Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 16
***
انگریزی دور کے مسلمان اور آج کے مسلمان
پروفیسر سید محمد جنید مجید
انگریزوں کے دور میں سن 1936ء میں سندھ نے بمبئی سے جدا ہو کر الگ صوبے کی حیثیت اختیار کی تھی۔ بمبئی صوبے سے علیحدگی اختیار کرکے سندھ کا ایک صوبہ بن جانا بذاتِ خود ایک تاریخی واقعہ ہے اور خوشی کی بات ہے، جس کو یادگار بنانے کے لیے اُس وقت کے مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے سندھی اخبار ”الوحید“ کی طرف سے 16 جون1936 کو سندھ آزاد نمبر شائع ہوا، جس میں سندھ کے بارے میں تاریخی جغرفیائی اور علمی مضامین شائع ہوئے۔ اسی سندھ آزاد نمبر میں دیگر مضامین کے ساتھ ایک طویل مضمون شائع ہوا، جس کا عنوان ہے” اسلام اور ترقی ہم کس طرح ترقی کر سکتے ہیں؟“ اس مضمون کے مصنف نے اپنا نام چھپایا ہے اور لکھا ہے ”مسلم قوم کے ایک ہمدرد کے قلم سے“ میں اس ( سندھی) مضمون کا کچھ حصہ نقل کر رہا ہوں، ( ترجمہ) پڑھیے۔
افسوس یہ ہے کہ آج کی دنیا کے فلسفی دنیا کی قوموں کی تاریخ پر غور نہیں کرتے اور نہ ہی ترقی وتنزل کے اسباب تلاش کرتے ہیں ۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یقینا معلوم ہو جاتا کہ تنزلی کو روکنے اور پائیدار (دائمی) ترقی کرنے کے وسائل ( ذریعہ) وہی ہیں جو قرآن شریف میں واضح طور بیان کیے گئے ہیں ۔ غیر مسلموں کو تو یہ بات دھوکا دے رہی ہے کہ اگر اسلام کی تعلیمات ہی ترقی کا سبب ہیں پھر کیوں مسلمان خود ذلیل اور غلام ہو گئے ہیں ؟ مگر افسوس تو خود مسلمانوں کا ہے، جو اندھے ہو کر یورپی قوموں کی تقلید کرنے لگے ہیں اور پھر تقلید بھی اچھے کاموں کی نہیں کرتے بلکہ خراب کاموں کی، مثال کے طور پر خواہ مخواہ سوٹ بوٹ او رکالر ٹائی، مسجدوں کے بجائے کلب اور قہوہ خانے آباد کرنا، بنگلوں اور فرنیچر وغیرہ پر کمر توڑ خرچ کرنا، مساکین کو دور بھگانا او رانہیں نفرت سے دیکھنا، ناٹک اور سینما دیکھنا، شراب پینا، جوا کھیلنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ اسلام کی تاریخ نہیں پڑھتے کہ کس طرح مسلمانوں نے اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر سچی اور عالی شان ترقی کی اور پھرر فتہ رفتہ انہیں چھوڑ کر ، ذلیل وخوار ہوتے گئے۔ اس وقت (1936 میں) مسلمانوں کی ذلیل حالت اس لیے نہیں ہے کہ وہ اسلام پر نہیں چل رہے ہیں، بلکہ اس لیے کہ وہ اسلام پر صحیح عمل نہیں کرتے۔ اسلام یہ نہیں ہے کہ قرآن شریف بے معنی پڑھا جائے ، نماز بلا سمجھے ادا کی جائے او رگوشہ نشینی میں بیٹھ کر وظیفے پڑھے جائیں، چلے کاٹے جائیں ،اسلام وہ ہے جو قرآن شریف میں بیان شدہ ہے، جس پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ کرام نے عمل کرکے عالی شان کامیابیاں حاصل کیں، کافروں اور دشمنوں کو فتح کرکے غالب ہوئے ، ایسی قوم پیدا کی جس کے افراد ایک دوسرے کے خیر خواہ اور ایک دوسرے پر قربان ہونے والے، جاں نثار بن گئے، قیصر وکسری کی سلطنتیں زیر نگیں ہوئیں اور علم وہنر اور ایجادات میں پوری دنیا سے آگے نکل گئے ۔ مگر پھر مسلمان غریب اور ذلیل اور غلام ہو گئے، اس کے اسباب بہت ہیں، مگر بنیادی سبب یہ ہے کہ خلفائے راشدین کے بعد یعنی پہلے چار خلفا کے بعد حکومت شخصی، موروثی اور استبدادی ہو گئی، تب سے سچا مشورہ اور بے خوف رائے دیناممکن نہ رہا اور رفتہ رفتہ قرآن شریف کی تعلیمات اور سچے اسلام پر نہ صرف عمل کرنا کم ہو گیا، مگر اس کے سمجھنے اور جاننے میں بھی بہت سے نقص پیدا ہو گئے، بلکہ قرآن شریف کی اہم باتوں کو چھوڑ کر بالکل فروعی اور غیر ضروری باتوں اور مسائل پر مغزخوری کی گئی۔
آج کل کے تعلیم یافتہ یورپین اور ہندوستان کے انگریز بالکل بے دین اور دہریے بنتے جارہے ہیں۔ وہ نہ صرف وحی اور رسالت کو نہیں مانتے، بلکہ خود خدا کے وجود کے بھی منکر ہیں، اس پر بحث کرنے کے لیے دفتر چاہیے، میں یہاں صرف دو چار لفظ لکھنا چاہتا ہوں ، انسان کی فطرت اور انسان کی روح کو مکمل طور پر سمجھنے سے انسان قاصر ہے، اس کو و ہی اچھی طرح جانتا ہے جو اس کا خالق ہے ۔ انسان اپنی عقل اور تجربے وتلاش کے ذریعے مادی دنیا اور ظاہری اشیا کی حقیقت کو زیادہ تر جان سکتا ہے اور فوائد حاصل کرسکتا ہے۔ لیکن انسان کی فطرت او رانسان کی روح ہماری سمجھ سے بالا تر ہے ۔ یہی سبب ہے جو الله تعالیٰ نے اپنے رحم وکرم سے ہماری طرف پیغمبر بھیج کر ہمیں سیدھی راہ دکھائی۔ دیکھیں کہ یورپی اقوام نے ظاہری علوم وفنون اورایجادات میں کتنا کمال کر دکھایا! پھر بھی ابھی تک انہیں پتہ نہیں ہے کہ شراب اورسود خوری کتنا نقصان ہے۔ کچھ تو ایسے بھی ہیں جو زنا وغیرہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے ہیں، مگر کچھ تو ظاہر ظہور ننگے رہتے ہیں، کچھ ایسے بھی ہیں جو شادی کرنے کے خلاف ہیں، ان کا خیال ہے کہ جس سے دل چاہیجنسی تعلقات اختیار کریں اورشادی کی پابندیوں سے آزاد رہا جائے، وہ اتنا بھی سمجھ نہیں سکتے کہ شادی کا دستور ہمیں الله تعالیٰ نے پیغمبروں کے وسیلے سے سکھایا۔ اس پر اگر عمل نہیں کرتے تو ہماری حالت وحشی جانوروں سے بھی خراب ہوتی۔
آج کل کے دہرئیوں کو اتنا بھی علم نہیں ہے کہ جن اچھی باتوں پر عمل کرکے ہم دنیا میں خوش رہتے ہیں وہ بھی الله تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کی معرفت ہمیں سکھائی ہیں، مثال کے طور پر حضرات موسیٰ علیہ السلام کے مشہور دس قانون، جن پر عمل کرکے بنی اسرائیل نے ترقی کی وہ بھی الله تعالیٰ نے سکھلائے، ورنہ ایسے قوانین جو آج آسان سمجھے جاتے ہیں وہ بھی گزشتہ ادوار کے لوگوں کو پوری طرح معلوم نہ تھے، مثال کے طور یہاں تین قانون دیے جاتے ہیں ۔
آپ چوری نہ کریں گے، خونریزی نہیں کریں گے، اپنے پڑوسی کی بیوی کو نہیں تاڑیں گے۔
