Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانیہ 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 16
***
نافرمانی کا انجام
مولانا محمدطارق جمیل
میرے بھائیو اور دوستو! الله تعالیٰ نے یہ جہاں نہ بے کار بنایا… نہ باطل بنایا… نہ کھیل کود کے لیے بنایا… پھر ہمیں بھی نہ بے کار بنایا، نہ ہمیں چھوڑ دیا کہ جو مرضی کرو … نہ بالکل آزادانہ اختیار دیا ہے … خبر دی ہے ﴿ ولا تحسبن الله غافلا عما یعمل الظالمون﴾ تمہارے ظلم سے تمہارا رب غافل نہیں … ظالم ظلم کر رہا ہے کوئی پکڑتا نہیں … کیا اس اندھیرے میں کوئی ہے … نہیں … نہیں … اس اندھیرے میں کو ئی نہیں ہے … دنیا اور آخرت سنسان ہو رہا ہے … لیکن دیکھنے والا دیکھ رہا ہے … ایک دن تیری گردن کو مروڑ دے گا… سارے بل نکل جائیں گے … پھر انسان جو کچھ اعمال کرتا ہے ، ان سب کی الله تعالیٰ خبر دے رہا ہے۔
الله تعالیٰ سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں
”کمرے میں بند ہو گیا، کنڈیاں لگا دیں، پردے لگا دیے… کہ اب تو کوئی نہیں دیکھ رہا … اُسے توکوئی نہیں دیکھ رہا … اب اس کو الله نے خبر دی …﴿مایکون من نجوی ثلثة الا ھورابعھم﴾… تم تین بیٹھے ہوئے ہو تو چوتھا الله ہے …﴿ ولا خمسة الاھوسادھم﴾… تم پانچ ہو تو چھٹا الله ہے … ﴿ولا ادنی من دون ذالک﴾ اس سے تھوڑے ہوں … پانچ… چار … تین … دو … ایک ﴿والا اکثر﴾ پانچ سے پانچ ہزار ہوں ﴿الا ھو معھم این ماکانوا﴾ تمہارا رب تمہارے ساتھ ہے ﴿ثم ینبئھم بما عملوا﴾ پھر جو کچھ تم نے کیا ایک دن تمہیں دکھا دے گا… کہ یہ کیا تھا تم نے… پھر الله تعالیٰ کہہ رہے ہیں۔
﴿واسرواقولکم﴾ آہستہ بولو… اواجھروابہ… زور سے بولو… انہ علیم بذات الصدور… وہ تمہارے دل کے اند رکو بھی جانتا ہے … ﴿و نعلم ماتوسوس بہ نفسہ﴾ … کچھ باتیں ایسی ہیں جو آدمی اپنے دل ہی دل میں کرتا ہے … جس کو وہ خود بھی نہیں سنتا، نہ اس کے کان سنتے ہیں … تو پرایا کیسے سنے گا وہ تو خود نہیں سن رہا ؟
اس کوحدیث النفس کہتے ہیں … اور اس کو اخفا کہتے ہیں ۔
توالله تعالیٰ یہ کہہ رہے ہیں … کہ جو تم اپنے آپ سے باتیں کرتے ہو … میں اس کو بھی سنتا ہوں … اب الله تعالیٰ سے کوئی بات کیسے چھپے؟ خیال میں بھی نظریوں اٹھی یا یوں اٹھی کہ فرشتوں کو بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ یہ بد نظر ہے … یا اچھی نظر ہے یا برائی کی نظر سے دیکھا یانیک نظرسے دیکھا… کسی کو عزت سے دیکھا … کسی بھی چیز کو دیکھا۔ فرشتوں کو بھی پتہ نہیں چلتا … ذہن میں جو باتیں گھوم جاتی ہیں … جس کے ساتھ چالاک بنتے ہیں… الله تعالیٰ اس کو الگ سمجھارہا ہے۔
