Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

4 - 17
اللہ کے نزدیک ہر نیک عمل قابلِ قدر

مولانا اسرار الحق قاسمی
	
قرآن کریم اور احادیث میں فرائض وواجبات کے علاوہ بہت سارے ان امور کی نشان دہی کی گئی ہے جو اعمالِ خیر ہیں اوران کے کرنے سے اللہ تبارک و تعالیٰ اجروثواب سے نوازتاہے۔البتہ اس بارے میں ایک چیزذہن میں رکھنی چاہیے کہ قرآن ایک اصولی کتاب ہے اوراس میں زیادہ تر اصول بتائے گئے ہیں،چناں چہ مختلف مقامات پر ارشاد ہواہے کہ ”تم جوبھی (اللہ کے راستے میں)مال خرچ کروگے اللہ کواس کاعلم ہے۔“(البقرہ)یایہ کہ”اگرکسی نے ذرہ برابربھی خیر کاکام کیاہوگاتووہ اسے دیکھے گا۔“ (الزلزال) یعنی اسے اس کابدلہ دیاجائے گا۔یایہ کہ”اگرکسی نے نیک عمل کیاتواس نے اپنے لیے کیااورجس نے کوئی براعمل کیاتواس نے اپنے لیے کیا۔“(فصلت)علامہ ابن کثیراس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: یعنی جس نے کوئی اچھاعمل کیاتواس کا نفع اسی کوہوگا،جب کہ اگرکسی نے کوئی براعمل کیاتواس کاوبال بھی اسی کوہوگا۔اسی آیت میں آگے اللہ تعالیٰ فرماتاہے ”اورتیرارب بندوں پرظلم کرنے والانہیں ہے“۔اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بھی بندے کوبے وجہ سزایاعذاب نہیں دے گا،اسی طرح اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی بندے کی نیکی دوسرے کے کھاتے میں نہیں ڈالے گا،جوعمل جس شخص نے کیاہے اسی کواس کا بدلہ ملے گا۔ان آیاتِ پاک سے اصولی طورجوباتیں معلوم ہوتی ہیں وہ یہ ہیں کہ خیرکاکام کوئی ایک نہیں ہے، اس کی متعددشاخیں اور جہتیں ہیں،اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتاہے کہ بڑے سے بڑااور چھوٹے سے چھوٹ ہر طرح کانیک عمل اللہ کے یہاں اجروثواب کے اعتبار سے اہم ہے اور ہر بندے کواس کے کیے ہوئے عمل کااجرپوراپوراملے گا۔

اسلام نے اپنے ماننے والوں کی تربیت ایسی کی ہے کہ وہ اعمالِ خیر کے خود بھی عادی ہوجائیں اور معاشرے میں اسے پھیلانے کابھی سبب بنیں۔یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اپنے صحابہکوایسے کاموں پرابھارنے کے لیے خود بھی ان کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے اور انھیں تلقین بھی کرتے تھے۔کبھی کبھی انہیں رغبت دلانے کے لیے گزشتہ قوموں کے نیک لوگوں کے قصے بھی سناتے تھے۔صحابہ بھی وقتاً فوقتاً آپ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیاکرتے تھے کہ اللہ کے رسول (صلی الله علیہ وسلم)! کون سا عمل اللہ کے نزدیک زیادہ اجروالااور بہتر ہے؟ اور موقع کی مناسبت سے حضور صلی الله علیہ وسلم انہیں مختلف جواب دیاکرتے تھے۔چناں چہ ایک متفق علیہ حدیث میں حضرت ابوذرسے روایت ہے ،وہ فرماتے ہیں کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا”اے اللہ کے رسول !کونسا عمل افضل ہے؟“توآپ نے جواب دیا: ”اللہ پر ایمان لانااوراس کے راستے میں جہادکرنا“۔ہم لوگ چوں کہ مسلم خاندان میں پیداہوئے اور اسلام ہمیں گویا وراثت میں ملاہے اس لیے اس کی اہمیت اتنی اچھی طرح ہمیں سمجھ نہیں آئے گی۔لیکن غور کیجیے کہ ایک ایسامعاشرہ ہوجہاں تمام کے تمام لوگ اللہ کی وحدانیت کاانکار کرتے ہوں اور اس کے ساتھ بہت سی دوسری چیزوں کوشریک کرتے ہوں اوروہاں ایک معبود کوماننے کاکوئی تصوربھی نہ ہو،توایسے معاشرے میں رہتے ہوئے پہلے توایمان کی اہمیت کا ادراک کرنااور پھر خدائے واحد کوماننااور اس کا اعلان کرنا کتنا مشقت بھراکام ہوگا؟!اس سلسلے میں ہمارے لیے قرنِ اول کے مسلمانوں کی مثال کافی ہونی چاہیے کہ اسلام کے ابتدائی دورمیں جب اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے اسلام کی دعوت و تبلیغ شروع کی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی باتیں کچھ لوگوں کے دل کولگیں اور انھوں نے خدائے واحد اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لانے کا فیصلہ کیاتوانہیں کتنی جوکھم اٹھانی پڑی،وہ اپنے ہی گھر،معاشرے اور شہرمیں اجنبی بنادیے گئے، انہیں طرح طرح کی ایذائیں دی گئیں اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ انہیں اپنا محبوب وطن تک چھوڑناپڑا۔ایسے ماحول میں یقیناً ایمان لاناافضل ترین عمل ہوگا۔اس کے کچھ نمونے توہمارے زمانے میں بھی سامنے آتے رہتے ہیں ،ہم دیکھتے ہیں یاخبروں کے ذریعے سے پتاچلتاہے کہ جب کوئی نیک بخت انسان اللہ کی توفیق سے اسلام کے دامن میں پناہ لیتاہے تواس کے لیے بے پناہ پریشانیاں کھڑی ہوجاتی ہیں۔سب سے پہلے تواپنے گھراور خاندان سے جداہوناپڑتاہے،اس مرحلے سے نکلے توپھرآج کے دورمیں بے شمار قانونی پریشانیاں پیش آتی ہیں ،مگر جولوگ پورے ہوش و حواس کے ساتھ اور دینِ اسلام کی اہمیت و حقانیت کوسمجھ کر اس کی آغوش میں پناہ لیتے ہیں وہ ان تمام حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے دین پر قائم رہتے ہیں،ایسے میں یقیناً ایمان لاناافضل اعمال کی فہرست میں نمبراول پر ہونا چاہیے۔

