Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

8 - 17
یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ
محدث اعظم حضرت مولانا سلیم الله خان نوّر الله مرقدہ
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم کا طلبائے جامعہ سے فکر افروز خطاب

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی، استاذ ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم﴿وذکر فإن الذکری تنفع المؤمنین﴾․(سورہ الذرایات:55)
وقال الله سبحانہ وتعالیٰ:﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ، ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً ، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ، وَادْخُلِیْ جَنَّتِی﴾․(سورہ فجر، آیت:30-27) صدق الله العظیم․

آج کی یہ مجلس حضرت کے وصال کے بعد آپ حضرات سے پہلی مجلس ہے، حضرت کا وصال اور آپ کا اس دنیا سے چلے جانا، یہ ہم سب کے لیے ایک بہت بڑا سانحہ ہے، بہت بڑا غم ہے اور میں اپنی کیفیت آپ سے عرض کررہا ہوں میں چوں کہ یہیں رہتا ہوں، اساتذہ کے چہرے بھی دیکھتا رہتا ہوں، طلبہ کے چہرے بھی دیکھتا رہتا ہوں اور ادارے کے کارکنان کے چہرے بھی میرے سامنے رہتے ہیں کہ پہلے دن اور آج کے دن کے غم میں کوئی فرق نہیں ہے۔

لیکن یہ واقعہ ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ جو آیا ہے اسے جانا ہے، انبیائے کرام علیہم الصلوٰة والسلام، امام الانبیاء سید الرسل محمد رسول الله صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم بھی اس دنیا سے تشریف لے گئے اور خلفائے راشدین بھی الله کے حضور پہنچ گئے، صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین، تابعین، تبع تابعین، بزرگان دین، اولیائے کرام، محدثین، فقہاء، مجتہدین، ائمہ اربعہ سب کے سب ۔ یہ ایک حقیقت ہے، یہ واقعہ ہے کہ اس سے مفر نہیں، لیکن خوش قسمت اور عظیم لوگ جو اس دنیا میں آکر، اس دنیا میں رہ کر وہ ایسے مینار بناتے ہیں، روشنیوں اور علم وعمل کی فضا قائم کرتے ہیں کہ قیامت تک ان کے وہ مینار روشن رہیں گے، ان کی وہ خدمات جگمگاتی رہیں گی اور آنے والے لوگ اس سے قیامت تک استفادہ کرتے رہیں گے۔

حضرت نوّر الله مرقدہ کی شخصیت بہت مبارک، بہت سادہ، تکلفات سے پاک، تواضع او رانکساری سے بھرپور، بہت مضبوط علمی، عملی ، روحانی شخصیت تھی ۔ آپ حضرات کو الله تعالیٰ نے یہ اعزاز عطا فرمایا، جس پر آپ مرتے دم تک فخر کر سکتے ہیں کہ الله تعالیٰ نے آپ میں سے بڑی تعداد کو شرف تلمذ کی توفیق عطا فرمائی اور آپ نے ان کو زندہ جاوید ، چلتے پھرتے ، آتے جاتے، دارالحدیث میں بھی، دفتر میں بھی، مسجد میں بھی، سفر سے آتے ہوئے بھی، سفر میں جاتے ہوئے بھی، بار بار آپ حضرات نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا۔پورا عالم اسلام غم زدہ ہے اورپریشان ہے، لیکن انہیں یہ اعزاز حاصل نہیں ہے جو آپ کو حاصل ہے۔

میرے دوستو! ہمیں اس موقع پر جب سے حضرت تشریف لے گئے ہیں او رخاص طور سے ہمارا یہ اجتماع جو حضرت کے بعد پہلی دفعہ ہو رہا ہے، اس میں ہمیں کچھ عہد، کچھ عزم اور کچھ فیصلے کرنے ہیں کہ ہم ان شاء الله ثم ان شاء الله حضرت کے نقش قدم پر چلیں گے۔حضرت کا جو مزاج، حضرت کا جو مذاق ، حضرت کا جومنہج حضرت کا جو مسلک ، حضرت کا جو مشرب تھا اور حضرت کی جو عزیمت تھی، ہم ہر حال میں اسے اختیار کریں گے۔

یقینا یہ بہت بڑی بات ہے کہ آپ ان کے لیے ایصال ثواب کریں، قرآن کریم کی تلاوت کرکے، سبق پڑھ کے، نوافل پڑھ کے، نمازیں پڑھ کے، جو بھی رخ ہیں وہ سب اختیا رکریں۔لیکن میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہم یہ عہد کریں، ہم یہ عزم کریں، الله کے گھر میں بیٹھ کر او رخوب سوچ سمجھ کر کہ ہم میں سے ہر شخص سلیم الله خان بنے گا۔

میرے دوستو! حضرت نے بہت بڑی خدمت کی اور جو حضرت نے اپنے عمل سے ظاہر فرمایا وہ بہت شاذ ونادر… بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کو یہ صفات الله تعالیٰ عطا فرماتے ہیں۔

بڑھاپا ہے، ضعف ہے ، بیماریاں ہیں او رکم زوری ہے، لیکن جیسے جیسے ان کا ظاہری ضعف بڑھ رہا تھا، جیسے جیسے ان کی پیرانہ سالی بڑھ رہی تھی، میں مسلسل اس کا مشاہدہ کرتا رہا ہوں، ان کا ایمان، ان کا یقین، ان کی عزیمت، ان کی اولو العزمی، اس میں اسی طرح اضافہ ہو رہا تھا، جو فیصلے حضرت نے اپنے آخری ایام میں فرمائے ہیں، اس ملک پاکستان کا کوئی ایک شخص ایسا نہیں ہے جو اتنے بڑے فیصلے کرنے کی جرأت کرے۔

