Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

10 - 16
***
دنیا اور آخرت میں گناہوں کی سخت سزا ئیں
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
دنیامیں عمل صادرہوتاہے، عالمِ برزخ میں ریکارڈہوتاہے اوریوم الحشرکے دن سب ظاہرہوجائے گا
ایمان سے محرومی 
کبھی کبھی جب انسان گناہ کا عادی ہوجاتاہے اور گناہ پر نڈر ہو جاتا ہے توروحانی طورپراس پرمردنی چھاجاتی ہے، یہاں تک کہ وہ ایمان جیسی قیمتی نعمت سے ہاتھ دھوبیٹھتاہے، جوبہت بڑاخسارہ ہے، بلکہ اس سے بڑھ کراورکوئی خسارہ نہیں ہوسکتا۔
حدیث میں ہے: ”لایزنی الزانی حین یزنی وہو موٴمن“یعنی زناکرنے والازناکرتے وقت ایمان سے ہاتھ دھولیتاہے۔
معلوم ہواکہ گناہ سے ایمان بھی ضائع ہوسکتاہے ۔اسی لیے علماء فرماتے ہیں کہ صغائر پر مداومت انسان کو کبائر تک تک پہنچاتی ہے اور کبائر پر مداومت کفر تک پہنچا کر چھوڑتی ہے۔
کثرتِ گناہ توفیقِ خیر سے محرومی کا سبب 
گناہ کرتے رہنے سے آدمی اعمال صالحہ کی توفیق سے محروم ہو جاتاہے ، اللہ کا فرمان ہے :﴿وما توفیقی إلا باللہ﴾ توفیق تو اللہ ہی دیتا ہے۔(سورہٴ ہود:88)
اور اللہ توفیق کب دیتا ہے جب بندے سے خوش ہوتاہے اور خوش کب ہوتاہے، جب بندہ نیکی کرتا ہے ۔لہٰذاجب بندہ گناہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوں گے اور جب اللہ ناراض ہوں گے تو رحم نہ کریں گے اورجب رحم نہیں کریں گے تو توفیق نہیں دیں گے۔
وحدت سے محرومی
گناہ کے سبب مسلم معاشرے سے وحدت اور اتفاق کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور آپس میں خلفشار برپا ہوجاتا ہے۔ارشادِ الٰہی ہے : ﴿واطیعوا اللہ ورسولہ ولا تنازعوا فتفشلوا﴾ اللہ اور اس کے رسول کی پیروی کرو اور آپس میں تنازع مت کرو ،ورنہ ناکام ہو جاوٴگے ۔(سورہٴ انفال:46)
معلوم ہوا کہ گناہ کرنے سے انتشار پیدا ہوتا ہے اور امت متحد نہیں ہوپاتی۔
گناہ کی نحوست راہِ حق سے محرومی
گناہ کے کرنے سے آدمی ہدایت اور صراطِ مستقیم سے محروم ہوجاتاہے ، ”بدعت“ کو ”سنت“ اور ”ضلالت“ کو ”ہدایت“ سمجھتاہے، جو بہت بڑی محرومی ہے۔
گناہ سے قلب پر تاریکی
گناہ کرنے سے قلب پر ظلمت اور تاریکی چھا جاتی ہے پھر وہ برائی کو اچھائی سمجھ کر کرتا ہے ۔حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں : بدی، کرنے سے چہرہ بے رونق ہوجاتا ہے ، قبر اور قلب میں ظلمت چھا جاتی ہے ، بدن میں سستی آجاتی ہے۔
گناہ کے سبب عمرمیں کمی
گناہ کرنے سے انسان کی عمر سے برکت ختم ہوجاتی ہے ۔
حدیث میں ہے : ”نیکی سے عمر میں برکت ہوتی ہے“ ۔تواس سے معلوم ہواکہ بدی اور گناہ سے عمر میں برکت ختم ہوجاتی ہے۔
گناہ سے ارادہٴ توبہ کمزور ہوجاتاہے اور مرنے کے وقت بغیر توبہ کے چلا جاتاہے۔
گناہ اور عقل کافتور