﴿یعلم خائنة الاعین﴾… کہ تمہاری نظر غلط ہوئی … تیرے رب نے اس کو بھی دیکھ لیا ﴿ وما تخفی الصدور﴾ نظر کے غلط ہونے سے دل میں غلط خیال آیا … اس کو بھی الله تعالیٰ تعالیٰ نے دیکھ لیا … اور پکڑ لیا … جو کچھ انسان کر رہا ہے … ﴿ویعلم ماجرحتم بالنھار﴾… دن میں جو کچھ تم کرتے ہوں الله تعالیٰ جانتا ہے۔
﴿سواء منکم من اسر القول ومن جھر بہ ومن ھو مستخف بالیل وسارب بالنھار لہ معقبات من بین یدیہ ومن خلفہ یحفظونہ من امرالله﴾․
یہ نہیں کہ روشنی ہو گی تو الله تعالیٰ کو پتہ چلے گا … یا لاؤڈ اسپیکر کا اعلان ہو گا تو الله تعالیٰ کو پتہ چلے گا، الله تعالیٰ یہ نہیں فرمارہے… کہ تم زور سے بولو… تم آہستہ بولو … بلکہ الله تعالیٰ نے وہ سب کچھ سنا جو تم نے دن میں کہا … الله تعالیٰ نے وہ سب کچھ دیکھا جو تم نے رات کو کیا… الله نے دیکھا … مستخف بالیل … رات تو چھپی ہوئی ہے … وسارب بالنھار… دن میں کر رہا ہے … الله پاک کے ہاں رات کا اندھیرا… اور دن کی روشنی برابر ہے … الله تعالیٰ کے لیے اندر کمرے میں آدمی اکیلا او رایک لاکھ کا مجمع برابر ہے… الله تعالیٰ کے لیے سمندر کے نیچے کی دنیا اور عرش کے اوپر کی دنیا برابر ہے … جیسے وہ جبرائیل کو دیکھا رہا ہے ۔ اسی طرح … اس زمین پر چلنے والی چیونٹیوں کو بھی دیکھ رہا ہے… اور وہ جبرائیل اسرافیل میکائیل کو بھی سنتا ہے … اور سمندر میں تیرنے والی مچھلیوں کی بھی سنتا ہے … اور وہ اپنی جنت کو اپنے سامنے دیکھ رہا ہے… اس کے سامنے دور اور قریب برابر ہے … بلکہ دور قریب کچھ نہیں سارا ہی قریب ہے … وہ اپنی ذات میں اتنا دور ہے کہ لاتراہ العیونکہ آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں … پھر آنکھ تو بس یہاں تک دیکھتی ہے … لا تخالطہ الظنون… کہ آدمی خیال کرے یا تصور کرے… پھر اس کو بھگائے دوڑائے، الله تعالیٰ یہی کہتا ہے … کہ تمہارا خیال بھی الله تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتا ہے … بھئی! جب الله تعالیٰ اتنا دور ہو گیا تو کام کیسے بنے گا… تو یوں ارشاد فرمایا اس کا اوپر ہونا اسے تم سے دور نہیں کرتا۔
﴿نحن اقرب الیہ من حبل الورید﴾… وہ تمہاری شہ رگ سے زیادہ تمہارے قریب ہے ، تو سارا جہاں اس کے سامنے برابر ہے … ظالم ظلم کر رہا ہے اور مظلوم ظلم سہہ رہا ہے… عادل عدل کر رہا ہے … اور ظالم ظلم کر رہا ہے … دیانت دار دیانت سے چل رہا ہے … بددیانت بددیانتی کر رہا ہے … پاک دامن اپنی عزت کے ساتھ چل رہا ہے … حرام کھانے والا حرام میں چل رہا ہے … حلال کھانے والا اپنی ضرورتوں میں پس رہا ہے ۔