الله تعالیٰ نے ان کو بہت نوازا ۔ایک بات یاد رکھیں، حضرت ہمیشہ فرماتے تھے، کہ الله تعالیٰ نے مجھے اپنے اساتذہ کی محبت عطا فرمائی، آپ حیران ہوں گے کہ حضرت مولانا عبدالحق صاحب نوّر الله مرقدہ، بانی ومہتمم وشیخ الحدیث دارالعلوم حقانیہ، وہ حضرت کے دارالعلوم دیوبند کے استاذتھے، حالاں کہ آپ جانتے ہیں کہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مدنی نوّرالله مرقدہ حضرت کے کیسے جلیل القدر استاذ تھے، حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب نوّر الله مرقدہ کتنے بڑے استاذ تھے، حضرت مولانا اعزاز علی صاحب شیخ الأدب حضرت کے استاد ہیں، حضرت مولانا محمد ابراہیم بلیاوی رحمة الله علیہ، شیخ المعقول، وہ حضرت کے استاذ ہیں ، بڑے بڑے اساتذہ، لیکن وہ بڑے بڑے اساتذہ ہندوستان میں رہ گئے تھے یا الله کے ہاں چلے گئے تھے، حضرت مولانا عبدالحق صاحب نوّر الله مرقدہ اکوڑہ میں تھے، ہم چھوٹے چھوٹے تھے اور وہ مشکلات کا زمانہ تھا، سہولتوں کا زمانہ نہیں تھا، بسوں کے، ریل کے لمبے لمبے سفر، حضرت والد صاحب نوّرا الله مرقدہ اکوڑہ خٹک تشریف لے جاتے تھے۔حضرت مولانا عبدالحق صاحب نوّر الله مرقدہ اکوڑہ خٹک بازار کی ایک مسجد میں امام تھے، مدرسہ الگ تھا اور مسجد الگ تھی، اس مسجد کو میں نے بھی دیکھا ہے، اس زمانے میں تو نہیں، اس کے بعد دیکھا ہے ، تو اس میں صفیں چٹائی کی، حضرت اس مسجد میں تشریف لے جاتے اور دس دس، بارہ ، بارہ دن وہاں رہتے … مقصد صرف اپنے استاذ کی زیارت اور ملاقات او رکچھ نہیں، عشق تھا۔

حضرت مولانا انوار الحق صاحب دامت برکاتہم، جو حضرت مولانا عبدالحق صاحب کے صاحب زادے ہیں اور وفاق المدارس کے نائب صدر بھی ہیں، انہوں نے ابھی تعزیت کے ایام میں مجھے سنایا کہ ملتان وفاق کے مرکز میں اجلاس تھا، وفاق کے حوالے سے، تو کافی مہمان تھے، دفتر چھوٹا تھا، رہائش کی بہت زیادہ جگہ نہیں ہے، تو دفتر والوں نے مولانا انوار الحق صاحب کی تشکیل رات کے آرام کے لیے حضرت والاکے کمرے میں کردی، جو حضرت کا مخصوص کمر ہ ہے، صدر وفاق کے حوالے سے، چناں چہ مولانا انوارالحق صاحب فرماتے ہیں کہ میں وہاں چلا گیا، میرے لیے بستر کا بھی انتظام تھا، میری حضرت سے ملاقات ہوئی، باتیں بھی ہوئیں، اس کے بعد میں چوں کہ تھکا ہوا تھا، اس لیے سو گیا، رات کو کسی وقت میری آنکھ کھلی، تو میں نے دیکھا کہ حضرت بیٹھے ہوئے ہیں او ران کی نشست سے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ لیٹے نہیں ہیں، بیٹھے ہی رہے ہیں، میں اٹھا اورحضرت سے پوچھا کہ حضرت! کوئی تکلیف ہے؟ فرمایا کہ نہیں تو!… میں نے کہا کہ حضرت پھرسوتے کیوں نہیں ؟سو جائیں ، تو فرمایا: میرے ضمیر نے اس کی اجازت نہیں دی کہ میرا استاد زادہ سو رہا ہو اور میں بھی سو رہا ہوں، میرے ضمیر نے اس کی اجازت نہیں دی۔ الله اکبر

مولانا انوارالحق صاحب نے فرمایا کہ میں پھرروتا رہا کہ میری کیا حیثیت ہے، لیکن حضرت کی نظر تھی استاد زادے پر۔

تو میرے دوستو! یہ مقامات جو تعالیٰ نے حضرت کو عطا فرمائے، یہ بلاسبب نہیں تھے، اس کے پیچھے بڑے مجاہدے تھے جسے حضرت نے تاحیات مضبوطی کے ساتھ اختیار کیجیے رکھا، ٹنڈوآدم میں کئی سال پہلے، حضرت کی صحت اچھی تھی، سندھ کے علماء کا بہت بڑا اجتماع تھا، حضرت نے وہاں ایک عجیب بات ارشاد فرمائی، فرمایا: ”بھئی! بات یہ ہے، الله تعالیٰ نے مجھے دو نسبتیں عطا فرمائی ہیں،ایک نسبت ہے مدنی اور وسری نسبت ہے تھانوی اور یہ دو نسبتیں اصل میں میرے دو پر ہیں او رمیں ان دونوں پروں سے اڑ رہا ہوں، یہ جوآپ میری کیفیت دیکھ رہے ہیں، یہ اصل میں میری دو نسبتیں ہیں۔“

