Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

6 - 17
قومی خزانہ کو نقصان پہنچاناقومی جرم ہے

مفتی رفیق احمد بالاکوٹی
	
قومی ملکیت اور اس کے اِبتدائی ذرائع آمدن
”قومی ملکیت“، ”قومی خزانہ“، ”سرکارِی خزانہ“ اور ”سرکارِی املاک“؛ ایسے الفاظ ہیں جو زبان زد خاص و عام ہیں، عوام و خواص ان الفاظ کے معانی سے زیادہ ان کے مفہوم، مصداق اور مدلول کو جانتے ہیں۔

اِسلامی تارِیخ کی رُو سے اِسلامی سلطنت اور قومی ملکیت کاتصور ہم عمر ہیں، حضورِ اَکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اِسلامی اَحکام کی بالادستی پر مشتمل اِجتماعی نظم و ضبط کا عملی نمونہ پیش فرمایا تو اُس وقت اِجتماعی نظم کے قیام کے لیے وسائل و اَسباب کی ضرورت درپیش ہوئی، اس کے لیے مختلف ذرائع زیر عمل آتے رہے، اس حوالہ سے سب سے بڑا ذریعہ آمدن پہلی مرتبہ جو متعارف ہوا، وہ سن2/ ہجری میں بدر کے معرکہ کے نتیجہ میں حاصل ہونے والے غنائم تھے، اس سے قبل مسلمانو ں کو اتنا بڑا مالی ذخیر ہ ہاتھ نہیں لگا تھا، اب اس مال کی بحفاظت منتقلی، مناسب تقسیم اور دِیگر اَحکا م کی تفصیلات اللہ تعالیٰ نے حضورِ اَکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی بیان فرمائی:

﴿وَاعْلَمُوْا أَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْءٍ فَأَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِیْ الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ إِنْ کُنْتُمْ أٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَمَا أَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقٰی الْجَمْعٰنِ، وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ﴾.(الانفال:41)

یہ سلسلہ بعد میں بھی قائم رہا اور مختلف ذرائع سے غنائم حاصل ہوتے رہے، پھر اِسلامی حکومت کی مصالحانہ پیش قدمی اور وسعت کے نتیجہ میں خراج، عشر اور زکوٰة وغیرہ بھی مسلمانوں کے اِجتماعی مال کے طور پر یکجا ہونا شروع ہوگئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اِجتماعی مال کی وصولی سے لے کر مقررہ مصارف میں اِستعمال کرنے تک کے اَحکا م پورِی تفصیل و تاکید کے ساتھ بیان فرمائے۔

یہ سلسلہ جب خوب مستحکم ومستقل ہو ا تو اُسے”بیت المال“ کے نام سے مستقل شعبہ کا درجہ دِیا گیا۔ چناں چہ قرنِ اَوّل سے ہی اِجتماعی املاک کے جمع و حفاظت کے شعبہ کو ”بیت المال “ یا ”اموال النا س“ کہا جاتا ہے۔

قومی ملکیت، بیت المال کی شرعی حیثیت
بیت المال کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اِس سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشادات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیت المال کا خزانہ اور قومی وسرکارِی خزانہ تمام رِعایا کی ملکیت شمار ہوتا ہے، یہ کسی بھی فرد کی ذاتی ملکیت شمار نہیں ہوتا، اِسی لیے کسی بھی فرد کے لیے خواہ وہ رِعایا کا اَدنیٰ فرد ہو یا حاکم وقت؛ جائز نہیں کہ وہ سرکارِی خزانہ میں آزادانہ اور مالکانہ تصرفات کا مجاز ہو، حتیٰ کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بحکم خداوندی غنائم کا پانچواں حصہ مقررتھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بارہ میں بھی یہی اِرشاد فرماتے ہیں کہ وہ بھی تمہارے اُوپر خرچ کرنے کے لیے ہوتاہے، اس میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے دیے گئے محدود اِختیار کی طرف اِشارہ بھی فرماتے ہیں، چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے:

”قام فینا رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذات یوم فذکر الغلول، فعظمہ وعظم أمرہ، ثم قال: لا ألفین أحدکم یجیء یوم القیامة علٰی رقبتہ بعیر، لہ رغاء، یقول: یارسول اللّٰہ ! أغثنی، فأقول: لا أملک لک شیئا، قد أبلغتک۔“