اس وقت یورپ کے لوگ کامل آسمانی ہدایتوں کے نہ ہونے کی وجہ سے کتنی ہی ( سراسیمگی کا شکار ہو کر) حیران وپریشان ہیں۔ شادی ، طلاق، ورثہ وغیرہ کے قانون روز بہ روز نئے بناتے ہیں، اس کے باوجود (برائیوں) خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ نہیں سکتے۔
مسلمانوں کی حالت نہایت ہی درد ناک ہے ۔ اسلام ہے، علم اور نیک اخلاق دونوں باتیں مسلمانوں میں نہیں ہیں علم کا حال یہ ہے کہ100 میں سے بمشکل05 ایسے ہوں گے جو لکھنا پڑھنا جانتے ہوں گے، پھر ان میں سے 80 یا 90 فی صد ایسے ہوں گے جن کو کلمہ شریف(لا الہ الا الله محمد رسو ل الله) کے معنی بھی نہیں آتے ہوں گے۔ یوں کہیں کہ انہیں اسلام کی الف ب کی بھی خبر نہیں ہے ۔ افسوس تو یہ ہے کہ جن پیروں اور عالموں پر انحصار دوسروں کا ہے وہ بھی کلمہ شریف کے معنی نہیں سکھاتے، خواندہ ایک ہزار مسلمانوں میں سے بمشکل پانچ ایسے ہوں گے جو قرآن شریف کو معنی کے ساتھ پڑھتے ہوں گے، صحابہ کرام نہ صرف قرآن شریف سیکھتے اور سمجھتے تھے، لیکن زیادہ زور اس پر عمل کرنے کا دیتے تھے ۔ آج کے مسلمانوں نے قرآن شریف کو بالکل چھوڑدیا ہے۔
یہی سبب ہے جو ہمارے اعمال اور اخلاق بالکل خراب ہو گئے ہیں ، جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہم ذلیل اور غلام ہو گئے ہیں اور غیر قوموں اور زور آوروں کی تابع داری کرکے خدا اور خدا کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کر رہے ہیں، شروع کے مسلمان جھوٹ، فریب، عہد شکنی، وعدہ خلافی بالکل نہیں کرتے تھے، وہ سمجھتے تھے کہ جھوٹ وغیرہ ایمان کی ضد ہیں، اس لیے خود کافروں کو بھی یقین ہو گیاتھا کہ کوئی بھی مسلمان کبھی بھی جھوٹ نہیں بولے گا، نہ فریب کرے گا ، نہ عہد شکنی یا وعدہ خلافی کرے گا، آج کے مسلمان فقط نام کے مسلمان ہیں، وہ مسلمان فقط اس لیے کہلاتے ہیں کہ ان کے باپ دادا مسلمان تھے، ورنہ انہیں ذرا بھی علم نہیں ہے کہ اسلام کیا ہے؟
حضرت رسول علیہ الصلاة والسلام نے فرمایا ہے کہ بہشت میں وہ جائے گا جس کے اخلاق اچھے ہوں گے اور میں اس لیے نبی بنا کر بھیجا گیا ہوں کہ اخلاقی خوبیوں کو بلندیوں پر پہنچاؤں، مگر آج کے مسلمانوں کی اخلاقی حالت ناگفتہ بہ ہے ( اس لیے کہ) ہیرا منڈی، جیل خانے اور پینے پلانے کی جگہیں مسلمانوں سے پُر ہیں، قسم اٹھا کر جھوٹی گواہی دینے والے اکثر مسلمان ہیں۔جھوٹ، دغا، فریب، عہد شکنی، وعدہ خلافی، گالیاں دینا، غیبت کرنا، لڑنا، جھگڑا فساد کرنا، پرایا حق کھانا، چوری کرنا، ڈاکے ڈالنا، خون کرنا، عورتوں کو ورغلانا، گھر میں بٹھانا، سستی، کاہلی اور بیکاری، بھیک مانگنا اور دوسروں پر بار ہونا، اسراف اور بیکار خرچ کرنا، مرغے اور تیتر لڑانا، میلوں میں جانا، ناٹک اور سینما دیکھنا، شکار کرنا، چھٹی، ختنہ، شادی وغمی کے موقع پر گھر لٹانا، دور دراز سفر کرکے قبروں پربرات لے جانا۔ ایسی اور دیگر تباہ کرنے والی بہت سی خرابیاں ہم مسلمانوں میں ہیں۔
تو پھر ہم کیوں نہ دنیا اور آخرت میں ذلیل وخوار ہوں گے؟!
