گناہ کے نقصانات
مفتی محمد عبدالله قاسمی
اللہ کی نافرمانی اوراس کے احکام کی خلاف ورزی رب ذوالجلال کے غضب وغصہ کاموجب ہے،رزق میں بے برکتی اورتنگی کاسبب ہے،گناہ کرنے کی وجہ سے انسان کے چہرے کی رونق وتازگی رخصت ہوجاتی ہے، دل کی سرسبزوشاداب کھیتی مرجھاجاتی ہے اوراجتماعی عذاب کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے،یوں توہرگناہ کی سزاکواللہ تبارک وتعالی نے قیامت تک کے لیے موخرکیاہے،لیکن یہ ایک ناقابل حقیقت ہے کہ گناہ کرنے کی وجہ سے انسان کوغیرمحسوس طریقے پراس دنیامیں بھی نقصان ہوتاہے اورتباہی وبربادی اس کامقدرہوتاہے،ذیل میں وہ نقصانات اختصارکے ساتھ ذکرکیے جارہے ہیں:
احسان فراموشی
اللہ کی عنایات واحسانات کی بارش ہروقت انسان پرہوتی رہتی ہے، اللہ نے بغیرطلب کیے ہوئے انسان کودوآنکھ،دوکان اورزبان جیسی عظیم نعمت سے سرفرازکیا ،صحت اورتن درستی جیسی قیمتی اورگراں مایہ دولت عطاکی اورپھربرابر اللہ تعالی انسان کے لیے غذااورروزی روٹی کاانتظام فرمارہے ہیں اوراس کے ہاضمہ اورتنفس کے نظام کومعتدل رکھے ہوئے ہیں،غرض انسان سرسے لے کرپیرتک اللہ کے انعامات میں ڈوباہواہے اوراس کے احسانات کے بوجھ سے اس کاکاندھاگراں بارہے،یہی وجہ ہے کہ اللہ جل شانہ نے قرآن کریم میں ارشادفرمایا:﴿وَإِن تَعُدُّواْ نِعْمَةَ اللّہِ لاَ تُحْصُوہَا﴾․ (النحل:18)اگرتم اللہ کی نعمتوں کوشمارکرناچاہوتوبھی شمارنہیں کرسکتے۔ایسی محسن ومنعم ذات کی نافرمانی اوراس کے احکام سے روگردانی احسان فراموشی نہیں ہے تواورکیا ہے؟اوراللہ کی طرف سے یہ عنایات وتوجہات اوربندوں کی طرف سے یہ بے رخی اوربے اعتنائی؟
دل کازنگ آلودہونا
گناہ کرنے کی وجہ سے ایک نقصان یہ ہوتاہے کہ انسان کے دل پرزنگ چڑھ جاتاہے اوردل سیاہ ہوجاتاہے،آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:بندہ جب کوئی گناہ کرتاہے تواس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ لگ جاتاہے،اگروہ گناہ کوچھوڑدیتاہے اوراللہ سے توبہ واستغفارکرتاہے تواس کادل (اس سیاہ نقطہ سے )صاف ہوجاتاہے،اگروہ باربارگناہ کرے تووہ سیاہ نقطہ بڑھتاجاتاہے ؛حتی کہ وہ اس کے پورے دل کوگھیرلیتاہے۔(ترمذی، حدیث نمبر:3334) اوریہ حالت بڑی خطرناک ہوتی ہے،اگرمعاذ اللہ کوئی مسلمان اس حالت کوپہنچ جائے توپھراس میں حق بات قبول کرنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے،گم راہی اورکج روی پروہ جمارہتاہے۔
دل میں ظلمت پیداہونا
