Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

3 - 17
(کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَة الْمَوْتِ)
ہر متنفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے

مولانا محمد نجیب قاسمی

خالق کائنات اللہ رب العزت نے ہر جان دار کے لیے موت کا وقت اور جگہ متعین کردی ہے اور موت ایسی شے ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص، خواہ وہ کافر یا فاجر حتی کہ دہریہ ہی کیوں نہ ہو، موت کو یقینی مانتا ہے۔ اور اگر کوئی موت پر شک وشبہ بھی کرے تو اسے بے وقوفوں کی فہرست میں شمار کیا جاتا ہے کیوں کہ بڑی بڑی مادی طاقتیں اور مشرق سے مغرب تک قائم ساری حکومتیں موت کے سامنے عاجز وبے بس ہوجاتی ہیں۔

موت بندوں کو ہلاک کرنے والی، بچوں کو یتیم کرنے والی، عورتوں کو بیوہ بنانے والی، دنیاوی ظاہری سہاروں کو ختم کرنے والی، دلوں کو تھرانے والی، آنکھوں کو رلانے والی،بستیوں کو اجاڑنے والی، جماعتوں کو منتشر کرنے والی، لذتوں کو ختم کرنے والی، امیدوں پر پانی پھیرنے والی، ظالموں کو جہنم کی وادیوں میں جھلسانے والی اور متقیوں کو جنت کے بالاخانوں تک پہنچانے والی شے ہے۔

موت نہ چھوٹوں پر شفقت کرتی ہے، نہ بڑوں کی تعظیم کرتی ہے، نہ دنیاوی چودھریوں سے ڈرتی ہے، نہ بادشاہوں سے ان کے دربار میں حاضری کی اجازت لیتی ہے۔ جب بھی حکم خداوندی ہوتا ہے تو تمام دنیاوی رکاوٹوں کو چیرتی اورپھاڑتی ہوئی مطلوب کو حاصل کرلیتی ہے۔

موت نہ نیک صالح لوگوں پر رحم کھاتی ہے، نہ ظالموں کو بخشتی ہے۔ اللہ کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کو بھی موت اپنے گلے لگا لیتی ہے اور گھر بیٹھنے والوں کو بھی موت نہیں چھوڑتی۔ اخروی ابدی زندگی کو دنیاوی فانی زندگی پر ترجیح دینے والے بھی موت کی آغوش میں سوجاتے ہیں اور دنیا کے دیوانوں کو بھی موت اپنا لقمہ بنالیتی ہے۔

موت آنے کے بعد آنکھ دیکھ نہیں سکتی، زبان بول نہیں سکتی، کان سن نہیں سکتے، ہاتھ پیر کام نہیں کرسکتے۔ موت نام ہے روح کا بدن سے تعلق ختم ہونے کا اور انسان کا دار فانی سے دار بقا کی طرف کوچ کرنے کا۔ ترقی یافتہ سائنس بھی روح کو سمجھنے سے قاصر ہے، حالاں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں واضح طور پر اعلان فردیا ہے: (قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّی)روح صرف اللہ کا حکم ہے۔ موت پر انسان کے اعمال کا رجسٹر بند کردیا جاتا ہے اور موت پر توبہ کا دروازہ بند اور جزا وسزا کا وقت شروع ہوجاتا ہے۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ بندہ کی توبہ قبول کرتا ہے، یہاں تک کہ اُس کا آخری وقت آجائے۔ ہم ہر روز، ہر گھنٹہ، بلکہ ہر لمحہ اپنی موت کے قریب ہوتے جارہے ہیں۔ سال، مہینے اور دن گزرنے پر ہم کہتے ہیں کہ ہماری عمر اتنی ہوگئی، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ ایام ہماری زندگی سے کم ہوگئے۔

موت ایک مصیبت بھی ہے جیسا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے ﴿فَاَصَابَتْکُمْ مُصِیْبَةُ الْمَوْتِ﴾ (سورہٴ المائدة :106) اور وہیں تمہیں موت کی مصیبت پیش آجائے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے پاک کلام کی متعدد آیات میں موت اور اس کی حقیقت کو بیان کیا ہے۔ جن میں سے چند آیات پیش خدمت ہیں:
﴿کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَاِنَّمَا تُوَفَّوْنَ اُجُوْرَکُمْ یَوْمَ الْقِیَامَةِ، فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾․ (سورہٴ آل عمران:185)
ہر جان دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کو دوزخ سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا، وہ صحیح معنی میں کام یاب ہوگیا اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اس آیت میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسانوں کی کام یابی کا معیار ذکر کیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اس حال میں ہماری موت آئے کہ ہمارے لیے جہنم سے چھٹکارے اور دخولِ جنت کا فیصلہ ہوچکا ہو۔