مندرجہ بالا مضمون” ہم کس طرح ترقی کر سکتے ہیں ؟“ اوربھی طویل ہے، لیکن میں نے الوحید اخبار ( سندھی) کے سندھ آزاد نمبر کے شکریہ کے ساتھ کچھ حصہ نقل کیا ہے، تاکہ نئی پود ونسل کو آگہی حاصل ہو اور بڑوں کو پتہ چلے کہ1936ء میں مسلمانوں کی حالت زار کیسی تھی اور انگریزوں کے دورِ حکومت میں مسلمان کون کون سی برائیوں میں گھرے ہوئے تھے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 1936ء کی ذکر شدہ برائیوں کا اس وقت خاتمہ ہو سکا ہے یا نہیں ؟ 73 سال گزرنے کے بعد بھی سندھ صوبہ اور پاکستان کے دیگر صوبے انہیں برائیوں میں گھرے ہوئے ہیں؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ انگریزوں کے دور میں مسلمانوں کی جو عادت اور حالت تھی ، کیا اس میں کوئی سدھار آیا ہے جس کی بنیاد پر یہ سمجھا جائے کہ یہ پاکستانی مسلمان اب طاقت ور ہو سکے گا؟
حقیقت اس کے برعکس ہے برائیاں گھٹی نہیں ہیں، بلکہ ہمارے معاشرے اور سماج میں برائیوں میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
اب اگر ہم سینما کی برائی کو لے لیں ، جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے تو یہ اب بڑھ کر، پروان چڑھ کر، کالا ناگ ہو چکی ہے، جس نے بھلائی اور بہبود کے راستوں کو بند کر دیا ہے ، اس وقت سینما ہال تقریباً ختم ہو چکے ہیں مگر اس کی جگہ پر ہر ایک گھر میں، ہر ایک ہوٹل میں ، ہر ایک بیٹھک میں، گویا ہر جگہ پر کیبل اور نیٹ اور ڈش انٹینا کے ذریعے ٹیلی ویژن اور دیگر اسکرینوں پر تقریباً سب زبانوں میں فلمیں اور ڈرامے دن رات دکھائے جاتے ہیں ، چوبیس گھنٹے ایسے ہی بیکار پروگرام چالو رہتے ہیں، جس کو دیکھنے سے جو برے اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ اب نمایاں ہوتے جارہے ہیں، اس کے علاوہ مندرجہ بالا مذکورہ عام برائیوں کو دیکھیں جیسا کہ فریب، دغا بازی عہد شکنی وغیرہ جو 1936ء کے مسلمانوں میں تھیں وہ اب بڑھ کر جھاڑ سے درخت بن چکی ہیں، جس کا کڑوا کسیلا اور زہر جیسا پھل اور میوہ کھانا ہمارا مقدر ہو چکا ہے ۔ مزید برآں یہ کہ اس درخت کے نیچے اس کی جڑ میں چوری اور لوٹ مار کا دھن ودولت دفن ہے، جس کی حفاظت بدکردار سیٹھ اور سردار اور سرکاری ملازمین سانپ بن کر، کر رہے ہیں، اس لیے سڑا، سوکھا اور مایوسی والا ماحول پیدا ہو چکا ہے ۔ سچائی، پیار، انسانیت ومحنت رخصت ہو چکی ہیں ،باقی پیچھے مایوسی ناامیدی رہ گئی ہے، جس نے بے حسی اور بے غیرتی کو بڑھایا ہے، اس لیے اب عزت دار خاموش اور خوف زدہ ہے۔

Flag Counter