حدیث پاک میں دوسرا افضل عمل اللہ کے راستے میں جہادکوبتلایاگیاہے۔یہ اسلام کے اولین عہدکے مطابق قتال کے معنی میں ہے کہ اس وقت مسلمانوں کے خلاف کفار مکہ نہ صرف اندرونی و بیرونی سازشوں میں مصروف تھے، بلکہ اس کے ساتھ ساتھ وہ اس کوشش میں بھی رہتے تھے کہ اگر مسلمان اپنی عادت سے بازنہ آئیں توانہیں تلوارکے زور پرپست کیاجائے اوراسلام کا(نعوذباللہ)خاتمہ کردیاجائے ۔ایسے ماحول میں لوگوں میں استقامت کاجذبہ پیداکرنے کے لیے یہ کہناضروری تھاکہ اللہ کے راستے میں لڑنابھی ایک افضل عمل ہے۔پھرحالات اور مواقع کے حساب سے یہ عمل قیامت تک کے مختلف ادوار میں افضل ہوگا۔اگر مسلمانوں کے ساتھ دنیاکے کسی بھی خطے میں ایسی صورتِ حال پیداہوجائے کہ اسلام باطل کے نرغے میں ہواور اسلام دشمن طاقتیں مسلمانوں کومٹانے کے لیے آمادہٴ پیکارہوں تواس وقت ان سے مقابلہ کرناافضل عمل ہوگا۔جہادکاایک اور مفہوم جواحادیث سے ہی ثابت ہے،یہ ہے کہ ہم اپنے نفس اور نفس کی برائیوں سے لڑیں اور اپنے آپ کواسلام کے احکام و آداب کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔بلکہ ایک حدیث میں تواللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم نے نفس سے لڑنے کوجہادِ اکبرقراردیاہے۔ یعنی یہ سب سے بڑاجہاد ہے کہ انسان اپنے نفس کوقابومیں رکھے اور اسے راہِ راست سے نہ بھٹکنے دے۔آگے حضرت ابوذراللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کرتے ہیں کہ”کونسے غلام کوآزادکرناافضل ہے؟“تواس کے جواب میں اللہ کے نبی صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں”جوغلام اپنے آقاکی نگاہ میں سب سے زیادہ نفیس ہواور جوقیمت میں بھی سب سے زیادہ ہو“اس سے یہ تعلیم دی گئی کہ اللہ کے راستے میں عمدہ اور نفیس اور قیمتی چیزخرچ کرنی چاہیے،جیساکہ ایک موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرمایاہے کہ”تم نیکی کونہیں پاسکتے یہاں تک کہ تم اپنی پسندیدہ چیزخرچ کرو۔“(آل عمران)لیکن چوں کہ ہرآدمی کی تواتنی استطاعت ہے نہیں کہ وہ ایک عمدہ،نفیس اور قیمتی غلام کوخرید کرآزادکرسکے،حضرت ابوذرکے ذہن میں بھی یہ خیال آیا،چناں چہ انھوں نے دریافت کیا”اگرمیں ایسانہ کرسکوں تو؟“ توآپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا”پھرکسی کام کرنے والے انسان کی مددکرویاکسی معذورکے لیے کام کرو“اس میں دوباتیں بیان کی گئی ہیں۔ایک تویہ کہ کوئی شخص اپنے بال بچوں اور گھرخاندان کے لیے محنت مشقت کرکے روزی حاصل کرنے کی کوشش کررہاہے، لیکن وہ اس کے لیے کافی نہیں ہورہاتوآپ اس کاہاتھ بٹائیے،اس کے کام میں آپ اس کی مددکردیجیے، تاکہ وہ اتناکماسکے کہ اس کاگھربار چل سکے۔دوسری بات یہ ہے کہ ایک شخص ایسا ہے جوکوئی کام کرنانہیں جانتایاوہ کسی ایسے جسمانی عذر کاشکارہے جس کی وجہ سے اس سے کوئی کام نہیں ہوپارہاہے ،توآپ اپنی طرف سے محنت مشقت کرکے یامال کے ذریعے اس کے لیے روزی کاانتظام کردیجیے۔اس کے بعدبھی حضرت ابوذرنے ایک سوال کیا،پوچھا”اللہ کے نبی( صلی الله علیہ وسلم) !اگر میں کوئی کام نہ کرسکوں تو؟“توآپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا”پھرتم اپنی جانب سے کسی کوتکلیف نہ پہنچنے دو،یہ تمہارے لیے اپنی ذات پر صدقہ ہے“۔ اس حصے میں نیکی اور عملِ صالح کی آخری حد بتادی گئی ہے کہ اگر آپ کے اندراتنی بھی استطاعت نہیں ہے کہ کسی صاحبِ ضرورت کی ضرورت میں کام آسکیں توپھرکم سے کم اپنے آپ کوایسابنائیے کہ کسی کی ذات کوآپ سے تکلیف نہ پہنچے،کوئی ایساعمل نہ کیجیے جوکسی کی رنجیدگی کاباعث ہواور آپ کایہ عمل بھی عنداللہ صدقے کی فہرست میں لکھاجائے گا۔

