Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

14 - 16
***
والدہ محترمہ کی وفات کا سانحہ
مولانا بدر الحسن القاسمی
آہ… ماہ صفر 1431ھ کی 25تاریخ مطابق 9/ فروری 2010ء بروز منگل طلوع فجر کے بعد والدہ محترمہ بھی اس دنیا سے رخصت ہوگئیں اور کئی سال کی علالت اور معذوری ومجبوری کے بعد ہمیں سوگوار چھوڑ کر اللہ کو پیاری ہوگئیں، إنا للہ و إنا إلیہ راجعون۔
یہ حقیقت بھی قابل ذکر ہے کہ اَب سے صرف ایک ہفتہ پہلے 2 فروری کو اور ٹھیک منگل کے دن ہی اُردن کے دار الحکومت عمان میں اپنے جواں سال تعلیم یافتہ بیٹے ”محمد“ کی تدفین کی تھی اور آج ایک ہفتہ بعد اپنی والدہ کو سپرد خاک کر رہا ہوں، کاش کہ ان اندوہناک اور صبرآزما حادثات کو دیکھنے سے پہلے میں خود ہی نہ ہوتا، تو اس قدر بار غم اٹھانے کی نوبت نہ آتی ولٰکِنْ کَانَ أمرُ اللّٰہِ قَدَراً مَّقْدُوْراً۔
والدہ کی ذات ہر ایک کو عزیز ہوتی ہے، کیوں کہ والدہ سے بڑھ کر اپنے بچوں کی خاطر مشقت جھیلنے والی اور ان سے محبت کرنے والی ذات کوئی اور نہیں ہوتی۔ باپ کا درجہ بھی ”ماں“ کے بعد ہی آتا ہے چناں چہ کمال رحمت وشفقت کی مثال میں ”ماں“ اور پھر ”باپ“ کا ہی ذکر کیا جاتا ہے۔
امیر الشعراء شوقی #نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت اور اپنی اُمت کے ساتھ بلکہ ساری خلقت اور کائنات کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کے جذبہٴ شفقت کی مثال تلاش کرنی چاہی تو ان کو بھی رحمت کے مظہر اَتم کی مثال ماں اور باپ کے علاوہ کچھ اور نہیں ملی۔
چناں چہ اپنے مشہور نعتیہ قصیدہ میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی شان رحمت کا ذکر کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں:
وإذا رحمت فأنت أم أو أب
ھذان فی الدنیا ھما الرحماء
جب آپ رحم دلی پر آتے ہیں تو آپ کی مثال ”ماں“ یا ”باپ“ کی ہوتی ہے کیوں کہ اس دنیا میں رحمت وشفقت کا مظہرِ کامل یہی دونوں ہیں۔
والدہ مرحومہ میرے لیے ماں اور باپ دونوں ہی کی حیثیت رکھتی تھیں کیوں کہ والد کے سایہ عاطفت سے اپنی زندگی کے بالکل ابتدائی سالوں میں ہی محروم ہوگیا تھا، ایک عرصہ تک ان کے زندہ سلامت رہنے کے باوجود ہم اپنی بہن اور والدہ کے ساتھ ننھیال میں زندگی گزارتے رہے اور نانا کا سایہٴ عاطفت ہمارے لیے والد کے سایہ سے کسی طرح کم نہیں تھا۔ دادیہال کو تو ہم سرے سے بھول ہی چکے تھے۔ اپنے تعلیمی مراحل کی تکمیل بھی میں نے اسی حال میں کی اور شاید ربّ کریم کی مصلحت بھی اسی میں تھی کیوں کہ اگر میں ددھیال میں رہ جاتا تو اِرد گرد کے ماحول کو دیکھ کر خیال یہی ہوتا ہے کہ تعلیمی راہ پر چلنا شاید آسان نہ ہوتا۔
میری عمر بمشکل 3سال کی ہوگی کہ غروب آفتاب سے کچھ پہلے مجھے اپنی والدہ اور عمر میں مجھ سے بڑی ایک بہن کے ساتھ ددھیال ترک کرکے نانا کے گاؤں منتقل ہونا پڑا تھا، مقصد میری والدہ کی دادرسی تھی، جو اپنی خوش دامن کی ناخوش مزاجی سے تنگ آچکی تھیں، نانا جان بڑے غیور اور جسمانی طور پر طاقتور انسان واقع ہوئے تھے۔ علاقہ میں ان کی بڑی شہرت تھی۔ وہ کب گوارا کرسکتے تھے کہ ان کی بیٹی مظلوم ومغلوب بن کر زندگی گزارے، سسرال میں اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر ان کی غیرت جوش میں آئی اور انہوں نے ہمیشہ کے لیے ہمیں اس شکنجہ سے نکال لیااور پوری شان وبان سے ہمیں پال پوس کر بڑا کیا۔
ہندوستانی وپاکستان مسلم معاشرے میں ساس بہو کی آویزش کی داستانیں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی خاندان ہیں جو اس آویزش کی نذر ہوگئے اور ان کا سکون ہمیشہ کے لیے غارت ہوکر رہ گیا۔
میری دادی کا رویہ والدہ کے ساتھ بہر حال ایسا نہیں تھا جس کا وہ تحمل کرسکتیں، میرے نانا چونکہ اس کی قدرت رکھتے تھے کہ ہم لوگوں کی کفالت کرسکیں اس لیے انہوں نے ہمیں ننھیال میں ہی آباد کرلیا اور پھر اسے تمام زندگی نباہتے رہے، اور ماموں صاحبان نے بھی اسے خوش دلی سے گوارا کیا۔بہرکیف ہندوستان و پاکستان میں مسلم معاشرہ کی ناہمواریاں ایسی ہیں جن سے خواتین کو سخت کٹھنائیوں سے گزرنا پڑتا ہے اور اکثر وبیشتر وہ ظلم وستم کا نشانہ بنتی رہتی ہیں۔ آئے دن ایسے روح فرسا واقعات پیش آتے رہتے ہیں کہ شادی کے بعد نئی نویلی دلہن کی خوشی وسعادت کے لمحات مختصر ہوجاتے ہیں اور تھوڑا ہی عرصہ گزرنے کے بعد یا تو وہ شوہر کی محبت ومودّت کے بجائے حرص وآز کا شکار ہوکر زندگی تک سے ہاتھ دُھونے پر مجبور ہوجاتی ہے یا پھر ساس، نند اور شوہر تینوں کی طرف سے ذہنی اذیت اور کوفت کو سہ کر محرومی وشقاوت کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوتی ہے، اور طرح طرح کی نفسیاتی وجسمانی بیماریاں لاحق ہونے لگتی ہیں، اس صورت حال کی اصلاح کے لیے داعیان دین بھی زیادہ متوجہ نظر نہیں آتے ۔