گناہ کرنے سے عقل میں فتور واقع ہوجاتاہے اور بھلی بات اس کو سمجھ میں نہیں آتی۔
خلاصہ یہ ہے کہ گناہ بہرحال انسان کے لیے دنیا اور آخرت میں سمِ قاتل ہے اور زہرہلاہل ہے۔ دنیامیں بھی سزا بھگتنی ہوگی اور آخرت میں بھی۔
پیر ذوالفقار نقشبندی فرماتے ہیں کہ قرآن کا اعلان ہے : ﴿وذروا ظاہر الإثم وباطنہ﴾ظاہری وباطنی گناہوں کو چھوڑو ۔(سورہٴ انعام:121) گناہ شروع میں مکڑی کے جال کی طرح ہوتاہے ، مگر توجہ نہ دینے کی صورت میں جہاز کے لنگر کی صورت اختیار کرجاتاہے ،پھر اس سے دامن چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے۔
آخرت میں گناہوں کی سزا
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمة الله فرماتے ہیں :کتاب وسنت سے معلوم ہوتاہے کہ اس دنیاکے علاوہ دوعالم اورہیں: برزخ آخرت۔ جب آدمی کوئی عمل کرتاہے توفوراًآخرت میں منعکس ہوجاتاہے، اس کے وجودپرکچھ آثاربھی مرتب ہوتے ہیں، اس عالم کوعالم قبراورعالم برزخ کہتے ہیں۔ پھران ہی اعمال کاایک وقت، کامل ظہورہوگا۔جس کویوم حشرو نشریعنی لوگوں کے جمع ہونے، اعمال نامہ کے ظاہرہونے کادن کہتے ہیں۔ تومعلوم ہواکہ ہرعمل کے وجودی مراتب تین ہیں: صدور ظہور مثالی اورظہورحقیقی۔ اس مضمون کوآج کی ایجادات مثلاً ٹیپ ریکارڈ اور ویڈیوریکاڈر سے سمجھاجاسکتاہے۔ جب آدمی کوئی بات یاعمل کرتاہے تواس کے تین مراتب ہوتے ہیں۔ ایک مرتبہ اس کامنہ یابدن سے صادر ہونا۔ دوسرامرتبہ اس کاٹیپ یاکیمرے میں بندہونا اورتیسرامرتبہ جب آدمی اس کی آوازکوسننا چاہے، یادیکھنا چاہے تواسے بعینہ دیکھ لے۔
بس اب اسی پرقیاس کریں، دنیامیں عمل صادرہوتاہے، عالمِ برزخ میں ریکارڈہوتاہے اوریوم الحشرکے دن سب ظاہرہوجائے گا۔
اب جب یہ ثابت ہوگیاتو کوئی عاقل اورذی شعوراپنے کرتوت کے ریکارڈکوسننے یادیکھنے کے بعدانکارنہیں کرسکتا،بالکل قیامت کے روزبھی ایساہی ہوگا۔لہٰذاجس طرح آدمی ریکاڈرکے سامنے ہونے کی صورت میں بچ بچ کر بات کرتاہے اورکوئی کام کرتاہے کہ کہیں کوئی غلط چیزریکارڈنہ ہوجائے، انسان کوبھی اسی طرح زندگی گذارنی چاہیے اورجان لیناچاہیے کہ یقینی طورپراس کی زندگی کے ہرلمحہ کوپوری باریکی کے ساتھ قیدکیاجارہاہے، قرآن میں ارشادالٰہی ہے :﴿ما یلفظ من قول إلا لدیہ رقیب عتید﴾۔ (سورہٴ قٓ:18) انسان جوبات بھی اپنے منہ سے اداکرتاہے توایک ریکاڈربرابر اسے ریکارڈکررہاہے ایک اورجگہ پرہے:﴿یوم تجدکل نفس ماعملت من خیرمحضرًا و ماعملت من سوء﴾․
”جس دن ہرشخص اپنے کئے ہوئے کواپنی نظروں کے سامنے پائے گا چاہے وہ اچھائی ہویابرائی۔“(سورہٴ آل عمران:30)
ذراہم ان آیتوں پرغورکریں، قرآن کیسی تنبیہ کوبیان کررہاہے!اللہ ہمیں اس کوسمجھنے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین! 
