Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

16 - 16
***
قوت ارادی
ضیاء الرحمن فاروقی
انسان فانی اور کمزور ہے مگر الله تعالیٰ نے اس کمزور انسان کو ایسی قوت ارادی سے نوازا ہے کہ اس کے ہاتھوں ایسے حیرت انگیز واقعات ظہور میں آتے ہیں کہ عقلی لحاظ سے ان کی کوئی بھی تعبیر نہیں کی جاسکتی ۔ انسان اگرچاہے تو اس کی ہمت کے سامنے پہاڑ، کنکربن جائیں اور دریا اس کی گزر گاہ ہو کر رہ جائیں اور چاہے تو اس کی تن آسانی، اس کی ناکامی کی دلیل بنتی چلی جائے، قوموں کا عروج وزوال اس بلند ہمتی اور اسی تن آسانی میں پوشیدہ ہے، اہل ہمت اپنی دنیا خود بناتے ہیں اور تن آسان لوگ ہاتھ پرہاتھ دھرے مستقبل کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ مگر ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا:
یہ بزم مے ہے یاں کوتاہ دستی میں محرومی
جو بڑھ کے خود اٹھالے ہاتھ میں مینا اسی کا ہے
قرآن مجید میں الله تعالیٰ نے انسانوں کو کوشش اور ہمت کا سبق دیا ہے۔ کوئی بھی کام ہو اس میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ انسان کی نیت خالص ہو، وہ سچے ارادے کو دل میں لے کر مسلسل کوشش کرے۔ یہ دونوں چیزیں یکجا ہو جائیں تو ان کی یکجائی الله تعالیٰ کو آواز دیتی ہے او روہ رحمت شامل حال ہو کر انسانی تدبیر کو تقدیر بنادیتی ہے۔ بقول علامہ اقبال  #
تو اپنی سرنوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے خاصہ حق نے تری جبیں
تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ وہ قومیں جن کے ارادے ناقص او رجن کی ہمتیں شکستہ ہوتی ہیں وہ تاریخ کے میدان میں اپنا کوئی سا مقام بھی نہیں پاتیں، بلکہ بسا اوقات ان کی داستانیں بھی داستانوں میں باقی نہیں رہتیں اور وہ تاریخ کے چورا ہے میں عبرت کا نشان بن جاتی ہیں، ہمت کی شکستگی، انسان کو ذلت کی گہرائیوں میں گرا دیتی ہے، ایسے انسان مصائب سے گھبرا جاتے ہیں او رکوشش ترک کر دیتے ہیں اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ کم ہمت لوگ ناکامیوں سے دل برداشتہ ہو کر خدا کی عظمت اور دین کی حیثیت ہی سے انکار کر دیتے ہیں، نتیجتاً دنیاوی ناکامی آخرت کی رسوائی کی دلیل بن جاتی ہے۔
خیال اور عمل کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ جب تک خیال، عمل کی دنیا میں نہ جگمگائے اس وقت تک اس کا حسن بے معنی ہے، ایک انسان ایک گوشے میں بیٹھا ہوا عالم خیال میں زمین آسمان کے قلابے ملاتا رہتا ہے، مگر جب عمل کی بات آتی ہے تو اس کے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ شاعروں کی مخالفت بھی قرآن نے اسی بنیاد پر کی کہ وہ بے نام وادیوں میں بھٹکتے اور بہکتے رہتے ہیں اور عمل کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ضروری ہے کہ خیال میں بھی رفعت ہواور اس کے ساتھ عمل میں بھی عظمت، بلند خیالی ضروری ہے کہ اسی پر عمل کی بنیاد پڑتی ہے، مگر صرف بلند خیالی ہی کو زندگی بنا لینا او رہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا، حسن عمل کی موت ہے ۔ جب کہ بلند ہمتی، عمل کی خوبی کا دوسرا نام ہے، جس کے پاس عمل کا حسن نہیں ہے ، کامرانی بھی اس کے حصے میں نہیں آتی۔ ایک ولندیزی مثال، جب انسان دولت کھوئے تو کچھ نہیں کھوتا، اگر حوصلہ کھو دے تو بہت کچھ کھو جاتا ہے۔ آبرو چلی جاتی ہے تو قریب قریب سب کچھ کھو جاتا ہے، لیکن روح مر جائے تو سب کچھ مٹ جاتا ہے اور بلند ہمتی کا تعلق جسم کی مضبوطی سے کم اور روح کی تازگی سے زیادہ ہے۔ بقول شاعر #
مجھے یہ ڈر ہے دل زندہ ہے تو نہ مر جائے
کہ زندگانی عبارت ہے تیرے جینے سے
انسان اس دنیا میں آتا اور چلا جاتا ہے۔ اس کی پیدائش اور اس کی موت دو ایسی تقدیریں ہیں جو اٹل ہیں۔ ان میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ دوران زندگی تقدیریں بدلتی رہتی ہیں۔ نہ بدلنے والی ذات الله پاک کی ہے۔ دعا اور عمل سے نتیجے کا رخ بدل جاتا ہے۔ انسان کسی بلند مقصد کے لیے جدوجہد کرے اس کے عمل او راس کی نیت میں خلوص ہو تو الله تعالیٰ اس کی کوشش کو قبول فرماتے ہیں، گویا وہ انسانی سعی جو بارگاہ خداوندی میں مقبول ہو جائے اسی کا نام تقدیر ہے، جو انسان خود بناتا ہے، وہ انسان جس کی فکر میں پاکیزگی ، جس کے ارادوں میں پختگی ہوتی ہے او رجن کی ہمتوں میں بلندی ہو وہ مشکلات کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسکراتے ہیں، ان کی بظاہر ناکامیاں بھی حقیقی کامیابی کی بنیاد بن جاتی ہیں، ایسے ہی انسان جان دے کر محبوب کی رضا حاصل کرتے ہیں اور یہی سب سے بڑ ی کامیابی ہے۔
گو بلند ہمتی کا ناکامی سے کوئی تعلق نہیں۔ اس کا سارا جمال مسلسل کوشش میں پوشیدہ ہے، جس شخص کی ہمت بلند ہے ضروری ہے کہ وہ ناکامی سے مایوس نہ ہو۔ جس کوناکامیاں، مایوس کردیں وہ پست ہمت ہے، اس کا اولوالعزمی کے ساتھ دور کا بھی رشتہ نہیں ہے۔ پست ہمتی سے کوئی سا مقصد بھی حاصل نہیں ہوتا۔ مسلسل محنت سے خالق تقدیر بھی خوش ہوتا ہے، مقصد بھی ملتا ہے اور روحانی کیف بھی زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔ بلند ہمتی کا تعلق جسم سے زیادہ روح اور دل سے ہے، روح میں تابندگی اور دل میں زندگی ہو اور پیش نظر کوئی عظیم مقصد ہو تو اکثر کمزور جسم کے انسان بھی پہاڑوں سے ٹکرا جاتے اور منزل کو اپنے تک کھینچ لاتے ہیں، کیوں کہ جد وجہد کرنے والے انسانوں کے استقبال کے لیے خود منزل بے تاب ہوتی ہیں۔
بقول شاعر #
دست ہمت سے ہے بالا آدمی کا مرتبہ
پست ہمت نہ ہو وے، پست قامت ہو تو ہو
حق یہ ہے کہ خوش قسمتی بہادر اور باہمت انسانوں ہی کے ہاتھوں میں ہاتھ دیا کرتی ہے۔ پھول تک پہنچنے کی آرزو دل میں ہو تو کوئی سی روک بھی راستے کو بند نہیں کر سکتی۔
بقول شاعر #
نہ شاخ گل ہی اونچی ہے دیوار چمن
تری کوتاہی ہمت، تری قسمت کی پستی ہے
کسی نے کیا خوب کہا ہے #
ہے قوت بازو میں تری، راز سعادت
تو ڈھونڈتا پھرتا ہے، اسے بال ہما میں

Flag Counter