حضرت نوّر الله مرقدہ ہمیشہ اپنے استاذ اول حضرت مولانا مسیح الله خان صاحب نوّرالله مرقدہ کا ذکر فرماتے۔ وہ ہمارے گاؤں سے صرف دو میل کے فاصلے جلال آباد میں تھے، وہاں مدرسہ مفتاح العلوم میں حضرت نے ابتدائی تعلیم حاصل کی او رحضرت مسیح الله خان صاحب رحمة الله علیہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے خلیفہ اجل تھے، محبوب خلیفہ تھے اورعجیب الله کی شان ہے کہ وہ جیسے حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے خلیفہ اجل اورمحبوب ہیں، ایسے ہی وہ حضرت شیخ الاسلام حضرت مدنی رحمة الله علیہ کے محبوب ترین شاگرد بھی ہیں تو حضرت کی چوں کہ ابتدائی تعلیم وتربیت حضرت مسیح الله خان صاحب رحمة الله علیہ کے ہاں ہوئی او رجب ابتدائی کتب حضرت کی وہاں ہو گئیں، جہاں تک مدرسے میں انتظام تھا، تو حضرت مولانامسیح الله خان صاحب رحمة الله علیہ اپنے کسی شاگرد کے بارے میں یہ بالکل گوارہ نہیں فرماتے تھے کہ وہ حضرت مدنی رحمة الله علیہ کے علاوہ کہیں اور تعلیم حاصل کرے، حالاں کہ تھانوی ہیں اور نہ صرف یہ کہ تھانوی ہیں، بلکہ حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کے خلیفہ ہیں ۔ ہمارے حضرت رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ حضرت خود ہمیں ہاتھ پکڑ کر دیوبند لائے تھے اور دیوبند میں ہمارا داخلہ بھی حضرت نے خود کروایا۔

میرے دوستو! حضرت کا جو زمانہ طالب علمی کا ہے، وہ بھی نہایت یک سوئی کا ہے اپنے علم میں ،دارالعلوم دیوبند… وہاں گزشتہ سال میرا جانا ہوا، پہلے بھی کئی دفعہ حضرت ہی کے ساتھ جانا ہوا، لیکن حضرت کے ساتھ جب ہمارا سفر ہوتا تھا تو بہت تیز رفتار، یہاں بھی جانا ہے، یہاں بھی جانا ہے ، وقت کم ہے، حضرت نے تو ساری جگہیں دیکھی ہوئی تھیں ، ہمیں بڑا خیال آتا تھا کہ ہم نے ابھی تک پورا دارالعلوم بھی نہیں دیکھا، پچھلی دفعہ جب جانا ہوا تو اس میں ہمیں موقع ملا تو حضرت فرمایا کرتے تھے کہ میں اپنی طالب علمی کے زمانے میں دیر تک رات کو پڑھتا تھا اور نوجوان تھا ،کم عمر تھا، نیند میری بہت گہری تھی، مجھے یہ خوف اور خطرہ ہوتا تھا کہ کہیں میری فجر کی نماز نہ نکل جائے، تو میں کمرے میں نہیں سوتا تھا، سردیوں کا زمانہ ہوتا تھا، اس علاقے میں گرمی بھی بہت شدید اور سردی بھی بہت شدید، تو فرماتے ہیں کہ میں رات کو مسجد میں آجاتا، مطالعہ بھی کرتا اور اس کے بعد پھر میں مسجد میں اس طرح سو تا کہ مسجد کی پہلی والی صف تھی، اس میں میں اپنے آپ کو لپیٹ کر گھماتا اور دری میرے اوپر لپٹتی چلی جاتی اس طرح سے میں سو جاتا ۔ پہلی صف میں اس لیے سوتا کہ نمازی جو آتے ہیں سب سے پہلے پہلی صف میں آتے ہیں، دیکھیں گے تو اٹھا دیں گے اس طرح نماز محفوظ رہتی۔ جب سے ہم نے ہوش سنبھالا، حضرت کو ہمیشہ اعمال میں نہایت پختہ دیکھا، کبھی اس میں کوتاہی نہیں ،حضرت ان معاملات میں بڑے سخت تھے، ہماری پانچ پھوپھیاں ہیں، جن میں سے دو کا انتقال ہوگیا، تین باقی ہیں، حضرت کو اپنی بہنوں سے اور بہنوں کا اپنے بھائی سے بہت گہرا تعلق تھا، محبت تھی اور وہ سب کراچی ہی میں ہیں، تو حضرت سے ملنے کے لیے آتیں ،حضرت بھی ان کے ہاں موقع بہ موقع تشریف لے جاتے، میں معمولات کے حوالے سے عرض کر رہاہوں کہ بہنیں آئی ہوئی ہیں، ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں ،باتیں کر رہے ہیں او رحضرت کے کسی معمول کا وقت ہو گیا، تو حضرت بلا تکلف ایک لمحہ سوچے بغیر کہ بھئی!آپ حضرات ا ب باہر جائیں، درواز ہ بند کردیں، کوئیتکلف نہ فرماتے، کیوں؟ اس لیے کہ اگر میں ان سے باتیں کروں گا، تو میرا یہ معمول متاثر ہو گا۔

میری بہنیں، حضرت کی بیٹیاں، وہ بھی اسی شہر میں رہتی ہیں، آپ جانتے ہیں کہ بیٹیوں کو اپنے باپ سے کتنا پیار ہوتا ہے، باپ کو بیٹیوں سے کتنا پیار ہوتا ہے، بیٹی دوسرے گھر چلی جاتی ہے او رجب وہ آتی ہے تو ماں باپ کتنے خوش ہوتے ہیں، وہ آتیں، بیٹھی ہیں ، باتیں کر رہی ہیں او رجہاں حضرت کے معمول کا وقت ہوا تو فوراً فرماتے بھئی! آپ لوگ باہر جائیں تو یہ وہ حدیث ہے کہ خیر العمل مادیم علیہ بہترین عمل وہ ہے جس پر مداومت ہو، اس لیے کہ اس میں تو قربانی دینی پڑتی ہے، جی تو چاہ رہا ہے کہ بہنوں سے باتیں کی جائیں، جی تو چاہ رہا ہے بیٹیوں سے باتیں کی جائیں، لیکن جی چاہنے کو قربان کر دیا، تلاوت کا وقت ، ذکر کا وقت، تصنیف کا وقت ، خطوط کے جواب لکھنے کا وقت۔

تو میرے دوستو! ہمارے لیے حضرت کی زندگی میں بڑے اسباق ہیں اور پھر حضرت کی عزیمت کا ہم لوگ تصور نہیں کرسکتے۔

