Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

15 - 16
***
روضہٴ رسول ا کی حفاظت
مفتی عبدالماجد یوسف بھگت
اندھیری رات ہے ، ایک بڑے کمرے میں لوگوں کا رش ہے ، بہت اہم مسئلے پر بحث ہور ہی ہے، سب کے سب غیر مسلم ہیں ، کافر ممالک کے بڑے بڑے بادشاہ ، وزراء، فلاسفر، حکماء اور دانش مند اس میں جمع ہیں اور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف انتہائی بھیانک اور خوف ناک منصوبہ بنا رہے ہیں ۔ یہ 557ھ کا زمانہ ہے ، سردیوں کی ٹھٹھرتی رات ہے ، عالمِ اسلام کے فرماں روا امیر المؤمنین سارا دن امور مملکت میں مصروفیت کے باعث شام چڑھے تھک چکے ہیں ، رعایا میٹھی نیند کی آغوش میں جاچکی ہے او رامیر المؤمنین باوجود تھکن سے چکنا چور ہونے کے، اپنے رب کو راضی کرنے اور دن بھر کی روئیداد اس کے سامنے رکھنے کے لیے مصلے پر سجدہ ریز ہیں ۔ عبادت ومناجات سے فراغت کے بعد کچھ دیر اتباعِ سنت صلی الله علیہ وسلم میں آرام کرنے کے لیے لیٹتے ہی ہیں کہ اچانک سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوتی ہے، جو ایک مسلمان کے لیے ہفتِ اقلیم کی سلطنت سے بھی بڑھ کر اعزاز رکھتی ہے ۔ الله تعالیٰ ہر مسلمان کو موت سے پہلے یہ عظیم دولت نصیب فرمائے۔ آمین
امیر محترم پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کی زیارت سے مستفید ہو ہی رہے تھے کہ اچانک آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرہٴ انور کے ساتھ دو اور آدمیوں کے چہرے نظر آئے مگر ان پر نحوست کی سیاہی ٹپک رہی تھی امیر المؤمنین حیرت میں ڈوب گئے کہ اتنے مکروہ او رناپسندیدہ چہرے کس کے ہیں ؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے امیر المؤمنین کو متوجہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:” مجھے ان دو شخصوں نے بہت ایذا دے رکھی ہے ، جلد ان سے مجھے نجات دلاؤ ۔“ امیر المؤمنین گھبراتے ہوئے بے دار ہو جاتے ہیں، پریشانی میں وضو کرکے دور رکعت نفل پڑھتے ہیں او رپھر سو جاتے ہیں ۔ چند لمحے نہیں گزرتے کہ پھر وہی منظرآنکھوں کے سامنے گھومنے لگتا ہے ، امیر محترم دوبارہ لرزتے اور کانپتے ہوئے کھڑے ہو جاتے ہیں اور وضو کرکے پھر دو رکعت نفل نماز پڑھتے ہیں ۔ اس طرح تین مرتبہ یہ حیرت انگیز معاملہ ہوا۔ آخر امیرِ محترم نماز پڑھ کر الله تعالیٰ کے سامنے خوب گڑگڑائے او رانتہائی رقت کے ساتھ التجا کرنے لگے کہ ”یا الہٰی!یہ کیا معاملہ ہے ؟ اس خواب کا کیا مطلب ہے ؟ یہ کون لوگ ہیں ، جنہوں نے آقائے نامدار صلی الله علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی ہے ؟ اے الله! مجھ بے کس اورلاچار کی مدد کیجیے کہ عالمِ اسلام کا بار ( بوجھ) میرے کندھوں پر ہے او راس وقت اس خواب نے مجھے ایک بڑی آزمائش میں ڈال دیا ہے ، اے رب ! میری مدد فرمائیے اور رہنمائی کیجیے !“
ان دل سوزفریادوں کے بعد امیر المؤمنین نے اپنے انتہائی عقل مند مشیر جمال الدین موصلی کو دربار خلافت میں طلب کیا۔ امیر المؤمنین کو پریشان پا کر جمال الدین موصلی کے چہرے کا رنگ اڑگیا، دھڑکتے دل اور لڑھکتی زبان کے ساتھ دریافت کیا، عالم پناہ! کیا ماجرا ہے؟
امیر المؤمنین نے اپنی رات بیتی سنائی او رانتہائی پریشانی سے اپنے وزیر سے کہا ، مجھے کوئی مشورہ دو کہ اب ہم کیا کریں ؟ اس لیے کہ آقائے نامدار صلی الله علیہ وسلم کا بار بارخواب میں آنا اور یہ فرمانا کہ مجھے ان دو شخصوں سے نجات دلاؤں کوئی معمولی بات نہیں، کسی بڑے خطرے کی طرف اشارہ ہے۔ عقل مند مشیر نے کہا کہ لگتا ہے کہ مدینہ طیبہ میں کوئی اہم واقعہ ہونے والا ہے، ہمیں فوراً وہاں پہنچنا چاہیے۔ امیر المؤمنین نے ہنگامی بنیادوں پر مدینہ منورہ پہنچنے کی منادی کروائی اور دمشق کے تیس نامور او رجہاں دیدہ افراد پر مشتمل ایک قافلے کے ہمراہ انتہائی تیز رفتار سواریوں پر مدینہ منورہ کی طرف چل پڑے اور تقریباًسولہ دنوں میں آپ مدینہٴ منورہ کی پر نور فضاؤں میں پہنچے۔