بعض گناہوں کی مماثل سزاوٴں کوبھی قرآن وحدیث میں بیان کیاگیاہے، مثلاًزکوٰة نہ دینے پروہ مال سانپ کی شکل میں اس کے گلے کاطوق ہوگا:﴿سیطوقو ن مابخلوا بہ یوم القیامة﴾․ (سورہٴ آلِ عمران: 180)
جھوٹ بولنے والے چہرے کالے ہو جائیں گے، جوقرآن کاعلم حاصل کرکے اس پرعمل نہ کرے گااس کاسرباربارپتھرسے کچلاجائے گا۔معلوم ہواکہ دنیابرزخ، اورآخرت تینوں جگہ انسان کواس کے گناہوں کی سزادی جاتی ہے۔
کیاآپ گناہ ترک کرنا چاہتے ہیں؟
مجدد ملت حکیم الامت حضرت اشرف علی تھانوی  فرماتے ہیں کہ چھ گناہ ایسے ہیں جو تمام گناہوں کے لیے جڑ اور اصل کی مانند ہیں، اگر ان سے پرہیز کیا جائے تو انشاء اللہ انسان دوسرے بے شمار گناہوں سے خودبخود محفوظ ہوجائے گا۔ وہ یہ ہیں:
غیبت: بے شمار گناہ اس سے جنم لیتے ہیں؛ اس سے بچنے کا راستہ یہ ہے کہ بلاضرورت نہ کسی کا تذکرہ کرے نہ سنے، نہ اچھا نہ برا، بلکہ اپنے ضروری کاموں میں مشغول رہے، انشاء اللہ بے شمار گناہوں سے محفوظ ہوجاوٴگے ،اسی لیے حدیث میں بھی اس کی سخت وعید وارد ہوئی ، حدیث میں ہے: ”لا یدخل الجنة قتات “ چغل خور جنت میں نہ جائے گا۔
ظلم سے اجتناب، خواہ مالی ہو یا جانی یا زبانی، مثلاً کسی کا حق مارنا، کسی کو تکلیف پہنچانا، کسی کی بے عزتی کرنا وغیرہ۔
اپنے آپ کو بڑا سمجھنے سے اجتناب کرے اور دوسروں کو حقیر گرداننے سے بھی بچتا رہے، بلکہ اپنے آپ کو حقیر اور دوسروں کو بڑا سمجھے،بے شمار گناہوں سے حفاظت ہوجائے گی۔
غصہ سے بچتے رہیں اور اگرغصہ آجائے تو صبر سے کام لیں،کبھی غصہ کی حالت میں آدمی ایسا کام کر بیٹھتا ہے کہ زندگی بھر اس پر افسوس کرنا پڑتا ہے، مگر اس کا کوئی حل نہیں نکلتا ۔
غیرمحرم عورت یا مرد سے کسی طرح کا تعلق نہ رکھے ،نہ اسے دیکھے ،نہ اس سے دل خوش کرنے کے لیے ہم کلام ہو، نہ تنہائی میں اس کے ساتھ بیٹھے، نہ اسے خوش کرنے کے لیے اس کی پسند کے موافق وضع قطع یا کلام کو آراستہ کرے، اس تعلق سے جو خرابیاں پیدا ہوں گی وہ احاطہٴ تحریر سے باہرہیں۔
مشتبہ اور حرام مال سے کلی اجتناب برتے ،بے شمار نفسانی وروحانی بیمار یاں اس سے جنم لیتی ہیں، کیوں کہ غذا سے عضو بنتا ہے اور عضوسے اعمال سرزد ہوتے ہیں، لہٰذا جیسی غذا ہوگی اور جیسی کمائی ہوگی ویسے اعمال ہوں گے ۔