یہاں بہت سے ہمارے ساتھی بلوچستان کے بیٹھے ہیں، اب سے تیس پینتیس سال پہلے کی میں بات کر رہا ہوں، آپ سوچیے کہ آج بھی یہ علاقہ پسماندہ ہے تو اس وقت کتنا پسماندہ ہو گا؟ حضرت نے مدارس کے دورے کیے اور مدارس میں آمدورفت اس انداز میں اختیار کیکہ اپنی کوئی گاڑی نہیں، بسیں ، جن میں آدمی بھرے ہوئے ہیں او رمرد بھی ہیں ، عورتیں بھی ہیں، بچے بھی ہیں، سامان بھی ہے او ران بسوں کی چھتوں پر بھیڑ بکریاں بھی ہیں، وہ بھیڑیں او ربکریاں حیوان ناطق تو نہیں ان کے پاس عقل اور شعور تو نہیں کہ وہ سوچیں کہ نیچے تو علماء بھی ہیں ،ان کا خیال کرکے پیشاب نہیں کرنا چاہیے، پیشاب کرتیں اور وہ پیشاب چھت سے نیچے ٹپک رہا ہے۔

میرے دوستو! حضرت کے ہاں کوئی تکلف نہیں تھا کہ ایسی سہولت ہو، ایسے کپڑے ہوں ،ایسے ٹوپی ہو، ایسا چشمہ ہو ۔

ہمارے ہاں سندھ میں گورنر گزرے ہیں گورنر عباسی، اس زمانے میں یہاں سواد اعظم کے نام سے ایک مہم کی قیادت حضرت فرمارہے تھے، روافض کے خلاف ۔یہ ستر کی دہائی کا قصہ ہے، ہم لوگ موقوف علیہ میں تھے ، حضرت سبق سے نکلے اور مجھے اشارہ کرکے بلایا، لنگی باندھی ہوئی تھی اور دو پٹی کی چپل حضرت نے پہنی ہوئی تھی، بلا کے فرمایا کہ بھئی! ہمیں گورنر ہاؤس جانا ہے، گورنر کے ہاں میٹنگ ہے ،یہی جو مسئلہ چل رہا تھا اس زمانے میں، روافض کے خلاف، تو گاڑی ہے کوئی؟ میں نے کہا ہاں، اس زمانے میں ایک معمولی سی گاڑی تھی۔

میں یہ سمجھا کہ حضرت ابھی سبق سے نکلے ہیں، مجھے گاڑی کے لیے فرمایا ہے ،خود گھر جائیں گے، تیاری کریں گے، اس لیے کہ گورنر ہاؤس جانا ہے، ہم لوگ تو گورنر ہاؤس کو بڑی چیز سمجھتے ہیں ، گورنر کو بھی بڑی چیز سمجھتے ہیں، جب میں گاڑی قریب لے آیا، تو حضرت وہیں کھڑے ہیں، اسی کیفیت میں، ویسی ہی دو پٹی کی چپل، میں نے حضرت سے کہا حضرت! آپ تیار نہیں ہوئے؟ فرمایا: تیاری کیسی، میں نے کہا آپ نے چپل پہنی ہوئی ہے، جوتے آپ پہن لیں، تو حضرت نے میری طرف غور سے دیکھا اور فرمایا کہ میٹنگ وہاں میں کروں گایا جوتے کریں گے؟ اور گاڑی میں بیٹھ گئے ، پھر گاڑی میں بیٹھ کر حضرت نے مجھے سمجھایا، فرمایا کہ اگر ہم گورنر والے جوتے لینے کی کوشش کریں گے تو ہم کام یاب نہیں ہو ں گے، اس کا جوتا تو پھر بھی مہنگا ہو گا، ہم کتنا مہنگا جوتا لیں گے،200 روپے کا لیں گے، چارسو روپے کا لیں گے، پانچ سو روپے کا لیں گے، اس زمانے میں یہ چار پانچ سو روپے بہت بڑی رقم تھی، لیکن ہمارا وہ جوتا جو مہنگے سے مہنگا خریدیں گے، وہ پھر بھی گورنر کے جوتے سے کم ہو گا، اس کا جوتا پھر بھی ہم سے مہنگا ہو گا۔

تو ہمار ان سے مقابلہ جوتوں میں نہیں ہے، ہمارا ان سے مقابلہ کسی اور چیز میں ہے ۔صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے واقعات آپ کے ذہن میں ہوں گے، ایک صحابی جب بادشاہ کے دربار میں گئے، تو صرف لنگی باندھی ہوئی ہے اور لنگی بھی ایسی جو صرف ستر پوشی کا کام دے رہی ہے، ہاتھ میں نیزہ ہے، وہ بھی ٹوٹا ہوا، جس گدھے پر آئے ہیں وہ بھی مریل ، لیکن ایک شان وشوکت ، ایمان سے دل بھرا ہوا او راس کے محل کی، اس کے قالینوں کی، کسی کی کوئی حیثیت نہیں اور پورے جاہ وجلال کے ساتھ بادشاہ کے برابر میں جاکے بیٹھ گئے، سب حیران ہیں کہ یہ کون ہے؟ یہاں تو پہلے بادشاہ کو سجدہ کرنا پڑتا ہے، اجازت لینی پڑتی ہے او رپھر جہاں وہ اجازت دیتا ہے اس کو بٹھایا جاتا ہے، یہ تو آتے ہی بادشاہ کے برابر بیٹھ گئے۔

میرے دوستو! الله تعالیٰ نے حضرت کو بڑی جرأت عطا فرمائی تھی، الله تعالیٰ وہ سب ہم میں منتقل فرمائے اور بلا خوف لومة لائم ہم الله کے دین کی خدمت کرنے والے ہوں۔