میرے بھائیو! اپنے اعمال درست کر لو، ورنہ الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں جگہ جگہ پچھلی قوموں کا تذکرہ کیا ہے … اس کا مقصد قصے کہانیاں بیان کرنا نہیں ہے، بلکہ ہمیں تنبیہ کرنا ہے … کہ اپنی حرکتوں کو درست کر لو … ورنہ تمہارا بھی ایسا ہی انجام نہ ہو جائے ۔
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے : 
ایک قوم تم سے پہلے آئی نوح علیہ السلام کی … جنہوں نے زمین کو کفر سے بھر دیا، وہ میرے نبی سے کہنے لگے ۔
﴿فائتنا بما تعدنا ان کنت من الصٰدقین﴾․
وہ عذاب لاؤ جس سے تم ہمیں ڈراتے تھے … جس کا تم نے وعدہ کیا ہوا ہے، پھر وہ دن آیا ۔
﴿ففتحانا ابواب السماء بماء منھمر وفجرنا الارض عیونا فالتقی الماء علی امر قد قدر﴾․
ہم نے پوری زمین کو چشمہ بنا دیا ، روئیں روئیں سے پانی ابلنے لگا ، آسما ن سے پانی گرا… زمین سے نکلا اور ساری کائنات میں وہ پانی پھیلا۔
اگر الله تعالیٰ رحم کرتا تو 
ایک تفسیر میں میں نے پڑھا … کہ اگر الله تعالیٰ اس دن کسی پہ رحم کرتا تو ایک عورت پر رحم کرتا جو بچے کو لے کر بھاگ رہی تھی کہ کوئی جائے پناہ ملے او رمیں بچ جاؤں … اور وہ بھاگتے بھاگتے ایک اونچے پہاڑ پر چڑھی … جس سے اونچا پہاڑ کوئی نہیں تھا، پیچھے سے پانی آیا، اس نے پہاڑ کو جوڈبویا۔
پھر پانی اس کے پاؤں پر چڑھا… پھر اس کے سنیے پر آیا … پھر اس نے بچے کو اوپر کر لیا۔
پھر اس کی گردن تک آیا … تو اس نے بچے کو یوں اپنے سر سے اوپر کر لیا … شاید بچہ بچ جائے۔
لیکن پانی کی موج نے … نہ بچے چھوڑے… نہ بڑے چھوڑے… سب کو برابر کر دیا … یہاں تک کہ نوح کے اپنے بیٹے کو الله تعالیٰ نے ان کے سامنے غرق کر دیا۔
﴿وحال یبنھم الموج فکان من المغرقین﴾
تین آدمی ایک غار میں چھپ گئے اور اوپر سے پتھر رکھ لیا کہ یہاں پانی نہیں آئے گا … چاروں طرف جو پانی کا تماشا دیکھا … تو اندر بیٹھ گئے … تھوڑی دیر میں تینوں کو تیز پیشاب آیا… اور بے قرار ہو کر پیشاب کرنے بیٹھے … الله تعالیٰ نے پیشاب کو جاری کر دیا اور وہ پیشاب کرتے کرتے … اپنے ہی پیشاب میں غرق ہو کے مر گئے … جو کام قوم نوح کرتی تھی وہ کام آج ہو رہے ہیں … ساری دنیا میں ہو رہے ہیں ۔
قوم عاد کی تباہی
قوم عاد کتنی بڑی، طاقت ور یہاں تک کہ للکارنے لگے ﴿من اشد منا قوة﴾ کوئی ہے ہم سے بڑا تو لاؤنا… ہمیں کس سے ڈراتے ہو ؟
﴿ان نقول الا اعتراک بعض الھتنا بسوء﴾ ہمارے خدا نے تیری عقل خراب کر دی ہے … ہم سے بڑا کوئی طاقت ور نہیں ہے ۔
تو الله تعالیٰ نے فرمایا:﴿ اولم یروا ان الذی خلقھم ھو اشد منھم قوة﴾․
اے ہود !ا نہیں بتاؤ جس نے تمہیں پیداکیا وہ تم سے زیادہ طاقت ور ہے۔
تو جب الله تعالیٰ کی طرف سے وہ حجت پوری ہوئی … اور وہ اپنے تکبر میں بڑھتے رہے … نافرمانی میں بڑھتے رہے … تو الله تعالیٰ نے عذاب کا دروازہ کھولا… قحط آگیا۔