مدینہ طیبہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے روضہٴ اقدس کے قریب ایک حجرے میں مغربی ممالک سے آئے ہوئے دوشخص قیام پذیر ہیں ، لوگوں میں ان کی بڑی شہرت ہے ، یہ جب سے مدینہ طیبہ آئے ہیں ، انہوں نے اپنا مسکن اسی کو بنایا ہوا ہے ، ان کی عبادت اور زہد وورع کے مدینے میں خوب چرچے ہیں ، سوائے نماز اور روضہٴ اقدس وجنت البقیع کی زیارت کے او رکسی بھی کام کے لیے یہ اپنے حجرے سے باہر نہیں نکلتے اوران کی سخاوت وصدقہ خیرات مدینہ منورہ سمیت اطراف مدینہ میں زباںِ زدعام ہے۔ لوگ ان بزرگوں کی عبادتوں ، ریاضتوں او رسخاوتوں کی وجہ سے ان سے بہت متاثر ہیں کہ ہم نبی صلی الله علیہ وسلم کے پڑوس میں رہ کر اتنی عبادت نہ کرسکے او رمغرب کے ان مہمانوں نے ایسی مثال قائم کر دی ہے جس کا ہم تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔
گورنر مدینہ نے ایک بڑے لاؤ لشکر اور استقبالی ہجوم کے ہمراہ امیر المؤمنین کی مدینہٴ منورہ آمد پر مدینے کے باہر آکر انتہائی شان دار اور والہانہ انداز میں استقبال کیا۔ امیر المؤمنین نے گورنر کو رسمی گفتگو کے بعد اپنی مدینہ منورہ حاضری کے مقصد سے آگاہ کیا۔ امیر المؤمنین نے اپنے تیس رکنی وفد کے ہمراہ مدینہٴ منورہ کے گورنر او روہاں کے معزز افراد سے باہمی مشاورت کے بعد یہ فیصلہ کیا کہ خواب میں جن دو شخصوں کو دکھا یا گیا ہے ان تک رسائی کا طریقہ یہ ہے کہ مدینہ منورہ کے ہر ہر فرد کو شاہی دعوت نامہ دیا جائے کہ امیر المؤمنین روضہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کے لیے تشریف لائے ہیں ، زیارت کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے تمام اہل مدینہ کی ایک پر تکلف شاہی ضیافت کا اہتمام کیا گیا ہے ، جس میں بعد ازاں امیر المؤمنین خود اپنے دستِ مبارک سے ہر ہر فرد کو ہدیہ تقسیم کریں گے ، لہٰذا اس دعوت میں مدینے کا ہر فرد اپنی حاضری کو یقینی بنائے۔ امیر المؤمنین روضہٴ اقدس کی حاضری سے فارغ ہو کر شاہی مہمان خانے پہنچے، جہاں مدینہ منورہ کے تمام باشندے موجود تھے۔ انہوں نے لوگوں سے ملاقاتیں شروع کیں، ہرشخص کو خوب غور سے دیکھنے لگے ، تمام باشندگانِ مدینہ کو ہدایا دے کر فارغ ہو گئے ، مگر وہ چہرے نظر نہیں آئے ، جن کے لیے یہ سارا تکلف کیا گیا تھا۔ امیر المؤمنین نے گورنر مدینہ سے دریافت کیا کہ کوئی اور باقی تو نہیں رہ گیا؟ گورنر نے کافی غور وفکر کے بعد کہا کہ ہاں ! دو بزرگ ہیں، جو انتہائی عبادت گزار اور گوشہ نشین ہیں، چوں کہ مال دار بھی ہیں ، اس لیے نہ کسی سے ملتے جلتے ہیں اورنہ ہی کسی کی دعوت میں جاتے ہیں ، اس وجہ سے ہم نے انہیں اس شاہی مہمانی میں مدعو نہیں کیا۔ امیر المؤمنین نے فرمایا کہ فوراً انہیں یہاں حاضر کیا جائے! گورنر نے حکم شاہی کی تعمیل میں انہیں بلوایا اور امیر المؤمنین سے ملوایا۔
