Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

13 - 16
***
اسلام اورفلسفہ آزادی نسواں
ڈاکٹر مفتی عمران الحق کلیانوی
قرآن کریم میں ارشادباری تعالی ہے:﴿الذی خلقکم من نفس واحدة وخلق منھازوجھاوبث منھمارجالاکثیراونساء﴾․ (سورة لنساء،آیت:1)
ترجمہ:اے لوگو! ڈرواپنے پروردگار سے جس نے تم سب کو ایک نفس سے پیدا کیااوراس سے اس کی زوجہ کو بھی تخلیق کیا اور دونوں سے بہت سے مردوں اور عورتوں کو دنیا میں پھیلادیا۔
مغرب میںآ زادی نسواں کی تحریک اپنے سو سالہ تجربہ کے بعد اس رائے پر پہنچی ہے کہ حیاتیاتی حقائق عورت کو مرد کے برابر مقام دینے میں رکاوٹ ہیں۔یہ قدرت کا ظلم ہے (نعوذ بالله) نہ کہ سماج کا ظلم۔جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ”نعرہ مساوات مرد و زن“ میں سیاسی مفکرین نے لفظ ”مساوات“ کی کچھ اس طرح مٹی پلید کی ہے کہ یہ اپنی اصل معنویت کھو بیٹھاہے اور ترازو کے ایک پلڑے میں وزن رکھ کر اس کے مساوی وزن کو ہی مساوات سمجھنے والوں نے اسے مزید رنگ دے دیا ہے۔(اسلام اور افکارنو:شیخ محمدعلی،کراچی، اسلامک بک کارپوریشن1987ء، ص:220)۔
بلا شبہ فطری آزادی یا مساوات کے اعتبار سے ہر شخص خواہ مرد ہو یا عورت خاص صلاحیتوں کے نہ ہونے کے باوجو د اس بات کا حق دار ہے کہ یکساںآ سائش حاصل کرے،یکساں دولت کے حصوں کا اسے بھی موقع ملے۔یہ بات درست ہے کہ تمام افراد من حیث الانسان پیدائشی اور فطری طور پر مساوی ہیں، تاہم صلاحیتوں کے رجحانات،فکری بلندی، مقاصد،نصب العین اور زندگی کی مسلسل جدوجہد کے اعتبار سے کیسے ہر شخص برابر ہو سکتاہے۔
اگر یہاں نعرہ مساوات مردو زن کا یہ معنی ہوتا کہ ”عورت کومعاشرے میں جائز مقام ملے اسے وہ حقوق ملیں جو الله تعالی نے دیئے ہیں اور اس منصب کی تردید ہو جو ماضی نے اس کے ساتھ جوڑرکھاہے تو یقینااسکا کوئی مثبت نتیجہ سامنے آتا۔(ایضاً:حوالہ بالا،ص:223)
مگرمغربی عورت نے اپنے جن مسائل کو حل کرنے کی خاطر آزادی نسواں کا نعرہ لگایا تھااسی آزادی کے نتیجے میں اس کے لیئے بہت سے نئے مسائل پیدا ہو گئے۔(ماہنامہ:مجلہ الحریم،منصورہ،لاہور،اپریل1989ء)
علم الانسان کی ماہر خاتون ڈاکٹر مارگیٹ میڈ جو خود بھی مساوات نسواں کی تحریک سے تعلق رکھتی ہیں انہوں نے ساری عمر مختلف انسانی معاشروں کا مطالعہ کیا ہے وہ خود لکھتی ہیں:
”ایسے تمام ہی دعوے جن میں زور و شور کے ساتھ ایسے معاشروں کا انکشاف کیا گیا ہے جہاں عورتوں کو غلبہ حاصل تھا ، بالکل لغو ہے۔ اس قسم کے عقیدے کے لیئے کوئی ثبوت موجود نہیں ہے،ہردور میں مردہی امور عامہ کے قائد رہے ہیں اور گھر کے اندر بھی اعلی اختیار ہمیشہ انہیں کو حاصل رہا ہے“(خاتون اسلام:خان وحیدالدین،لاہور،مکتبہ اشرفیہ،1994ء،ص:31) ۔
اسی طرح ویل ڈیورانٹ بیسویں صدی میں عورت کے حالات میں تبدیلی آنے کے اسباب وعلل سے بحث کرتے ہوئے لکھتاہے کہ:
”عورت کی آزادی،صنعتی انقلاب کی بدولت ہے…عورتیں سستی مزدور تھیں،کارخانہ دار سرکش اور گراں قیمت مرد، مزدوروں پرانہیں ترجیح دیتے تھے۔ ایک صدی پہلے انگلستان میں مردوں کوکام ملنا مشکل تھالیکن مردوں سے اشتہاروں میں درخواست ہوتی تھی کہ بچوں اور عورتوں کو کارخانوں میں بھیجیں۔(اسلام میں خواتین کے حقوق:مظہرشہیدمرتضی،کراچی،دارالثقافة الاسلامیہ،1993ء،ص36)
بقول اقبال:
تمہاری تہذیب اپنی خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
(ضرب کلیم:علامہ محمد اقبال،لاہور،چوھدری اکیڈمی)
ا مریکہ کی مشہور ناول نگار خاتون اور تحریک نسواں کی لیڈر”رہوڈالرمن“اپریل1987ء میں ھندوستان آئیں۔ یہاں نئی دہلی میں انہوں نے ”ٹائمس آف انڈیا“کے ایک اسٹاف رپورٹر کو انٹر ویودیاجو کہ مذکورہ اخبارکے شمارہ 30/اپریل1987ء میں شائع ہواہے۔وہ کہتی ہیں:
”میں بہت بری خبر لے کر آئی ہوں۔سماج میں عورت کے بدلتے ہوئے کردارپربولتے ہوئے انہوں نے انکشاف کیا کہ امریکہ کے غریبوں میں77فیصد تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ ان کے بیان کے مطابق اس کا سبب وہ غیرمعمولی فرق ہے جو مردوں اور عورتوں کی کمائی کے درمیان پایا جاتاہے۔مردوں کے مقابلے میں عورتوں کی کمائی 62فیصد ہے صرف اس لیئے کہ انہیں ہلکے قسم کے کام دیئے جاتے ہیں۔یکساں مواقع اور یکساں تنخواہ یکساں کام کے لیئے محض ایک افسانہ ہے۔عورتیں ابھی تک صرف نچلے اور درمیانی انتظامی شعبوں میں داخل ہوسکتی ہیں“(خاتون اسلام:حوالہ بالا،ص:129)
عورت چوں کہ تمدن انسانی کامرکزو محور اور باغ انسانیت کی زینت ہے اس لیئے اسلام نے اسے باوقار طریقے سے وہ تمام حقوق عطاء کیئے جن کی وہ مستحق تھی۔اسلام نے عورت کو گھرکی ملکہ قرار دیا،دیگر اقوام و تہذیبوں کے برعکس اسے اپناذاتی مال وملکیت رکھنے کا حق دیا،شوہر سے ناچاقی کی صورت میں خلع کا حق دیا اور نکاح ثانی کی اجازت دی، وراثت میں اس کو حصہ دلایا،اسے معاشرے کی قابل احترام ہستی قرار دیا اور اسکے تمام جائز قانونی،معاشی و معاشرتی حقوق کی نشاندہی کی۔(کتاب الکفالة والنفقات:ڈاکٹر عمران الحق کلیانوی،کراچی، دارالاشاعت،2003ء ،ص:224)
معروف فرانسیسی محقق ڈاکٹر گستاوٴلی بان ”اسلام کا اثرمشرقی عورتوں کی حالت پر“کے عنوان کے تحت رقمطراز ہیں:
”اسلام نے مسلمان عورتوں کی تمدنی حالت پر نہایت مفیداور گہرااثرڈالا،انہیں ذلت کے بجائے عزت و رفعت سے سرفرازکیااور کم و بیش ہر میدان میں ترقی سے ہمکنار کیا چناں چہ قرآن کا قانون وراثت و حقوق نسواں یورپ کے قانون وراثت اور حقوق نسواں کے مقا بلے میں بہت زیادہ وسیع اور فطرت نسواں سے قریب تر ہے“(تمدن عرب:ڈاکٹر گستاوٴلی بان،مترجم سید علی بلگرامی،ہند،مطبوعہ مفیدعام آگرہ،1994ء،ص:273)
الغرض قرآن کریم خواتین کے بارے میں حد اعتدال قائم کرتے ہوئے ان کے جائز حقوق کی ادائیگی کے احکامات سے بھرا ہواہے نہ تووہ تحریک آزادی نسواں کے علمبرداروں کی طرح خواتین کو مردوں کے مساوی قرار دیتاہے اور نہ ہی مذاہب باطلہ کی طرح انہیں انسانیت کے دائرے سے خارج کرتا ہے بلکہ اس کا جو فطری مقام ہے اس کی مناسبت سے اس کے حقوق کا تعین کرتا ہے جو کہ اسلام کی صداقت و حقانیت کی واضح دلیل ہے۔

Flag Counter