Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2017 ء

امعہ دا

41 - 65
	اس ترانے کو ایک حاجی پکارتا ہے اور اس کے مفہوم کو اپنے ذہن میں بٹھائے ہوئے یہ اعلان کرتا ہے کہ اے اللہ! میں حاضر ہوں، اے میرے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بے شک ہر قسم کی تعریف، اور ہر قسم کی نعمت اور ہر قسم کی بادشاہی تیرے ہی لیے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں، تیرے علاوہ ہم کسی کو نہیں پکارتے، تیرے علاوہ ہم کسی پر اعتماد نہیں کرتے، تیرے علاوہ ہم کسی کو حاجت روا اور مشکل کشا نہیں سمجھتے۔
	 یہ وہ تلبیہ ہے جو ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھایا ہے، ورنہ مشرکین بھی حج کرتے اور تلبیہ پکارتے تھے، ان کا تلبیہ کچھ یوں تھا:
لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ اِلَّا شَرِیْکًا ھُوَ لَکَ تَمْلِکُہٗ وَمَا مَلَکَ
’’اے اللہ! میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، سوائے اس شریک کے جس کا تو مالک ہے وہ مالک نہیں‘‘۔
	یعنی وہ بھی اللہ کو خالق ومالک اور کائنات پر حکمرانی کرنے والا مانتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ یہ شرکاء بھی پورا اختیار نہیں رکھتے، لیکن وہ اللہ کے قریبی ہیں، اللہ ان سے راضی ہے، ہم گنہگار ہیں، اس لیے ان کی کچھ عبادتیں کر لینے سے قیامت کے دن ہمیں ان کی سفارش نصیب ہو جائے گی، لیکن اللہ نے ان کے اس عقیدے کو بیان کیا:
وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَا اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی ( الزمر:۳) 
’’جو اللہ کے علاوہ دوسرے اولیاء بنا رکھے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ہم ان کی عبادت محض اس لیے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے زیادہ قریب کر دیں‘‘۔
دوسری جگہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَیَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّھُمْ وَلَا یَنْفَعُھُمْ وَیَقُوْلُوْنَ ھٰٓؤُلَآئِ شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰہِ(یونس:۱۸)
’’یہ اللہ کے سوا ان کی پرستش کر رہے ہیں جو ان کو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیںنہ نفع اور کہتے یہ ہیں کہ یہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں‘‘۔
	اس لیے ایک حاجی جب لا شریک لک کہتا ہے تو اسے چاہیے کہ اس لفظ کو اچھی طرح سمجھ لے، پھر جب ایک حاجی بیت اللہ کا طواف کرتا ہے تو وہاں اس کے سامنے اللہ کا یہ فرمان ہوتا ہے کہ:
	وَلْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ  ( الحج:۲۸) 
	

Flag Counter