Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

14 - 17
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ خلیفہ اول

عبدالوحید متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
نام ونسب اور خاندان
نام عبدالله، کنیت ابوبکر، لقب، صدیق اور عتیق، والد کا نام عثمان اور کنیت ابو قحافہ، والدہ کا نام سلمٰی اور ام الخیر کنیت، والد کی طرف سے پورا سلسلہ نسب یہ ہے۔

عبدالله بن عثمان بن عامر بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ بن کعب بن لوئی القریشی التمیمی اور والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب یہ ہے : ام الخیر بنت صخر بن عامربن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ ۔اس طرح حضرت ابوبکر کا سلسلہ نسب چھٹی پشت میں مرہ پر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے مل جاتا ہے ۔

حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے والد
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے والد ابو قحافہ عثمان بن عامر شرفائے مکہ میں سے تھے او رنہایت معمر تھے، ابتداً ،جیسا کہ بوڑھوں کا قاعدہ ہے، وہ اسلام کی تحریک کو بازیچہ اطفال سمجھتے تھے۔ چناں چہ حضرت عبدالله رضی الله عنہ کا بیان ہے کہ جب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی تو میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی تلاش میں حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے گھر آیا وہاں ابوقحافہ موجو دتھے، انہوں نے حضرت علی رضی الله عنہ کو اس طرف سے گزرتے ہوئے دیکھ کر نہایت برہمی سے کہا کہ ان بچوں نے میرے لڑکے کو بھی خراب کر دیا، ابوقحافہ فتح مکہ تک نہایت استقلال کے ساتھ اپنے آبائی مذہب پر قائم رہے، فتح مکہ کے بعد، جب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف فرما تھے، وہ اپنے فرزند سعید حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے ساتھ بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کے ضعف پیری کو دیکھ کر فرمایا کہ انہیں کیوں تکلیف دی؟ میں خود ان کے پاس پہنچ جاتا؟ اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہایت شفقت سے ان کے سینے پر ہاتھ پھیرا اور کلمات طیبات تلقین کرکے مشرف باسلام فرمایا، حضرت ابو قحافہ رضی الله عنہ نے بڑی عمر پائی۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے بعد اپنے فرزند ارجمند حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کے بعد بھی کچھ دن تک زندہ رہے، آخر عمر میں بہت ضعیف ہو گئے تھے، آنکھوں کی بصارت جاتی رہی تھی، 14ھ میں 97 برس کی عمر میں وفات پائی۔

حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی والدہ
حضرت سلمٰی بنت صخر کو ابتدا ہی میں حلقہ بگوشان اسلام میں داخل ہونے کا شرف حاصل ہوا، ان سے پہلے صرف انتالیس اصحاب مسلمان ہوئے تھے۔ یہ قلیل جماعت بہ اعلان اپنے اسلام کا اظہار نہیں کرسکتی تھی اور نہ مشرکین وکفار کو ببانگ دہل دین مبین کی دعوت دے سکتی تھی، لیکن حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کا مذہبی جوش اس بے بسی پر نہایت مضطرب تھا، آپ رضی الله عنہ نے ایک روز نہایت اصرار کے ساتھ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے اجازت لے کر مجمع عام میں شریعت حقہ کے فضائل ومحامد پر تقریر کی اور کفار ومشرکین کو شرک وبت پرستی چھوڑ کر اسلام قبول کر لینے کی دعوت دی، کفارومشرکین، جن کے کان کبھی ان الفاظ سے مانوس نہ تھے، نہایت برہم ہوئے او رحضرت ابوبکر رضی الله عنہ کو نہایت بے رحمی اور خداناترسی کے ساتھ اس قدر مارا کہ بالآخربنی تیم کو باوجود مشرک ہونے کے اپنے قبیلہ کے ایک فرد کو اس حال میں دیکھ کر ترس آگیا او رانہوں نے عام مشرکین کے پنجہٴ ٴ ظلم سے چھڑا کر ان کو مکان تک پہنچادیا، شب کے وقت بھی حضرت ابوبکر رضی الله عنہ باوجود درد اور تکلیف کے اپنے والد اور خاندانی اعزہ کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، صبح ہوئی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا پتہ دریافت کرکے اپنی والدہ کے ساتھ ارقم بن رقم کے مکان پر آئے اور آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری والدہ حاضر ہیں ،ان کو راہ حق کی ہدایت کیجیے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کو اسلام کی دعوت دی اور وہ مشرف با اسلام ہو گئیں، حضرت ام الخیر نے بھی طویل عمر پائی، چناں چہ حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت تک زندہ رہیں، لیکن اپنے شوہر سے پہلے وفات پائی۔