انسان ایسے بھوکے… اور وہ انسان ہماری طرح تو نہیں تھے … بلکہ چالیس ہاتھ قد ہوتا تھا … تیس ہاتھ قد ہوتا تھا… آٹھ سو سال … نو سو سال عمر ہوتی تھی … نہ بوڑھے ہوتے تھے … نہ بیمار ہوتے تھے … نہ دانت ٹوٹے، نہ کمزو رہوں … نہ نظر کمزور ہو … جو ان تندرست وتوانا… صرف موت آتی تھی … اس کے علاوہ انہیں کچھ نہیں ہوتا تھا۔
اب ان کو بھوک بھی زیادہ لگی … اور وہ اپنی ضرورتوں کا غلہ بھی کھا گئے … حلال بھی کھا گئے … حرام بھی کھا گئے … پھر کتے بھی کھا گئے … بلے بھی کھا گئے … چوہے بھی کھا گئے … جو چیز ہاتھ میں آئی … سانپ بھی کھا گئے،ہر چیز کھا گئے… پر نہ بارش کا قطرہ گرانہ زمین کا دانہ پھوٹا… یہاں تک کہ درخت توڑ توڑ کے ان کے پتے بھی چبا گئے… قحط دور نہ ہوا۔
تو پھر انہوں نے ایک وفد بیت الله بھیجا کہ ہمیں بارش دو … تو جب مصیبت آتی تھی اوپر والے کو پکارتے تھے … جب وہ کام کر دیتا تھا پھر سرکش ہو جاتے تھے، پھر انہیں پتھروں کوپوجتے تھے … تو الله تعالیٰ نے تین بادل سامنے کیے آواز آئی … ان میں سے ایک کا انتخاب کرو … ایک سفید… ایک سرخ … ایک کالا۔
تو آپس میں کہنے گلے سفید تو خالی ہوتا ہے … سرخ میں ہوا ہوتی ہے … کالے میں پانی ہوتاہے … انہوں نے کہا یہ کالا بادل چاہیے۔
آواز آئی کہ پہنچے گا … یہ واپس پہنچے… انہوں نے کہا بارش ہو گی تو پھر جب ساری قوم اکٹھی ہوئی … تو الله تعالیٰ نے دوبارہ بادل بھیجا۔
﴿فلما رآوہ عارضا مستقبل اودیتھم﴾ وہ کالا بادل آیاکہنے لگے۔ ﴿ھذا عارض ممطرنا﴾وہ دیکھو آئی بارش ! الله تبارک وتعالیٰ نے کہا … بل ھو ما استعجلتم بہ ﴾
یہ بارش نہیں ہے … یہ وہ عذاب ہے جو تم ہود سے کہتے تھے کہ کون ہے ؟ ہم سے بڑا… جو ہمیں کچھ کرے؟… اب تیار ہو جاؤ۔
﴿ریح فیھا عذاب الیم تدمر کل شیء بأمر ربھا﴾
اب دیکھو کیسے تمہارا رب تمہیں اڑاتا ہے… ان کے گھرں کو ہوا نے اڑا دیا … ان کو ہوانے اڑا دیا … ساٹھ ساٹھ ہاتھ اونچے قد کے لوگ اور تنکے کی طرح ہوا میں اڑ رہے تھے … ان کے سروں کو آپس میں ہوا ٹکرا رہی تھی … وہ گھومتے تھے … سر ٹکراتے تھے۔
بعض لوگ بھاگ کے غاروں میں چھپ گئے … تو ہوا کا بگولہ ایسے زوردار طریقے کے ساتھ غار کے اندر ہو جاتا او رپھر ایک دھماکے کے ساتھ ان کوباہر نکالتا، پھر ان کو ہوا میں اچھال دیتا گیند کی طرح … پھر ان کے سر آپس میں ٹکراتے۔
ان کی کھوپڑیاں پھٹ گئیں… اور ان کے بھیجے ان کے چہروں پہ نکل آئے… اور پھر الله تعالیٰ نے الٹا کے ان کو زمین پہ دے مارا… سر الگ ہو گیا… دھڑ الگ ہو گیا… پھر الله تعالیٰ نے للکار کر پوچھا۔
﴿فھل تری لھم من باقیة﴾
کوئی ہے باقی تو دکھاؤ!