والدہ محترمہ کا ساری زندگی میکہ میں گزار دینا بھی اسی طرح کے معاشرتی بگاڑ کا نتیجہ کہا جاسکتا ہے، گوکہ ان کا میکہ ان کے حق میں سسرال سے بہتر تھا ۔
لیکن عام انسانی معاشرہ اور طبعی نظام تو یہی ہے کہ ماں باپ کا گھر چھوڑ کر ازدواجی رشتہ کے بعد ایک اور گھر بسایا جائے ۔ اللہ کے فضل سے والدہ محترمہ کو زندگی کے کسی مرحلہ میں کسی طرح کی مالی تنگی یا ظاہری وجسمانی تکلیف کا سامنا کرنا نہیں پڑا اور میکہ میں بھی وہ پورے دبدبہ کے ساتھ رہیں لیکن رشتہ قائم رہنے کے باوجود ساری زندگی میکہ میں گزار دینا اور اپنے سسرالی حقوق سے محروم رہنا خود ہی ایک دائمی نفسیاتی اذیت اور ذہنی غیرآسودگی کا باعث ہوتا ہے جس کا اثر ان کے مزاج، قوت تحمل اور پھر آخر عمر میں ذہنی وجسمانی صحت پر غیرمعمولی ہوا اور اپنی عمر سے زیادہ کمزور نظر آنے لگیں اور آخری دنوں میں تو شناخت اور یاد داشت پر بھی بہت زیادہ اثر ظاہر ہونے لگا تھا اور جب اجل موعود آیا تو بالکل صاحب فراش ہوچکی تھیں، کھانا پینا بھی بڑی حد تک موقوف ہوچکا تھا۔
حقیقت یہ ہے کہ ان کی زندگی بعض لحاظ سے بڑی کٹھن تھی، انہوں نے ساس کے جوروستم یا سسرالی ماحول کی ناہمواری کی وجہ سے ساری زندگی ایک طرح کی ذہنی اذیت میں گزاری ،اس لیے بجا طور پر وہ کہہ سکتی تھیں کہ
اے شمع تجھ پہ رات یہ بھاری ہے جس طرح
ہم نے تمام عمر گزاری ہے اس طرح
نانا نانی کا تصور عام طور پر دادا دادی کے مقابلہ میں ثانوی درجہ کے رشتہ داروں کا ہوتا ہے۔ میراث کے بعض ماہرین نے تو میراث میں استحقاق کو سامنے رکھ کر نانا کے لیے ”جدّفاسد“ کی اصطلاح گھڑ لی ہے جس کی کوئی شرعی بنیاد نہیں معلوم ہوتی ۔ عورت کے ذریعہ نسبت میں ہونے میں ”فساد“ کیا ہے؟ آخر حسن وحسین کا رشتہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت فاطمة الزھراء کے ذریعہ اور واسطہ سے ہی تو تھا، جہاں اس طرح کی فاسد تعبیر کا گمان بھی نہیں کیا جاسکتا۔
بہر حال میرے لیے بھی نانا جان کی ذات فرشتہٴ رحمت سے کم نہ تھی وہ میرے نانا ضرور تھے لیکن ”جدّ صحیح“ سے بھی بڑھ کر تھے، دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ انہوں نے جس شفقت ومحبت کے ساتھ ہم لوگوں کی پرورش کی، پھر جس طرح ہماری تعلیم وتربیت کا خیال رکھا وہ یقینا ان کے لیے صدقہ جاریہ کی حیثیت رکھتا ہے۔
گاؤں دیہات میں گوکہ علم کی روشنی اب پھیلتی جارہی ہے لیکن پہلے ایسی صورت حال نہ تھی اور گاؤں کے بے شمار بچے مدرسہ یا اسکول کی راہ اختیار کرنے کے بجائے شروع سے ہی کاشتکاری کے مشغلہ میں اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے لگتے ہیں یا مویشی پالنے کے کام میں لگ جایا کرتے ہیں،اس طرح کے ماحول میں علم کا حصول آسان نہیں ہوتا۔
حافظ ابن حزم ظاہری اور نامور مالکی فقیہ ومحدّث علامہ ابو الولید الباجی دونوں ہم عصر علماء گزرے ہیں اور معاصرانہ چشمک کبھی کبھی ان دونوں کے درمیان جب ظاہر ہوتی تو یہ دلچسپ بحث سامنے آتی کہ آدمی کا فقروفاقہ کی زندگی میں علم حاصل کرلینا زیادہ بڑا کمال ہے یا ناز ونعمت کی زندگی گزارنے کے باوجود علمی کمال کی طرف توجہ رکھنا زیادہ قابل ستائش ہے۔
علامہ ابو الولید الباجی کہتے کہ تم کو تو مادی وسائل بے پناہ حاصل تھے، مال ودولت کی ریل پیل تھی، پھر تمہارا علم کی طرف متوجہ ہونا کونسا کمال ہے؟ مجھے دیکھو کہ میں دانہ دانہ کا محتاج تھا، کسی طرح کا کوئی مادی وسیلہ میرے پاس نہیں تھا، اس کے باوجود میں نے محنت ولگن سے پڑھا اور مختلف علوم میں امامت کا درجہ مجھے حاصل ہوا۔
اس کے جواب میں علامہ ابن حزم کہتے کہ فقیری حصول علم کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے، بلکہ مال ودولت کی ریل پیل، عیش وعشرت کا ماحول، شاہی محل میں باندیوں کی کثرت اور مختلف طرح کی مادی لذتوں میں پھنس جانے کے خطرات کے باوجود مجھے دیکھو کہ میں نے کس طرح دل لبھانے اور ذہن کو پراگندہ کرنے والے ماحول میں رہنے کے باوجود اپنے آپ پر قابو رکھا اور علم دین کے حصول میں لگا رہا اور کمال حاصل کرکے ہی چھوڑا۔
