Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2017 ء

امعہ دا

37 - 65
 مولانا سید محمد واضح رشید حسنی ندوی

موجودہ دور میں مسلم دانشوروں کی ذمہ داری

	مغربی سامراج کے مہد میں مغرب سے ثقافتی اور فکری سطح پر تاثر کے نتیجے میں بعض مسلم اہل قلم نے مشرق کے سلسلے میں ناقدانہ موقف اختیار کیا اور مغرب کے سلسلے میں کامل تقلید کا، انہوں نے ہر مغربی فکر کو سراہا اور ہر مشرقی چیز کی مذمت کی، ادیبوں، ناول نگاروں، قصہ نویسوں اور افسانہ نگاروں نے اپنے معاشرے کی نہایت گھنائونی شکل پیش کی، سوسائٹی میں جتنی بھی برائیاں تھیں انہیں ایک ایک کر کے چن لیا اور اسے اپنی ادبی تحقیقات میں نہایت وسیع پیمانہ پر اور خوب بڑھا چڑھا کر پیش کیا، مشرقی معاشرے کی یہ تصویر اتنی تاریک تھی کہ خود مشرقی ذہنوں میں اس سے نفرت پیدا ہوئی، اہل قلم نے اپنے اس رویہ کی یہ تاویل پیش کی کہ اس طرح مشرقی معاشرے کی برائیوں اور کمزوریوں کو نمایاں کر کے اور دوسرے معاشرے کے محاسن اور خوبیوں کے پہلوئوں کو اجاگر کر کے مشرقی معاشرے کی برائیوں اور کمزوریوں کی اصلاح اور علاج ہو سکے گا، اس لیے کہ انسان کو جب اس کی شخصیت کو داغدار کرنے والی چیزوں اور دوسروں کی عزت و وقار کو چار چاند لگانے والی چیزوں کا علم ہوتا ہے تو وہ دوسروں کی خوبیوں کو اختیار کر کے اپنے اخلاق و سلوک اور موقف میں بہتری لانے کی زیادہ قدرت رکھتا ہے۔
	ممکن ہے کہ یہ تاویل بعض ادیبوں کے حق میں صحیح اور درست ہو اور بعض اہل قلم کے اخلاص و ذہانت پر شک بھی نہیں کیا جا سکتا ہے، مگر محض کسی کے برے پہلوئوں کو پیش کرنے سے دو طرح کے رد عمل ظاہر ہوتے ہیں: ایک تو غضب و غصہ، دوسرا احساس کمتری اور مایوسی۔ مشرقی معاشرہ جذبات و تاثر کی ان دونوں قسموں سے گزررہا ہے، البتہ احساس کمتری کی راہ پر لے جانے والا ردعمل ماضی میں کچھ زیادہ اثر انداز رہا ہے، مشرقی ادیبوں اور قلم کاروں کی اس طرح کی تحریوں سے مغرب نے مشرقی قوموں کے دلوں پر اپنی عظمت و برتری کا سکہ بٹھانے اور اپنے طرز زندگی کو ان پر مسلط کرنے کے سلسلے میں کافی فائدہ اٹھایا ہے، اگرچہ یہ الزام عائد کرنا بھی انصاف کی بات نہیں کہ اس عہد کے تمام شعراء، دانشور اور اہل قلم مشرق بیزار اور مغرب پر فریفۃ تھے اور اپنے وطن، قوم اور معاشرہ کے لیے مخلص نہ تھے، لیکن یہ کہنا بھی بے جانہ ہو گا کہ ان کی اکثریت نے جو موقف اختیار کیا ہے وہ مرعوبیت کا موقف تھا اور ان کا یہ موقف غیر فطری عمل نہ تھا، بلکہ تہذیب و تمدن کے عروج و زوال اور فکر و نظر کے تصادم کی تاریخ کے ابتدائی مرحلے کا

Flag Counter