کہ اس کا بھی صفایا کردوں… کوئی نظر نہ آیا … سب کو الله تعالیٰ نے مٹا دیا … جو کام قوم عاد کرتی تھی … وہ کام آج فیصل آباد میں ہورہے ہیں۔
قوم ثمود کی نافرمانی او رہلاکت
پھر ایک قوم ثمود آگئی … انہوں نے سنا تھا کہ عاد کو ہوا نے اڑا دیا تھا … تو انہوں نے پہاڑ کے اندر گھر بنا لیے کہ اندر کون ہمیں کچھ کہے گا… اند تو ہوا جاہی نہیں سکتی… جائے گی بھی تو کہاں تک اندر جائے گی … نافرمانی نہیں چھوڑی، اکیلے کام کو چل پڑے تو الله تبارک وتعالیٰ نے ہوا نہیں بھیجی … ایک فرشتہ آیا۔
﴿مکروا مکرا﴾ انہوں نے مکر کیا ﴿ومکرنا مکرا﴾ ہم نے ان کے مکر کو توڑ دیا﴿فانظر کیف کان عاقبة مکرھم﴾ آج ان کا انجام دیکھو۔
﴿انا دمرنھم وقومھم اجمعین فتلک بیوتھم خاویة بما ظلمواان فی ذلک لآیة لقوم یعلمون وانجینا الذین اٰمنوا وکانوا یتقون﴾․
الله تعالیٰ نے کہا کہ یہ دیکھو … ایک فرشتہ آیا، اس نے چیخ ماری … اور ان کے کلیجے پھٹ گئے… چہرے نیلے اور کالے ہو گئے … اور ساری قوم کو الله تعالیٰ نے آن کی آن میں ہلاک کرد یا۔
قوم شعیب علیہ السلام کا انجام
پھر قوم شعیب علیہ السلام کا الله تعالیٰ نے قصہ سنایا … یہ تاجر قوم تھی، فیصل آباد کے بازاروں میں جو ناپ تول میں کمی ہے، وہ وہاں ہو رہی تھی … جو جھوٹ ہے وہ وہاں چل رہا تھا … دکھانا اور، دینا اور یہ وہاں چل رہا تھا … سارا کام جو کچھ ہو رہا ہے … وہ وہاں ہوا… اور بڑھتا گیا … اور ساری دنیا کی تجارت انہوں نے اپنے قبضے میں کر لی … اور شعیب علیہ السلام نے کہا … کہ بھائی اس سے باز آجاؤ۔
﴿اوفواالکیل وزنوابا لقسطاس المستقیم﴾
صحیح تولو… ناپ تول میں کمی نہ کرو … جواب آیا
اے شعیب! تو مسجد میں بیٹھ جا… ہمارے کاروبار میں دخل نہ دے… یہ تیری نمازیں ہمیں کہتی ہیں کہ ہم باپ دادا کا طریقہ چھوڑ دیں… اور ہم اپنے کاروبار تیرے طریقے پر کریں تو ہم تو تیرے ہو جائیں ۔
اگر کسی سے آپ کہیں کہ بھئی دیانت سے تجارت کرو تو کہے گا کہ مجھ سے تو بجلی کابل بھی ادا نہیں ہو سکتا … میں روٹی کہاں سے کھلاؤں … میں نے ایک تیل والے سے کہا تم ملاوٹ کیوں کرتے ہو ؟ … اس نے کہا کہ اگر ملاوٹ کریں تو ایک ڈرم کے بچتے ہیں پانچ سو روپے اور پانچ سو روپے میں تو کتنے دن گزر جاتے ہیں … تو قوم شعیب نے کہا:
﴿اصلاتک تامرک ان نترک مایعبد اباؤنا او ان نفعل فی اموالنا مانشاء﴾․
اے شعیب! اپنے گھر بیٹھ جا… ہمیں تیری تبلیغ نہیں چاہیے … ہمیں اپنا کاروبار کرنے دے۔