اس حدیث پاک سے معلوم ہواکہ اسلام نے نیک عمل کا دائرہ محدود نہیں رکھاہے، بلکہ وہ حالات اور انسانی طاقت و استطاعت کے حساب سے پھیلاہواہے اور جوشخص بھی ان میں سے کوئی عمل کرے گاتووہ عنداللہ ماجور ہوگا۔اس سے ایک چیزاور سمجھ میں آتی ہے کہ ہم اگر کوئی بڑااوراہم نیک عمل کر رہے ہیں اوردوسرے لوگ نہیں کررہے ہیں یاوہ کسی دوسرے عمل سے وابستہ ہیں تواس پران کی تحقیر نہیں کی جاسکتی،یہ نہیں کہاجاسکتاکہ اس کے عمل کی کوئی اہمیت نہیں یایہ کہ اسے کوئی اجرنہیں ملے گا۔جیساکہ آج کل دیکھنے میں آتاہے کہ اگر کچھ لوگ دینی علوم کی تدریس و اشاعت میں مشغول ہیں تووہ دوسرے شعبے کے کام کواتنی اہمیت نہیں دیتے یابہت سے دعوت وتبلیغ کے بھائی علماء اور طلباء کوکم تر خیال کرتے ہیں یااسی طرح اگر کوئی شخص مال دار ہے اوروہ اپنے مال کے ذریعے بہت سے لوگوں اور اداروں کی مددکرتاہے تووہ دوسرے لوگوں کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتاہے۔اس کے علاوہ انفرادی و سماجی زندگی کے مختلف شعبوں میں ہم اولاً تونیکی کے کاموں سے جی چراتے ہیں یااگر کرتے ہیں توساتھ ہی نہ کرنے والوں کوطعنہ دینایاانہیں کمترسمجھنابھی ہماری عادت ہوچکی ہے۔ہمیں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ہدایت کوذہن میں رکھناچاہیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کس طرح انسانی فطرت اور اس کی وسعت وصلاحیت کاخیال رکھتے ہوئے بھرپو ر گنجائش رکھی اوریہاں تک فرمایاکہ اگر آپ کوئی بھی بڑایاچھوٹانیک عمل کرسکنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں،توکم ازکم اپنی ذات سے کسی کوتکلیف نہ پہنچنے دیں اوراسے بھی صدقہ قراردیا۔پس ثابت ہواکہ اللہ کے نزدیک کوئی بھی عمل حقیراور چھوٹانہیں ہے اورہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ اخلاص وللہیت کے ساتھ اپنی وسعت کے مطابق نیک اعمال کرتے رہیں، تاکہ دنیاوآخرت میں ہمیں ان کااچھاسے اچھابدلہ مل سکے۔

Flag Counter