعجاز گھر آیا تھا تو بالکل وحشی معلوم ہوتا تھا، مگر ایک ہی مہینے میں بہن نے اسے بدل دیا، تاہم قدرت کو اور ہی منظور تھا، لگا تارچند سال تک ذہنی او رجسمانی ظلم واذیت سے مسعودہ بیگم اندر سے بالکل کھوکھلی ہو چکی تھیں۔ وہ ایک زندہ لاشہ بن چکی تھیں ۔ رمضان میں مسعودہ بیگم کو بخار ہو گیا، جس سے وہ سنبھل نہ سکیں اور 25 جون 1955 ء ہفتہ کے دن صبح 4 بجے اپنے وطن قصبہ نانوتہ میں داغ مفارقت دے گئیں۔
مسعودہ بیگم نے صرف 22 یا 23 سال کی زندگی پائی، جو ایک سر فروشانہ او رمجاہدانہ انداز کی زندگی تھی۔ ان کے اس مثالی کردار کے پیش نظر قوم نے ان کو قوم کی بیٹی کے خطاب سے نوازا۔ مسعودہ بیگم جیسی ہزاروں بیٹیوں نے اپنا وجود پاکستان کے وجود کے لیے قربان کر دیا۔

Flag Counter