Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

12 - 16
***
سوات کی ویڈیو کو جعلی ثابت کرنے کے 10 دلائل
ڈاکٹر عامر لیاقت حسین
ڈھٹائی پر اَڑ جانا، جھوٹ پر ڈٹ جانا او رحقائق مسخ کر کے اترانا چلتر بازوں کا پُرانا چلن رہا ہے … مجھے قطعاً حیرت نہیں ہوئی جب ” عالم آن لائن“ کے خصوصی پروگرام کے بعد ”جانگلوؤں“ کے ٹکڑوں پر پلنے والے تنک مزاج یکا یک چر چرانے لگے … گویا کوڑے مارے جانے کی جعلی ویڈیو تو وہ خار مغیلان ثابت ہوئی کہ بنانے اور دکھانے والے دونوں ہی کذب وریا کی خارش کے سبب ”راڑ“ مچارہے ہیں … ویڈیو کے اسرار کھلنے کے بعد بھی اصرار ہے کہ یہ ” اصلی پری کا دھاگا“ ہے… ایک ایک اداکاربے نقاب ہو کر بھی ”روشن خیالی کے نقاب “ میں چہرہ چھپائے بضد ہے کہ اُس کی محنت کا ”ثمر“ رائیگاں نہ جائے … اسلام او رپاکستان کو بدنام کرنے کی کس قدر جی جاں سے کوشش کی گئی تھی ، زمین پر ایک ” چاند“ تراش کے اُسے ایک لاکھ روپے کے عوض ” مظلوم بی بی “ بنایا گیا، پھر پچاس پچاس ہزار روپے دے کر کنڈل جیسی زلفوں والے طالبان سے اُسے پکڑوا کر اُلٹا لٹا یا گیا اورپھر کوڑے کی شڑاپ شڑاپ میں ایک دقیق منظر کو چند ہی دقائق میں کچھ اس طرح محفوظ کیا گیا کہ جسے صرف رقیق القلب ”محسوس“ کر سکیں… پشاور کی ایک حویلی کے احاطے میں ”متعدد ایکسٹراز“ اور ”4 مرکزی کرداروں“ کے ساتھ فلمائی گئی ” انتہائی مختصر دور انیے“ کی اس غیر واضح ویڈیو نے وہ کام کر دکھایا جو طویل دور انیے تک صدر رہنے والے مشرف بھی نہ کر پائے…
گو کہ ایک این جی او کی ” گوپیاں“ تو اپنا کھیل ، کھیل گئیں تھیں مگر ”راجانل پر بپتا پڑی، بھونی مچھلی جل میں پڑی“ کے مصداق، برے دن آئیں تو ہر کام میں نقصان ہوتا ہے … کم بخت سارے ادا کار پکڑے گئے او رجو کچھ نگلا تھا سب اگل دیا… اب تو بھیا افتاد آن پڑی، سچ کو جھوٹ ثابت کرنے کے لیے عالمی وداخلی کذابوں کو زعفران کے کھیت میں راست گفتاری کے ایسے ایسے جوہر دکھانے پڑے کہ ثانیہ بھی لوٹ پوٹ ہو کر شعیب سے کہہ بیٹھیں”اے میرے سانوریا! تو جھوٹ بولنا ان ہی سے سیکھ لیتا“… ایک ہی جست میں ایسی چوکڑیاں، قلابازیاں او رکود پھاند کے مظاہرے کیے جارہے ہیں کہ تاریخ کے بدنام کاذبین کی قبور کروٹوں کے شور سے گونج رہی ہیں … بہتر تھا کہ غلطی مان کر ایک نئی ابتدا کی جاتی ، ازالے کے چراغ سے مایوسی کے سیاہ غار کو روشن کیا جاتا اور توبہ کی کرنوں سے ساون کے تمام اندھوں کی آنکھوں کا کامیاب آپریشن کیا جاتا، مگر جو کچھ ہوا برعکس ہوا… خطا تھی ہی نہیں تو مانی کیوں جاتی؟ ایجنڈے پر عمل کرنا لغزش نہیں ، منصوبوں کو عملی جامہ پہنانا گناہ نہیں اور مقاصد کے حصول کے لیے اختراعات کے معبد میں سازشوں میں سازشوں کی پرستش کرنا آوازِ سگان نہیں… بس چہرے صاف ستھرے رہیں، کیوں کہ ان پر لوگوں کی نظر ہے، حالاں کہ ضرورت تو دل کی گندگیاں صاف کرنے کی تھی ، کیوں کہ اس پر خدا کی نظر ہے … بہرکیف… الله سبحانہ وتعالیٰ دنیا تو اسے بھی دیتا ہے جسے پسند نہیں کرتا، مگر دین صرف اسے ہی دیتا ہے جسے پسند کرتا ہے … تو پھر کیجیے دین کے ساتھ استہزا اور اس جعلی ویڈیو کی آڑ میں اُڑائیے اسلامی سزاؤں کا مذاق، جی بھر کے تمسخر کیجیے ( معاذ الله) آیاتِ ربانی سے اور بھریے اپنی آخری آرام گاہ کو ان انگاروں سے جو کفن نہیں ، روح جلاتے ہیں … یہ ویڈیو تو ” بندر کا پھوڑا“ ہے، جو کبھی اچھا نہیں ہو گا، پاپ کی یہ ناؤ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں ضرور ڈوبے گی … مجھے ضرورت تو نہیں تھی کہ میں اس ویڈیو کے جعلی ہونے کے دلائل پیش کرتا، مگر کچھ”اعلیٰ نسلی“ اس کے اصلی ”ثمرات“ سے آگاہ ہیں، اسی لیے چراغ پاہیں کہ کس گستاخ نے اسے نقلی ثابت کرنے کی جرأت کی ؟ ایک پُر ہول ماحول خراش کر دن بھر کی پُر گوئی کو وہ یونہی تو ضائع نہیں ہونے دیں گے اور جھوٹ کی آخری سسکی تک اسے سچ بنانے کے لیے لڑیں گے…
مجھے یقین ہے کہ میرے پیش کردہ دلائل کے بعد کئی پھاپھاکٹنیاں مجھے پھاڑ کھانے دوڑیں گی ، ویسے بھی یہ ایک چومکھی لڑائی ہے لیکن لڑنا بھی ضروری ہے، ورنہ تو ان کی ریا کے کثیف بھبھکے صداقت کے درپن کو دھندلا کردیں گے…
جھوٹ کیوں بولیں؟ فروغِ مصلحت کے نام پر زندگی پیاری سہی، لیکن ہمیں مرنا تو ہے، لیجیے جناب! اس ویڈیو کے جعلی ہونے کی سب سے پہلی دلیل تو یہی ہے کہ جناب عبدالرحمن ملک صاحب نے فرمایا ہے کہ یہ اصلی ہے …۔ آج کے پاکستان کا قاعدہ یہی ہے کہ کسی بھی شے کی ضد جاننے کے لیے ” گفتارِ ملک“ سے استفادہ کیا جائے … مثلا وہ فرمائیں دن تو سمجھ لیجیے رات ہے ، وہ کہیں کہ ٹارگٹ کلنگ رُک گئی ہے، تو یقین رکھیے کہ کسی بھی وقت شروع ہو ا چاہتی ہے اور اگر وہ کہہ دیں کہ خود کش حملے ختم ہو گئے ہیں تو ڈریے کہ کون کس وقت کہاں پھٹ جائے …
دوسری دلیل، موبائل کیمرے کے نحیف و نزار مائیکروفون سے کیچ کی ہوئی وہ دردناک چیخیں ہیں جن کی کوالٹی اتنی صاف اور واضح ہے کہ اب سیاسی جلسوں میں بڑے بڑے لاؤڈاسپیکر لگانے کے بجائے ان ”منفرد طالبانی موبائل فونز“ پر تجربے کیے جارہے ہیں ، اتنے سے قد پہ آواز کابوجھ سنبھالنے میں انہیں زبردست ملکہ حاصل ہے، چناں چہ آئندہ سیاسی ریلیوں اور عوامی اجتماعات میں قائدین اسی موبائل کے مائیک کے ذریعے خطاب کیا کریں گے ، اب ظاہر ہے کہ جو موبائل بنا کسی بھنبھناہٹ کے مظلومہ کی چیخ سنا سکتا ہے وہ کسی رہنما کی پکار عوام تک نہ پہنچائے یہ ممکن ہی نہیں…
تیسری دلیل ” استقامت آہ وبکا“ ہے ، آواز میں کیا غضب کا جوار بھاٹا ہے کہ ایک سیکنڈ آگے پیچھے نہیں ہوتی ، جتنی بلند، اتنی ہی پست ، کہیں جہری، کہیں سری، گویا کسی صوتی گراف کے عین مطابق بھرپورٹائمنگ کے ساتھ چاند بی بی کے اس رونے میں تکنیکی ہاتھ دھوئے گئے ہیں …
چوتھی دلیل چاند بی بی کے پاؤں پکڑنے والے ”طالب“ کا حکم کے طالب کی طرح بار بار کیمرے کی جانب دیکھنا ہے کہ کب ڈائریکٹر صاحب یا صاحبہ ”کٹ“ کہیں اور وہ خاتون کے پاؤں چھوڑ دے، تاکہ روانگی کا سین عکس بند کیا جاسکے…