حضرت تھانوی اخیر میں فرماتے ہیں یہ چھ 6معاصی ہیں، جن سے اکثر معاصی پیدا ہوتے ہیں، ان کو چھوڑنے سے انشاء اللہ دوسرے معاصی اور گناہوں کا چھوڑنا سہل اور آسان ہوجائے گا ،بلکہ امید ہے کہ خود بخود متروک ہوجائیں گے۔ اللھم وفقنا ۔(مستفاد:جزاء الاعمال مع ترمیم و اضافہ)
اس کے علاوہ مزید چند امور کے التزام سے بھی انشاء اللہ گناہ ترک کرنے پر مدد ملے گی، وہ یہ ہیں :
دعا: ایک طرف گناہوں سے بچنے کی کوشش کرے اور دوسری جانب اللہ سے دست بدعا رہے کہ اے اللہ! تو گناہوں سے میری حفاظت فرما، ایک حدیث میں ہے کہ نماز کے بعد دس مرتبہ یہ دعا پڑھنے سے بھی آدمی کو گناہ سے بچنے کی توفیق ہوتی ہے، وہ دعا یہ ہے:
”لاإلہ إلا اللّٰہ وحدہ لاشریک لہ، لہ الملک ولہ الحمد، بیدہ الخیر، و ھو علی کل شیٴ قدیر“․
اسی طرح یہ دعا بکثرت پڑھے: ”اَللّٰھُمَّ یا مُصَرِّفَ القُلُوْب صَرِّفْ قُلُوْبَنَا عَلٰی طَاعَتِکْ“ اسی طرح یہ دعا بھی کثرت سے اپنی دعاوٴں میں شامل کرے: ”اللھم إنِّی أسئَلُکَ الھُدیٰ وَالتُّقیٰ وَالعَفَافَ وَالغِنیٰ“․ (مسلم)
مجاہدہ:ترک گناہ کوئی آسان کام نہیں اور نہ آسانی سے گناہ کی عادت جاتی ہے، بلکہ اس کے لیے مجاہدہ لازم ہے، اسی کو جہادِ اکبر کہا گیا؛ اگر آپ ایک بار مجاہدہ شروع کریں گے تو اللہ اسے آسان کردے گا، ارشاد باری ہے:﴿وَ الَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھَدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا﴾․
”جو ہماری خاطر مشقت اٹھاتا ہے تو ہم ضرور اسے اپنے راستے کی رہنمائی کرتے ہیں ۔ (سورہٴ عنکبوت:69)
گناہ کے انجامِ بد پر غور و فکر: دنیا وآخرت میں گناہ کے انجامِ بد پر غور کرتا رہے کہ گناہ کا انجام اچھا نہیں ہوتا، گناہ کے سبب غم، مصیبت، پریشانی، رزق میں کمی، بدن میں ضعف، اللہ اور نیکوکاروں سے وحشت وغیرہ، اور آخرت میں جہنم کے سانپ، بچھو، آگ اورہولناک عذابِ قبر اور حشر میں رسوائی وغیرہ کو سوچتا رہے۔
اسبابِ معصیت سے دور رہے: مثلاً بد نظری، فلم بینی، تصویر بینی وغیرہ سے کلی اجتناب کرے ۔
برے لوگوں کی دوستی سے اجتناب : بری صحبت سے بچنا بہت ضروری ہے، کیوں کہ انسان پر برائی کا اثر جلدی پڑتا ہے، لہٰذا بے نمازی، بد اخلاق اور بد اطوار آدمی سے کبھی دوستی نہ کرے ۔
موت کی یاد: یہ بات ذہن میں دوہراتا رہے کہ موت اچانک کبھی بھی آسکتی ہے، اگر گناہ کی حالت میں آگئی تو کیا ہوگا ؟اللہ ہماری حفاظت فرمائے۔ آمین!
