Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2017 ء

امعہ دا

42 - 65
’’اور چاہیے کہ اس قدیم گھر کا طواف کریں‘‘۔
	اسی طرح رکن یمانی کے استلام کرنے اور حجرِ اسود کو بوسہ دینے میں بھی متابعت کا جذبہ پایا جاتا ہے، تب ہی تو عمر فاروقؓ نے کہا تھا:
اِنِّیْ اَعْلَمُ اَنَّکَ حَجَرٌ لَا تَضُرُّ وَلَا تَنْفَعُ وَلَوْلَا اَنِّیْ رَأَیْتُ النَّبِیَّﷺ یُقَبِّلُکَ مَا قَبَّلْتُکَ (البخاری:۱۵۹۷) 
’’میں جانتا ہوں کہ تو ایک پتھر ہے، نہ نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ نقصان، اگر میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بوسہ لیتے نہ دیکھا ہوتا تو میں تجھے بوسہ نہ دیتا‘‘۔
	پھر صفا ومروہ کی سعی، طواف کی دو رکعت نماز، یومِ عرفہ کی دعا اور یوم النحر کی قربانی سب کی سب توحید کا سبق دیتے ہیں۔
جذبہ عبدیت کی آبیاری
	حج میں جذبہ بندگی کی آبیاری ہوتی ہے، ایک حاجی اللہ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑتاہے، سفر کی مشقتیں برداشت کرتا ہے، اس سفر میں زیادہ تر ذکرالٰہی میں مشغول رہتا ہے، احرام کی چادریں پہنتا ہے تو وہ موت کو یاد کرتا ہے، کفن کو یاد کرتا ہے، اب اسے احساس ہوتا ہے کہ ایک ایسے ہی مجھے مرنا ہے، مجھے لوگ نہلائیں گے، کفن پہنائیں گے اور قبر کی گود میں سلا دیں گے، غرض یہ کہ اس کا ایک ایک لمحہ اللہ کی یاد میں بسر ہوتا ہے، اس طرح اس کا باطن بالکل پاک وصاف ہو جاتا ہے۔ 
مکارمِ اخلاق کی تربیت
	حج میں اچھے اخلاق پر ایک حاجی کی تربیت ہوتی ہے، وہ صبروتحمل سیکھتا ہے، بردباری سیکھتا ہے، اس کے اندر سخاوت پیدا ہوتی ہے، عفت پیدا ہوتا ہے، معاف کرنے کاجذبہ پیدا ہوتا ہے، اللہ پاک نے فرمایا:
فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَلَا فُسُوْقُ وَلَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ ( البقرۃ:۱۹۷) 
’’جو شخص ان مقرر مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران اس سے کوئی شہوانی فعل، کوئی بدعملی، کوئی لڑائی جھگڑے کی بات سرزد نہ ہو‘‘۔
	 یہ وہ موسم ہے جس میں انسان مکارمِ اخلاق پر تربیت حاصل کرتا ہے۔


Flag Counter