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سرکارِی و قومی خزانہ سے متعلق اَپنے ذاتی صواب دِیدی اِختیارات کی نفی فرمائی تھی اور حکم شرعی کی پابندی و پاس دارِی کا سبق یوں دِیا:

”عن أبی ھریرة رضي اللّٰہ عنہ قال: قال رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ما أعطیکم ولا أمنعکم ،أنا قاسم أضع حیث أمرت.“

”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ راوی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:”میں نہ تو تمہیں عطا کرتا ہوں اور نہ تمہیں محروم رکھتا ہوں، میں تو صرف تقسیم کرنے والا ہوں کہ جس جگہ مجھے رکھنے کا حکم دیا گیا میں وہاں رکھ دیتا ہوں۔“

امام اِبنِ تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
”ولیس لولاة الأموال أن یقسموہ بحسب أھوائھم، کما یقسم المالک ملکہ، فإنما ھم أمناء ونواب ووکلاء، لیسوا ملاکا، کما قا ل رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: إنما أنا قاسم.“

”مسلمانوں کے اموال کی حفاظت اورمصارف میں خرچ کی ذمے دارِی پر مامور اَفراد کو یہ اِختیار حاصل نہیں کہ وہ اَپنی ملکیت کی مانند جیسے چاہیں تصرف کریں، وہ ان اموال کے محافظ، مسلمانوں کی جانب سے وکیل اور نگہبان ہیں، مالک نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اَپنے آپ کو قاسم (تقسیم کرنے والا) فرمایا تھا۔“

اس سے معلوم ہو ا کہ حاکم وقت، قومی خزانہ اور اِجتماعی ملکیت کا محض محافظ، نگران اور دیکھ بھال کا ذمے دار ہوتا ہے، وہ سرکارِی خزانہ میں مالکانہ اِختیارات و تصرفات کا ہرگز مجاز نہیں ہوتا۔ اَگر اَمین امانت میں خیانت کرے تو وہ مسلمان کہلانے کا حق دار نہیں رہتا، پھر سرکارِی خزانہ میں خیانت کا مرتکب حاکم توحق حکم رانی کا جوازبھی کھو بیٹھتاہے، حاکم ہو یا کوئی عام فرد؛ جب سرکارِی خزانہ اور ملکیت میں ناجائز تصرف اور خورد برد کا اِرتکاب کرے تو اس کا یہ عمل شرعی اِصطلاح میں”غلول“ اور یہ شخص ”غالّ“ کہلاتا ہے، غلول اور غال کے بارہ میں شریعت کیابتاتی ہے؟ اس کی کچھ تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
غلول (خیانت و غبن) کا حکم قرآنِ کریم کی روشنی میں
غلول کی سنگینی کا بیان خود قرآنِ کریم میں موجود ہے:

﴿وَمَاکَانَ لِنَبِیٍّ أَنْ یَّغُلَّ وَمَنْ یَّغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ﴾․(آل عمران:161)
” اور کسی نبی کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ خیانت کرے ،حالاں کہ جو شخص خیانت کرے گا وہ شخص اپنی اس خیانت کی ہوئی چیز کو قیامت کے دِن حاضر کرے گا۔“

مذکورہ آیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق بعض حضرات کی ایسی بدگمانی کے ازالہ کے لیے اُتری تھی، جس میں یہ تاثر مل رہا تھا کہ غنیمت یا بیت المال میں سے گم شدہ ایک چیز حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شاید اَپنی صواب دِید پر اَپنے پاس رکھ لی ہو، اللہ تعالیٰ نے ایسے غلول کی نسبت بھی اَپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف گوارا نہیں فرمائی، جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے غنیمت میں سے کوئی چیز اَپنے لیے مختص کرنا مناسب نہیں ہے تو کسی اور کو اِختیار یا اِستثناکیوں کر ہوسکتا ہے؟!