پانچویں دلیل کیمرے کا Established Shot پر قائم رہنا ہے، مجال ہے جو کیمرہ چارکرداروں کے ” ماسٹر شاٹ“ سے ہٹ جائے، ارد گرد کے ماحول اور لوگوں کے تاثرات کی فلم بندی” ممنوع“ تھی ، جتنی جگہ کا کرایہ دیا گیا تھا ، دیانت داری سے صرف اسی مقام کو کیمرے میں محفوظ کیا گیا… چھٹی دلیل کوڑے مکمل ہوتے ہی ایک سیکنڈ ضائع کیے بغیر ہائی ہیل والی چاندبی بی کا پیشہ ورانہ انداز میں اُٹھ کھڑے ہو جانا اور فوراً ہی متعین کونے کی جانب رخ کر لینا ہے ، البتہ چیخوں کی ڈبنگ شاید”Project“ میں پڑی رہ گئی اور ساؤنڈ فائل بند نہیں ہو سکی، اس لیے چاند بی بی جاتے جاتے بھی اسی طرح چیختی رہیں جس طرح کوڑے کھاتے ہوئے چلا رہی تھیں… 
ساتویں دلیل سپریم کورٹ کے حکم پر تحقیقات کرنے والے مالاکنڈ کے سابق کمشنر سید جاوید کا وہ ”جرم“ ہے جس کے مطابق انہوں نے اس ویڈیو کو جعلی قرار دے کر اس کے ڈائریکٹر اور کرداروں کی تلاش شروع کر دی تھی …
آٹھویں دلیل، مالاکنڈ کے نئے ڈی پی او قاضی جمیل صاحب کی وہ ”تصدیق“ ہے جس میں ڈوب کر وہ فرمارہے ہیں کہ وہ ویڈیو جعلی تھی او راسے اسلام آباد کی ایک این جی او نے بنایا تھا…
نویں دلیل، ریلیز سے نو ماہ قبل تیار کی جانے والی اس ویڈیو کو ”پراسرار مسلم خان“ کی جانب سے ”قبول“ کرتے ہوئے یہ اقرار کرنا ہے کہ ”سزا تو دینا ضروری تھی، مگر طریقہ غلط تھا“ یہ وہی مسلم خان ہیں جنہوں نے امریکا میں ایک جنونی کے ہاتھوں متعدد افراد کے قتل اور دھماکے کو بھی اپنا ”کارنامہ“ قرار دیا تھا، جس کے دوسرے دن امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ نے یہ کہہ کر تردید کر دی تھی کہ ” مسلم خان او ربیت الله محسودکو معلوم ہی نہیں کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں “…
دسویں دلیل براہ راست اس ویڈیو کو ”نقلی“ کہنے سے گریز کرتے ہوئے سرکاری طور پر اس جملے پر اکتفا کرنا ہے کہ ”کوڑے مارنے والوں کی تلاش جاری ہے، ابھی تک کسی نے خود آکر یہ نہیں کہا کہ یہ ویڈیو اس نے بنائی ہے“… واہ واہ کیا کہنے ہیں!
نہیں … مگر… جس ویڈیو کی آڑ میں مقصد عورت کی بھلائی نہیں، بلکہ اسلام کی برائی ہو، اسلامی سزاؤں کو ظالمانہ اور بے رحمانہ قرار دے کر ”ہائے الله اف، اوئی، توبہ توبہ“ کی طے شدہ آوازیں نکالنا ہو اور امریکا کو بیچی گئی اپنی بیٹی عافیہ کو بھلا کر اسلام آباد میں خریدی گئی ” چاند بی بی “ کے جسم پر اسکرپٹ کے تحت پڑنے والے کوڑے یاد دلا کر آپریشن پر اکسانا ہو وہ اس لیے بھی کسی طور جائز نہیں کہ کوئی بھی ” فعل حرام“ نیت کے اچھے ہونے سے حلال نہیں بن سکتا ، شریعت اسلامی میں حکم عمل پر لگایا جاتا ہے ، نیت پر نہیں … جس طرح جہاد کی نیت اور ارادہ کر لینے سے فساد یا نظام عدل کے نفاذ کی نیت سے دہشت گردی او رقتل وغارت جائز نہیں ہو سکتے، بالکل اسی طرح رحم کے مقاصد کبھی جھوٹی ویڈیو بنا کر حاصل نہیں ہو سکتے…، پاک منزل کبھی ناپاک راہ سے نہیں ملتی اور خیر ، خیر ہی کے راستے سے آتا ہے ، شر کی راہ سے نہیں …!!
(اقتباس از روز نامہ جنگ کراچی)

Flag Counter