Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

9 - 17
جامعہ فاروقیہ سے وابستہ چند ابتدائی یادیں
محدث اعظم حضرت مولانا سلیم الله خاں نوّرالله مرقدہ کے سانحہ ارتحال پر
حضرت مولانا ڈاکٹر محمد عادل خان صاحب دامت برکاتہم کا خطاب جمعة المبارک

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی، استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
أما بعد، فأعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَةُ الْمَوْت﴾․
وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿ کُلُّ مَنْ عَلَیْْہَا فَانٍ، وَیَبْقَی وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَام﴾ ․

وقال رسول الله ا: تحفة المؤمن الموت․ صدق الله مولانا العظیم، وبلّغنا بہ رسولہ النبی الکریم،﴿رَبِّ اشْرَحْ لِیْ صَدْرِیْ، وَیَسِّرْ لِیْ أَمْرِیْ، وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِّن لِّسَانِیْ، یَفْقَہُوا قَوْلِی﴾ سبحانک لا علم لنا إلاما علمتنا إنک أنت العزیز الحکیم․

حضرات طلبائے کرام، معزز حاضرین، محترم سامعین!

میں اس جمعہ کے خطبے کے لیے کچھ آمادہ نہیں تھا، جمعہ تو ہمارے بھائی، ہمارے عزیز مولانا خالد زید مجدہکوپڑھانا چاہیے تھا، لیکن ان کی خواہش ،ان کا اصرار تھا کہ میں آپ سے چند باتیں عرض کروں، اس لیے مجھے آپ کے سامنے یہ چند باتیں کہنے کا موقع مل رہا ہے، جمعے کا وعظ، جمعہ کا خطبہ، اس لیے نہیں ہوتا کہ اس میں ہم اپنے خاندان کی بڑائی کا ذکر کریں، جمعہ کا وعظ اس لیے نہیں ہوتا کہ اس کے اندر اپنے کسی عزیز، اپنے کسی بھائی، اپنے والد کا ذکر کیا جائے، نہیں میں ذکرکرنا چاہتا ہوں، آج کے اس خطبے کے اندر اس اہم چیز کا جس سے ہم میں سے ہر ایک کا واسطہ پیش آنے والا ہے اور وہ موت ہے وہ دار آخرت ہے ،وہ اس دنیا کے بعد آنے والی زندگی ہے اور بے شمار آیات قرآن میں ہیں، جن کے اندر الله نے موت کا، آخرت کا ذکر فرمایا:﴿إِنَّ الَّذِیْنَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ کَانَتْ لَہُمْ جَنَّاتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلاً، خَالِدِیْنَ فِیْہَا لَا یَبْغُونَ عَنْہَا حِوَلاً﴾․

الله ذکر فرمارہے ہیں کہ جو لوگ اعمال صالحہ کرنے والے ہیں، ایمان اختیار کرنے والے ہیں، الله سے تعلق رکھنے والے ہیں، الله سے محبت کرنے والے ہیں، ان کے واسطے الله کے ہاں جنت الفردوس منتظر ہے۔

اور قرآن کریم کی کتنی عجیب آیت ہے:﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ، ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً ، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ، وَادْخُلِیْ جَنَّتِی﴾․

الله خطاب کر رہے ہیں ہر ہر اس آنے والی روح سے ۔ اے آنے والے! تیرا استقبال ہو رہا ہے، تیرا استقبال ہمارے ہاں ہو رہا ہے۔ تو اس رب کے پاس آرہا ہے جس کے یہاں عزت ہے، رحمتیں ہیں، محبتیں ہیں، درجات کی بلندی ہے،﴿یایتھا النفس المطمئنة ارجعی إلیٰ ربک راضیة مرضیة﴾ تجھے گھبرانے کی ضرورت نہیں ،تجھے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں، تجھے فکر کرنے کی ضررت نہیں، جس پر تو ایمان رکھتا تھا، جس کا تو تذکرہ کرتا تھا، جس کے لیے تو اعمال کرتا تھا، جس کے لیے تو اپنے آپ کو کھپایا کرتا تھا، جس کے لیے تونے ساری زندگی صرف کر دی، آج وہ انعام تیرا منتظر ہے، یہ تذکرہ موت کا ہے اور اس کی مناسبت ظاہر ہے حضرت رحمة الله علیہ کی وفات سے ہے، حضرت رحمة الله علیہ دنیا سے تشریف لے گئے ہر انسان نے جانا ہے، انبیاء علیہم الصلاة والسلام الله تعالیٰ کے ہاں انتہائی محبوب، جب آخری وقت آیا تو نبی علیہ الصلاة والسلام کی زبان مبارک پر الفاظ تھے:”اللھم الرفیق الاعلی، اللھم الرفیق الأعلیٰ، اللھم الرفیق الأ علیٰ“اے الله! تونے مجھے عزت عطا فرمائی ، میں یتیم تھا تونے نبوت عطا فرمائی، لیکن اگر مجھے اختیارہو کہ میں یہاں رہنا چاہوں یا آپ کے پاس آنا چاہوں، تو مجھے آپ کی معیت چاہیے، مجھے آپ کے پاس آنا چاہیے،میں آپ کا ہوں اور آپ کا رہنا چاہتا ہوں اور نبی علیہ الصلاة والسلام اس دنیا سے تشریف لے گئے۔