عزیزوں اور خاص طور پر ایسے عزیزوں کا فراق جن کی زندگی میں دل کی زندگی اور روح کے لیے تازگی اور نشاط کا سامان ہو نفس پر انتہائی شاق اور گراں گزرتا ہے جس کی تلخی کو انگیز کرجانا بڑی اُولو العزمی کا کام ہے۔
لو ذاق طعم الفراق رضوی
لکاد من وجودہ یمید
اگر رضوی پہاڑ کو بھی فراق کا غم برداشت کرنا پڑتا تو شدت غم سے وہ پگھلنے لگتا۔
قد حملونی عذاب شوق
یعجز عن حملہ الحدید
جانے والوں نے ہم پر شوق کا ایسا بار گراں ڈالا ہے کہ جن کو اٹھانے سے لوہے بھی اپنی صلابت کے باوجود عاجز ہیں۔
دین کا نقصان دنیوی نقصان سے کہیں بڑھ کر ہے۔ دارمی کی روایت کے مطابق خود حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تلقین فرمائی ہے کہ:
”إذا أصاب أحدکم مصیبة فلیذکر مصابہ بی فإنہا أعظم المصائب“
(اگر تم میں سے کسی کو کوئی مصیبت لاحق ہوجائے تو میرے حادثہٴ وفات کو یاد کرے، کیوں کہ وہ تمام مصیبتوں سے بڑھ کر ہے۔)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال سے بڑا نقصان اور کیا ہوسکتا ہے؟ حضرت اُم اَیمن کے ”بقول آسمان وزمین کے درمیان وحی کا رشتہ منقطع ہوگیا“ اور حضرت اَنس کے کہنے کے مطابق” جس دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ طیبہ میں داخل ہوئے تھے تو مدینہ کی ہر چیز روشن ہوگئی تھی اور جس دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا سانحہ پیش آیا ہے اُس دن وہاں کی ہر چیز تاریک ہوگئی اور جب حضورصلی الله علیہ وسلم کی تدفین سے ہم فارغ ہوئے تو ہمارے دلوں کی حالت ہی بدلی ہوئی محسوس ہونے لگی“۔
غم کا اثر کیا ہوتا ہے؟ اس کے بارے میں حضرت عثمان کا بیان ہے کہ جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حادثہٴ وفات پیش آیا تو میں مدینہ کے ایک ٹیلہ پر بیٹھا ہوا تھا، اس وقت حضرت ابو بکر کی خلافت کے لیے بیعت لی جا چکی تھی، حضرت عمر کا گزر ہوا تو انہوں نے مجھے سلام کیا۔
فسلّم عليّ عمر فلم أشعر بہ لما بي من الحزن۔
(حضرت عمر نے مجھے سلام کیا تو شدت حزن کی وجہ سے مجھے محسوس ہی نہیں ہوا کہ انہوں نے مجھے سلام کیا ہے۔)
حافظ ابن رجب کا بیان ہے کہ:
ولما توفّی صلی اللّٰہ علیہ وسلم اضطرب المسلمون، فمنہم من دہش، فخولط، ومنہم من أقعد فلم یطق القیام، ومنہم من اعتقل لسانہ فلم یطق الکلام، ومنہم من أنکر موتہ بالکلیة۔ (لطائف المعارف)
(حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا جب وصال ہوا تو مسلمانوں میں عجیب طرح کی دہشت پھیل گئی۔ بعض پر شدت غم کی وجہ سے جنون کی سی کیفیت طاری ہوگئی، کوئی حادثہ کی ہولناکی کی وجہ سے بیٹھا ہی رہ گیا، کھڑے ہونے کی اس میں تاب ہی نہ رہی کسی کی زبان گنگ ہو گئی کہ بولنے کی صلاحیت مفقود ہو گئی اور بعض نے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت کا ہی انکار کردیا)
جب صحابہ کرام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدفین سے فارغ ہوگئے تو حضرت فاطمہ نے حضرت اَنس سے خطاب کرکے نہایت ہی معصومیت کے ساتھ دریافت کیا:
کیف طابت أنفسکم أن تحثوا علی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم التراب؟
(آپ لوگوں کو یہ بات کس طرح گوارا ہوئی کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کے اوپر مٹی ڈالیں؟)
اس سوال کا جواب حضرت اَنس کے یا کسی اور کے پاس ہو بھی کیا سکتا تھا؟
”قبر“ کا لفظ ہی ہول ناک ہے اور اس کا تصور انتہائی پریشان کن، حضرت عثمان غنی قبر کا ذکر کرکے اتنا روتے تھے کہ ڈاڑھی تر ہوجایا کرتی تھی۔ کسی نے دریافت کیا کہ جنت ودوزخ اور دوسری کسی چیز کے ذکر پر آپ اتنا نہیں روتے جتنا قبر کے ذکر پر روتے ہیں؟ تو فرمانے لگے کہ: ”آخرت کی پہلی منزل قبر ہی ہے، اس کا معاملہ آسان ہو تو بعد کے مراحل بھی آسان ہوجائیں گے“۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ”قبر“ کو روضة من ریاض الجنة یا حفرة من حفر النار (جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری یا دوزخ کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا) قرار دیا ہے۔
ایک شخص کہتا ہے کہ:
فارقت موضع مرقدی
یوما ففارقنی السکون
ایک رات میں نے اپنے سونے کی جگہ چھوڑ دی اور دوسری جگہ سونا چاہا تو سکون نہیں ملا اور بے خوابی رہی ۔
فی القبر أوّل لیلة
باللّٰہ قل لی ما یکون
پھر بتاؤ تو سہی کہ قبر میں پہلی رات کس طرح گزرے گی؟
حضور اکرم انے موت کو یاد کرتے رہنے کی تلقین فرمائی ہے:
أکثروا ذکر ھاذم اللذات ۔
(لذتوں کو پاش پاش کردینے والی چیز یعنی موت کو کثرت سے یاد کرتے رہا کر۔)
زبان سے ”قبر“ کے بارے میں اس طرح کی باتیں کہتے رہنے کا موقع تو وعظ وارشاد کے دوران بار بار پیش آتا رہا ہے، لیکن عملی طور پر قبر میں اُتر کر کسی میت کو دفنانے کا یہ پہلا موقع تھا۔
چند ہی دن پہلے اپنے لخت جگر ”محمد“ کو عمّان کے ایک مقبرہ میں سپرد خاک کرکے آیا تھا، جہاں میں قبر کے کنارے بیٹھ کر اپنے چاند کو ڈوبتا ہوا دیکھتا رہا کہ وہی وجود جسے کبھی اپنے کندھے پر اٹھاتا، سینے پر چڑھاتا، پھر بڑے ہونے کے بعد جس کی باتوں سے اُنس ہوتا ، جو کبھی نئی کتابوں اور نئے موضوعات سے ہمیں آگاہ کرتا تھا، سفر سے آکر کبھی اپنے اساتذہ کے دلچسپ واقعات سناتا، محبت سے میری پیشانی چومتا، آج اسے زیر زمین دفن کر رہا ہوں یا اپنی امانت ربّ کریم کے سپرد کر رہا ہوں، جس کے پاس امانتیں ضائع نہیں ہوا کرتیں۔
خیر ذکر تو والدہ محترمہ کی تدفین کا کر رہا تھا جنکو خود اپنے ہاتھوں سے قبر میں اُتارا ان کی ساری زندگی سکون واضطراب کی عجیب وغریب متضاد حالت میں گزری۔
ایک طرف بچپن سے بڑھاپے اور وفات تک کبھی کسی طرح کی مالی پریشانی نہیں ہوئی اور ماں باپ کے گھر میں ان کو ہر طرح کی عزت اور راحت میسر رہی۔
تو دوسری طرف نفسیاتی اُلجھن ایسی تھی کہ وہ میکہ میں رہیں اور ان کے اپنے گھر وبار پر کوئی دوسرا قابض رہا جس کا احساس ان کے لیے سوہان روح تھا۔
کھلی ہوئی بات ہے کہ کسی بھی عورت کے لیے یہ صورت حال خوشدلی سے قابل قبول نہیں ہوسکتی، ظاہری راحت اور نفسیاتی کشمکش کی یہ حالت ان کے ساتھ ساری زندگی برقرار رہی۔
ان کے لیے اگر کوئی چیز اس غم کو بھلانے یا اس اُلجھن سے نکلنے کی تھی تو ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا وجو دتھا، دونوں کی تعلیم وتربیت میں ان کے میکہ میں رہنے کی وجہ سے کسی طرح کی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی اور وہ خود بھی دیہاتی عورتوں کی طرح ضرورت سے زائد اناج یا دوسری چیزیں فروخت کرکے اپنے بچوں کی راحت کا اضافی انتظام کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی تھیں۔
اور اللہ تعالیٰ کے فضل وکرم سے ہم لوگوں کے بڑے ہونے کے بعد ان کو مزید راحت وسکون ملا اور ان کی زندگی کے دن کسی پریشانی کے بغیر پورے ہوگئے۔
بچپن میں انہوں نے تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن بڑھاپے میں قرآن کریم کی تلاوت کی کوشش کرتی رہیں اور بیرون ملک سفر میں بھی اپنے ساتھ تسبیح اور قرآن کریم کا ایک پارہ ساتھ رکھنے لگی تھیں۔
نماز کی ہمیشہ پابند رہیں، لیکن گزشتہ چند سالوں سے بیماری کی وجہ سے وہ اتنی معذور ہوگئی تھیں کہ بظاہر وہ نماز روزے کی مکلف بھی نہیں رہ گئی تھیں، جب صحت وقوت بحال تھی اور ہوش وحواس کی حالت میں تھیں تو نماز عموما لمبی اور سنن ونوافل کی پابندی کے ساتھ ادا کرتی تھیں اور دیر تک تسبیح پڑھتی رہتی تھیں۔
اللہ نے 1987ء میں ان کو حج کی سعادت سے بہرہ ور کیا اور غالباً دوبار میرے بال بچوں کے ساتھ عمرہ کے لیے بھی گئیں۔ ان کو اپنے گاؤں کا ماحول عزیز تھا، نہ وہ کویت میں مستقل رہنے پر راضی ہوئیں اور نہ حیدر آباد میں ، 1990ء میں کویت ان کا آنا تو عمرہ کے لیے مکہ مکرمہ جانے کے ارادہ سے ہوا تھا ساتھ ہی یہ جذبہ بھی تھا کہ کچھ وقت پوتے پوتیوں کے ساتھ گزر جائے گا اتفاق کی بات یہ ہے کہ عمرہ کے سفر سے لوٹنے کے بعد وہ کویت میں ہی مقیم تھیں کہ کویت پر عراق کا حملہ ہوگیا اور چند گھنٹوں میں پورے ملک کو صدام حسین کی فوج نے تہس نہس کرکے رکھ دیا۔ بندوق کی گولیوں کی بوچھاڑ،قتل وغارت گری کی خبریں اور لوٹ مار کے مناظر دیکھ کر وہ سخت پریشان ہوجایا کرتی تھیں اور کویت سے نکل جانے پر اصرار کیا کرتی تھیں، پورے دوماہ گزر جانے کے بعد 3/اکتوبر کو جب ایک فوجی مال بردار جہاز سے ہم بصرہ کے راستہ سے بمبئی پہنچے تو ان کو راحت محسوس ہوئی، چند ماہ حیدر آباد میں رہ کر پھر مستقل طور پر گاؤں میں مقیم ہوگئیں۔
خوشی ومسرت ہر ایک کو عزیز ہوتی ہے اور غم واندوہ سے ہر کوئی پناہ مانگتا ہے اور یہ بات پہلے لکھ چکاہوں کہ میری زندگی ابن حزم کی طرح عیش وعشرت اور شادی وفرحت کی نہ تھی اور نہ بالکل ابو الولید الباجی کی طرح دائمی تنگی اور فقر وفاقہ کی تھی۔