گناہ کے چھوڑنے کا عزمِ مصمّم: گناہ کو ایک بار چھوڑنے کا عزمِ مصمّم کرلے کہ جوہونا ہو ،ہوجائے، بس گناہ کو کسی صورت میں نہیں کروں گا۔
پیرذوالفقار نقشبندی فرماتے ہیں: انسان یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھے کہ اس کے اعمال پر اور گناہ پر ہمیشہ چار گواہ موجود ہوتے ہیں جو قیامت کے دن گناہوں پر گواہی دیں گے:
جس عضو سے گناہ کیا وہ عضوگواہی دے گا، ارشاد ہے:﴿وتکلّمنا أیدیھم و تشہد أرجلہم بما کانوا یکسبون﴾․(سورہٴ یٰس:65) ”ان کے ہاتھ ،پاوٴں ان کے اعمال کے بارے میں ہمیں خبر دیں گے۔“
جس خطہٴ ارض پر گناہ کیا وہ گواہی دے گا، ارشاد الٰہی ہے:﴿یومئذ تحدث اخبارھا﴾․”جب زمین اپنی خبریں بیان کرے گی ۔“ (سورہٴ زلزال:4)
کراماً کاتبین : وہ فرشتے جو انسان کے اعمال کا ریکارڈ تیار کرتے ہیں: ﴿کراما کاتبین یعلمون ما تفعلون﴾․ (سورہٴ انفطار:11،12) ”تم جو کرتے ہو اسے وہ اپنے علم اور ریکارڈ میں لیتے رہتے ہیں ۔“
نامہٴ اعمال :جس میں ہر چیزمکتوب ہوگی ،ارشاد ہے: ﴿مال ھذا الکتاب لایغادرُ صغیرةً ولا کبیرةً إلا أحصاھا ﴾․”انسان کہے گا اس کتاب کو کیا ہوگیا کوئی چھوٹی بڑی چیز نہیں چھوڑتی ۔“ (سورہٴ کہف:49)
اور میں کہتا ہوں خود اللہ ہی گواہ نہیں بلکہ عین شاہد اور دوسرے انسانوں میں کے گواہ الگ، یعنی 6 گواہ ہوں گے، لہٰذا اسی بات کو ذہن میں چسپاں کرلیں کہ گناہ کرکے کہیں چھوٹ کرجانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
مولانا موسیٰ روحانی بازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: عوام بن حوشب نے فرمایا کہ گناہ کے بعد چار امور بہت ہلاکت خیز ہیں۔
گناہ کرنے کے بعد اس کو ہلکا سمجھنا اور احساس پیدا نہ ہونے دینا۔
عذاب نہ آنے پر دھوکہ میں رہنا کہ گناہ سے کچھ نہیں ہوتا ۔
العیاذ باللہ گناہ کر کر گناہ پر خوشی کا اظہار کرنا ۔
گناہ پر اصرار کرنا اور باربار کرتے رہنا ۔(استعظام الصغائر)
امام محمد ابن باقر اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے فرماتے ہیں، اے بیٹے! اللہ کا غصہ اور غضب گناہوں میں پوشیدہ ہے، سو کسی معصیت کو حقیر اور معمولی نہ سمجھ، ہوسکتا اسی میں ناراضگی خدا مستور ہو۔ (ایضا)
آج کے مسلمانوں کی حالت 
آج کل مسلمانوں کی حالت وہ ہے جو اس حدیث میں مذکور ہے :
عن أبی ھریرة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال:یأتی علی الناس زمان لا یبالی المرءُ ما أَخَذَ أَ مِن الحلال أم من الحرام ۔ رواہ البخاری۔ و فی روایة رزین زیادة: فإذ ذلک لا تجاب لھم دعوة․
یعنی” ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی علیہ الصلاة والسلام کا یہ ارشاد روایت کرتے ہیں کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ بھی آئے گا کہ ہر شخص حلال وحرام کی تمیز سے بے پروا ہوگا اور اسے جو کچھ ملے گا،لے لے گا ۔اس وقت ایسے لوگوں کی دعا قبول نہیں کی جائے گی “۔(چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات:ص41)
