Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

7 - 17
میرے والد ماجد رحمة الله تعالیٰ کی زندگی
دو سبق

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم ﴿یَا أَیَّتُہَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ، ارْجِعِیْ إِلَی رَبِّکِ رَاضِیَةً مَّرْضِیَّةً، فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادِیْ، وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ﴾․(الفجر، آیة:30-27)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اکثروا ذکرھازم اللذات الموت․ (سنن الترمذی، ابواب الزھد، باب ماجاء فی ذکر الموت، رقم الحدیث:2307)
صدق الله مولانا العظیم وصدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذٰلک لمن الشٰھدین والشکرین، والحمدلله رب العٰلمین․

قرآن کریم کی جو آیت اور سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا جو ارشادِ مبارک میں نے بیان کیا، اس میں موت کا ذکر ہے۔ موت اس دنیا کی بڑی حقیقتوں میں سے ایک ہے۔ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے سوائے الله کے کسی کو مفر نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی موت آئی ہے۔ حال آنکہ سرورکائنات، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم امام الانبیاء ہیں، سیدالرسل ہیں، خاتم النبیین ہیں، بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کا عنوان ہیں، ہمارا ایمان لاإلہ الا الله سے مکمل نہیں ہوتا جب تک ”محمد رسول الله“ نہ ہو ۔ مگر، یہ موت آپ صلی الله علیہ وسلم کو بھی آئی ہے اور تمام انبیاء ومرسلین علیہم السلام کو آئی ہے، خلفائے راشدین کو آئی ہے، صحابہ کرام کو آئی ہے، تابعین کو آئی ہے، تبع تابعین کو آئی ہے اور بزرگان دین ،اولیائے کرام، محدثین عظام، فقہائے مجتہدین، سب کو آئی ہے اور خوب یادرکھیں،مجھے بھی آئے گی اور آپ کو بھی آئے گی۔

سمجھ دار ، دانا اور عقل مند وہ شخص ہے جو موت کی تیاری کرے۔ نادان، ناسمجھ، احمق، بے وقوف شخص وہ ہے جو اس سے غافل رہے اور اس کے لیے تیاری نہ کرے، کیوں کہ یہ طے ہے کہ سب کو موت آئے گی۔

ہمارے حضرت شیخ سلیم اللہ خاں نور الله مرقدہ کو الله رب العزت نے طویل عمر عطا فرمائی۔ لگ بھگ ایک صدی کی عمر الله تعالیٰ نے انہیں عطا فرمائی۔ بہت کم لوگوں کو اتنی طویل عمر ملتی ہے۔

حضرت کی زندگی بہت سادہ تھی۔ کوئی تکلف حضرت کی زندگی میں نہیں تھا۔ کوئی تنعم حضرت کی زندگی میں نہیں تھا۔ آپ کی زندگی بہت سادہ ،بہت بے تکلف اور بہت عملی تھی۔ حضرت کی ساری زندگی نام ہے مجاہدوں کا، محنتوں کا، قربانیوں کا۔

آپ نے دنیامیں لوگوں کو دیکھا ہے، بلکہ آپ خود اپنے بارے میں غور کیجیے، سوچئے کہ عام طور پر آدمی کی عملی زندگی بیس سال کے بعد شروع ہوتی ہے۔ لیکن حضرت کے ساتھ الله تعالیٰ کا یہ خصوصی انعام اور فضل و کرم ہوا کہ آپ کی زندگی بچپن ہی سے بہت غیر معمولی تھی۔ ہم نے خود حضرت کی زبان سے سنا بھی اور حضرت نے لکھا بھی کہ جب ہمارے دادا جان نوّر الله مرقدہ نے ہمارے والد صاحب کو تین پہیوں کی سائیکل لا کر دی․․․ آپ جانتے ہیں کہ تین پہیوں کی سائیکل کس عمر کے بچے کو دی جاتی ہے، بہت چھوٹے بچوں کو، جو عام طور پر تین چار سال کے ہوتے ہیں۔ اس سے پہلے میں عرض کر دوں کہ جب حضرت یہ واقعہ بیان فرماتے تھے تو اس سے پہلے ایک بات فرماتے کہ میں اپنے گاؤں کے ایک اسکول میں پرائمری اور ابتدائی درجے میں تھا۔ میرے استاد تھے، جو مجھے ریاضی پڑھاتے تھے اور میرے دادا جان کے کہنے پر وہ چوں کہ حافظ قرآن بھی تھے، اس لیے وہ قرآن بھی پڑھاتے تھے۔

