Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 16
***
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام
”کاروکاری“ کی شرعی حیثیت
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام ان مسائل کے بار ے میں کہ سندھ، بلوچستان او رجنوبی پنجاب کے بیشتر علاقوں میں ایک رسم ”کاروکاری“ کے نام سے مروّج ہے۔ جس میں عورت کا شوہر کسی غیر مرد سے بیوی کے جنسی تعلقات (زنا) ہونے یا جنسی تعلقات کے شبہ کے بنا پر لفظ ”کاری“ کہہ کر گھر سے نکال دیتا ہے ۔
لفظ ”کاری“ کے معنی اردو زبان میں سیاہ کے ہیں ۔ یہ لفظ عورت کے کسی غیر مرد کے ساتھ عین زنا یا شبہ زنا کی بنا پر بولا جاتا ہے ۔ ( جب کہ یہ لفظ ”کاری“ بعض علاقوں کے عرف میں گالی کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے ۔
جس مردوعورت پر کاروکاری کا الزام لگایا جاتا ہے اس مردوعورت کو حتی الامکان قتل کر دیا جاتا ہے ، جن کو بغیر نماز جنازہ اورکفن دفن کے کسی گڑھے یادریا میں ڈال دیا جاتا ہے ۔ اگر وہ قتل سے بچ جائیں تو پھر یہ معاملہ علاقائی جرگہ کے پاس چلا جاتا ہے ، اس میں ایک یا ایک سے زائد سردار ورئیس شریک ہوتے ہیں۔
بسا اوقات یہ جرگہ اسی لفظ” کاری“ کو طلاق کے قائم مقام بنا کر عورت کو شوہر سے علیحدہ کر دیتا ہے اور عورت کو دوسری جگہ نکاح کرنے کا اختیار ہوتا ہے او ربعض علاقوں میں اس لفظ ”کاری“ کو طلاق کے قائم مقام نہیں سمجھا جاتا بلکہ علیحدگی کی صورت میں شوہر سے مستقل طور پر صریح الفاظ طلاق کہلوا کر عورت کو شوہر سے علیحدہ کیا جاتا ہے۔
نیز جرگہ کبھی ملزمہ کو بری کر دیتا ہے او راس صورت میں شوہر ملزمہ کو دوبارہ بغیر نئے نکاح کے بیوی کی حیثیت سے اپنے پاس رکھ لیتا ہے اور کبھی جرگہ مردوعورت کو مجرم ٹھہراتا ہے (اگرچہ ثبوت جرم زنا میں شرعی طریقہ کو مدنظر رکھا جاتا ہے ) جس کا حل دو طرح سے کیا جاتا ہے:
(1)ملزمہ عورت کے سسرال والے مرد کے خاندان سے بعوض جرم لڑکی نکاح میں لیتے ہیں۔ جس کا نکاح وہ اپنی مرضی سے اپنے خاندان کے کسی بھی فرد سے کر دیتے ہیں۔
(2)ملزم کے قبیلہ سے بھاری مالی جرمانہ وصول کیا جاتا ہے جو ملزمہ کے سسرال کو بعوض جرم دیا جاتا ہے اور مقرر حصہ سردار کو بھی دیا جاتا ہے۔
اس مذکورہ تفصیل کے بعد مندرجہ بالا رسم کے متعلق چند پیچیدہ مسائل کا شرعی حل مطلوب ہے:
(1) حالت غضب میں شوہر کا بیوی کو لفظ ”کاری“ کہہ کر گھرسے نکال دینا طلاق ہے یا قذف؟
(2) اگر یہ لفظ طلاق ہے تو طلاق صریح ہو گی یا کنایہ عن الطلاق؟ اوراس سے طلاق رجعی واقع ہو گی یا طلاق بائنہ؟
(3) مذکورہ الزام کے عدم ثبوت پر شوہر کا اس عورت کو نیا نکاح کیے بغیر بیوی کی حیثیت سے اپنے پاس رکھنا کیسا ہے ؟
(4) اگر شوہر بیوی کو کسی غیر مرد کے ساتھ عین زنا کی حالت میں دیکھے تو ایسے شوہر کے لیے شرعا کیا حکم ہے ؟ آیا وہ اس زانی مرد اور بیوی کو قتل کرسکتا ہے یا نہیں؟ قتل کرنے کی صورت میں شوہر پر شرعاً کوئی سزا ہو گی یا نہیں؟
(5) موجودہ دور میں جب کہ سرکاری عدالتیں اور قانون موجود ہے تو مذکورہ جرگہ وپنجایت کی شرعی حیثیت کیا ہو گی ۔ آیا ان کو اس طرح کے معاملات کے فیصلے کرنے کااختیار حاصل ہے یا نہیں اور ان کے کیے ہوئے فیصلہ پر عمل کرنا لازم ہو گا یا نہیں؟