بلکہ اللہ تعالیٰ نے پرورش تو ننھیال میں مقدر کی تھی، لیکن راحت وسعادت کے وسائل واسباب ایک دیہاتی زندگی اور کھیت وکھلیان والے ماحول میں دادھیال سے کسی طرح کم نہ تھے، بلکہ رہن سہن، خوراک وپوشاک وغیرہ کے اسباب پاس پڑوس اور گاؤں گھر کے لوگوں سے کچھ بہتر ہی تھے، کمتر نہ تھے۔
تعلیم کے دوران بھی اللہ نے آسانیاں پیدا کیں اور تعلیم کے بعد تو کامیابیوں کے راستے کھول دیے اور بغیر میرے کسی ذاتی استحقاق کے محض اپنے فضل وکرم سے اللہ نے عالمی سطح پر دینی مدرسہ کا ایک فارغ جو کچھ سوچ سکتا ہے اس سے کہیں بڑھ کر اپنی نعمتیں دیں‘ مواقع دیے اور بڑی بڑی کانفرنسوں اور سمیناروں میں شرکت کرنے اور علمی طور پر حصہ لینے کی توفیق دی اور اسباب زندگی میں کشادگی پیدا کی، چناں چہ بچوں اور اہل خانہ کو وہ ساری سہولتیں حاصل ہوئیں جو مجھے حاصل نہ تھیں اور ان کا معیار زندگی اس سے کہیں اونچا ہوگیا جو میرا تھا،اس راحت وسعادت پر ربّ کائنات کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے کم ہے۔اس طرح مجموعی اعتبار سے میری زندگی کو راحت وآرام کی زندگی اور خوشی ومسرت کی زندگی ہی کہا جائے گا، گوکہ حقیقی راحت تو انسان کو جنت میں پہنچ کر ہی ملے گی، دنیا کی ہر راحت کے ساتھ مشقت لگی ہوئی ہے اور وہ پائیدار بھی نہیں ہے۔
عمومی حالات کے لحاظ سے دار العلوم دیوبند کے سقوط کا سانحہ میرے لیے المناک تھا :
پھر عراق نے جب کویت پر یورش کی اور چند گھنٹوں میں پورے ملک پر قبضہ کرلیا اور ایک ہری بھری ریاست کو تاراج کرکے رکھ دیا تو اس المناک حادثہ سے بھی گزرنا میرے لیے آسان نہ تھا، پناہ گزینوں کی طرح بال بچوں کے ساتھ ہندوستان لوٹے، پھر اللہ کی قدرت کا کرشمہ ظاہر ہوا اور کویت کی آزادی کے ساتھ ہی ہم پھر اپنی جگہ پر لوٹ آئے، لیکن اس طرح کے سارے حادثات زندگی پر اثر انداز ہونے کے باوجود ذاتی صدمے کی نوعیت نہیں رکھتے تھے اور گھریلو معاملہ ان کو قرار نہیں دیا جاسکتا۔
خالص گھریلو نوعیت کے حادثات میں والد، پھر نانا جان وغیرہ کی موت کا اثر ہوا، لیکن یہ سب چونکہ اپنی طبعی زندگی کے ایام پورے کر چکے تھے، والد کے سایہ عاطفت سے تو ہم بچپن سے محروم رہے، اس لیے زندگی پر اس کا اثر اتنا نہیں پڑا۔ نانا جان کی شفقت ومحبت ہی کے سایہ میں ہم پروان چڑھے تھے، لیکن ان کے جنازے میں شرکت کا بھی موقع مجھے نہیں ملا۔ ریاض میں پہلی بار ایک عالمی کانفرنس میں شرکت سے واپسی کے بعد چند دنوں کے لیے دیوبند میں رُک گیا تھا اور اسی دوران وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔
لیکن جس حادثہ نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے اور میرے سارے وجود کو سراپا غم والم کی داستان بنا دیا ہے وہ محمد کی موت ہے۔ اس کا بڑھنا، پڑھنا، پروان چڑھنا پھر اس کی صلاحیتوں کا نکھرنا ، پرائمری سے ایم اے تک کی تعلیم کا مکمل ہوجانا، پھر اچانک بغیر کسی سابقہ تمہید کے نظروں سے ہمیشہ کے لیے روپوش ہوجانا بڑا ہی جاں گداز سانحہ ہے۔
اور ابھی محمد کو سپرد خاک کیے ہوئے ہفتہ بھی پورا نہیں ہوا تھا کہ والدہ محترمہ کا بھی اس دنیا سے چلا جانا دوسرا ناقابل برداشت سانحہ ہے۔
ایک قبر کے بعد دوسری قبر نے ہر قبر سے رشتہ جوڑ دیا ہے۔ محمد کا خیال آتے ہی دل چھوٹنے لگتا ہے ، آنکھوں سے آنسو جاری ہوجاتے ہیں اور اس کی قبر کا نقشہ آنکھوں میں پھر جاتا ہے اور ساتھ ہی مسافری کی اور ناگہانی موت کا خیال کرکے اس کی زندگی کے بہت سے مناظر نظروں میں گھوم جاتے ہیں، اور والدہ محترمہ کا دھیان آتا ہے تو ان کی زندگی بھر کی نفسیاتی اُلجھن کا خیال آتا ہے، ان کی زندگی بھر کی قربانیاں ذہن میں آتی ہیں اور پھر خود ان کو اپنے ہاتھوں سے قبر کی گہرائیوں میں سلانا یاد آتا ہے، تب بھی غم کے بادل چھا جاتے ہیں۔ آنکھیں اشکبار ہونے لگتی ہیں، ہر قبر سے رشتہ جڑنے لگتا ہے اور وہ حال ہونے لگتا ہے، جو متمم بن نویرہ کا اپنے بھائی مالک کی قبر کے تصور سے ہوا کرتا تھا اور جس نے اس سے یہ اشعار کہلائے:
لقد لامنی عند القبور علی البکاء
رفیقی لتذراف الدموع السوافک
فقال: أتبکی کل قبر رأیتہ
بقرب اللوی بین الثوی فالدکادک؟
فقلت لہ: إن الشجا یبعث الشجا
فدعنی فہذا کلہ قبر مالک