حضرت مولانا سلیم الله خان رحمة الله علیہ… آپ ان کو مجھ سے زیادہ جانتے ہیں، جتنے سفید ریش یہاں بیٹھے ہیں، بچوں کو، نوجوانوں کو تو شاید علم نہ ہو، حضرت نے کن حالات میں یہاں کام شروع کیا، یہاں کس طرح کی مخالفتیں رہیں، یہاں کس طرح کا معاملہ رہا، بہت کچھ یہاں ہوا۔

لیکن حضرت کے پیش نظر ہمیشہ ایک بات تھی اور وہ بات تھی لا إلہ إلا الله کی سربلندی، وہ بات تھی قرآن کی سر بلندی، وہ بات تھی حدیث کی سربلندی، لوگوں نے کہا یہ کہاں سے لوگ آرہے ہیں؟ جو اس علاقے کے نہیں ہیں، یہ کون لوگ ہیں جن کی زبان یہاں والی زبان نہیں ہے، یہ کیوں یہاں جمع ہو رہے ہیں؟ لوگوں کوتشویش تھی، لوگوں کے ذہنوں میں اعتراضات تھے، وہ فراموش کر رہے تھے کہ یہ سب جو آرہے ہیں یہ امت کا حصہ ہیں ۔

میرے بھائیو ! ہمارے درمیان زبان کا فرق نہیں ہے، ہمارے درمیان ثقافت کا فرق نہیں ہے، قرآن کریم کا ارشاد ہے:﴿إِنَّا خَلَقْنَاکُم مِّن ذَکَرٍ وَأُنثَی وَجَعَلْنَاکُمْ شُعُوباً وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُمْ﴾․

الله نے زبانوں کے فرق کو نہیں رکھا، الله نے ثقافت ، کلچر کے فرق کو نہیں رکھا، الله نے اگر کوئی چیز جسے اپنے ہاں قیمتی قراردیا ہے، اعلیٰ قرار دیا ہے وہ الله سے تعلق ہے اور تقوی کا اظہار ہے۔

الحمدلله! یہ آنے والے یہاں یہ کسی بھوک اور پیاس کی وجہ سے نہیں آرہے، ایسا نہیں تھا کہ یہ بھوکے تھے،گھر میں کھانا نہیں ملتا تھا، یہ آرہے تھے، یہ بے عزت تھے، انہیں اپنے گھروں میں عزت نہیں مل رہی تھی، اس لیے آرہے تھے، یہ یتیم فقیر تھے ،یہ یہاں آرہیتھے اس لیے، نہیں، اس لیے نہیں یہ یہاں آرہے تھے اور شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان کھڑے ہو کر ان کا استقبال کر رہے تھے، اصل میں وہ عمل کررہے تھے نبی علیہ الصلاة والسلام کے ارشاد پر:

ابن ماجہ کے اندر روایت ہے:
نبی علیہ الصلاة والسلام نے صحابہ کو مخاطب کیااور صحابہ سے کہا میں دنیا سے جانے والا ہوں، میرے بعد لوگ دین سیکھنے کے لیے تمہارے پاس آئیں گے، میں تمہیں وصیت کر رہا ہوں آنے والے لوگوں کے لیے ان کو اھلاً وسھلاً کہنا، ان کا اکرام کرنا، ان کا احترام کرنا، جو چیز وہسیکھنے آرہے ہوں گے اس کا علم ان کو سکھانا ۔یہ وہ نصیحت تھی جو نبی علیہ الصلاة والسلام نے فرمائی تھی، صحابہ نے اس پر عمل کیا، تابعین نے اس پر عمل کیا، امام ابوحنیفہ نے اس پر عمل کیا، امام مالک نے اس پر عمل کیا، امام شافعی نے اس پر عمل کیا، امام احمد بن حنبل نے اس پر عمل کیا، امام بخاری نے اس پر عمل کیا، امام مسلم نے اس پر عمل کیا اور یہ سارے ہمارے مشائخ جو ایک زمانے سے چلے آرہے ہیں، نبی علی الصلاة والسلام کے زمانے سے آج تک اس پر عمل کررہے ہیں۔

یہ وجہ ہے کہ ہم ان طالب علموں کو اپنے گلے سے لگاتے ہیں، یہ وجہ ہے ہم ان طلبا ء کو عزت کے ساتھ دیکھتے ہیں، یہ وجہ ہے کہ ہم انہیں کھانا دینا چاہتے ہیں، ہم انہیں علم دینا چاہتے ہیں او رہمارے وہم وگمان میں ذہن کے کسی گوشے میں ان کے لیے تحقیر نہیں ہوتی۔

الحمدلله! یہاں آتے ہیں، آتے رہے ہیں، کتنی تعداد میں؟ بڑی تعداد میں یہ آئے، آپ نے اس کا اندازہ اس چالیس سال کے عرصے کے بعد اگر کرنا چاہا تو حضرت کے جنازے میں آپ نے اس کا اندازہ کر لیا، ساری دنیا سے جس طرح پیغامات آئے، آرہے ہیں، لوگ آئے، آرہے ہیں، میں کہہ رہا تھا اپنے عزیزوں سے، میں نے کہا تم سمجھتے ہو کہ ہمارا خاندان چند افراد کا خاندان ہے، ہمارے خونی رشتے اصل میں ہمارے رشتوں کی وجہ ہیں، نہیں، یہ سارے لوگ جو پاکستان کے چپے چپے سے آرہے ہیں، یہ سب ہمارے خاندان کا حصہ ہیں، یہ سب ہمارے رشتہ دار ہیں، ان کا غم ہم سے زیادہ ،ان کا دکھ ہم سے زیادہ، ان کی عقیدت ہم سے زیادہ، ان کا تعلق ہم سے زیادہ، ان کے دلوں میں حضرت کا احترام ہم سے زیادہ، یہ ہمارے رشتہ دار ہیں۔

میں آپ میں سے ہر ایک کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، دل کی گہرائیوں سے شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں، آپ آئے، آپ نے ہمارے رنج کو ہلکا کیا، آپ نے ہمیں تسلی دی، آپ نے حضرت کے لیے دعائیں کیں، آپ نے حضرت سے اپنے تعلق اور عقیدت کااظہار کیا، یہ تعلق ایک شخص کی ذات کے ساتھ نہیں تھا، یہ اصل میں آپ کے اندر وہ قوت ایمانی تھی، وہ غیرت ایمانی تھی، جس کی وجہ سے آپ حضرت کے ساتھ اس تعلق کا اظہار کرتے رہے۔

یہ تذکرے چلتے رہیں گے، مجھے اجازت دیجیے، میں اپنے ایک اورمحترم بزرگ کا تذکرہ کرنا چاہتا ہوں، جنہوں نے حضرت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر اس ادارے کو وجود دینے میں اور اس کی بنیاد رکھنے میں او راس کی ابتدا کرنے میں مدد کی، وہ ابومعاویہ غزنوی تھے، ابومعاویہ غزنوی، یہاں سیرت کمیٹی کے ذمہ دار، جنہوں نے حضرت کو یہ پیش کش کی کہ آپ یہاں ادارہ قائم کریں، کوئی شرط نہیں، ہمیں کمیٹی میں لیں، تو ادارہ بنائیں، اس کی آمدنی میں اتنا فی صد ہمارا حصہ ہو ہم اجازت دیں گے، نہیں ، کوئی شرط نہیں، کوئی مطالبہ نہیں، ایک بات پوری سیرت کمیٹی نے اس وقت بڑے دبتے دبتے، بڑے ڈرتے ڈرتے حضرت سے کہی کہ اگر آپ مناسب سمجھیں ہماری درخواست ہے، آپ ہماری اس کچی مسجد کو پکا بنوا دیں، بس، پھر الله نے وہ دن دکھایا کہ یہ مسجد بنی، لوگ مسجدیں بناتے ہیں، مسجد کے باہر لاؤڈ اسپیکر لگا کر کر آدمی بٹھاتے ہیں اور دس دس روپے، بیس بیس روپے کا چندہ جمع کرتے ہیں، ماشاء الله، جزاک الله کے نعرے لگاتے رہتے ہیں اور پیسے جمع کرنے کے بعد آدھے پیسے مسجد کو دے دیتے ہیں اور آدھے پیسے اعلان کرنے والا جیب میں ڈال کر لے جاتا ہے۔