امیر المؤمنین کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ خواب میں انہوں نے جن چہروں کود یکھا تھا وہ مکروہ اور منحوس چہرے انہی کے تھے۔ امیر المؤمنین نے ان سے دریافت کیا کہ تم کون لوگ ہو؟ وہ بولے ہم دیارِ مغرب سے آئے ہیں اورحج کے بعد روضہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کے لیے مدینہ آئے، تب سے یہیں رہ رہے ہیں کہ اب مدینے کی پرُ نور فضاؤں اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے پڑوس کو چھوڑنا ہمارے لیے انتہائی مشکل ہو گیا ہے۔ امیر المؤمنین نے سختی سے کہا کہ یہ سفید جھوٹ ہے، جو اصل بات ہے اس سے آگاہ کریں، ورنہ سختی سے نمٹا جائے گا۔ یہ گھبراگئے او رانہوں نے اسی گھبراہٹ میں اپنے دل کی اصل حقیقت سے امیر المؤمنین کو مطلع کیا کہ درحقیقت ہم یہودی ہیں او رہمیں مغرب کے کافروں نے ایک اہم کام کے لیے مسلمانوں کے روپ میں مدینہٴ منورہ بھیجا ہے کہ کسی بھی طرح ہم آپ کے نبی( حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم) کے جسم اطہر کو ان کے روضے سے نکال کر ان کافروں تک پہنچا دیں، جب مسلمانوں کی عقیدتوں او رمحبتوں کے مرکز میں ان کے نبی صلی الله علیہ وسلم ہی نہیں ہوں گے تو مسلمانوں کی ہمتیں اور حوصلے پست ہو جائیں گے، پھر عالمِ اسلام کو شکست دینا کوئی مشکل کام نہ رہے گا، چناں چہ ہم جسمِ اطہر کو چوری کرنے کے لیے آئے ہیں۔
ایوان میں موجود تمام افراد کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اورسب دنگ رہ گئے کہ مدینہٴ منورہ میں اتنی بھیانک سازش کی اتنے عرصے سے تیاری ہو رہی ہے او رمدینے کے لوگ اس سے بالکل غافل ہیں ۔ گورنر مدینہ اورمدینہ منورہ کے معزز مہمان اپنے آپ سے شرمندگی محسوس کرنے لگے او رامیر المؤمنین سمیت ہر فرد کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے کہ ہم خوابِ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں او رہمارا دشمن ہمارے دین کی بنیادوں کی بیخ کنی میں اتنا جری ہو چکا ہے کہ آج ہمیں اس ذلت کا سامنا کرنا پڑا، گو کہ الله تعالیٰ نے بروقت ہماری دست گیری فرمائی اور کفر یہ طاقتوں کے مذموم منصوبے کو خاک میں ملا دیا، لیکن آئندہ کے لیے اس سے ہمیں ایک اہم سبق بھی مل گیا کہ باطل قوتوں سے غفلت کسی بھی طرح مسلمان کو زیب نہیں دیتی۔ امیر المؤمنین نے ان مکاروں کے حجرے میں جانے کی خواہش ظاہر کی کہ میں ان کے حجرے کا جائزہ لینا چاہتا ہوں ۔ امیر محترم نے خوب باریکی اور زیرکی سے حجرے کو دیکھا، مگر کوئی خاص چیز نہیں دکھائی دی ، بالآخر جاتے جاتے اپنے پاؤں کے نیچے بچھی چٹائی کو ہٹایا تو نیچے سے سرنگ نکل آئی ، امیر محترم چونک گئے اور بنفس نفیس سرنگ میں اتر گئے اور اندر چلتے چلے گئے تو امیر المؤمنین انگشت بدنداں دیکھتے ہی رہ گئے کہ سرنگ کا آخری سرا روضہ رسول صلی الله علیہ وسلم کی دیوار تک پہنچ چکا ہے ، ایک دن بھی مزید تاخیر ہوتی تو دشمن اپنی ناپاک سازش میں ضرور کامیاب ہو جاتے ، بلکہ بعض روایات کے مطابق امیر المؤمنین کو حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے قدم مبارک بھی دکھائی دیے او رانہوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے چاروں اطراف میں سیسہ پلائی ہوئی فولادی اور آہنی دیواریں تعمیر کروائیں ، تاکہ کہ آئندہ کوئی خبیث الفطرت اس طرح کی غلیظ حرکت کرنے کی کوشش بھی کرے تو اسے کامیابی حاصل نہ ہو ۔ بعد ازاں امیر المؤمنین نے ان دونوں مکاروں کو ایسی عبرت ناک سزائیں دے کر جہنم رسید کروا دیا کہ آئندہ کوئی بھی ایسے ناپاک اقدام کا تصور بھی نہ کرے ۔ معزز قارئین، کیا آپ جانتے ہیں کہ روضہٴ رسول اورجسم اطہر صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کی عظیم ترین سعادت حاصل کرنے والے مسلمانوں کے یہ امیر المؤمنین کون تھے؟ یہ امیر المؤمنین حضرت”نور الدین زنگی “ تھے۔ 
(بشکریہ روز نامہ جنگ)

Flag Counter