گناہ کرنے وجہ سے دل میں ظلمت اورتاریکی پیداہوتی ہے،جس کی وجہ سے دل میں شدت سے گناہ کرنے کاداعیہ پیداہوتاہے،معصیات پرقلب ابھارتاہے،طاعت ونیکی کاصالح جذبہ سردپڑجاتاہے،حق اورخیرکے راستے سے وحشت اوراجنبیت محسوس ہوتی ہے،ہمارے اعضاء وجوارح چوں کہ گناہوں سے آلودہ ہیں،سرسے پیرتک ہم گناہوں میں ڈوبے ہوئے ہیں،اس لیے ہمیں اس ظلمت وتاریکی کااحساس نہیں ہوتاجوہمارے دلوں میں اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے پیداہوتی ہے،ورنہ اولیاء اللہ اوربزرگان دین، جن کالوح قلب آئینہ کی طرح صاف وشفاف ہوتاہے،گناہوں کی آلائشوں سے ان کے اعضاء وجوارح پاک ہوتے ہیں،وہ اس ظلمت وتاریکی کوفورابھانپ لیتے ہیں اوراس ظلمت وتاریکی پران کی روح بے چین اورمضطرب ہوجاتی ہے اورجب تک وہ اس ظلمت وتاریکی کے داغ کوتوبہ کے ماء زلال سے دھونہ لیں ان کوقراراورچین نہیں آتا،اس کی سادہ سی مثال یہ ہے کہ ایک شخص بدبوداراورتعفن آمیزجگہ پررہنے کاعادی ہے،اس کے لیے بدبو اور خوش بو دونوں یکساں اوربرابرہیں،نہ خوش بوکی وجہ سے اس کے دل ودماغ کوفرحت وتازگی محسوس ہوگی اورنہ بدبوکی وجہ سے اس کوانقباض اورکسی قسم کاتکدرمحسوس ہوگا، لیکن جوشخص اچھے اورپاک ماحول میں رہتاہے،اس کے لیے بدبودار اورتعفن آمیزمقام پررہنامشکل ہوگا،بدبواورتعفن کی وجہ سے اس کوانقباض اورگھٹن محسوس ہوگی،یہی وجہ ہے کہ حضرت مولانایعقوب صاحب نانوتوی کے بارے میں آتاہے کہ انہوں نے کسی رئیس کے یہاں کھاناتناول فرمایا، بعدکومعلوم ہواکہ وہ کھاناحرام آمدنی سے تیارکیاگیا تھا،حضر ت فرماتے ہیں کہ حرام لقمہ کھالینے کی وجہ سے میں اپنے دل میں برابرظلمت محسوس کرتارہا،جس کی وجہ سے بارہادل میں گناہ کرنے کی خواہش پیداہوتی رہی اورطاعت ونیکی کرنامیرے لیے دشوارہوگیا۔
عقل مختل ہوجانا
گناہ کرنے کی وجہ سے ایک نقصان یہ بھی ہوتاہے کہ انسان کی عقل مختل ہوجاتی ہے،اس کے سوچنے اورسمجھنے کی صلاحیت ختم ہوجاتی ہے،حق وباطل اورخیروشرمیں تمیزکرنے کی قوت اس سے سلب کرلی جاتی ہے،گناہ کاسب سے پہلاموجدوبانی شیطان ہے،اللہ تبارک وتعالی نے اسے آدم کوسجدہ کرنے کاحکم دیا،تواس نے یہ حکم نہیں مانا؛بلکہ اس نے جواب دیا: ﴿خَلَقْتَنِیْ مِن نَّارٍ وَخَلَقْتَہُ مِن طِیْن﴾(الاعراف:12)آپ نے مجھ کوآگ سے پیداکیا اورآدم کومٹی سے پیداکیا اورآگ کی خاصیت میں علواوربلندی ہے اورمٹی کی خاصیت میں پستی اورذلت ہے؛لہذااعلی اورارفع چیزایک ارذل اورحقیرچیزکوکیسے سجدہ کرسکتی ہے؟جب کہ آگ اورمٹی کے مابین موازنہ کادوسراپہلویہ بھی تھاکہ مٹی کے اندراللہ جل شانہ نے زرخیزی اورنشوونماکی خاصیت رکھی ہے،کاشت کارمٹی کی تہہ میں بیج ڈالتاہے تومٹی غذائیت سے بھرپوردانے اورتوانائی بخش اوررنگ برنگ کے پھل کی شکل میں کاشت کارکوتحفہ عطاکرتی ہے،جب کہ آگ کے اندریہی چیزیں ڈالی جائیں توآگ ان کوجلاکربھسم کردیتی ہے اورکسی قسم کافائدہ نہیں دیتی ہے؛لیکن یہ پہلوشیطان سے مخفی رہااوراللہ کی نافرمانی کی وجہ سے صحیح وغلط میں امتیازکرنے کی صلاحیت اس میں باقی نہیں رہی ۔