(6) جرگہ کا جرم ثابت کرنے کی صورت میں مجرم مرد کے خاندان سے کسی لڑکی کوجرم کا عوض بنا کر نکاح کرانا شرعاً کیسا ہے ؟
(7) ملزم کے خاندان سے مالی جرمانہ وصول کرنا شرعاً جائز ہے یا نہیں، اگر جائز ہے تو اس جرمانہ کا مصرف کیاہو گا؟
(8) جہاں ملزم مرد عورت کو بغیر نماز جنازہ اور کفن دفن کے گڑھے وغیرہ میں ڈال دیا جائے تو علاقہ والوں اور رشتہ داروں پر شرعاً کیا لازم ہو گا۔
ازراہِ کرم ان مسائل کا مدلّل و مفصل جواب عنایت فرماکر عندالله ماجور ہوں۔
جواب…واضح رہے کہ شریعت میں زنا کے ثبوت کے لیے بہت سخت و کڑی شرائط ہیں اور جب زنا اپنی شرائط سمیت ثابت ہو جائے تو اس کی سزا بھی اور سزا دینے والے بھی شریعت میں مقرر ہیں،اسی طرح جب کسی سے جنسی تعلقات ہوں یا اس کا شبہ ہو تو اس کے ثبوت کے بعد اس کی سزا بھی شریعت میں الگ مقرر ہے،لہذا محض شبہ کی بناء پر کسی کا اپنی بیوی کو ”کاری“ کہہ کر گھر سے نکال دینا ہرگز جائز نہیں،نیز!محض الزام کی وجہ سے مردوعورت کو قتل کر دینا اور بغیر کفن ود فن ا ور جنازے کے کسی گڑھے میں پھینک دینا یا دریا میں ڈال دیناقطعاً ناجائز ہے،یہ ظلم اور جہالت ہے، جس پر توبہ و استغفار اور اصلاح اعمال از حد ضروری ہے۔
علاقائی جرگے(جو دین و شریعت سے بیزار اور ناواقف ہوں)کے غیر شرعی فیصلے کسی حال میں قابل قبول نہیں ہوں گے،لہذٰا جرگہ والوں کا کسی کے لیے اس ”کاری“ لفظ کے استعمال پر طلاق کا فیصلہ کرنااور کسی کے لیے فیصلہ نہ کرنا ایک غیرشرعی طریقہ ہے اوراسی طرح جرگے والوں کے بری کر دینے کی صورت میں شوہر کا اپنی بیوی کو علی الاطلاق اپنے پاس رکھنا درست نہیں۔
اس کے علاوہ ذکر کرد ہ جرگے کے دیگر فیصلے بھی غیر شرعی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ اگر کبھی ایسے حالات پیش آجائیں تو”حَکَم“مقرر کر کے(جس میں پختہ اہل علم،فقہی بصیرت رکھنے والے علماء کرام اور علاقے کے سربرآوردہ حضرات شامل ہوں)سے شرعی گواہوں کی موجودگی میں فیصلہ کروا کر عمل کیا جائے۔
مذکورہ تفصیل کے بعد اپنے دریافت کردہ سوالات کے جوابات ملاحظہ فرمائیں:
(1)،(2) جن علاقوں میں لفظ ”کاری“کو طلاق کے قائم مقام سمجھا جاتا ہے وہاں اگر کسی نے حالت غضب میں طلاق کی نیت سے یہ لفظ کہا تو اس سے ایک طلاق کنایہ یعنی طلاق بائن واقع ہو جائے گی۔
(3) الزام لگانے سے قطع نظر اگر شوہر نے طلاق کی نیت سے یہ لفظ کہا تو نیا نکاح کیے بغیر بیوی کو اپنے پاس رکھناٹھیک نہیں اور اگر طلاق کی نیت سے نہیں کہا تو ان کا نکاح باقی ہے،اسے رکھنا ٹھیک ہے۔
(4) اگر کسی شخص نے اپنی بیوی کو عین حالت زنا میں دیکھا اور اسے پختہ یقین ہو کہ اس فعل میں اس کی رضامندی شامل ہے اور اس نے اپنی بیوی یا دونوں کو اسی مجلس میں جذبات و غصے سے مغلوب ہو کر تعزیراً قتل کر دیا تو شرعاً اس پر کوئی موٴاخذہ نہیں ہو گا،البتہ قضاء ًقصاص کے مطالبہ کیے جانے کی صورت میں اس زنا کو گواہوں سے ثابت کرنا ہو گا۔