پرویز مشرف کازمانہ ہمارے ملک کا ایک سیاہ دور تھا مدارس، علمائے دین، اہل دین، ہر حوالے سے بہت بدترین دور گزرا ہے،الله تعالیٰ نے ایک سبیل پیدا فرمائی ملاقات کی، وہ تو ملاقات کے لیے بھی تیار نہیں تھے، حضرت اپنا وفاق المدارس کا وفد لے کر تشریف لے گئے، جنرل بیٹھا ہوا ہے اور جرنیلوں کی لائن لگی ہوئی ہے، غرور ہے، تکبرہے اور چہرے اکڑے ہوئے ہیں، اسی اکڑ کے اندر پرویز مشرف نے بات شروع کی، جو کچھ اس کو کہنا تھا، کہا جب اس کی بات مکمل ہو گئی تو حضرت کی باری تھی، حضرت نے اس کو دیکھااور مسکرائے، کوئی خوف نہیں او رمسکر اکر فرمایا:

”جنرل صاحب! آج آپ جس کرسی پر بیٹھے ہیں تھوڑے دن پہلے اس پر ایک او رصاحب بیٹھا کرتے تھے اور وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہم مدرسے ختم کردیں گے ، لیکن ہم نے بھی دیکھا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ ختم ہو گئے اور مدرسے باقی ہیں او رجنرل صاحب اس سے پہلے بھی ایک صاحبیہیں بیٹھا کرتے تھے اور وہ بھی یہی کہتے تھے کہ ہم مدرسے ختم کر دیں گے، لیکن ہم نے بھی دیکھا اور ساری دنیا نے دیکھا کہ وہ بھی ختم ہو گئے او رمدرسے باقی ہیں اور جنرل صاحب آپ بھی سن لیں آپ بھی ختم ہو جائیں گے، مدرسے باقی رہیں گے“… ایسا ہوا یا نہیں ہوا؟!

یہ کہنا آسان نہیں ہے، اس کے لیے جس ایمان کی ضرورت ہے جس روحانیت کی ضرورت ہے، جس للہیت کی ضرورت ہے جس بے غرضی کی ضرورت ہے ،جس عزیمت کی ضرورت ہے، میرے دوستو! وہ آج ہم میں نظر نہیں آرہی، ہم عہد کریں الله کے گھر میں بیٹھ کر وہ اسباب اختیار کریں گے، الله سے لو لگائیں گے اور جب الله اندر آجاتے ہیں تو غیر الله نکل جاتا ہے اورجب غیر الله اندر ہوتا ہے تو الله نہیں ہوتا۔جب آدمی مخلوق سے ڈرتا ہے تو خالق کا خوف نہیں ہوتا، جب خالق سے ڈرتا ہے تو مخلوق کا خوف نہیں ہوتا۔

اس لیے میرے دوستو! ہم بہت خوش قسمت ہیں کہ الله تعالیٰ نے ہمیں حضرت کی صحبت عطا فرمائی، حضرت کی شخصیت ہمہ جہت تھی ، تدریس کے حوالے سے جس مقام پر الله تعالیٰ نے انہیں پہنچایا تھا، بہت کم لوگ ہوتے ہیں جن کو یہ مقام ملتا ہے۔

پرویز مشرف ہی سے ایک موقع پر حضرت نے فرمایا: اس کو ایک دفعہ سمجھایا، دو دفعہ سمجھایا، تین دفعہ سمجھایا، اس کی اکڑ ختم نہیں ہو رہی تھی، سمجھ میں نہیں آرہاتھا، دماغ کی کھڑکیاں بند تھیں، کھل نہیں رہی تھیں، حضرت نے ا ن کی طرف اشارہ کرکے فرمایا جنرل صاحب! مجھے ستر سال سے زائد ہو گئے ہیں پڑھاتے ہوئے، میں مدرس آدمی ہوں اور الله تعالیٰ نے مجھے یہ کمال عطا فرمایا ہے کہ مشکل سے مشکل بات، مشکل سے مشکل مسئلہ میں چٹکیوں میں سمجھانے پر قدرت رکھتا ہوں، پھر حضرت نے اس کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ یہ آدمی غبی ہے، دو گھنٹے ہو گئے ہیں اس کو سمجھاتے ہوئے ،لیکن اس کی سمجھ میں نہیں آرہا او رپھر حضرت کھڑے ہوگئے اور ساتھیوں سے بھی کہا کہ کھڑے ہو جاؤ، اور فرمایا کہ جنرل صاحب !یہ مسئلہ آپ کی سمجھ میں نہیں آرہا، اب یہ مسئلہ پاکستان کے گلی کوچوں میں حل ہوگا۔

معین الدین حیدر، اس زمانے میں وزیر داخلہ تھے، پیچھے بیٹھے ہوئے تھے پیچھے سے بھاگے ہوئے آئے اور حضرت کے سامنے ہاتھ جوڑے، پھر یہ پرویز مشرف بھی آئے، اس نے بھی آگے ہاتھ جوڑے، کہا آپ تشریف رکھیں بیٹھیں، بات کرتے ہیں۔

میرے دوستو! یہ جرأت اور یہ عزیمت، یہ اکابر کی ایک امانت تھی، جو الله تعالیٰ نے حضرت کو عطا فرمائی تھی، ابھی ایک ساتھی ،جب میں دفتر سے مسجد کی طرف آرہا تھا، راستے میں مجھے ملے اور فرمانے لگے کہ رات بنوری ٹاؤن میں مولانا فضل محمد صاحب فرمارہے تھے کہ میرا وجدان یہ کہتا ہے، میرا اندرون یہ کہتا ہے کہ حضرت جب تشریف لے گئے، تو حضرت کے دارالعلوم دیوبند کے تمام اساتذہ استقبال کے لیے کھڑے تھے۔

میرے دوستو! ایصال ثواب تو ہم سب کریں گے ان شاء الله، خوب کریں گے، جب تک الله تعالیٰ نے یہ زندگی عطا فرمائی ہے کرتے رہیں گے، لیکن اصل بات یہ ہے کہ ہم حضرت کے اس مشن کو، وہ زندگی جو حضرت نے ہمیں دکھائی، بتائی، اس کو اختیار کریں۔