جن کا حاصل یہ ہے کہ قبروں کے پاس مجھے آنسو بہاتا دیکھ کر میرے ایک دوست نے مجھے ملامت کرتے ہوئے کہا کہ ان مقامات پر جتنی قبریں ہیں کیا تم انمیں سے ہر قبر کو دیکھ کر روتے ہی رہوگے؟ تو میں نے اس سے کہا کہ دوسرے کے غم کو دیکھ کر اپنا غم یاد آتا ہے، لہٰذا مجھے اپنے حال پر چھوڑ دو، کیوں کہ یہ جتنی قبریں بھی مجھے نظر آرہی ہیں میرے نزدیک وہ سب مالک کی ہی قبریں ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ اگر عبرت بیں نگاہ ہو تو تنہا موت کا تصور ہی انسان کی اصلاح وہدایت کے لیے کافی ہے۔ حضرت عمر نے اسی لیے اپنی انگوٹھی کا نقش ”کفی بالموت واعظا“ اختیار فرمایا تھا، موت سے بڑا واعظ آخر ہو بھی کون سکتا ہے؟
موت کے لیے نہ عمر کی قید ہے اور نہ جگہ کی، بچے بھی مرتے ہیں اور بوڑھے اور جوان بھی، پھر زندگی مختصر ہو یا طویل، آدمی کو اس سے کبھی سیری نہیں ہوتی، ہزار سال کی زندگی کے بعد بھی حضرت نوح علیہ السلام سے زندگی کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ:
”ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ایک گھر کے دو دروازے ہوں، ایک سے میں اس میں داخل ہوا اور دوسرے سے نکل گیا۔“
جب موت کا وقت آجاتا ہے تو ڈاکٹروں کے نسخے بھی کارگر نہیں ہوتے۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ:
إن الطبیب لہ علم یدل بہ
ما دام فی أجل الإنسان تأخیر
کہ جب تک انسان کی زندگی باقی ہوتی ہے طبیب اپنے علم سے لوگوں کی رہنمائی کرتا رہتا ہے
حتی إذا ما انقضت أیام مھلتہ
حار الطبیب وخانتہ العقاقر
لیکن جب کسی کی زندگی کے دن پورے ہوجاتے ہیں تو پھر طبیب حیرت زدہ رہ جاتا ہے اور اس کی دوائیں بھی بے اثر ہوجاتی ہیں۔
موت کے لیے کسی متعین سبب کا پایا جانا بھی ضروری نہیں ہے ۔
من لم یمت بالسیف مات بغیرہ
تعددت الأسباب والموت واحد
جو تلوار سے نہیں مرتا اس کی موت کسی اور ذریعہ سے واقع ہوجاتی ہے، اسباب تو بہت سے ہیں، لیکن موت تو ایک ہی ہے۔
ایک اَعرابی نوجوان نے اپنے علاقہ میں طاعون پھیلا ہوا دیکھ کر اپنی جان بچانے کے لیے دوسرے علاقہ کا رُخ کیا، راستہ میں تھک کر ایک درخت کے نیچے سوگیا کہ اچانک وہاں موجود ایک سانپ نے اسے ڈس لیا اور وہیں اس کی موت واقع ہوگئی تو اس کے باپ نے یہ رجزیہ اشعار کہے:
راح یبغی نجوة
من ھالک فھلک
اس نے چاہا یہ تھا کہ وبا کی ہلاکت خیزی سے بچ جائے، اس کے باوجود وہ ہلاک ہوگیا
والمنایا راصدات
للفتی حیث سلک
اور موت تو نوجوان کی تاک میں رہتی ہے چاہے، جہاں بھی جائے اس کا پیچھا کرتی رہتی ہے
کل شیء قاتل
حتی تلقی أجلک
اور جب موت آجائے تو دنیا کی ہر چیز ہی انسان کے لیے قاتل بن جاتی ہے۔
انسان کا وجود اس دنیا میں عارضی اور فانی ہے اور یہاں کی ہر نعمت کا نقص یہی ہے کہ وہ دائمی اور جاودانی نہیں ہے۔ اموی خلیفہ سلیمان بن عبد الملک کو آئینہ میں اپنی صورت اچھی لگی تو اس نے چاہا کہ اس کی تعریف ہو لیکن اس کی ایک ہوشمند باندی نے برجستہ کہا کہ:
أنت نعم المتاع لو کنت تبقی
غیر أن لا بقاء للإنسان
آپ کی خوبیوں کا کیا کہنا! کاش کہ آپ باقی رہنے والی چیز ہوتے لیکن انسان کے لیے باقی رہنا تو ہے ہی نہیں۔
لیس فیما رأیتہ فیک عیب
کان فی الناس غیر إنک فان
آپ کی ذات میں جہاں تک میں نے دیکھا ہے عام انسانوں والے عیوب تو نہیں پائے، بس ایک ہی کمی ہے کہ آپ کے لیے دوام نہیں اور آپ تو فنا ہوجانے والی چیز ہیں۔
عزیز واقارب اور خاص طور پر والدہ کی موت میں خود انسان کے لیے بڑا سبق ہے، جس سے آدمی کو عبرت حاصل کرنی چاہیے۔
حاتم اَصم نے بلخ کے قاضی کی والدہ کی وفات پر تعزیت کرتے ہوئے کہا:
إن کان وفاتھا عظة لک فأعظم اللّٰہ أجرک علی موت أمک، وإن لم تتعظ بھا فعظم اللّٰہ أجرک علی موت قلبک۔
(اگر ان کی موت سے تم نے عبرت حاصل کی ہے تو اللہ تعالیٰ ماں کی وفات پر تمہارے اجر میں اضافہ کرے، اور اگر تم نے اس سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا تو پھر تمہارے دل کی موت پر ہمیں ماتم کرتے ہوئے کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں دل کی موت پر اجر عظیم عطا کرے)
ہر ماں اپنے بیٹے کو بچپن میں اچھی راہ اختیار کرنے کی تلقین کرتی ہے مرنے کے بعد اس کی اس نصیحت کا سلسلہ ختم نہیں ہوجاتا بلکہ جس طرح سکندر نے اِرسطاطالیس کے مرنے کے بعد اس کے بارے میں کہا تھا کہ:
کان أمس یعظنا بکلامہ، وھو الیوم یعظنا بسکوتہ․
(کل تک اس کی نصیحت زبان سے تھی اور اب اس کی خاموشی ہی نصیحت حاصل کرنے کے لیے کافی ہے۔) 