وفات
حضرت ابوبکر رضی الله عنہ کی خلافت کو ابھی صرف سوا دو برس ہوئے تھے او راس قلیل عرصے میں مدعیان نبوت، مرتدین اور منکرین زکوٰة کی سرکوبی کے بعد فتوحات کی ابتداہی ہوئی تھی کہ پیام اجل پہنچ گیا، حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن جب کہ موسم سرد اور خنک تھا تو آپ رضی الله عنہ نے غسل فرمایا ، غسل کے بعد بخار آگیا او رمسلسل پندرہ دن تک شدت کے ساتھ قائم رہا۔ اس اثنا میں مسجد میں تشریف لانے سے بھی معذور ہو گئے، چناں چہ آپ کے حکم سے حضرت عمر رضی الله عنہ امامت کی خدمت انجام دیتے تھے۔

مرض جب روز بروز بڑھتا گیا اور صحت سے مایوسی ہوتی گئی تو صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کو بلا کر جانشینی کے متعلق مشورہ کیا اور حضرت عمر رضی الله عنہ کا نام پیش کیا، حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی الله عنہ نے کہا”عمر رضی الله عنہ کے اہل ہونے میں کس کو شبہ ہوسکتا ہے، لیکن وہ کسی قدر سخت ہیں۔“

حضرت عثمان رضی الله عنہ نے کہا ”میرے خیال میں عمررضی الله عنہ کا باطن ظاہر سے اچھا ہے، لیکن بعض صحابہ رضوان الله علیہم اجمعین کو حضرت عمر رضی الله عنہ کی سختی کے باعث پس وپیش تھی، چناں چہ حضرت طلحہ رضی الله عنہ عیادت کے لیے آئے تو شکایت کی کہ آپ عمررضی الله عنہ کو خلیفہ بنانا چاہتے ہیں ،حالاں کہ جب آپ کے سامنے وہ اس قدرسخت تھے تو خدا جانے آئندہ کیا کریں گے ؟ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے جواب دیا جب ان پر خلافت کا بار پڑے گا تو ان کو خود نرم ہونا پڑے گا ۔اسی طرح ایک دوسرے صحابی رضی الله عنہ نے کہا آپ عمر رضی الله عنہ کی شدّت سے واقف ہونے کے باوجود ان کو جانشین کرتے ہیں؟! ذراسوچ لیجیے، آپ خدا کے یہاں جارہے ہیں، وہاں کیا جواب دیجیے گا؟! فرمایا ”میں عرض کروں گا خدایا ! میں نے تیرے بندوں میں سے اس کو منتخب کیا ہے جو ان میں سب سے اچھا ہے۔“ غرض سب کی تشفی کرد ی اور حضرت عثمان رضی الله عنہ کو بلا کر عہد نامہ خلافت لکھوانا شروع کیا، ابتدائی الفاظ لکھے جاچکے تھے کہ غش آگیا، حضرت عثمان رضی الله عنہ نے یہ دیکھ کر حضرت عمر رضی الله عنہ کا نام اپنی طرف سے بڑھا دیا، تھوڑی دیر کے بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی الله عنہ سے کہا کہ پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے پڑھا تو بے ساختہ الله اکبر پکار اٹھے او رکہا خدا تمہیں جزائے خیر دے، تم نے میرے دل کی بات لکھ دی، غرض عہد نامہ مرتب ہو چکا تو اپنے غلام کو دیا کہ مجمع عام میں سنا دے اور خود بالاخانے پر تشریف لے جاکر تمام حاضرین سے فرمایا کہ میں نے اپنے عزیز یا بھائی کو خلیفہ مقرر نہیں کیا ہے۔ بلکہ اس کو منتخب کیا ہے جو تم لوگوں میں سب سے بہتر ہے۔ تمام حاضرین نے اس حسن انتخاب پر سمعنا واطعنا کہا، اس کے بعد حضرت عمررضی الله عنہ کو بلا کر نہایت مفید نصیحتیں کیں، جو ان کی کام یاب خلافت کے لیے نہایت عمدہ دستورالعمل ثابت ہوئیں۔