وہ استاد حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ الله کے مرید تھے۔ والد صاحب کے مذکورہ استاد نے اُن کے اندر دو چیزیں منتقل کیں۔ ایک قرآن کریم کی محبت، دوسری چیز، حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی محبت۔

حضرت نوّر الله مرقدہ کی قرآن سے محبت کا عالم یہ تھا کہ اپنی زندگی کے آخری زمانے میں بھی پانچ پارے روزانہ تلاوت کرتے تھے۔ یہ وہ محبت تھی جو استاد نے بالکل ابتدائی درجے میں ان کے اندرداخل کی۔ یوں، الله رب العزت نے انہیں ستائیس دن میں پورا قرآن حفظ کرنے اور تراویح میں سنانے کی توفیق عطا فرمائی۔ یہ قرآن سے محبت ہے، جو استاد نے ابتدائی درجے میں اُن کے اندر داخل کی۔

حضرت نور اللہ مرقدہ فرماتے تھے کہ دوسری چیز جو استاد نے میرے اندر داخل کی، وہ حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی محبت تھی۔

حضرت فرماتے تھے کہ استاد نے یہ دو چیزیں میرے اندر داخل کیں۔

میں یہ واقعہ عرض کر رہا ہوں کہ حضرت کی عملی زندگی بچپن میں شروع ہوئی تو دادا جان نے تین پہیوں والی سائیکل خرید کر دی۔ ان کے استاد چوں کہ حضرت حکیم الامت رحمہ الله کے مرید تھے اور حضرت حکیم الامت رحمہ الله کی مجلس جمعہ کے دن بعد نمازِ جمعہ تھانہ بھون میں ہوتی تھی تو ان کے استاد بھی اس مجلس میں جاتے تھے۔ حضرت نوراللہ مرقدہ کا گاؤں تھانہ بھون سے دو میل فاصلے پر تھا۔ حضرت فرماتے ہیں کہ میں اپنی تین پہیوں کی سائیکل پر اپنے استاد کے ساتھ دو میل دور حضرت تھانوی رحمہ الله کے پاس جمعہ پڑھنے جایا کرتا تھا۔

آپ سوچئے کہ وہ عمر جو کھیل کود کی ہوتی ہے ، لیکن حضرت کا حال یہ تھا۔ حضرت تھانوی رحمہ الله کی نظر جب اُن پر پڑ جاتی تھی کہ یہ بچہ بہت کم سن، کم عمر تین پہیوں کی سائیکل پر آتا ہے تو حضرت نے سائیکل کی طرف اشارہ کرکے اُن سے ایک دفعہ پوچھا کہ یہ کیا ہے ؟ تو حضرت نے عرض کیا کہ حضرت یہ سائیکل ہے۔ حضرت نے یہ جواب سن کر برجستہ فرمایا: بڑا بیکل ہے، یعنی اتنی کم سنی میں یہ کیفیت ہے۔

میں عرض کر رہا تھا کہ موت ایک بہت بڑی حقیقت ہے۔ جس سے کسی کو مفر نہیں۔ انبیاء علیہم السلام اور سرور عالم صلی الله علیہ وسلم کو بھی موت کا سامنا کرنا پڑا۔ ہمیں بھی اس موت کا سامنا کرنا ہے۔ سمجھ دار، عقل مند، دانا آدمی وہ ہے جو موت سے پہلے موت کی تیاری کرے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الدنیا مزرعة الآخرة․“(إحیاء علوم الدین،5/302) الدنیا مزرعة الآخرة، قال السخاوی لم أقف علیہ مع إیراد الغزالی لہ فی الإحیاء قلت: معناہ صحیح، یقتبس من قولہ تعالیٰ: من کان یرید حرث الآخرة نزدلہ فی حرثہ․(الأسرار المرفوعة فی الأخبار الموضوعة المعروف بالموضوعات الکبری، حدیث:205، 1/199)

دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہاں ہمیں کام کرنا ہے، جیسے زمین دار، باغبان، کسان یہاں بیج لگاتا ہے او رایک عرصے کے بعد اس کے نتائج سامنے آتے ہیں، ایسے ہی آج ہم اگر اس دنیا میں محنت اور کوشش کریں گے تو اس کے نتائج ہمیں مرنے کے بعد ملیں گے اور وہ نتائج بہت عظیم الشان ہیں۔

میں بعض دفعہ سوچتا ہوں کہ حضرت کے وصال کو دس دن سے زیادہ ہو گئے ہیں، لیکن سارے عالم سے خطوط، ای میل، فون، میسیج․․․ پوری دنیا میں ایصال ثواب کا اہتمام ہو رہا ہے، پوری دنیا میں آپ نوّ رالله مرقدہ سے تعلق کا اظہار ہو رہا ہے، غم ہے، پریشانی ہے، یہ سب کیا ہے؟

یہ وہ عملی زندگی ہے، جو حضرت نے بہت منظم انداز میں گزاری۔ ہم صبح شام حضرت کے ساتھ ہوتے تھے اور حضرت کی نجی اور ذاتی زندگی ہمارے سامنے تھی۔ حضرت گھڑی کی سیکنڈ والی سوئی کے ساتھ ساتھ چلتے تھے۔ ناشتے کا وقت مقرر، مطالعے کا وقت مقرر، تصنیف وتالیف کا وقت مقرر، خطوط کے جواب کا وقت مقرر، آرام کا وقت مقرر، ہر چیز کا وقت مقرر، تلاوت قرآن کا وقت مقرر، اذکار واوراد کا وقت مقرر۔ اس پر کوئی مصالحت نہیں تھی، کوئی گجائش نہیں تھی۔

ہماری پھوپھیاں اسی شہر میں رہتی ہیں۔ ظاہر ہے، وہ اپنے بھائی کی زیارت کے لیے آتی تھیں۔ ہماری بہنیں اسی شہر میں رہتی ہیں، وہ اپنے عظیم والد سے ملنے اور ملاقات کے لیے آتی تھیں۔ آدمی جب اپنی بہنوں کو دیکھتا ہے تو کتنا خوش ہوتا ہے۔ آدمی جب اپنی بیٹیوں کو دیکھتا ہے تو کتنا خوش ہوتا ہے۔ وہ حضرت کے پاس آکر بیٹھتیں او رحضرت کا اگر تلاوت کا وقت ہوتا تو فوراً فرماتے، آپ حضرات باہر جائیں، دروازہ بند کر دیں، مجھے اپنی تلاوت کرنی ہے۔

حضرت شیخ نور اللہ مرقدہ اپنے معمولات میں نہایت مضبوط تھے۔ پانچ پارے تلاوت کے حوالے سے فرماتے کہ یہ بہت آسان ہے، اس کو مشکل مت سمجھو، اس کو اختیار کرو۔ فرماتے تھے کہ ہر نماز کے ساتھ ایک پارہ جوڑ لو۔ فجر کی نماز کے ساتھ بھی ایک پارہ، ظہر کی نماز کے ساتھ بھی ایک پارہ، عصر کے ساتھ بھی پارہ، مغرب کے ساتھ بھی، عشاء کی نماز کے ساتھ بھی؛ اس طرح پانچ نمازیں ہو جائیں گی اور پانچ پارے بھی ہو جائیں گے۔ پھر مزید فرماتے کہ اس کو اور آسان کرو، آسان ہو جائے گا۔ آدھا پارہ پہلے، آدھا پارہ ظہر کے بعد اور اپنی جگہ سے اٹھو نہیں، جب تک پارہ پورا نہ کر لو، کوئی کام متاثر نہیں ہو گا۔ بلکہ خوب یاد رکھو کہ ہر کام مبارک ہو جائے گا، ہر کام جو اٹکا ہوا ہے وہ بھی ہو جائے گا ،ہر ہر چیز میں برکت آجائے گی۔