بارش بندہونا
گناہ کی وجہ سے جہاں بہت سے نقصانات ہوتے ہیں وہیں ایک نقصان یہ بھی ہوتاہے کہ اللہ تبارک وتعالی گناہوں کی نحوست سے بارش کوروک لیتے ہیں،جس کی وجہ سے قحط سالی اورفاقہ کشی کی نوبت آجاتی ہے اوراس سے نہ صرف انسان؛بلکہ سارے جانوربھی پریشا ن اوربھوکے مرتے ہیں،چناں چہ حدیث شریف میں آتاہے:جب لوگ اپنے مالوں کی زکاة ادانہیں کرتے ہیں تو اللہ تبارک وتعالی بارش کوروک لیتے ہیں۔(ابن ماجہ، حدیث نمبر:4019)
چہرے کاسیاہ پڑجانا
گناہ کرنے کااثرانسا ن کے چہرے پربھی ظاہرہوتاہے،چناں چہ جوانسان گناہ کرنے کاعادی ہوتاہے اس کے چہرے کی رونق وتازگی ختم ہوجاتی ہے اوراس کے چہرے پرمردنی اورپژمردگی چھاجاتی ہے،اللہ جل شانہ کے نیک، صالح بندے اوربزرگان دین چوں کہ گناہوں سے دوررہتے ہیں،معاصی اورسیئات سے مجتنب رہتے ہیں،ان کے چہرے نورانی ہوتے ہیں اوران کے چہروں پرایک خاص قسم کی کشش ہوتی ہے ،جس کی وجہ سے لوگوں کو ان کی مجلسوں میں بیٹھنے سے انسیت اورطمانینت قلب حاصل ہوتی ہے، حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں:”ان للحسنة ضیاء فی الوجہ، وان للسیئة سوادا فی الوجہ․“ (الداء والدواء لابن القیم الجوزیة:1/135)نیکی کی وجہ سے چہرے پرنورآتاہے اورگناہ کی وجہ سے چہرہ سیاہ اورکالاہوجاتاہے۔
علم سے محرومی
گناہ کاایک نقصان یہ بھی ہے کہ انسان علم سے محروم ہو جاتا ہے، علم کے انواروبرکات انسان کوحاصل نہیں ہوتے ہیں،حضرت امام شافعی نے اپنے استاد وکیع بن جراح رحمة اللہ علیہ سے سوئے حافظہ کی شکایت کی توانہوں نے امام شافعی کوگناہوں سے اجتناب کرنے کی تاکیدکی،امام شافعی رحمة اللہ علیہ کاخودبیان ہے:میں نے امام وکیع سے اپنے سوئے حافظہ کی شکایت کی ،تومجھے انہوں نے گناہوں سے مجتنب رہنے کی تاکیدکی اورفرمایا:علم اللہ کاایک نورہے اوریہ کسی گناہ گارکوحاصل نہیں ہوتا۔(آثارالذنوب علی الافراد والشعوب:1/4)حضرت شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں :گناہوں کی سزاملنے کی ایک شکل یہ بھی ہے کہ اللہ تبارک وتعالی انسان کوہدایت اورعلم نافع سے محروم کردیتے ہیں۔(دیکھیے مجموع الفتاوی)
اللہ تبارک وتعالی سے دعا ہے کہ امت مسلمہ کوگم راہیوں اورظاہری وباطنی فتنوں سے محفوظ رکھے اورشریعت کی ہدایات پرچلنے کی توفیق نصیب فرمائے، آمین ثم آمین۔