اس فرض سے فارغ ہونے کے بعد حضرت ابوبکررضی الله عنہ نے ذاتی اور خانگی امور کی طرف توجہ کی، حضرت عائشہ رضی الله عنہا کو مدینہ یا بحرین کے نواح میں اپنی ایک جاگیر دے دی تھی، لیکن خیال آیا کہ اس سے دوسرے وارثوں کی حق تلفی ہو گی، اس لیے فرمایا، جان پدر! افلاس وامارت دونوں حالتوں میں تم مجھے سب سے زیادہ مجبوب رہی ہو، لیکن جو جاگیر میں نے تمہیں دی ہے کیا تم اس میں اپنے بھائی بہنوں کو شریک کرلوگی؟ حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے حامی بھر لی تو آپ نے بیت المال کے قرض کی ادائیگی کے لیے وصیت فرمائی اور کہا کہ ہمارے پاس مسلمانوں کے مال میں سے ایک لونڈی اور دو اونٹنیوں کے سوا کچھ نہیں! میرے مرتے ہی یہ عمر رضی الله عنہ کو بھیج دی جائیں، چناں چہ یہ تمام چیزیں عمر رضی الله عنہ کی طرف بھیج دی گئیں۔

حضرت عائشہ رضی الله عنہا یہ بھی فرماتی ہیں کہ آپ رضی الله عنہ نے یہ بھی کہا تھا کہ میری تجہیز وتکفین سے فارغ ہو کر دیکھنا کوئی اور چیز تو نہیں رہ گئی ہے ، اگر ہو تو اس کو بھی عمر رضی الله عنہ کے پاس بھیج دینا۔ گھر کا جائزہ لیا گیا تو بیت المال کی کوئی اور چیز کا شانہ صدیقی رضی الله عنہ سے برآمد نہیں ہوئی۔

تجہیز وتکفین سے متعلق فرمایا کہ اس وقت جو کپڑا بدن پر ہے اسی کو دھو کر دوسرے کپڑوں کے ساتھ کفن دینا، حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے عرض کی یہ تو پرانا ہے، کفن کے لیے نیا ہونا چاہیے۔ فرمایا: زندے مردوں کی بہ نسبت نئے کپڑوں کے زیادہ حق دار ہیں، میرے لیے یہی پھٹا پرانا کافی ہے۔

اس کے بعد پوچھا آج کون سا دن ہے؟ لوگوں نے جواب دیا دوشنبہ، پھر پوچھا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا وصال کس روز ہوا تھا؟ کہا گیا کہ ”دوشنبہ کے روز“ فرمایا:” تو پھر میری آرزو ہے کہ آج ہی رات اس عالم فانی سے رحلت کر جاؤں۔“ چناں چہ یہ آخری آرزو بھی پوری ہوئی، یعنی دوشنبہ کا دن ختم ہو کر منگل کی رات کو تریسٹھ برس کی عمر میں اواخر جمادی الاولیٰ13ھ کو عالم جاں وداں روانہ ہوئے۔

﴿إِنَّا لِلّہِ وَإِنَّا إِلَیْْہِ رَاجِعونَ﴾․

وصیت کے مطابق رات ہی کے وقت تجہیزو تکفین کا سامان کیا گیا، آپ رضی الله عنہ کی زوجہ محترمہ حضرت اسماء بنت عمیس رضی الله عنہا نے غسل دیا، حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے جنازے کی نماز پڑھائی، حضرت عثمان رضی الله عنہ، حضرت طلحہ رضی الله عنہ، حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی الله عنہما اور حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے قبر میں اتارا اور اس طرح سرور کائنات صلی الله علیہ وسلم کے رفیق زندگی آپ صلی الله علیہ وسلم کے پہلو میں مدفون ہو کر دائمی رفاقت کے لیے جنت میں پہنچ گئے۔

Flag Counter