1987ء میں حج کے سفر کے لیے والدہ صاحبہ کو میں نے کویت بلالیا تاکہ میں اہل خانہ کے ساتھ ان کی مرافقت کرسکوں۔ کویت میں ان کا داخلہ چونکہ ویزٹ ویزے پر ہوا تھا، اس لیے پہلا اشکال تو سامنے یہ آیا کہ حج کا ویزہ لگنے کے لیے کویت کا اقامہ ضروری ہے اس کے بغیر ویزا نہیں لگ سکتا، اس پریشانی کا ذکر میں نے پیکر شرافت ومحبت نامور صحافی ہفت روزہ ”البلاغ“ کے ایڈیٹر مرحوم عبدالرحمن راشد الولایتی سے کیا تو بنفس نفیس وہ خود ہی میری والدہ مرحومہ کے ویزے کی خاطر سعودی سفارت خانہ کے انفارمیشن اٹیچی جناب محمد العمرو کے پاس مجھے ساتھ لے کر پہنچ گئے، چناں چہ معاملہ چند لمحوں میں حل ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ آمین۔
حج کے قافلہ میں ڈیڑھ سال کا محمد مرحوم بھی شامل تھا کسے خبر تھی کہ ”حجن“ کے سفر آخرت سے ایک ہفتہ پہلے ”حجی“ اس دنیا سے رخصت ہوجائے گا اور اپنی ضعیف العمر دادی کا استقبال دوسری دنیا میں کرے گا۔
اس سفر حج میں ایک تو یہ ہوا کہ حرم میں پہنچنے کے ساتھ ہی والدہ محترمہ گم ہوگئیں اور حاجیوں کے اژدحام میں ان کو تلاش کرنا آسان نہ رہا پورے 42 گھنٹے حرم کے اِردگرد ان کی تلاش میں چکر لگانے کے ساتھ مکہ کے اسپتالوں‘ حج آفسوں میں بار بار جانے کی وجہ سے جب ہم تھک ہارکر نڈھال ہوگئے اور جسم میں طاقت اور چلنے کی ہمت نہ رہی تو اچانک میری اہلیہ کی نظر ان پر پڑی ، معلوم ہوا کے دو دنوں سے وہ صفا ومروہ کے درمیان ہی پھرتی اور زمزم پر گزارہ کرتی رہیں۔ پریشانی کے عالم میں ان کے لیے کیا کیا جتن نہ کیے گئے، اور عام صدقہ ہی نہیں ان کے مل جانے پر مستقل حج تک کی نذر مان لی گئی جو بحمد اللہ پوری کردی گئی۔
اسی حج کے دوران ایرانیوں کی طرف سے برپا کیے جانے والے ہنگامہ کی وجہ سے متعدد حاجیوں کی جان چلی گئی تھی، حج کو سیاسی مقصد کے لیے استعمال کرنے میں لاکھوں مسلمانوں کی جانیں خطرہ میں پڑجایا کرتی ہیں اس لیے اس طرح کی حرکتوں سے باز رہنا چاہیے۔
والدہ محترمہ حج کے علاوہ جب عمرہ کے لیے آتی تھیں تو بڑے اطمینان کا سفر ہوا کرتا تھا، بچے بھی ان سے مانوس رہتے تھے۔
ان کی ساری زندگی گاؤں میں گزری، اس لیے طبیعت میں دیہاتی خاتون کی سادگی اور بھولاپن تھا، معاملات کو وہ گاؤں کے مزاج وماحول میں ہی سمجھا کرتی تھیں۔ کویت میں بچوں کے تفریحی مقام پر کچھ نوجوان لڑکیوں کو انہوں نے مغربی لباس میں دیکھا تو بڑی معصومیت سے پوچھنے لگیں کہ کیا یہ سب کرسچن ہیں؟! کیوں کہ ان کے تصور کے مطابق یہ بات ممکن نہیں تھی کہ مسلمان لڑکیاں بھی بے حجاب رہ سکتی ہیں۔
عرب پڑوسن اُمّ یاسر سے وہ اپنی ہی زبان میں بات شروع کردیتی تھیں اور جب کہا جاتا کہ وہ عرب ہیں ان کو آپ کی زبان سمجھ میں نہیں آتی ہے تو ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتیں اور کہنے لگتیں کہ ”ان لوگوں نے ڈھنگ پکڑ رکھا ہے کیا ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ وہ میری بولی نہ سمجھ سکیں“؟!
ہر ماں کی طرح ان کو بھی میری صحت کی برابر فکر رہتی تھی اور ان کی نظر میں سب سے بہتر علاج کی جگہ دربھنگہ ہی تھی جہاں جانے کی تلقین کرتی رہتی تھیں۔
ایک بار رات کے آخری حصہ میں ان کا ہاتھ پکڑ کر خانہ کعبہ کا میں طواف کر رہا تھا اور وہ بار بار کچھ پڑھ کر اپنے ہاتھوں پر پھونکتیں اور پھر میرے پیٹ پر اپنا ہاتھ پھیرتیں اور اللہ سے میری بیماری کے دور کرنے کی دعا کرتی جاتی تھیں۔ ایک دو بار تو میں خاموش رہا، پھر ان سے کہنے لگا کہ:
”یہ جو آپ بار بار اپنا ہاتھ میرے پیٹ پر پھیررہی ہیں تو یاد رکھئے کہ حجر اسود یہ نہیں ہے‘ حجر اسود تو وہ سامنے ہے“ میری اس شرارت پر ان کو بھی بے ساختہ ہنسی آگئی۔
بہرکیف یہ سب ماں کی محبت کے جلوے ہیں۔ ماں کا وجود انسان کے لیے بہت بڑی نعمت ہے جس کی بھرپور قدر کرنی چاہیے، ماں کا سایہ سر سے اٹھ جانا دنیا کی کسی بھی بڑی نعمت کے چھن جانے سے کم نہیں ہے۔
والدہ محترمہ کے لیے ہر طرح کی راحت کا سامان فراہم کرنے کی کوشش کے باوجود اس بات کا احساس مجھے سختی کے ساتھ ہے کہ ان کے گاؤں میں رہنے پر اصرار کی وجہ سے ان کی خدمت کے لیے مجھے انتظام تو کرنا پڑا، لیکن ہمہ وقت براہِ راست نظروں کے سامنے رکھ کر ان کی خدمت سے محرومی رہی۔
ان کی خدمت کے لیے اپنی جن عزیزہ کو میں نے متعین کیا تھا، اس نے خدمت کا بھرپور حق ادا کیا اور خاص طور پر معذوری کے دنوں میں ایسی خدمت کی جو کسی اور کے بس میں نہیں تھی۔ عزیزہ سے مراد میرے بڑے ماموں کی لڑکی گلناز ہے، سالہا سال تک اپنے بال بچوں کے ساتھ میرے گھر میں رہ کر شب وروز جس طرح اس نے والدہ محترمہ کی راحت رسانی کے لیے محنت کی ہے، وہ حقیقی اولاد سے بھی ممکن نہیں تھی۔