وفاق المدارس العربیہ پاکستان کوئی معمولی ادارہ نہیں، آپ کو میں ایک عجیب بات بتاؤں کہ سن77ء میں بھٹو کے خلاف تحریک چلی، اس سال وفاق کا امتحان تحریک کی وجہ سے نہیں ہوا، ہمارا وہ موقوف علیہ کا سال تھا، 78ء ہمارا دورے کا سال تھا۔

وفاق نہایت کمزور ، مردہ اور غیر معتبر کیفیت میں تھا، شوال میں اسباق شروع ہوتے ہیں، میرا خیال ہے کہ ذی قعدہ کا مہینہ تھا، ہم لوگ 41 ساتھی تھے دورہ حدیث کے تو حضرت نے سب ساتھیوں کو جمع فرمایا، اس زمانے میں صرف ایک امتحان دورہ حدیث کا وفاق کا تھا اور پورے پاکستان سے وفاق سے صرف ایک دورہ حدیث کے امتحان میں شرکت کرنے والے طلباء کی تعداد دو سو سے ڈھائی سوکے درمیان تھی، کل ایک امتحان او رکل شرکاء ڈھائی سو۔

تو حضرت نے ہماری دورے کی جماعت کے طلبہ کو بلایا اور فرمایا کہ بھئی! اس سال ہماراارادہ آپ حضرات کا وفاق میں امتحان دلوانے کا نہیں ہے، ہم آپ کا امتحان وفاق میں نہیں دلوائیں گے، اس لیے کہ ہمیں وفاق کے نظام اور وفاق کے امتحان پر اعتماد نہیں ہے تو آپ ذہنی طور پر تیار رہیں کہ اس سال آپ حضرات کا امتحان وفاق سے نہیں ہو گا۔

حضرت نے فرمادیا اور وفاق کا امتحان اس زمانے میں کوئی اہم چیز بھی نہیں تھی، دارالعلوم کراچی وفاق میں نہیں تھا، جامعہ اشرفیہ لاہور وفاق میں نہیں تھا، بڑے بڑے مدارس وفاق میں نہیں تھے۔

ذوالحجہ کامہینہ آگیا، حضرت مولانا مفتی محمود صاحب نوّر الله مرقدہ جو وفاق کے ناظم اعلیٰ بھی تھے، وہ کراچی تشریف لائے ،حج کا سفر تھا، مرحوم ضیاء الحق نے زکوٰة کے حوالے سے کوئی آرڈیننس پاس کیا تھا، اس حوالے سے مشاورت تھی بنوری ٹاؤن میں، اسی مشاورت کے دوران حرکت قلب بند ہو گئی اور حضرت مولانا مفتی محمود صاحب رحمة الله علیہ کاانتقال ہو گیا، اس کے بعد پھر وفاق کا اجلاس ہوا، حضرت بھی تشریف لے گئے، جب حضرت کی باری آئی تو حضرت نے کھڑے ہو کر فرمایا کہ بھئی !ہم نے تو اس سال ابتدا ہی میں اپنے طلباء سے کہہ دیا ہے کہ ہم وفاق میں امتحان نہیں دیں گے، نظام ہی نہیں ہے۔

حضرت فرمایا کرتے تھے… نام تو حضرت نے بھی نہیں لیا کہ کوئی صاحب کھڑے ہوئے او ربڑے جوش سے فرمایا کہ حضرت! یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں کہ آپ کے طلباء وفاق کا امتحان نہیں دیں گے؟ پھر میں بھی کھڑے ہو کر یہ اعلان کر دیتا ہوں کہ ہمارے طلباء بھی وفاق کا امتحان نہیں دیں گے، فلاں بھی کھڑے ہو کر یہ اعلان کریں گے، تو وفاق تو ختم ہو گیا، یہ تو کوئی حل نہیں ہے؟! ہمیں تو یہاں اس پر غور کرنا چاہیے کہ اس بدنظمی کو اور اس سار ی مصیبت کو کیسے ختم کریں؟ میری رائے یہ ہے کہ آپآگے بڑھیں اور نظام کی اصلاح فرمائیں، چناں چہ سب نے تائید کی، گئے تھے یہ کہنے کے لیے کہ ہم امتحان نہیں دیں گے اور واپس آئے تو وفاق المدارس کے ناظم اعلیٰ تھے۔

وہ دن اور وفات کا دن، دن رات، میں نے آپ حضرات کو بلوچستان کاحال سنایا، یہی حال صوبہخیبر پختوانخواہ میں، یہی پنجا ب میں ، یہی سندھ میں ،یہی کشمیر میں، یہی فاٹا میں، دن رات کوشش کی۔

وفا ق المدارس العربیہ پاکستان کے حوالے سے پورے ملک کے تمام مدارس، چاہے وہ حفظ کے ہوں ، چاہے وہ بنات کے ہوں، چاہے وہ بنین کے ہوں، میرے علم میں نہیں ہے کہ حضرت کی ذات پر کسی ایک کو بھی اختلاف ہو سو فیصد اتفاق ہے۔ حالاں کہ ہمارے حضرت رحمة الله علیہ ایک بات فرمایا کرتے تھے، ہمیں سمجھانے کے لیے کہ دیکھو! جتنے آدمی ہیں دنیا میں اتنی ہی آدمی کی قسمیں ہیں، ایک باپ کے پانچ بیٹے ہیں تو یہ پانچ قسمیں ہیں،اس کا مزاج الگ ،اس کا مزاج الگ ،اس کی ترجیحات الگ، اس کی الگ، اس کی پسند الگ اس کی الگ… تو آپ دیکھیے کہ بیس ہزار مدارس کے مہتممین کا مزاج ایک ہے؟ الگ الگ، لیکن حضرت کو سب مانتے تھے۔