یہاں الله نے یہ مسجد اس طرح بنوائی ، ایک فرد حاجی عبدالکریم صاحب رحمة الله علیہ، وہ آئے مغرب کی نماز انہوں نے یہاں پڑھی، چھوٹی مسجد کو بھرا ہوا دیکھا، لوگوں کو صحن کے اندر باہر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، وضو خانے میں لائن لگا کر وضو کرتے ہوئے دیکھا، انہوں نے کہا میں اس مسجد کو پورے طور پر بنانے کے لیے تیار ہوں، آپ خرچہ بتلائیے، لطیفے کی بات سنیے، میرے اور آپ کے پاس اگر کوئی آدمی ایسی پیش کش لے کر آئے، ہم کیا کہیں گے؟ بہت اچھا حاجی صاحب! بہت اچھا، بڑی آپ نے مہربانی کی، آپ نے بہت بڑی پیش کش کی، ہمیں مسجد کی ضرورت ہے، بہت شکریہ، حضرت نے ایسا کچھ نہیں کیا، حضرت نے فرمایا: مسجد بنانا چاہتے ہو؟ کہا جی! حضرت نے فرمایا: ہماری دو شرطیں ہیں:

نمبر1… ہم پیسے نہیں لیں گے او رمیں کہنا چاہتا ہوں میرے بھائیو! میرے عزیزو! میرے دوستو! مدارس کے ذمہ دارو! مدرسے کے پیسوں کو کبھی اپنی جاگیر مت سمجھنا، کبھی ان کو اپنی جائیداد مت سمجھنا، یہ امانت ہے، اس کا جواب تمہیں الله کے ہاں دینا ہے۔

مولانا سلیم الله خان اس کی زندہ مثال ہیں، فرمایا: ہمیں پیسے نہیں چاہییں، خود خرچ کرو گے، خود انتظام کرو گے، یہ آپ کے ذمہ ہو گا۔

نمبر2… دوسری شرط، مسجد کا نقشہ ہماری مرضی کا بنے گا، اس لیے کہ ہم سمجھتے ہیں، ہماری ضرورت کیا ہے۔

حاجی صاحب بھی حاجی صاحب تھے، حاجی عبدالکریم صاحب انتقال ہو گیا ہے، بڑی محبت کرتے تھے، جب تک مسجد بنتی رہی روزانہ یہاں آتے تھے، روزانہ گھر سے نکل کر پہلے یہاں آتے تھے، کل کیا کام ہو گا اور… اب تک کیا ہوا اس کو دیکھتے تھے اور پھر اگلے کام کی بات کرکے جاتے تھے اور پھر اس سے اگلے دن آکر اس کو چیک کرتے تھے۔

حاجی صاحب بھی حاجی تھے، کہنے لگے اگر شرطیں لگ رہی ہیں تو میری بھی شرط ہے، ماشاء الله، فرمایا: میری شرط یہ ہے کہ یہاں میرے نام کا کوئی کتبہ نہیں لگے گا، یہاں میرا نام کسی کو نہیں بتلایا جائے گا، چناں چہ پوری مسجد گھوم کر دیکھ لیں، کوئی نام آپ کو نہیں ملے گا، آج وہ دنیا میں نہیں ہیں تو میں نام لے رہا ہوں۔