امام ابو بکر جصاص رازی رحمہ اللہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:
”وقد عظم النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم أمر الغلول حتی أجراہ مجری الکبائر، وروی قتادة عن سالم بن أبی الجعد …:من فارق روحُہ جسدَہ وہو بریٴ من ثلاث دخل الجنة:الکبر والغلول والدَّین․“

یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے غلول کے معاملہ کو اِنتہائی سنگین قرار دِیا ہے اور جنت میں داخلہ کے لیے تکبر، قرض اور غلول سے براء ت کو شرط قرار دیا ہے۔

امام قرطبی رحمہ اللہ نے مذکورہ آیت کے تحت لکھا ہے کہ ”غالّ“ (غلول کرنے والا) قیامت کے دِن غلول کردہ چیز کو اَپنی گردن پر اُٹھا کر اَپنی خیانت کا اِظہار کرتے ہوئے اور اَپنے آپ کو کوستے ہوئے سب لوگوں کے سامنے اُٹھائے ہوئے لائے گا۔

نیز آپ نے اس آیت سے ثابت شدہ اَحکام میں ذِکر فرمایاہے:
”قال العلماء: والغلول کبیرة من الکبائر بدلیل ھذہ الآیة․․․․ فإذا غلّ الرجل فی المغنم ووجد أخذ منہ وأدب وعوقب بالتعزیر․․․․ أجمع العلماء علی أن للغال أن یرد جمیع ما غلّ إلی صاحب المقاسم قبل أن یفترق الناس إن وجد السبیل إلی ذٰلک، وأنہ إن فعل ذٰلک فھی توبة لہ․․․․ واختلفوا فیما یفعل بہ إذا افترق أھل العسکر ولم یصل إلیہ، فقال جماعة من أھل العلم: یدفع إلی الإمام خمسہ، ویتصدق بالباقی، ھذا مذھب الزھری ومالک والأوزاعی واللیث والثوری، روی عن عبادة بن الصامت ومعاویة والحسن البصری، وھو یشبہ مذھب ابن مسعود وابن عباس․“

اِس عبارت میں مندرجہ ذیل اُمور بیان ہوئے ہیں:
1..غلول کبائر میں سے کبیرہ گناہ ہے۔
2..جو شخص غلول کا مرتکب قرار پائے اور وہ مالِ مغلول (چوری کردہ، غبن کردہ مال) اُس کے پاس پایا بھی جائے تواُس سے واپس لینا لازم اور ایسے شخص کے خلاف تادِیبی کارروائی کی جائے گی اور اُس کو حاکم وقت مناسب سزا بھی دے گا۔
3..علماء کا اِس بات پر اِجماع ہے کہ اِجتماعی ملک اور قومی خزانہ میں غلول وغبن کرنے والے پر لازم ہے کہ وہ قومی مال، قومی خزانہ کو واپس کرے، ایسا کرنے پر اس کے لیے عنداللہ معافی وتوبہ کی گنجائش رہے گی۔

مذکورہ آیت کے تحت حضرت علامہ اِبنِ کثیر رحمہ اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد نقل فرمایا ہے:
”ردّوا الخیاط والمخیط؛ فإن الغلول عار ونار وشنار علی أھلہ یوم القیامة․“
”(مالِ غنیمت، اِجتماعی ملکیت سے لیا ہوا) دھاگہ ہو یا سوئی واپس کرو، بلاشبہ غلول قیامت کے دِن شرمندگی، آگ اور بدترین عیب ہے۔“

غلول کا حکم اَحادِیث مبارکہ کی روشنی میں
1․․․․․ ”عن معاذ رضي اللّٰہ عنہ قال: بعثنی رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم إلی الیمن،فلما سرت أرسل فی أثری فرددت، فقال: أتدری لم بعثت إلیک؟ لاتصیبن شیئا بغیر إذنی؛ فإنہ غلول، ومن یغلل یأت بما غل یوم القیامة، لھٰذا دعوتک فامض فی عملک․“(رواہ الترمذی)

”حضرت معاذ رضی اللہ عنہ راوِی ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے (عامل) بنا کر یمن بھیجا، (جب میں روانہ ہوا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے پیچھے آدمی بھیجا، میں لوٹ کر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :تم جانتے ہو ،میں نے تمہیں بلانے کے لیے کیوں بھیجا تھا؟ تم میری اِجازت کے بغیر کچھ نہ لینا، یہ خیانت ہے۔“

2․․․․․”عن بریدة رضي اللّٰہ تعالٰی عنہ عن النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: من استعملناہ علی عمل فرزقناہ رزقا، فما أخذ بعد ذلک فھو غلول․“ (رواہ أبو داوٴد)

