Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

2 - 17
خدا فراموشی کے نتائج

مرجع العلماء، استاذ الاساتذہ
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خاں رحمة اللہ علیہ

بسم الله الرحمن الرحیم
﴿وَلَا تَکُونُوا کَالَّذِیْنَ نَسُوا اللَّہَ فَأَنسَاہُمْ أَنفُسَہُم﴾․(الحشر:19)

خدا فراموشی کا نتیجہ خود فراموشی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔ علم وعقل، دولت واقتدار، روشن دماغی ودل کا احساس، دانش کدے وکتب خانے اور شعراء کی محفلیں وعلماء کی مجلسیں سب کچھ موجود ہونے کے باوجود جب خدا فراموشی آتی ہے تو خود فراموشی کی نحوست سے محفوظ رہنا ممکن نہیں۔ خود فراموشی انفرادی نوعیت کی ہو تو اس کے مضر اثرات محدود ہوتے ہیں او راگر وہ اجتماعیت کی صورت اختیار کرے تو پھر پورا معاشرہ بگاڑ اور فساد کی لپیٹ میں آجاتا ہے۔ زندگی کا پورا نظام تباہ وبرباد ہو جاتا ہے، ساری سوسائٹی تہہ وبالا ہو کر رہ جاتی ہے، ظہر الفساد فی البر والبحر کا نقشہ سامنے ہوتا ہے۔

سرورِ کائنات محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے قبل یہی حالت تھی، انسانیت تباہ وبرباد تھی۔ اس کی کوئی کَل درست نہ تھی، پورا معاشرہ فساد کی لپیٹ میں تھا، کوئی اس کو ذرا سہارا دینے کو تیار نہ تھا۔ اس وقت الله تعالیٰ نے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کو معبوث فرمایا اور آپ کو واضح اور مکمل دین عطا فرمایا۔ آپ نے پوری دنیا کو چیلنج کیا، اے دنیا والو! تمہاری زندگی کا پورا نظام غلط ہے، تمہاری عادتیں، اخلاق، تمہارے رسوم، مسلمات سب غلط ہیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم  نے تن تنہا دعوت کا آغاز کیا اور جان کی باز لگا دی۔ خطرات میں اپنے آپ کو ڈال دیا اور باطل سے ٹکرا گئے۔ ایک موقع پر جب چچا نے شکوہ کیا اور کام کو موقوف کرنے کی بات کی… تو فرمایا: چچا! اگر وہ میرے ایک ہاتھ میں چاند اور دوسرے ہاتھ میں سورج رکھ دیں تب بھی میں اپنے مشن سے باز نہ آؤں گا۔

22/سال میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہ انقلاب برپا کیا کہ بقول مولانا سید سلیمان ندوی، اختلاف استعداد کے باوجود ایک چیز ہزاروں لاکھوں افراد میں نمایاں ہو کر سامنے آئی۔ وہ ایک بجلی تھی، جو سب میں کوند رہی تھی، ایک روح تھی جو سب میں تڑپ رہی تھی، وہ بادشاہ ہوں یا گدا، امیر ہوں یا غریب، حاکم ہوں یا محکوم، قاضی ہوں یا گواہ، افسر ہوں یا سپاہی، استاد ہوں یا شاگرد، عابد وزاہد ہوں یا کاروباری ، غازی ہوں یا شہید… توحید کا نور، اخلاص کی روح، قربانی کا ولولہ، خلق کی ہدایت و راہ نمائی کا جذبہ اور بالآخر ہر کام میں خدا کی رضا جوئی کا جوش ہر ایک کے اندر کام کر رہا تھا۔ وہ جوکچھ بھی ہوں اور جہاں بھی ہوں اور جوکچھ بھی کر رہے ہوں یہ فیضانِ حق سب میں یکساں اور برابر تھا۔

صحابہ کرام رضی الله عنہم کی یہ مقدس جماعت ہی محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم  کے مشن کو لے کر آگے بڑھی اور رہتی دنیا تک کے لیے اس جماعت نے آپ کی دعوت کوبقا ودوام کی دولت سے ہم کنار کر دیا۔ اس پاک باز گروہ نے فیصلہ کر لیا تھاکہ ہم مٹ سکتے ہیں ،ختم ہو سکتے ہیں، لیکن ہم دنیا سے اپنے لیے کچھ نہ لیں گے۔ ہم الله تعالیٰ کی امانت او رمحمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت کو جہاں تک ممکن ہو گا پہنچا کر دم لیں گے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم  کی لگاتار ومسلسل تعلیم وتربیت اور سعی وکاوش کے نتیجے میں پورے معاشرے کے رسم ورواج بدل گئے ، عادتیں اور خصلتیں تبدیل ہو گئیں، ایک آدمی کی عادت کو بدلنا مشکل ہوتا ہے۔ بڑے بڑے دانش مند اور حکیم عاجز نظر آتے ہیں۔ لیکن رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم  کے طفیل میں ہزاروں لاکھوں کی کایا پلٹ ہو گئی۔

آج وہ ہدایتِ ربانی اور دعوت آسمانی موجود ہے، لیکن پھر بھی ایک بھائی دوسرے بھائی کا گلا کاٹ رہا ہے۔ ایک انسان دوسرے انسان کا گھر اوردکان جلا رہا ہے اور لوٹ رہا ہے۔ ایک دوسرے کی آبروپامال کر رہا ہے، ہر طرف ظلم وستم خود غرضی اور نفس پرستی کا بازار گرم ہے۔ کیوں کہ ہم نے خدا فراموشی اور خود فراموشی کواپنے اوپر مسلط کر لیا ہے۔ سیرت کے جلسے بہت ہوتے ہیں۔ بارگاہ رسالت میں نذرانہ عقیدت پیش کرنے میں کوئی کوتاہی نہیں کی جاتی۔ پھر بھی ہسپتالوں میں ڈاکٹر اور نرس مریض پر رحم وہم دردی کے جذبے سے خالی ہیں، عدالتوں میں جج کرسی عدالت پر بیٹھ کر مشق ستم میں مشغول ہیں۔ انتظامیہ کے ہر شعبے میں جدھر دیکھیے، انتظامی مشنری ہر چیز سے آراستہ ہونے کے باوجود، صرف نظم ونسق قائم کرنے سے محروم ہے، احکام اسلام سے روگردانی عام ہے، فرائض وواجبات تک کا احترام باقی نہیں رہا۔

اس لیے ہم خوش حالی اور ترقی کے لیے جو بھی پلاننگ کرتے ہیں یامنصوبے بناتے ہیں تو نتیجتاً بد حالی اور اخلاقی گراوٹ میں روز افزوں اضافہ ہی ہوتا ہے، اس لیے کہ دل ٹھیک نہیں، اس میں ناسور ہو گیا ہے۔ ہمارے لیے سرورکائنات صلی الله علیہ وسلم  کی تعلیمات کی طرف رجوع ضروری ہے، اسی میں ہمارا علاج بھی ہے اور وہی ہماری صلاح وفلاح او راستحکام وتحفظ کے لیے ناگزیر بھی…!!

Flag Counter