سیرت کمیٹی نے یہ گزارش کی کہ آپ ہماری مسجد بنا دیجیے۔ حضرت نے فرمایا: ان شاء الله، الله نے اس طرح مسجد کا انتظام کیا، ایک آدمی نے بنفس نفیس یہ مسجد بنوائی۔سیرت کمیٹی، ابو معاویہ غزنوی الله ان حضرات کو جزا دے ،یہ ادارہ جتنی ترقی کرے، ہم سیرت کمیٹی او رابومعاویہ غزنوی کو نہیں بھول سکتے اور میرا دل چاہتا ہے کہ جب شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان رحمة الله علیہ کا ذکر ہو، ان کا تذکرہ ہو، ان کی خدمات کا ذکر ہو، ان کی عظمتوں کا بیان ہو، ان کی یادوں کو یاد کیا جائے، اس کا تذکرہ کیا جائے، تو سیرت کمیٹی اور ابو معاویہ غزنوی رحمة الله علیہ کابھی تذکرہ ہو، اس لیے کہ اگر وہ نہ ہوتے تو یہ جامعہ فاروقیہ نہ ہوتا، پھر میں اجازت چاہتا ہوں ایک اور بزرگ کا ذکرنا، وہ ہمارے شہید استاذ حضرت مولانا عنایت الله رحمة الله علیہ اور وہ اساتذہ جو اس جامعہ کے لیے شہید ہوئے، وہ اساتذہ جو یہاں جامعہ میں پڑھانے کے لیے آرہے تھے، راستے میں شہید ہوئے، آج بڑے بڑے القابات آپ لوگوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، آپ کرتے ہیں، لیکن نہ بھولنا ان کو ، جو اس ادارے کی بنیادوں کے اندر اپناخون رکھتے ہیں، الله رب العزت ان کے درجات کو بلند فرمائے ،الله رب العزت ان کو اعلیٰ مقامات عطا فرمائے، الله رب العزت ان کی شہادتوں کو ان کے لیے دنیا میں او ران کے لیے آخرت کے اندر خیر کا سبب فرمائے، ہم اپنے ان مرحوم اور شہید اساتذہ کو نہیں بھول سکتے اور آخری بات کہنا چاہتا ہوں، حادثات ہوتے ہیں، حضرت رحمة الله علیہ کی وفات کا حادثہ چھوٹا حادثہ نہیں ہے اور یہ قافلہ قافلہ دارالعلوم دیوبند اور یہ جماعت، جماعت اہلسنت والجماعت یہ جماعت ہمیشہ سے اور یہ قافلہ ہمیشہ سے بہت سارے حادثات کا سامنا کرتا رہا ہے، ہم اپنے عزم، اپنے حوصلے، اپنے جذبے، اپنے ارادے، اپنی نیتوں کے کے اندر فرق کبھی نہیں آنے دیتے، حضرت کا حادثہ بہت بڑا حادثہ ہے۔ ہمارے اکابر مولانا حبیب الله مختارشہید ہوئے، مولانا حسن جان شہید ہوئے اور معلوم نہیں کتنے شہداء ہیں، جن کے نام اگر میں لینا چاہوں تو اس کے لیے طویل وقت درکار ہے، کیا کبھی کسی حادثے کے نتیجے میں یہ قافلہ رکا ہے؟

یہ دنیا سے جاتے ہیں، ہمیں نشان منزل دے کر جاتے ہیں، یہ دنیا سے جاتے ہیں، ہمارے لیے راستہ متعین کرکے جاتے ہیں، یہ دنیا سے جاتے ہیں، آپ کو سبق دے کر جاتے ہیں ، چلنا ہے تو اس راستے پر چلو، آنا ہے تو ہمارے پیچھے آؤ، اقتدا تباع کرنی ہے ہماری زندگی کی اتباع کرو، ہماری زندگی کی اقتدا کرو۔

ان کا انداز زندگی ایک سبق ہوتا ہے، اگر آپ نے وہ سبق سیکھاہے توآپ سیدھے راستے پر ہیں، حضرت کی اتباع کرنے والے ہیں، حضرت کے نقش قدم پر چلنے والے ہیں اور اگر آپ حضرت کو رحمة الله علیہ کہتے رہے، کبھی آپ نے اپنے انداز میں تبدیلی نہیں لائی، آپ کے اخلاق وہی رہے،بے ڈھنگے، آپ کی چال بھی وہی رہی بے ڈھنگی، آپ کا انداز بھی وہی رہا اور آپ حضرت کا نام ذکر کریں، القابات استعمال کریں، مجھے معاف کیجیے، میں یہ کہنے پر مجبور ہوں گا کہ آپ نے حضرت کی زندگی سے فائدہ نہیں حاصل کیا۔

