Deobandi Books

ماہنامہ الحق اگست 2017 ء

امعہ دا

22 - 65
 ملک جب کسی بستی میں داخل ہو جاتے ہیں اسکو تہہ وبالا کر دیتے ہیں۔
	انگریز نے عیسائی و استعماری انقلاب لانے کی کوشش کی اور برصغیر ہند میں ہر قسم کا فساد جوان کیلئے ممکن ہو سکا پھیلایا مگر پھر بھی وہ دین کو ختم نہ کر سکے۔ کیونکہ اسی مدرسہ کے فرزندان نے ان کا مقابلہ کیا جیسا کہ بیشمار ملکوں میں آج بھی کفر و اسلام کا مقابلہ جاری ہے۔ مگر علماء حق ہی کفر کے خلاف سینہ سپر ہیں۔ رولٹ کمیٹی کی رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ۱۸۵۷ء کی جنگ میں اور اس کے بعد انگریزوں کا مقابلہ مولوی ہی نے کیا۔
حقانیہ کا قیام اوراس کے فضلاء کا جہاد اوردیگر میدانوں میں رہبرانہ کردار
	یہ ادارہ دارالعلوم حقانیہ بھی اس دارالعلوم کا فیض ہے۔ پاکستان قائم ہونے کے بعد ہم نے یہاں آکر سوچا  کہ سب سے پہلے دین کی حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے ہمارے سامنے اپنے بزرگوں کا نمونہ اور کار گذاری تھی۔ چنانچہ اس دارالعلوم کی بنیاد ڈالی گئی تاکہ یہاں سے بھی ایسے علماء و فضلاء پیدا کئے جا سکیں جو دین کے دشمنوں کے خلاف بر وقت ہر میدان میں صف آراء ہیں چنانچہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ عرصہ دراز سے مشرق وسطیٰ میں جنگ و حالت جنگ جاری ہے۔ ایک طرف مٹھی بھر بائیس لاکھ یہودی اور دوسری طرف بارہ کروڑ مسلمان جن کو اللہ تعالیٰ نے ہر قسم کے مادی و مالی وسائل سے مالا مال کیا ہوا ہے۔ مگر پھر بھی ہر وقت مسلمانوں کو شکست و ریخت کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے ‘ آپ کو معلوم ہے کہ کبھی بیت المقدس پر قبضہ ،کبھی بیروت میں مسلمانوں کا قتل عام اور کہیں دیگر مظالم اور رسوائیوں سے مسلمان دو چار ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرق وسطیٰ کے مسلمانوں نے مغربی تہذیب کو اپنا کر اپنے اسلامی تمدن و روایات کو بھلا دئیے  ہے، اس کے مقابلہ میں روس جیسا قوی اور دیوقامت ملک ہے اور چند ہزار بے بس افغان مجاہدین جو دینی جذبہ جہاد سے مالا مال ہیں ان کے مقابلہ میں وہ بے بس ہے، اگرچہ حکومت پاکستان افغان مہاجرین کو پناہ دینے کی حد تک اعانت کررہی ہے، مگر کوئی ملک پاکستان سمیت ان مجاہدین کو فوجی امداد نہیں دے رہا
	یہ برکات اور کامیابیاں رب العزت کے فضل اور ان علماء کی قربانیوں کی وجہ سے ہیں گلگت چترال سے لے کر کوئٹہ پشین تک تمام سرحد پر اس مدرسہ کے فضلاء اور دیگر علماء اور طلبا نے کمیونسٹ فوج کے خلاف نبرد آزما ہیں، آج اگر اس طرح اسلامی مدارس مشرق وسطی میں بھی ہوتے تووہ حالات نہ ہوتے جن کا آج وہاں کے مسلمان سامنا کررہے ہیں، جس طرح کہ اکابر دیوبند نے انگریز کی ریشہ دوانیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دارالعلوم قائم کیا۔
تقسیم کے بعد جب ہم پاکستان آئے نئی نئی حکومت بن چکی تھی، کوئی وزیر نئے کارخانوں پر اصرار کررہا تھا اور کوئی فوجی قوت کو بڑھانے پر مصر تھا، غرض ہر شعبہ اقتصادومعاش کو ترقی دینے پر بیانات زور و شور سے دئیے

Flag Counter