(5) جرگہ جب دینی وفقہی سمجھ بوجھ رکھنے والے علماء پر مشتمل ہو اور وہ کسی کے لیے صلح کروائیں یا تعزیر وغیرہ کا فیصلہ کریں تو اس فیصلہ کو قبول کیا جائے گا اور اگر جرگہ کا فیصلہ خلافِ شرع ہو یا جرگہ قصاص وغیرہ کا فیصلہ کر دے تویہ فیصلہ شرعاًقابل قبول نہیں ہوگا اور نہ ہی اس پر عمل کیا جائے گا۔ 
(6) اس قسم کے معاملات میں جرم ثابت ہو یا نہ ہو،بہر صورت لڑکی کو عوض ِ جرم بنانا جائز نہیں ہے،اس میں میاں بیوی کی حق تلفی ہے،البتہ اگر اس طرح بطور عوض کسی لڑکی کا نکاح کر دیا گیا تو اگر نکاح صحیح ہونے کی شرائط پائی گئیں تو نکاح تو منعقد ہو جائے گا لیکن عوض کی شرط باطل ہو گی۔
(7) اس طرح جرگے والوں کا کسی جرم میں کسی کے لیے مالی معاوضہ کا فیصلہ کرنا قرآن وحدیث وفقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق قطعاً ناجائزہے،اس کا ترک بھی لازم ہے۔
(8) مسلمان میت چاہے کتنے بڑے سے بڑے گنہ گار کی ہی کیوں نہ ہو،اس کی بے حرمتی کرنا ،اس کو غسل،کفن ودفن یا نماز جنازہ پڑھے بغیر پھینک دینا ہر گز جائز نہیں ،میت کے ساتھ کیے جانے والے تمام معاملات ہر مسلم میت کے ساتھ کیے جائیں گے،البتہ اگر علاقے کے علمائے کرام وغیرہ نماز جنازہ نہ پڑھیں تو حرج نہیں۔
”الکنایات(لا تطلق بھا) قضاءً (إلا بنیةأو دلالة الحال) وھيحالة مذاکرة الطلاق أو الغضب، فالحالات ثلاث:رضا وغضب و مذاکرة،والکنایات ثلاث:ما یحتمل الرد،أو ما یصلح للسب، أو لا ولا…(ونحو خلیة، بریة، حرام، بائن) ومرادفھا کبتة، بتلة(یصلح سباً…ففي حالة الرضا)أي:
غیرالغضب والمذاکرة (تتوقف الأقسام) الثلاثة تأثیراً (علی نیة) للاحتمال،والقول لہ بیمینہ فيعدم النیة، ویکفي تحلیفھا لہ في منزلہ…(وفي الغضب) توقف(الأولان)إن نوی وقع وإلا لا․ (التنویر مع الدر المختار،کتاب الطلاق،باب الکنایات:4 /514-521، دارالمعرفة، بیروت)․ (البحر الرائق،کتاب الطلاق،باب الکنایات في الطلاق:3/525،دار الکتب العلمیة)․ (الفتاوی الھندیة،کتاب الطلاق،الفصل الخامس في الکنایات:1/375،رشیدیة)․ (حاشیة الطحطاوي علی الدر، کتاب الطلاق،باب الکنایات: 2/133، دارالمعرفة)․ 
ذکر الھندواني:”وجد مع امرأتہ رجلاً إن کان ینزجربالصیاح وبمادون السلاح لایحل قتلہ، وإن کان لاینزجرإلاّ بالقتل حل قتلہ، وإن طاوعت حل قتلہا أیضاً، وھذانصّ علی أن التعزیر والقتل یلیہ غیر المحتسب أیضاً وکذلک وجدنا روایة عن الإمام الثاني فيالمنتقی فيالمسألة کما ذکرنا، ونص أئمة خوارزم أن إقامة التعزیرحال ارتکاب الفاحشة یجوز لکل أحد فإن کاشف العورة، یأمرہ کل أحد بالستر ولوبالعنف ویضرب کاشف الفخذ لاالرکبة وبعدالفراغ لایوفیہ إلاالحاکم، وعلی ھذا لورأی مسلماً یزني یحل لہ قتلہ، وإنما یمتنع لأنہ لایصدق فيذلک لأنہ زنا“․(الفتاوی البزازیة علی ھامش الھندیة، کتاب الحدود،6/430،رشیدیة)․(حاشیة ابن عابدین،کتاب الحدود،مطلب:یکون التعزیربالقتل، 6/99-101، دارالمعرفة)․
”(ھوتولیةالخصمین حاکماً یحکم بینھما…وشرطہ من جہةالمحکِم،العقل لاالحریة والإسلام…ومن جھةالمحکَم صلاحیتہ للقضاء)…(حکمارجلاً…فحکم بینھما ببینة أوإقرار أونکول) ورضیا بحکمہ(صح لوفيغیرحد وقود ودیة عاقلة)الأصل أن حکم المحکم بمنزلة الصلح، وھذہ لاتجوز بالصلح فلا تجوز بالتحکیم“․(الدرمع الرد، کتاب القضاء، باب التحکیم:8 /140-142، دارالمعرفة)․