﴿کُلُّ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقی وَجْہُ رَبِّکَ ذُوْ الْجَلَالِ وَالْاِکْرَام﴾․ (سورہٴ رحمن 26۔27)
اس زمین میں جو کوئی ہے، فنا ہونے والا ہے۔ اور (صرف) تمہارے پروردگار کی جلال والی اور فضل وکرم والی ذات باقی رہے گی۔

﴿کُلُّ شَیْءٍ ہَالِکٌ اِلَّا وَجْہَہُ، لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیِہِ تُرْجَعُوْنَ﴾ (سورہٴ القصص :88)
ہر چیز فنا ہونے والی ہے، سوائے اللہ کی ذات کے۔ حکومت اسی کی ہے اور اُسی کی طرف تمہیں لوٹ کرجاناہے۔

﴿وَمَا جَعَلْنَا لِبَشَرٍ مِّنْ قَبْلِکَ الْخُلْدَ اَفَائِنْ مِّتَّ فَہُمُ الْخَالِدُوْنَ، کُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ وَنَبْلُوْکُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتْنَةً، وَاِلَیْنَا تُرْجَعُوْنَ ﴾․ (سورہٴ الانبیا:ء 34۔ 35)
( اے پیغمبر!) تم سے پہلے بھی ہمیشہ زندہ رہنا ہم نے کسی فرد بشر کے لیے طے نہیں کیا۔ چناں چہ اگر تمہارا انتقال ہوگیا تو کیا یہ لوگ ایسے ہیں جو ہمیشہ زندہ رہیں؟ ہر جاں دار کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ اور ہم تمہیں آزمانے کے لیے بری اور اچھی حالتوں میں مبتلا کرتے ہیں اور تم سب ہمارے ہی پاس لوٹ کر آوٴگے۔

﴿اَیْنَمَا تَکُوْنُوا یُدْرِکْکُمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَّیَّدَةٍ﴾․ (سورہٴ النساء :78)
تم جہاں بھی ہوگے(ایک نہ ایک دن) موت تمہیں جا پکڑے گی۔ چاہے تم مضبوط قلعوں میں ہی کیوں نہ رہ رہے ہو۔

﴿قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہُ فَاِنَّہُ مُلَاقِیْکُمْ﴾․ (سورہ الجمعہ :8)
(اے نبی!) آپ کہہ دیجیے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو، وہ تم سے آملنے والی ہے۔ یعنی وقت آنے پر موت تمہیں ضرور اچک لے گی۔

﴿فَاِذَا جَآءَ اَجَلُہُمْ لَا یَسْتَاْخِرُوْنَ سَاعَةً وَّلَا یَسْتَقْدِمُوْنَ﴾ (سورہٴ الاعراف :34)
چناں چہ جب اُن کی مقررہ میعاد آجاتی ہے تو وہ گھڑی بھر بھی اُس سے آگے پیچھے نہیں ہوسکتے۔

﴿وَمَا تَدْرِیْ نَفْسٌ بِاَیِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ﴾ (سورہ لقمان:34) اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ زمین کے کس حصہ میں اُسے موت آئے گی۔

ان مذکورہ آیات سے معلوم ہوا کہ ہر شخص کا مرنا یقینی ہے، لیکن موت کا وقت اور جگہ سوائے اللہ کی ذات کے کسی بشر کو معلوم نہیں۔ چناں چہ بعض بچپن میں، توبعض عنفوان شباب میں اور بعض ادھیڑ عمر میں،جب کہ باقی بڑھاپے میں داعی اجل کو لبیک کہہ جاتے ہیں۔ بعض صحت مند تن درست نوجوان سواری پر سوار ہوتے ہیں، لیکن انہیں نہیں معلوم کہ وہ موت کی سواری پر سوار ہوچکے ہیں۔