اسی طرح ملک میں کتنی جماعتیں ہیں، جمعیت علمائے اسلام، حضرت مولانا فضل الرحمن صاحب دامت برکاتہم کی جماعت ہے، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم کی جماعت ہے، اہلسنت والجماعت ہے اور فلاں فلاں کتنی جماعتیں ہیں ،لیکن حضرت کا سینہ سب کے لیے کھلا تھااور دکھاوے کے لیے نہیں، دل سے سب کی عزت، سب کا احترام، تبلیغی جماعت ہے اور جہاں کوئی قابل اعتراض چیز، کہیں پہ بھی، چاہے وہ تبلیغی جماعت ہو، چاہے وہ جمعیت علمائے اسلام ہو، چاہے وہ کوئی اور جماعت ہو، سخت گرفت فرماتے، اس میں ذرا برابر مداہنت قبول نہیں کرتے، سخت گرفت فرماتے اور وہ گرفت چوں کہ اخلاص و محبت کی بنا پر ہوتی تھی، توسب اس کی قدر کرتے تھے۔

ایک ہے اختلاف اور ایک ہے خلاف، اختلاف امتی رحمة اگر اختلاف نہ ہو مجھ میں اور آپ میں تواس کا مطلب ہو گا کہ ہم پتھر ہیں، ہم لکڑی ہیں، ہم جامد چیز ہیں، اختلاف کا مطلب یہ ہے کہ ہمارا دماغ ہو، ہمارا دل کام کررہا ہو، ہماری ذہنی صلاحیتیں کام کررہی ہوں، ہمارا علم مستحضر ہے اورمیں دیانةًجسے درست سمجھتا ہوں اسے پیش کرتا ہوں آپ جس کو درست اور صحیح سمجھتے ہیں، اسے پیش کرتے ہیں ،اس میں ناراضگی کی بات نہیں، اس میں کوئی عداوت اور دشمنی نہیں ہے، ہاں! خلاف… وہ مذموم ہے، وہ ناپسندیدہ ہے، اس کی اجازت نہیں۔

حضرت کا مزاج تھاکہ ہمیں اختلاف کو خلاف نہیں بنانا چاہیے ،کوئی کام ایسا نہیں جس میں کوئی کمی نہ ہو، لیکن ہم بجائے اس کے کہ خوبیوں پر نظر کریں، کمی کی چیزوں کو بنیاد بنا لیں ۔

ا س لیے میری درخواست ہے کہ حضرت سے وفاداری کا یہ تقاضا ہے کہ جب تک ہماری جان میں جان ہے، جب تک الله تعالیٰ نے ہمیں یہ صلاحیت عطا فرمائی ہے، نہایت قوت اور عزیمت کے ساتھ حق کو اختیار کریں،اسی میں خیر ہے۔ یاد رکھیں کہ حضرت جو را ہ نمائی کر گئے ہیں اگر ہم حضرت کے فرزند اور حضرت کے شاگرد ہیں، تو ہماری غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ ہم نہایت مضبوطی کے ساتھ اس پر قائم رہیں۔

لیکن لڑیں نہیں، کسی کی بے ادبی نہ کریں، احترام کا معاملہ رکھیں۔ اسی طرح تمام تنظیمیں اور بڑی بڑی جماعتیں ہمارے سامنے ہیں، دعوت وتبلیغ ہمارے سامنے ہے،آپ حیران ہوں گے، برسہابرس، ایک دو دن نہیں، ایک دو مہینے نہیں، شب جمعہ کا اجتماع ہوتا تھا، برسہا برس، نہایت خاموشی کے ساتھ نہایت اہتمام کے ساتھ حضرت تشریف لے جاتے، کسی سے ملاقات نہیں، رومال ڈال کر بیٹھ جاتے اور پورا بیان او را س کے بعد نماز، حالاں کہ حضرت کے لیے خواص میں اور فلاں کمرے میں انتظام کوئی نہیں مشکل تھا۔

حضرت فرماتے کہ میں تو اپنی ضرورت کے لیے جاتا ہوں، اپنے کام کے لیے جاتا ہوں، جب مدنی مسجد میں اجتماع شروع ہوا شب جمعہ کا تو ایک زمانے تک شب جمعہ میں جانے کا اہتمام ہوتا، دعوت وتبلیغ کے کام میں بعض مسائل آئے، بعض شخصیات کے حوالے سے مسائل آئے، حضرت نے نہایت سخت گرفت فرمائی، توبہ کروائی، لکھوایاکہ آئندہ یہ نہیں کریں گے، لیکن محبت کے ساتھ، احترام کے ساتھ، چناں چہ حضرت قدس سرہ سب کے دلوں میں راج کرتے تھے۔

میرے دوستو! یہ ساری چیزیں ہمارے سامنے ہیں، ہم کبھی بھی فریق نہ بنیں، سب سے محبت ، جیسے حضرت نے فرمائی، ایسے ہی آپ کو عملی زندگی میں جانا ہے، آپ بھی حضرت کے شاگرد او رحضرت کے فرزند اور حضرت کے متعلق کی حیثیت سے، آپ کو اسی انداز سے کام کرنا ہے، اس میں بڑی برکت ہے۔ سارا عالم پریشان ہے کہ ایسی شخصیت ہم لائیں کہاں سے؟

وفاق کا کتنا بڑا معاملہ درپیش آیا ہے سب پریشان ہیں کیا ہو گا؟ میرے دوستو! الله بہت بڑے ہیں، الله اکبر ، الله اکبر الله تعالیٰ ہر چیز کا انتظام فرماتے ہیں، الله تعالیٰ ہی اپنے دین کے محافظ ہیں:﴿إنا نحن نزلنا الذکر وانالہ لحفظون﴾آپ سب علماء ہیں، کتنی تاکید ہے ؟تاکید، در تاکید، درتاکید!الله تعالیٰ حفاظت فرماتے ہیں اورالله تعالیٰ ایسے اسباب پیدا فرماتے ہیں کہ الله تعالیٰ کے دین کی حفاظت رہے، مدارس کی حفاظت رہے، مساجدکی حفاظت رہے، مکاتب قرآنیہ کی حفاظت رہے، حضرت کا فیض سارے عالم میں جاری رہے، آپ سے درخواست ہے کہ ان تمام امور کا اہتمام فرمائیں ۔ہماری یہ کوشش ہونی چاہیے کہ حضرت کا طرز اور جو حضرت کا انداز تھا، ہم اس کو اختیار کریں اس کو اختیار کرنے کی کوشش کریں۔