”حضرت بریدہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”جس شخص کو ہم نے کسی کام پر مامور کیا اور اس کو رِزق دِیا (اس کام کی اُجرت مقرر کردِی) اس کے بعد اَگر وہ (اَپنی تن خواہ سے زائد) کچھ وصول کرے گا تو یہ مالِ غنیمت میں خیانت ہے۔“

3․․․․․”من عمل منکم لنا علٰی عمل فکتمنا منہ مخیطا فما فوقہ فھو غال یأتی بہ یوم القیامة․“ (رواہ عدي بن عمیرہ)

”تم میں سے جو شخص کسی ذمے داری پر مامور ہو اور اس میں سے ایک سوئی یا اس سے بھی کم مقدار کی کوئی چیز چھپالے تو قیامت کے روز ”غلول“ کرنے والے کی صورت میں ہی پیش ہوگا۔“

مذکورہ نصوص کی روشنی میں معلوم ہوا کہ:
1..شرعی وقانونی اِجازت کے بغیر اِجتماعی مال سے کوئی چیز ہتھیاناجرم ہے، جو کہ غلول و حرام ہے۔
2..سرکارِی ملازمین، حق الخدمت کے علا وہ جو خرد برد کریں یا ناحق وصولی کریں، وہ بھی غلول ہے۔
3..ناحق ایک سلائی، دھاگہ بھی ہتھیانے والا غال ہے، غلول کا مرتکب ہے۔
4..”عن عبد اللّٰہ بن عمرو قال: کان علی ثقل النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم رجل یقال لہ ”کرکرہ“، فمات، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ہو فی النار، فذہبوا ینظرون فوجدوا علیہ کساء أو عباء ة قد غلھا․“

حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ”کرکرہ “ نامی ایک شخص کا اِنتقال ہوا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس کے بارہ میں دوزخی ہونے کا اِظہار فرمایا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے جاکر دیکھا تو اُس شخص پر غلول کردہ (ناجائز طریقہ سے لی ہوئی) ایک چادر یا جبہ پایا۔
5..․”عن زید بن خالد الجہنی قال:توفي رجل من أشجع بخیبر، فقال النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم: صلوا علی صاحبکم، فأنکر الناس ذلک، وتغیرت وجوہہم، فلما راٰی ذلک، قال:ان صاحبکم غل فی سبیل اللّٰہ، قال زید: فالتمسوا متاعہ، فاذا خرزات من خرز یہود ماتساوی درھمین․“

حضرت زید بن خالد جہنی کی روایت ہے کہ خیبر میں قبیلہ اشجع کے ایک شخص کا اِنتقال ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ اَپنے ساتھی کی نمازِ جنازہ پڑھ لو، لوگوں کو یہ بات عجیب لگی اور اُن کے چہروں پر حیرت چھا گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کی کیفیت بھانپتے ہوئے فرمایا: تمہارے اس ساتھی نے راہِ خدا میں غلول کا اِرتکاب کیا ہے، چناں چہ اُن کے سامان کو کھنگالا گیا تو محض دو درہموں کی مالیت کے بقدر یہود کے لڑی میں پرونے والے نگینے ملے۔

6․․․․․ حضرت خولہ انصاریہ کی روایت سے منقول ہے :
”إن رجالا یتخوضون فی مال اللّٰہ بغیر حق، فلھم النار یوم القیامة․“ (رواہ البخاری)
”بہت سے لوگ خدا کے مال (زکوٰة، غنیمت اور بیت المال) میں ناحق تصرف کرتے ہیں، اُن کے لیے قیامت میں آگ ہے۔“

شارحین نے اس روایت میں دو باتیں ثابت فرمائی ہیں:
الف:․․․․مجاز اتھارٹی کی اِجازت کے بغیر بیت المال وغیرہ میں تصرف کرنا۔
ب:․․․․اَپنی محنت اور حق الخدمت سے زیادہ ہتھیانا۔

7..․ غیر قانونی طریقہ سے سرکارِی خزانہ میں خرد برد کرنا غلول ہے اور اس کی سزا جہنم ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذبن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن کا گورنر بنا کر بھیجتے ہوئے اہتمام کے ساتھ اِرشاد فرمایا تھا:

”لا تصیبن شیئا بغیر إذنی فإنہ غلول؛ ومن یغلل یأت بما غل یوم القیامة․“

”(تم اَپنی مدتِ ملازمت کے دوران) میری اِجازت کے بغیر کچھ نہ لینا، کیوں کہ یہ خیانت ہے اور جو شخص خیانت کرے گا وہ قیامت کے دِن وہ چیز لے کر آئے گا جس میں اُس نے خیانت کی ہے۔“

8․․․․․”عن خولة بنت قیس قالت: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: إن ھذہ المال خضرة حلوة، فمن أصابہ بحق بورک لہ فیہ، ورب متخوض فیما شاء ت بہ نفسہ من مال اللّٰہ ورسولہ، لیس لہ یوم القیامة إلا النار․“ (رواہ الترمذی)

”حضرت خولہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ اِرشاد منقول ہے کہ یہ مال سبز و شیریں چیز ہے، جس نے اسے جائز و حق طریقہ سے حاصل کیا اُس کے لیے بابرکت ہے اور جس نے اللہ اور اس کے رسول کے مال (بیت المال، غنائم) میں ناحق تصرف کیا، اُس کے لیے جہنم کی آگ کے سوا اور کچھ نہیں۔“

9․․․․حضرت رویفع بن ثابت کی ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ سرکارِی مال اور قومی ملکیت سے عارضی اِستعمال کے لیے حاصل کردہ چیزوں کو صحیح و سالم حالت میں واپس کرنا ضرورِی ہے، ناقابل اِستعمال یاناکارہ کرکے واپس کرنا جرم ہے، نیز بلا ضرورت سرکارِی املاک کا اِستعمال بھی جرم ہے، چناں چہ اِرشادہے :

”عن رویفع بن ثابت رضي اللّٰہ عنہ أن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: من کان یوٴمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلایرکب دابة من فيء المسلمین، حتی إذا أعجفھا ردھا فیہ، ومن کان یوٴمن باللّٰہ والیوم الاٰخر فلا یلبس ثوبا من فيء المسلمین حتی إذا أخلقہ ردہ فیہ․“ (رواہ أبو داوٴد)

”جو شخص اللہ اورآخرت پر اِیمان رکھے اُس کے لیے قطعاً روا نہیں ہے کہ وہ مسلمانوں کے (مشترک) مال غنیمت کے کسی جانور پر (بلاضرورتِ شرعی) سوار ہو اور پھر جب وہ جانور (سوارِی) دُبلا ہوجائے تو اُس کو مالِ غنیمت میں واپس کردے․․․․الخ۔“

10․․․․․وقال أبو حنیفة:”ان أبا بکر استقرض من بیت المال سبعة آلاف درھم وہي علیہ فأوصی بھا أن تقضی عنہ․“

حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ذمے بوقت وفات، بیت المال کے سات ہزار دراہم قرض تھے تو اُنہوں نے وصیت فرمائی کہ اُن کی جانب سے یہ قرض بیت المال کو اَدا کیا جائے۔

11․․․․․ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو کبھی ضرورت پیش آتی تو بیت المال کے خزانچی کے پاس جاکر قرض لیتے، پھر بسااوقات تنگی ہوتی اور خزانچی قرض کی اَدائیگی کا مطالبہ کرتا تو آپ عذر فرماتے اور جوں ہی رقم ہاتھ آتی تو اَدا فرمادیتے تھے۔

12․․․․․حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے تھے:

”إنی أنزلت نفسی من مال اللّٰہ بمنزلة مال الیتیم، إن استغنیت عففت، وإن افتقرت أکلت بالمعروف، قال وکیع فی حدیثہ: فإذا أیسرت قضیت․“

”بیت المال کے ساتھ میں یتیم کے مال کا سا معاملہ رکھتا ہوں، ضرورت نہ ہو تو اَپنے آپ کو بچائے رکھتا ہوں اور مجبوری پیش آہی جائے تو حسب ضابطہ لے کر کام میں لاتا ہوں اور جوں ہی ہاتھ کھلا ہو تو اَدا کردیتا ہوں۔ “

مندرجہ بالاتصریحات سے یہ حکم معلوم ہوا کہ اَگر کوئی شخص ناجائز طریقہ سے سرکارِی مال، قومی خزانہ اور اِجتماعی ملکیت میں خورد برد کرے، ناحق تصرف کرے، اَپنے حق سے زیادہ ہتھیانے کی کوشش کرے، یا قانونی طریقہ سے کام لے کر ناکارہ بنادے اور اس کے اِستعمال و اِفادیت میں خلل پیدا کرے تو وہ غلول جیسے گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہے، اس کے لیے دُنیا و آخرت دونوں میں عار، شناراور نار ہے۔