گناہ بڑا ہویا چھوٹا دس عیوب سے خالی نہیں 
فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمة اللہ علیہ نے ”تنبیہ الغافلین: ص134“ پر لکھا ہے، جس کا حاصل یہ ہے کہ گناہ بڑا ہو یا چھوٹا اس میں بڑے بڑے عیوب بہرحال ہوتے ہیں۔
أولھا أنّہ أسخط خالقہ وھو قادر علیہ۔ یعنی” اول: عیب یہ ہے کہ اس نے اپنے خالق کو ناراض کیا، جو اس پر قادر ہے“۔
والثانی انہ فرّح من ھو أبغض إلیہ وھو إبلیس۔” دوم: یہ کہ اس نے ابلیس کو خوش کیا، جو اللہ کو مبغوض ہے۔“
والثالث تباعدہ من الجنة۔ ”سوم: یہ کہ جنت سے دور ہوا “۔
والرابع تقربہ من النار۔ چہارم :یہ کہ دوزخ سے قریب ہوا “۔
والخامس انہ جفا مَن ھو أَحبّ الیہ، وھي نفسہ۔ ”پنجم: یہ کہ اس نے اپنے محبوب نفس پر ظلم کیا “۔
والسادس نجّس نفسَہ وقد خلقھا اللّٰہ طاھِرةً۔ ”ششم: یہ کہ اس نے اپنے نفس کو پلید کردیا حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے اسے پاک پیدا کیا تھا “۔
والسابع آذی أَصحابہ الذین لا یوٴذونہ، وھم الحفظة۔ ”ہفتم: یہ کہ اس نے اپنے ہم نشینوں کو اذیت پہنچائی جو کہ حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں“۔
الثامن أحزَنَ رسولَ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فی قبرہ۔”ہشتم: یہ کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں غمگین و پریشان کیا“۔
التاسع أَشھَد علی نفسہ اللیلَ والنھار ۔ ”نہم: یہ کہ اس نے رات اور دن کو اپنے اس عملِ بد کا گواہ بنایا“۔
العاشر انہ خان جمیعَ الخلائِق من الآدمیین وغیرھم إذ لا تُقبل شھادتہ لھم، فیبطل حق صاحبہ، ویقلّ المطرُإذا أَذنب․ ”دہم: یہ کہ اس نے تمام مخلوق سے خیانت کی،اس لیے کہ گناہ کے بعد اب اس کی گواہی ان کے لیے قبول نہیں ہوگی ، تو ساتھی کا حق ضائع ہوا اوربارش بھی اس کی معصیت کی وجہ سے نہیں برسے گی“۔ (چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات،44,43)
چھوٹے گناہ کی بھی باز پرس ہوگی 
گناہ خواہ چھوٹا ہی ہو اس کے بارے میں پوچھا جائے گا، لہٰذا کسی چھوٹے گناہ کے ارتکاب کی بھی جرات نہیں کرنی چاہیے ۔
ایک حدیث شریف ہے:
عن عائشة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھا: أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان یقول: یاعائشة!إیّاک ومحقَّرات الذنوب، فإن لھا من اللّٰہ طالبًا۔ رواہ النسائی وابن ماجہ۔ یعنی”حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مجھ سے) فرمایا: اے عائشہ !چھوٹے گناہوں سے بھی بچا کرو۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کی بھی با ز پرس ہوگی“۔