آپ کا امتحان بالکل سر پر ہے، یک ماہی امتحان، بھرپور محنت کریں، مسابقات آنے والے ہیں حضرت بہت خوش ہوتے تھے، کافی کافی دیر باوجود ضعف اور پیرانہ سالی کے ،اپنی بیماریوں کے باوجود یہاں طلباء کی ان صفات کو دیکھ کرخوش ہوتے تھے تو ہم اس کے لیے بھی بھرپور تیاری کریں دیکھیے! جذباتیت اختیار نہ کریں، بڑی تفصیل کے ساتھ آپ حضرات کے سامنے باتیں ہوئی ہیں، حضرت کا جو انداز تھا ہمیں اسے اختیار کرنا چاہیے۔

خوب سمجھ لیں کہ سب سے مرکزی اور بنیادی نکتہ جو ہے وہ للہیت اور روحانیت ہے ،اگر یہ ہے تو باطل مکڑی کے جالا ہے،لیکن اگر روحانیت کے اعتبار سے کم زور ہوں گے،للہیت کے اعتبار سے کم زور ہوں گے تو پھر طاغوت کا مقابلہ نہیں کرسکیں گے۔

محنت کریں، مجاہد ے کریں، اپنے سجدوں پہ محنت کریں، اپنے رکوع پہ محنت کریں، اپنے قیام پہ محنت کریں، اپنی دعاؤں پہ محنت کریں، ہمیں رات کے آخری حصے میں اٹھنے کی عادت ڈالنی چاہیے، ہمیں قرآن کے ساتھ شغف اختیار کرناچاہیے، ہمیں حدیث کے ساتھ ایک شغف اختیار کرنا چاہیے، ہمیں تدریس کے ساتھ شغف اختیار کرناچاہیے اس سے ہماری روحانیت مضبوط ہو گی۔

آپ گاؤں میں بیٹھے ہوں، دیہات میں بیٹھے ہوں، پہاڑ میں بیٹھے ہوں ،صحرا میں بیٹھے ہوں، کوئی مسئلہ نہیں، الله تعالیٰ کی تمام تر طاقتیں آپ کے ساتھ ہوں گی، آپ منصور من الله ہوجائیں گے۔

یہ شاہ فیصل کالونی ہے، یہ جامعہ فاروقیہ ہے، جس کی دو دیواریں ، مغربی اور شمالی، ناتھا خان گوٹھ کے ساتھ متصل ہیں، ایسا ہے یا نہیں؟! اور مشرقی او رجنوبی طرف شاہ فیصل کالونی کی 80گز کے مکانوں کی آبادی ہے۔

یہ ڈیفنس نہیں ہے، یہ کلفٹن نہیں ہے، یہ گلشن اقبال نہیں ہے، یہ نارتھ ناظم آباد نہیں ہے، یہ سوسائٹی کا علاقہ نہیں ہے، لیکن آپ بتائیے کہ ان دو غریب پسماندہ آبادیوں کے بیچ میں رہ کرحضرت نوّر اللہ مرقدہ نے سارے عالم کی خدمت کی یا نہیں کی؟!

فیجی جہاں سے سورج طلوع ہوتا ہے،ناروے جہاں سورج غروب ہوتا ہے، پوری دنیا میں حضرت کا فیض جاری ہے یا نہیں؟!

آپ جاکے فیجی میں کسی سے کہیں کہ میں ناتھا خان گوٹھ میں رہتا ہوں، آپ وہاں تشریف لائیں ، تو وہ کہے گا کہ ناتھا خان گوٹھ کیا ہوتا ہے ؟ اور فیجی تو بہت دور کی بات ہے، صبح شام کے واقعات ہیں، ہم شہر میں کسی سے کہتے ہیں کہ ذرا آپ جامعہ فاروقیہ تشریف لائیں، وہ پوچھتے ہیں کہاں ہے جامعہ فاروقیہہم کہتے ہیں، ناتھا خان گوٹھ میں تو کہتے ہیں مولانا جو بات کرنی ہو یہیں کر لیں، ہم وہاں نہیں آسکتے، ایسا ہے یا نہیں؟! یہاں تو ایسے حالات تھے، آپ دوپہر، شام میں رکشے والے سے کہو شاہ فیصل کالونی جانا ہے۔ کہتا ہے نہیں، وہاں نہیں جانا، لیکن حضرت نے للہیت، روحانیت کی بنیاد پر جو کام کیا، جب یہ جامعہ فاروقیہ قائم ہوا، تو بیس بیس سبق حضرت اکیلے پڑھاتے تھے اور سبق بھی کیسے؟ خیالی، مسلّم الثبوت، صدرا، شرح چغمینی، بخاری شریف، ترمذی شریف اور مشکوٰة ، طلباء کا ایک ہجوم پروانوں کی طرح، حضرت فرماتے کہ ہمارے ہاں کھانا نہیں ہے، تو طلبا کہتے ہم کھانا کھانے آئے ہی نہیں، حضرت فرماتے ہمارے پاس کمرے نہیں ہیں، طلبا فرماتے ہم کمروں میں رہنے ہی نہیں آئے، حضرت فرماتے بیت الخلا نہیں ہیں، کہتے اس کی بھی حاجت نہیں ہے، ہمیں تو آپ سے پڑھنا ہے، ہم تو پڑھنے آئے ہیں۔

تو الله تعالیٰ نے حضرت سے ان پسماندہ بستیوں کے بیچ کام نہیں لیا؟؟ اس لیے فکر کریں ،اگر روحانیت ہو گی، للہیت ہو گی، اکابر سے، اسلاف سے تعلق قوی او رمضبوط ہو گا، اپنے حضرات سے آپ کا تعلق مضبوط اور قوی ہو گا، آپ جہاں ہوں گے دنیا میں الله تعالیٰ آپ کا فیض جاری فرمائے گا۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین !

Flag Counter