قدرتی نتیجہ تھا، آج جو شخص بھی مغرب کے کسی ملک کا دورہ کرتا ہے اسے وہاں بعض خوبیوں کے ساتھ ساتھ برائیاں بھی نظر آتی ہیں اور خوبیوں میں زوال بھی نظر آتا ہے، حتیٰ کہ صفائی و ستھرائی، امانت داری و دیانت داری اور امن و امان جیسے امور بھی مغربی زندگی کی اب خصوصیت نہ رہے بلکہ دن بدن ان تمام میدانوں میں حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں اور روز بروز پرانے پیمانے ٹوٹتے نظر آ رہے ہیں اور قدیم سکے کھوٹے ثابت ہو رہے ہیں، غریبی وجہالت، فقر و بے روزگاری، تشدد و بنیاد پرستی، دینی عصبیت، مذہبی منافرت، فرقہ وارانہ فسادات صرف مشرقی زندگی کے خصائص یا مسائل نہ رہے، بلکہ ان مسائل اور مشکلات نے پورے یورپی معاشرہ کو اپنی زد میں لے رکھا ہے اور مشرقی یورپ میں تو اسے سکہ رائج الوقت کی حیثیت حاصل ہے۔
اس ضمن میں کچھ ایسی خرابیاں اور بیماریاں بھی ہیں جن میں یورپ کو قیادت عظمیٰ کا شرف حاصل رہا ہے، مثلاً انسانی ناموس کی پامالی، انسانوں کی زبوں حالی، نسل امتیاز، طبقاتی ناہمواری، انسانی حقوق سے انحراف، زبان و کلچر و تہذیب و ثقافت اور فکر و خیال میں سخت گیر رویہ، حقائق کا الٹ پھیر اور موقع پرستی و نفع اندوزی کی خاطر حادثات کی مصنوعی صورت حال پیدا کرنا، نیز مقاصد اور اغراض کے حصول کے لیے ناجائز وسائل و ذرائع کا استعمال وغیرہ، رہ گئیں اخلاقی برائیاں اور خرابیاں تو یورپ اس میدان میں پہلے سے ہی پسماندہ تھا، اس نے پہلا وار اخلاق ہی پر کیا، اسے عقلیت پسندی اور حقیقت پسندی کا بڑا دعویٰ تھا، عقلیت پسندی آج یورپ والوں کے لیے وبال جان بن چکی ہے، کبھی تو اس سے عاجز آکر لا معقولیت کا چولہ پہن لیتے ہیں اور یہ طریقہ بھی زندگی میں ایک مذہب و مسلک کی حیثیت اختیار کر چکا ہے، چنانچہ بڑے بڑے تعلیم یافتہ اور عقلاء اپنے وقت کا ایک بڑا حصہ لا معقولیت اور لا ابالی پن میں گزارنے لگے ہیں۔
یورپ کی وہ اجتماعی و انفرادی زندگی جس میں مغرب کا انسان اقدار روایات، معقولیت و اخلاقیت سے بالکل کٹ چکا ہے، یورپ کے سیاسی رجحانات اور میلانات کا جس نے بھی مطالعہ کیا ہے، وہ اچھی طرح جانتا ہے کہ یورپ اس وقت لا معقولیت کی طرف بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، یورپ کی سیاست کی بنیادیں، تحفظ مصالح اور مفادات کے تصورات پر استوار ہوتی تھیں لیکن مغرب کی موجودہ سیاست ان بنیادوں پر بھی الگ ہو چکی ہے، اب وہ انتشار و بدنظمی، لاقانونیت و انار کی کاشکار ہے، یورپ کی بیشتر حکومتیں گومگو اور شک و تردد، قوت ارادی کی کمزوری، غیر یقینی صورت حال کی کیفیت سے دو چار ہیں، کسی کی تابعداری میں کوئی حرج نہیں اور نہ ہی یہ کوئی ناقابل معافی جرم ہے، لیکن سب سے بڑی برائی یہ ہے کہ کوئی شخص کسی نہایت کمزور شخص کی تابعداری کرے، اقوام متحدہ آج کل ان کمزوروں کے تابع ہیں جو قرار