لیس لقاضيالرستاق أوفقیہہ أوالمتفقہة أوأئمةالمساجد إقامة حدالشرب إلابتولیة الإمام․ (حاشیة ابن عابدین،کتاب الحدود،باب حدّ الشرب المحرّم:2 /63، رشیدیة)․
ولم یصح حکمہ في الحدود والقصاص؛ لأن تحکیمھا بمنزلة صلحھما ولا یملکان دمھما کذا لایباح بالإباحة، وکذا لاولایة لھما علی العاقلة فلاینفذ حکمہ علیھا ولا علی القاتل بالدیة وحدہ لمخالفة النص فکان باطلاً․(البحر الرائق،کتاب الحوالة، باب التحکیم: 7/43، دارالکتب العلمیة)
کل ما یصلح أن یکون صداقاًفي النکاح یصلح أن یکون عوضاً في الصلح عن القصاص لأنہ مال یستحق عوضاً عما لیس بمال العقد…ولو قطع رجل ید رجل عمداً فصالحہ علی خمر أو خنزیر أوعلی حر وہو یعرفہ فہو عفو ولا شيء للمقطوعة یدہ؛ لأنہ أسقط حقہ بغیر عوض فالخمر والخنزیر والحر لیس بمال متقوم فلا یکون ہو باشتراطہ طالباًللعوض عن إسقاط القود ولم یصر مغروراًمن جھة القاطع فلا یرجع علیہ بشيء․ (المبسوط للسرخسي،کتاب الکفالة، باب الصلح في الجنایات:21/10،11، المکتبة الحبیبة)․
نفس المرأة لا یصلح للصداق إجماعاً فالمعنی أنہ تزوجھا بلا مھر وفیہ (أي:في شرح مسلم)․ أیضاً: واختلف العلماء في من أعتق أمتہ علی أن تتزوج بہ ویکون عتقھا صداقھا․فقال الجمھور لا یلزمھا أن تتزوج بہ ولا یصلح ہذا الشرط،وممن قال مالک والشافعي وأبو حنیفة ومحمد بن الحسن وزفر۔قلت:
والوجہ أن الإعتاق لیس بمال یسلم إلی المرأة ولا بد في المھر من ذلک وإنما ہو فعل یحصل بہ حق الحریة ،فافھم۔(إعلاء السنن،کتاب النکاح ،باب استحباب تعجیل شيء من المھر :11/88،إدارةالقرآن)․ (حاشیة ابن عابدین، کتاب النکاح ،مطلب نکاح الشغار:4/228،دارالمعرفة، بیروت)․ التعزیر…(لا بأخذ المال في المذھب)بحر،وفیہ عن البزازیة،وقیل یجوز․وفي الرد:قولہ(فیہ)․
أي:في البحر،حیث قال :وأفاد في البزازیة أن معنی التعزیر بأخذالمال علی القول بہ إمساک شيء من مالہ عنہ مدة لینزجر ثم یعیدہ الحاکم إلیہ لا أن یأخذہ الحاکم بنفسہ أو لبیت المال کما یتوھمہ الظلمة إذلا یجوزلأحد بغیر سبب شرعي․ (الدرمع الرد،کتاب الحدود، باب فيالتعزیر:6/96،دارالمعرفة)
(الفتاوی العالمگیریة، کتاب الحدود،فصل فيالتعزیر:2/167، رشیدیة)․ (البحرالرائق، کتاب الحدود، فصل يالتعزیر:5/68، دارالکتب العلمیة)․
عن أبيھریرة رضي اللہ عنہ قال:قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم:”للموٴمن علی الموٴمن ست خصال:یعودہ إذا
مرض،یشھدہ إذامات، ویجیبہ إذادعاہ، وسلم علیہ إذالقیہ، ویشمتہ إذاعطس، وینصح لہ إذاغاب أوشھد“․(مشکوٰة المصابیح: کتاب الآداب، باب السلام،الفصل الأول، رقم :4628، 3/161، دارالکتب العلمیة)
عن أبيالنعمان رضي اللہ عنہ:أن رسول اللّٰہ صلی الله علیہ وسلم صلّٰی علی ولد الزنی وعلی أمّہ،ماتت فينفسھا․ (المصنف لابن أبيشیبة: کتاب الجنائز، رقم الحدیث:11982، المجلس العلمي)․ (فتح القدیر:کتاب الحدود، 5/214، رشیدیة، جدید) فقط․

Flag Counter