میرے بھائیو اور بہنو! یہی دنیاوی فانی وقتی زندگی‘ اخروی ابدی زندگی کی تیاری کے لیے پہلا اور آخری موقع ہے، جیسا کہ اللہ تعالی فرماتا ہے: ﴿حَتَّی اِذَا جَآءَ اَحَدَہُمُ الْمَوْتُ قَالَ رَبِّ ارْجِعُوْن لَعَلِّیْ اَعْمَلُ صَالِحاً فِیْمَا تَرَکْتُ کَلَّا اِنَّہَا کَلِمَةٌ ہُوَ قَائِلُہَا وَمِن وَّرَائِہِمْ بَرْزَخٌ اِلَی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَ ﴾․(سورہٴ الموٴمنون :99 و 100)

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی پر موت آکھڑی ہوگی تو وہ کہے گا کہ اے میرے پروردگار! مجھے واپس بھیج دیجیے، تاکہ جس دنیا کو میں چھوڑ آیا ہوں، اس میں جاکر نیک اعمال کروں۔ ہرگز نہیں، یہ تو بس ایک بات ہے جو وہ کہہ رہا ہے، اب ان سب (مرنے والوں) کے پیچھے ایک برزخ ہے، جب تک کہ وہ دوبارہ اٹھائے جائیں۔

لہٰذا ضروری ہے کہ ہم افسوس کرنے یا خون کے آنسو بہانے سے قبل‘ اس دنیاوی فانی زندگی میں ہی ا پنے مولاکو راضی کرنے کی کوشش کریں، تاکہ ہماری روح ہمارے بدن سے اس حال میں جُدا ہو کہ ہمارا خالق و مالک و رازق ہم سے راضی ہو۔ آج ہم صرف فانی زندگی کے عارضی مقاصد کو سامنے رکھ کر دنیاوی زندگی گزارتے ہیں اور دنیاوی زندگی کے عیش وآرام اور وقتی عزت کے لیے جد وجہد کرتے ہیں، لہٰذا آئیے دنیا کو دنیا کے پیدا کرنے والے کی ہی زبانی سمجھیں:
﴿وَمَا الْحَیَاةُ الدُّنْیَا اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ﴾․(سورہٴ آل عمران:185) اور یہ دنیاوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔

﴿فَمَا مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا فِی الْآخِرَةِ اِلَّا قَلِیْلٌ﴾ (سورہٴ التوبہ :38)
دنیاوی زندگی کا فائدہ آخرت کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں، مگر بہت تھوڑا۔

﴿قُلْ مَتَاعُ الدُّنْیَا قَلِیْلٌ وَالْآخِرَةُ خَیْرٌ لِّمَنِ اتَّقَی وَلَا تُظْلَمُوْنَ فَتِیْلاً ﴾․(سورہٴ النساء :77)
کہہ دو کہ دنیا کا فائدہ تو تھوڑا سا ہے۔ اور جو شخص تقویٰ اختیار کرے اس کے لیے آخرت کہیں زیادہ بہتر ہے۔ اور تم پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔

﴿وَمَا ہٰذِہِ الْحَیَاةُ الدُّنْیَآ اِلَّا لَہْوٌ وَلَعِبٌ وَّ اِنَّ الدَّارَ الْآخِرَةَ لَہِیَ الْحَیَوَانُ، لَوْ کَانُوا یَعْلَمُوْنَ ﴾(سورہ العنکبوت :64)
اور یہ دنیاوی زندگی کھیل کود کے سوا کچھ بھی نہیں اور حقیقت یہ ہے کہ دار آخرت ہی اصل زندگی ہے، اگر یہ لوگ جانتے ہوتے۔

﴿زُیِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّہَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ وَالْبَنِیْنَ وَالْقَنَاطِیْرِ الْمُقَنْطَرَةِ مِنَ الذَّہَبِ وَالْفِضَّةِ وَالْخَیْلِ الْمُسَوَّمَةِ وَالْاَنْعَامِ وَالْحَرْثِ ذلِکَ مَتَاعُ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا﴾ (سورہٴ آل عمران :14)
لوگوں کے لیے اُن چیزوں کی محبت خوش نمابنا دی گئی ہے جو اُن کی نفسانی خواہش کے مطابق ہوتی ہے، یعنی عورتیں، بچے، سونے چاندی کے لگے ہوئے ڈھیر، نشان لگائے ہوئے گھوڑے، چوپائے اور کھیتیاں، یہ سب دنیاوی زندگی کا سامان ہیں۔

اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم دنیاوی زندگی کو نظر انداز کرکے رہبانیت اختیار کرلیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ اللہ کے خوف کے ساتھ دنیاوی فانی زندگی گزاریں اور اخروی زندگی کی کام یابی کو ہر حال میں ترجیح دیں۔