اس لیے حضرت کی وفات ہم سب کے لیے عبرت بھی ہے، سبق بھی ہے، ہم سب کے لیے اس میں بہت سبق ہیں۔

حضرت کی سادگی کو یکھو، ایک سبق ہے، حضرت کے عزم کو دیکھو، ایک سبق ہے، حضرت کی علم سے، تدریس سے جو وابستگی تھی وہ سبق ہے۔

حضرت ہمیشہ غریب طلباء کا خیال کرتے تھے، جس کے کپڑے اچھے ہوتے تھے حضرت اس کو ایک طرف کر دیتے تھے، جس کے کپڑے پرانے ہوں، میلے ہوں، پھٹے ہوئے ہوں، حضرت اس کو قریب کرتے تھے۔

یہ عاجزی کہاں ہے؟ یہ تواضع کہاں ہے؟ یہ للہیت کہاں ہے؟ یہ اخلاص کہاں ہے؟ حضرت اپنے پیچھے آپ کو بلا رہے ہیں اور میرے بھائیوجو اچھے اخلاق لے کر اس دنیا سے جاتا ہے الله اس کے لیے آخرت کی راہیں کھول دیتے ہیں، قرآن کریم کی آیت یقینا اپنی جگہ ہم سب کے لیے درس ہے ﴿﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ،ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً ، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ، وَادْخُلِیْ جَنَّتِی﴾․

یہ جنت آپ کے انتظار میں ہے، لیکن اس کے لیے آپ کو الله والا بننا ہو گا، یہ جنت آپ کے انتظار میں ہے، اس کے لیے آپ کو حضرت نبی علیہ الصلاة والسلام کی اتباع کرنی ہو گی، یہ جنت آپ کے انتظار میں ہے، اس کے لیے صحابہ کے طریقے کو اختیار کرنا ہو گا، یہ جنت آپ کے انتظار میں ہے، اس کے لیے تابعین، اس کے لیے اسلاف، اس کے لیے ائمہ ھدی، ان کے طریقے پر چلنا ہو گا اور یہ جنت آپ کے انتظار میں ہے، اس کے لیے آپ کو حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان رحمة الله علیہ کے طریقے پر چلنا ہو گا۔

الله رب العزت ہم سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے، الله رب العزت ہمارے دماغوں میں ، ہماری نگاہوں میں، ہمارے دلوں میں جو زنگ لگے ہوئے ہیں اور جو ہمارے ذہنوں کے اندر جالے لگے ہوئے ہیں، الله ہمیں انہیں دور کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور الله رب العزت ہمیں موت کی صحیح حقیقت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے اور الله رب العزت ہمارے سامنے ہماری قبروں کی حقیقت کو کھول دے اور ہم دنیا کے ساتھ آخرت کی بھی فکر کرنے والے ہوں، جیسا کہ ہم ہمیشہ دعا کرتے ہیں:﴿رَبَّنَا آتِنَا فِیْ الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِیْ الآخِرَةِ حَسَنَةً﴾․

آپ دنیا میں رہ رہے ہیں، اتنا انتظام آپ کیجیے جتناآپ کو دنیا میں رہنا ہے، آپ آخرت کی فکر کیجیے، اس کا انتظام اتنا کیجیے جتنا آپ کو وہاں رہنا ہے، یہ دنیا کی زندگی بھی آپ کے لیے ضروری ہے اور آخرت کی زندگی بھی آپ کے لیے ضروری ہے، دنیا کے اندر آپ نے انتظام کرنا ہے، اپنے لیے فکر کرنی ہے اور وہ سارے عمل جو دنیا کے اندر ہو رہے ہیں الله کی منشا کے تحت، الله کی مرضی، الله کی رضا کے تحت، ان سب کے نتیجے میں الله رب العزت ہماری آخرت کو بہتر کرنے والے ہیں، الله مجھے اور آپ سب کو اس کی توفیق عطا فرمائے۔وآخر دعوانا أن الحمدلله رب العالمین․

Flag Counter