سرکارِی خزانہ ہتھیانے کے بعد واپس نہ کرنے والے کا حکم
اَب اَگر کوئی سرکارِی خزانہ سے قانونی طریقہ پر جو چیز حاصل کرے اور واپس نہ کرسکے یا واپسی میں کوتاہی کرے تو اس کا حکم کیا ہوگا؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشادات و فرامین میں اس کی تفصیل متعدد زاویوں سے ملتی ہے:

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ وصولی کے بعد لوگ اَدائیگی سے عاجز کیوں آتے ہیں؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اِرشاد کی روشنی میں اس کی بنیادِی وجہ ایک رُوحانی بیمارِی اور اخلاقی کمزورِی ہے اور وہ ہے دِل کا کھوٹ اور نیت کی خرابی۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروِی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”من أخذ أموال الناس یرید أداھا أدی اللّٰہ عنہ، ومن أخذ یرید إتلافھا أتلفہ اللّٰہ علیہ․ “

”جو شخص لوگوں کا مال لے اور اس کے اَدا کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو (یعنی کسی ضرورت و احتیاج کی بنا پر قرض لے اور قرض کو اَدا کرنے کا اِرادہ بھی رکھتا ہو) تو اللہ تعالیٰ اُس سے وہ مال اَدا کرادیتا ہے اور جو شخص لوگوں کا مال لے اور ضائع کرنے کا اِرادہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اُس کے مال کو ضائع کردیتا ہے۔“

یعنی جو لوگ واقعی ضرورت مندہوں اور اس بنیاد پر اموال الناس (قرض وغیرہ) لیتے ہوں اور واپسی کا اِرادہ بھی ہو تو اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو واپسی کی توفیق بھی دے دیتے ہیں اور اُن کے لیے اموال الناس واپس کرنے کی سبیل بن جاتی ہے اور جن کے دِل میں کھوٹ اور چور ہواور وہ واپس کرنے کے بجائے ضائع کرنے کی نیت پر کاربند ہو ں تو اُنہیں حاصل کردہ اموال کے واپس کرنے کی توفیق بھی نہیں ملتی اور اللہ تعالیٰ ان کا دِیوالیہ بھی کر دیتے ہیں، اَگر کسی کا دِیوالیہ نہ ہوا ہو، بلکہ صاحب اِستطاعت، مال دار اور غنی ہو، اُس کے باوجود قرض واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہو، اَپنے ذمے واجب الادا حق اَدا نہ کرتا ہو تو ایسا شخص ظالم و مجرم ہے، اِرشادِ ربانی ہے:
﴿وَلَا تَأْکُلُوْا أَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ﴾․ (البقرة:188)

چناں چہ اس کا ہر طرح سے پیچھاکیا جائے اور قرض و حق کی وصول یابی کے لیے اس کا ہر طرح تعاقب کیا جائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اِرشاد ہے:
”مطل الغني ظلم، فإذا أتبع أحدکم علی ملیٴ فلیتبع․“

”صاحب اِستطاعت کا (اَدائیگی قرض میں) تاخیر کرنا ظلم ہے اور جب تم میں سے کسی کو صاحب اِستطاعت کے حوالہ کیا تو اس سے حوالہ کو قبول کرلینا چاہیے۔“

تشریح میں فرماتے ہیں:
”جو شخص کوئی چیز خریدے اور اُس کی قیمت اَدا کرنے کی اِستطاعت رکھنے کے باوجود قیمت اَدا نہ کرے، یا کسی کا قرض دار ہو اور اَدائیگی قرض پر قادِر ہونے کے باوجود (قرض) اَدا کرنے میں تاخیر کرے تو یہ ظلم ہے۔“

اِسی طرح حضرت شرید حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتے ہیں:
”لیّ الواجد یحلّ عرضہ وعقوبتہ․“
”اِستطاعت رکھنے والے شخص کا (اَدائیگی قرض) میں تاخیر کرنا اس کی بے آبروئی اور سزا دینے کو حلال کرتا ہے۔“

(جاری)

Flag Counter