الحمد للہ! ہم ابھی بقید حیات ہیں اور موت کا فرشتہ ہماری جان نکالنے کے لیے کب آجائے، معلوم نہیں۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: پانچ امور سے قبل پانچ امور سے فائدہ اٹھایا جائے۔ بڑھاپا آنے سے قبل جوانی سے ۔ مرنے سے قبل زندگی سے۔ کام آنے سے قبل خالی وقت سے۔ غربت آنے سے قبل مال سے۔ بیماری سے قبل صحت سے…لہٰذا ہمیں توبہ کرکے نیک اعمال کی طرف سبقت کرنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿وَتُوْبُوا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعاً اَیُّہَ الْمُوٴمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن﴾ (سورہٴ النور 31) اور اے مومنو! تم سب اللہ کے سامنے توبہ کرو، تاکہ تم کام یاب ہوجاوٴ۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿ قُلْ یَا عِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوا عَلَی اَنْفُسِہِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰہِ، اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُنُوْبَ جَمِیْعاً، اِنَّہُ ہُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ﴾․ (سورہ الزمر53) کہہ دو کہ:اے میرے وہ بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کر رکھی ہے، یعنی گناہ کررکھے ہیں، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ یقین جانو اللہ سارے کے سارے گناہ معاف کردیتا ہے۔ یقینا وہ بہت بخشنے والا، بڑا مہربان ہے۔

میرے عزیز بھائیو! قیامت کے دن کسی انسان کا قدم اللہ تعالیٰ کے سامنے سے ہٹ نہیں سکتا، یہاں تک کہ وہ پانچ سوالات کا جواب دیدے: زندگی کہاں گزاری؟ جوانی کہاں لگائی؟ مال کہاں سے کمایا؟ یعنی حصول ِ مال کے اسباب حلال تھے یا حرام؟ مال کہاں خرچ کیا؟ یعنی مال سے متعلق اللہ اور بندوں کے حقوق اداکیے یا نہیں۔ علم پر کتنا عمل کیا؟

حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ” اُذْکُرُوا ہَاذِمَ اللَّذَّاتِ“ ایک روایت میں ہے ” اَکْثِرُوْا ذِکْرَ ہَاذِمِ اللَّذَّاتِ “․(ترمذی) لذتوں کو ختم کرنے والی موت کو کثرت سے یاد کیا کرو۔

موت کو یاد کرنے کے چند اسباب یعنی وہ اعمال جن سے موت یاد آتی ہے، یہ ہیں:

وقتاً فوقتاً قبرستان جانا ۔ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قبروں کی زیارت کیا کرو، اس سے تمہیں آخرت یاد رہے گی۔ (مسند احمد وابوداود)

مُردوں کو غسل دینا یا اُن کے غسل کے وقت حاضر رہنا۔ اگر موقع میسر ہو تو انتقال کرنے والے شخص کے آخری لمحات دیکھنااور اُن کو کلمہ شہادت کی تلقین کرنا۔ جنازہ میں شرکت کرنا۔

بیماروں اور بوڑھوں سے ملاقات کرنا۔ آندھی، طوفان اور زلزلے کے وقت انسانوں کی کمزوری اور اللہ جلَّ جلالہ وعمَّ نوالہ کی طاقت وقوت کا اعتراف کرنا۔ پہلی امتوں کے واقعات پڑھنا۔

موت کو کثرت سے یاد کرنے والوں کو اللہ کی جانب سے مذکورہ اعمال کی توفیق ہوتی ہے:

گناہوں سے توبہ نصیب ہوتی ہے۔ گناہوں سے حفاظت ہوتی ہے۔ سخت دل نرم ہوجاتا ہے اور وقتاً فوقتاً آنکھوں سے آنسو بہہ جاتے ہیں۔ دل قناعت پسند بن جاتا ہے۔ عبادت میں نشاط پیدا ہوتی ہے۔ بہت ساری دشواریاں آسان ہوجاتی ہیں۔ لمبی لمبی امیدیں اور امنگیں کم ہوجاتی ہے۔ تواضع اور انکساری پیدا ہوتی ہے، جس سے انسان دوسروں پر ظلم کرنے اور کبر کرنے سے محفوظ رہتا ہے۔

اخروی زندگی یاد رہتی ہے، جس سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔

اللہ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو مرنے سے قبل مرنے کی تیاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں دونوں جہاں کی کام یابی وکامرانی سے نوازے، آمین۔

Flag Counter