تو الله تعالیٰ نے اس قوم پہ تین عذاب مارے … جوپہلی کافر قومیں تھیں ان پر ایک ایک عذاب آیا … یہ کافر کے ساتھ بددیانت بھی تھے … لوگوں کا حق بھی لوٹتے تھے … الله تعالیٰ نے ان پر تین عذاب مارے۔
اخذتھم الرجفة… زلزلہ
اخذالذین ظلموا الصیحة… چیخ
اخذھم عذاب یوم الظلة… انگاروں کی بارش
ہماری جماعت حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کے علاقے میں گئی ہے وہ اتنا ٹھنڈا علاقہ ہے کہ ہم وہاں سے گزرے تو وہاں تقریباً تین تین فٹ برف پڑی ہوئی تھی، ایسا ٹھنڈا علاقہ ہے۔
الله تعالیٰ نے ایک گرم ہوا بھیجی وہ جھلس گئے … تڑپ گئے … آبلے پڑ گئے … تو اس کے بعد ایک دم ہوا ٹھنڈی ہوئی … تو سارے بھاگ کے باہر آئے… کہ شکر ہے ٹھنڈی ہوا آئی… اوپر سے بادل آیا… کہا شکر ہے بادل آیا … اس کے ساتھ ہی زمین میں زلزلہ آنا شروع ہوا … اور اس کے اوپر فرشتے کی چیخ آئی … اور اوپر وہ بادل کالا ایک دم سرخ ہو گیا … پھر اس میں سے ایک دم بڑے بڑے انگارے برسے!
اور ساری حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کو اور مدین کی منڈی کو الله تعالیٰ نے جلا کر راکھ کر دیا، اگر یہ بازاروں والے توبہ نہیں کریں گے … تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں ان منڈیوں پر بھی وہ انگارے نہ برس جائیں جو مدین کی قوم پہ برسے تھے… الله تعالیٰ کی کسی سے رشتے داری نہیں ہے۔
ہم آزاد نہیں
میرے بھائیو اور بہنو! ہم آزاد نہیں ہیں ﴿افحسبتم انما خلقنکم عبثا﴾ میرے بندو! تمہیں کیا ہو گیا ہے ؟ کیسے زندگی گزار رہے ہو کہ جیسے تمہیں آزاد پیدا کیا گیاہے، تم پر کوئی نگہبان نہیں ہے؟ … تمہیں خبر نہیں ہے کہ ﴿مایلفظ من قول الالدیہ رقیب عتید﴾ تمہاری زبان کا ہر بول میں لکھا رہا ہوں ﴿بلی ورسلنا لدیھم یکتبون﴾میرے فرشتے ہر بول کو لکھ رہے ہیں … اور الله تعالیٰ کی کھلی کتاب ہمیں بتا رہی ہے … کہ تمہارا ہر بول لکھا جاتا ہے ﴿یعلم خائنة الاعین﴾ تمہاری آنکھ دیکھتی ہے وہ بھی لکھا جاتا ہے﴿وماتخفی الصدور﴾ تمہارے اندر غلط جذبات پیدا ہوتے ہیں وہ بھی لکھا جاتا ہے ﴿وماخلقنا السماء والأرض وما بینھما لعبین﴾… زمین وآسمان اور جوکچھ اس میں ہے میں نے کوئی کھیل کود کے لیے تو نہیں پیدا کیا ﴿لو اردنا ان نتخذ لھواً لاتخذنہ من لدنا﴾ اگر مجھے کھیل تماشہ بنانا ہی ہوتا اپنے پاس بناتا، تمہیں پیدا میں نے اس لیے تھوڑا ہی کیا ہے ۔ (جاری ہے)

Flag Counter