”تفسیر ابن کثیر: ج 4/ ص 269“ پر ہے کہ مذکورہ صدرحدیث سعید بن مسلم عن عامر بن عبداللّٰہ عن عوف عن عائشة رضی اللّٰہ تعالیٰ عنھاکی سند سے مروی ہے۔اور حافظِ ابن ابی الدنیا اور ابن عساکر رحمہ اللہ تعالیٰ نے سعید بن مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ کے احوال میں لکھا ہے کہ سعید بن مسلم رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ حدیث عامر بن ہشام رحمہ اللہ کو سنائی ۔عامر نے کہااے سعید !مجھے سلیمان بن مغیرہ رحمہ اللہ تعالیٰ نے بتایا انّہ عمل ذنباً فاستصغرہ فأتاہ آتٍ فی منامہ فقال: یا سلیمان.یعنی ”سلیمان فرماتے ہیں کہ مجھ سے ایک صغیرہ گناہ سرزد ہوگیا لیکن میں نے اسے چھوٹا اور ہلکا سمجھا۔پس خواب میں کسی نے کہا اے سلیمان (اوریہ شعر کہے)“۔
لاتُحقّرنَّ مِنَ الذنوب صَغِیراً
إن الصغیر غداً یَعود کبیرا
إن الصغیر و لَو تَقادَم عھدُہ
عند الإ لٰہ مسطَّر تسطیراً
فازجُر ھَواکَ عن البطالةِ لاتکُن
صَعبَ القِیادِ وشمّرن تَشمیرا
إنَّ المُحبَّ إذا أحَبَّ إلٰہَہ
طارَ الفوٴادُ والھَمَ التفکیرا
فاسأل ھدایتَک الإلٰہَ فَتَتَّئِد
فکفی بِربّک ھادِیاً ونَصیرا
یعنی”کسی گناہ کو چھوٹا نہ سمجھ، کیوں کہ یہی چھوٹا گناہ کل بڑا ہوگا۔
چھوٹا جرم کیے ہوئے اگرچہ ایک مدت گزر جائے مگر وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں لکھا ہوا ہوتا ہے۔
پس اپنی خواہش کو بے فائدہ امور سے روک دے اور سرکشی نہ کر اور عبادت کے لیے مستعد و تیار رہ۔
وہ شخص جو خدا تعالیٰ سے محبت کرتا ہو اُسے کچھ ہوش نہیں ہوتااسے تو ہر وقت آخرت کی تیاری کا الہام ہوتا رہتا ہے۔
تم اللہ تعالیٰ سے اپنی ہدایت کی دعا کرو ۔ پھر حصولِ ہدایت کے بارے میں مطمئن رہو، کیوں کہ ذاتِ خدا تعالیٰ کافی ہے ہدایت کرنے اور مدد کرنے کے لحاظ سے۔ (چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات:70,68)
لباس کی طرح ایمان کو بھی بد نما داغوں سے بچانا چاہیے
جس طرح ہم اپنے لباس اور ظاہری جسم کی صفائی کا خیال رکھتے ہیں اسی طرح ہمیں اپنے دین وایمان کی بھی فکر ہونی چاہیے۔
لباس پر اگر چھوٹے چھوٹے دھبوں اور داغوں کی تعداد بڑھ جائے تو لباس کتنا بُرا اور بد نما معلوم ہوتا ہے۔ کوئی معزز سفید پوش انسان ایسا لباس پہننا پسند نہیں کرتا۔ اسی طرح ایمان کا لباس بھی چھوٹے چھوٹے گناہوں سے داغدار اور بد نما ہوجاتاہے ۔
بدنما اور داغدار لباس پہن کر بڑی مجالس میں ، بادشاہوں کے دربار میں اور بڑے لوگوں سے ملاقات کے لیے جانا کوئی عقلمند آدمی گوارا نہیں کرتا۔ مگر نہایت افسوس کی بات ہے کہ مسلمان گناہوں سے داغدار ایمانی لباس پہن کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جانے سے نہیں شرماتے۔
مابال دینک ترضی ان تُدَنّسَہ 
وثَوبُک الدھر مغسول من الدّنَس 
تَرجُو النجاةَ ولم تَسلُک طریقتَھا
إنّ السفینةَ لا تجری علی الیبس
یعنی” کیا وجہ ہے کہ تو اپنے دین کے میلے ہونے پر راضی ہے، مگر تیرا لباس ہمیشہ میل سے صاف ہوتا ہے۔
تجھے نجات کی امید ہے لیکن تونجات کی راہ پر نہیں چلتا ۔یاد رکھ! کشتی کبھی خشکی پر نہیں چل سکتی “۔
اللہ تعالیٰ ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنے اور ہر چھوٹے بڑے گناہ سے بچنے کی توفیق بخشیں ۔ آمین ثم آمین!