جسمانی راحت اور دوا وغذا کے ساتھ طہارت وغیرہ کا خیال رکھنے کا کام تو اس نے کیا، لیکن گھر کا پورا انتظام اور شب وروز والدہ محترمہ کی ضروریات کی فراہمی کا فریضہ مولانا سراج الدین صاحب نے انجام دیا۔ انہوں نے جو قربانیاں دی ہیں وہ خود میرے بس میں بھی نہیں تھیں۔ اللہ تعالیٰ ان دونوں کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
مولانا سراج الدین صاحب قریبی گاؤں نانپور کے ہیں، دار العلوم دیوبند اور مدینہ یونیورسٹی میں انہوں نے تعلیم حاصل کی ہے، مدرسہ نعیمیہ عزیزیہ کے سینئر استاذ ہیں۔ طبیعت میں اللہ تعالیٰ نے غیرمعمولی سلامتی رکھی ہے، تواضع‘ حسن اخلاق اور صدق وامانت کے پیکر ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان کو بھی دونوں جہاں کی سعادتوں سے نوازے۔
ماں کی خدمت کا اصل فریضہ تو مجھ پر عائد ہوتا تھا یا میری ہمشیرہ پر لیکن ہم دونوں کے گاؤں میں نہ رہنے کی وجہ سے جس کوتاہی کا اندیشہ تھا اللہ کے فضل سے ان دونوں نے نہ صرف اس کی تلافی کی، بلکہ اس سے کہیں زیادہ راحت رسانی کا حق ادا کیا۔
ماں کی خدمت کا مسئلہ کتنا نازک ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے کیا جاسکتا ہے کہ اہل بیت کے سرخیل امام علی بن حسین زین العابدین سے کسی نے دریافت کیا کہ آپ ماں سے شدید محبت رکھنے کے باوجود ان کے ساتھ کھانا کیوں نہیں کھاتے؟ تو انہوں نے بڑا ہی پیارا جواب دیا کہ
”ڈر یہ ہوتا ہے کہ ایک دسترخوان پر کھانا کھانے کی صورت میں کہیں میرا ہاتھ کھانے کے اس حصہ پر پہلے نہ پہنچ جائے جہاں ماں کی نگاہ پہلے پہنچ چکی ہو اور ان کے دل میں اس کے کھانے کی خواہش پیدا ہوگئی ہو اور اس طرح ان کی چاہت کے خلاف کام بے شعوری میں کہیں مجھ سے سرزد نہ ہوجائے“۔ اب ہماری کوتاہیوں کو اللہ تعالیٰ ہی معاف کرنے والا ہے۔
والدہ محترمہ جس بات کو صحیح سمجھ لیتیں اس کے لیے لڑنے میں ان کی زبان خوب چلتی تھی اور بسا اوقات گھر کے دوسرے افراد سے تلخی بھی پیدا ہوجاتی تھی جو گھریلو زندگی کا لازمہ ہے، حالات وافراد کے بدلنے سے اس میں کمی بیشی ہوا کرتی ہے۔
ان کی اداؤں میں سے ایک یہ بھی تھی کہ پیسے جمع کرکے رکھنے کے فن سے وہ قطعی ناآشنا تھیں، جو بھی ہاتھ میں آتا وہ دوسروں تک پہنچ جاتا تھا، کسی نے ذرا اپنی مجبوری ظاہر کی فوراً جو کچھ ہوتا وہ حوالہ کر دیتی تھیں ، بعض لوگ ان کی اس طبیعت کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے اور کامیاب رہتے تھے ۔
اب وہ اس دنیا میں نہیں رہیں، اللہ نے جتنی سمجھ بوجھ ان کو دی تھی اسی لحاظ سے زندگی گزارتی رہیں۔ ان کی عمر وفات کے وقت 67 سال کے قریب ہوگی، کیوں کہ محلہ کی معمر خواتین کے مطابق 1934ء کے ہولناک زلزلہ کے وقت ان کی عمر کل ڈیڑھ سال کی تھی۔ ان کی تجہیز وتکفین کے وقت بیٹا، بیٹی اور بہو سبھی آگئے تھے، ورنہ کویت اور حیدر آباد وغیرہ سے بروقت پہنچ جانا آسان نہیں تھا۔
آخر کے چند سال ان کی بیماری ومعذوری کے تھے، امید ہے کہ اللہ نے ان کے لیے اس طرح کی زندگی کفارے اور رفع درجات کے لیے رکھی ہوگی اور وہ اس دنیا سے پاک صاف ہوکر گئی ہوں گی، جنازہ کی نماز میں لوگوں کی کثرت اور ان کی موت پر لوگوں کے غم اور ان کے بارے میں اچھے کلمات ان کے حق میں بشارت کی حیثیت رکھتے ہیں۔
ان کی آئندہ زندگی کے اچھے ہونے کا ایک قرینہ یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جواں سال پوتے محمد کی موت کا غم لوگوں کے دلوں میں تازہ ہی تھا کہ ان کی وفات کی خبر آگئی، چناں چہ تمام محبین ومخلصین علماء اور اہل تعلق نے دونوں کے لیے ایصال ثواب کا غیرمعمولی طور پر اہتمام کیا، اور بہت سے مدارس میں قرآن خوانی ہوئی، بعض اہل تعلق نے ان کے لیے عمرے بھی کیے۔ ظاہر ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں صالحین ومخلصین کی دعائیں اور دینی مدارس کے ذمہ داروں کی طرف سے ایصال ثواب کا اہتمام بغیر توفیق الٰہی کے ممکن نہیں تھا، اور وہی اپنے فضل سے ان کو قبول کرنے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ سے میری دعا ہے کہ وہ میری والدہ محترمہ کو جنت نشیں بنائے، ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کی قبر کو نور سے بھردے اور اپنی رحمت ومغفرت کو ہمیشہ ان پر سایہ فگن رکھے اور ایک ہفتہ پہلے جانے والے پوتے کو ان کے لیے بھی ذخیرہ آخرت بنائے ۔ وما ذلک علی اللّٰہ بعزیز․

Flag Counter