آج کل لوگوں کی عقلیں لہو ولعب (کھیل تماشہ) اور بے فائدہ دلچسپیوں میں اور نگاہیں دنیاوی رنگ وبو میں الجھی ہوئی ہیں ۔
نگاہ الجھی ہوئی ہے رنگ وبو میں
خرد کھوئی گئی ہے چار سو میں
نہ چھوڑ اے دل فغانِ صبح گاہی 
اَماں شاید ملے اللہ ہو میں
یہ دنیا فانی ہے اور اس کی مسرّتیں اور آرائشیں بھی فانی ہیں ۔موت کے وقت ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ ان بے فائدہ مسرتوں اور خوشیوں کی حیثیت شیخ چلی کے خیالی منصوبے سے زیادہ نہیں تھی ۔(چھوٹے گناہوں اورنیکیوں کے اثرات:91-88)
گناہ اور منکرات سے بچنے کی ضرورت 
محی السنہ حضرت مولانا ابرار الحق رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں :
”طاعون کے زمانے میں ہر شخص چوہے سے ڈرتا ہے کہ طاعون کے جراثیم ہمارے گھر میں نہ آجائیں اور بد عملی اور منکرات کے چوہے ہمارے گھروں میں کتنے ہی ہوں فکر نہیں،سانپ گھر میں آجائے، سب پریشان اور گھرمیں خلاف شرع وضع قطع، تصاویر جاندار کی،ریڈیو کے گانے، ٹیلی ویژن کا گھر یلو سینما آجائے تو کوئی فکر نہیں ،ہر عمل کے معاملے میں علمِ صحیح کی ضرورت ہے، لاعلمی میں زہر کھانے سے نقصان تو یقینا پہنچے گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک گھر میں تشریف لے گئے ،وہاں تصویر جاندار کی تھی، فوراً واپس آگئے۔ رزق کی ترقی اور برکت کے لیے، وظیفے پڑھنے کے لیے تیار ہیں مگر گناہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں“۔ (یادگار باتیں:357)
اخیر میں قرآن کی ان دو آیتوں پر اپنے مضمون کو سمیٹتا ہوں: ﴿وذروا ظاھرالإثم و باطنہ إن الذین یکسبون الإثم سیجزون بما کانوا یقترفون﴾․ اے لوگو! ظاہری وباطنی ہر طرح کے گناہ کو چھوڑ دو، کیوں کہ جو لوگ گناہ کرتے رہتے ہیں، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔“ (سورہٴ انعام:121)
دوسری آیتِ کریمہ میں ارشاد الٰہی ہے: 
﴿أم حسب الذین اجترحوا السیٰأت أن نجعلھم کالذین اٰمنوا وعملوا الصالحات، سواءً محیاھم ومماتھم، ساء ما یحکمون﴾ کیا جو لوگ گناہ کرتے رہتے ہیں، وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو انہیں لوگوں کی طرح (بدلہ) دیں گے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے اور (دونوں طرح کے لوگوں) کی زندگی دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی ایک جیسی ہوگی، وہ لوگ کتنا ہی برا فیصلہ کررہے ہیں ۔“ (سورہٴ جاثیہ:21)
اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف اعلان کر دیا کہ برائی اور گناہ کرنے والے کی دنیوی زندگی بھی اور اخروی زندگی بھی سزا اور عذاب سے تعبیر ہوگی۔ اللہ کے یہاں دیر ہے اندھیر نہیں، ایک نہ ایک دن تو بہرحال گناہ کا برا وبال بھگتنا ہوگا؛ اللہ ہماری پوری پوری حفاظت فرمائے۔ آمین!
گناہ کے بارے میں اتنی معلومات کے بعدآیئے! اب ہم اللہ سے سچی پکی توبہ کریں کہ انشاء اللہ اب پوری زندگی اے اللہ! تیری اطاعت میں صرف کریں گے اور گناہوں سے بچنے کی مکمل کوشش کرتے رہیں گے۔ اے اللہ! تو ہماری مدد فرما، ہم کمزور ہیں، نفس وشیطان، دنیا ومال اور ہر طرح کے شروروفتن سے، چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی، ہماری حفاظت فرما اور ہمیں اپنے حفظ وامان میں لے لے اور دنیا وآخرت اور برزخ میں ہر طرح کے عذاب سے تو ہمیں بچالے۔ آمین یارب العالمین!
اللھم وفقنا بالقول والفعل والعمل لما تحب وترضی، 
اللھم احفظنا عن المعصیة أبدًا ما أبقیتنا۔ آمین!

Flag Counter