آپ نے کئی دفعہ وہ حدیث سنی ہے، جس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ قرآن کا ہر ہر حرف نیکی ہے، حسنہ ہے اور ہر حسنہ، نیکی دس کے برابر ہے۔

پھر آپ نے فرمایا کہ ”الٓم“ یہ ایک حرف نہیں ہے، بلکہ الف الگ ہے، لام الگ ہے، میم الگ ہے ”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من قرأ حرفا من کتاب الله فلہ بہ حسنة، والحسنة بعشر أمثالھا، لا أقول الٓم حرف، ولکن الف حرف، ولام حرف، ومیم حرف․“(سنن الترمذی، فضائل القرآن، باب ماجاء من قرأ حرفا من القرآن، رقم الحدیث:2910)

چناں چہ جو آدمی ”الٓم“ پڑھے گا اسے تیس نیکیاں ملیں گی، الف پر دس ، لام پر دس، میم پردس اور خوب یاد رکھیں کہ حسنہ او رنیکی کے اپنے اثرات ہیں۔ سیئہ بدی او رگناہ کے اپنے اثرات ہیں ۔حسنہ او رنیکی کے نتیجے میں برکات آتی ہیں، فلاح آتی ہے، کام یابی آتی ہے۔ جبکہ سیئہ، بدی، گناہ سے نحوست آتی ہے۔ اس سے ناکامی آتی ہے، اس سے ناداری آتی ہے، اس سے شر او رخرابی آتی ہے ۔

لہٰذا، جو آدمی قرآن کریم کی تلاوت کرے گا، وہ تو مبارک ہی مبارک ہے۔ اور خوب یادر کھیے کہ قرآن سے جڑنے کا مطلب کیا ہے؟ اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ الله کے سوا ہر چیز مخلوق ہے، جنت بھی مخلوق ہے، جہنم بھی مخلوق ہے، فرشتے بھی مخلوق ہیں، حضرت جبرائیل، میکائیل، عزرائیل، اسرافیل سب مخلوق ہیں، تما م انبیاء ومرسلین علیہم السلام سب مخلوق ہیں۔ امام الانبیاء محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم بھی مخلوق ہیں، لیکن یاد رکھنا قرآن مخلوق نہیں ہے۔ تو جو قرآن سے جڑتا ہے وہ کس سے جڑتا ہے؟ الله سے جڑجاتا ہے۔ اس کا جوڑ الله سے ہے۔ چناں چہ حضرت نوّر الله مرقدہ کو الله رب العزت نے بڑی مبارک، بڑی کام یاب اور عملی زندگی عطا فرمائی تھی۔

آپ اور میں ہم سب بڑے خوش نصیب ہیں کہ لوگ دور دور حضرت کے حوالے سے تڑپ رہے ہیں، لیکن آپ نے سال ہا سال حضرت کا مشاہدہ کیا ہے۔ مسجد میں بھی دیکھا ہے، دارالحدیث میں بھی دیکھا ہے، دفتر میں بھی دیکھا ہے، حضرت کی جوانی بھی دیکھی ہے، حضرت کی ادھیڑ عمری بھی دیکھی ہے، حضرت کا بڑھاپا اور ضعف بھی دیکھا ہے، حضرت کی پیرانہ سالی اور معذوری بھی دیکھی ہے۔ ہم سب کا مشاہدہ یہ ہے کہ حضرت کے اعمال میں، حضرت کے اوراد میں او رحضرت کے کاموں میں مسلسل اضافہ ہوتا تھا۔

اس تعلق کے حوالے سے ہم سب کی یہ ذمہ داری ہے کہ بطور خاص ہم حضرت کے نقش قدم پر چلیں۔ وہ کام، وہ نیکیاں، وہ اعمال جو حضرت فرماتے، حضرت کا مزاج، حضرت کا موقف ، حضرت کا نظریہ ان سب کو ہم مضبوطی سے پکڑیں۔

اسی طرح نماز کا خوب اہتمام کریں۔ آپ حیران ہوں گے کہ حضرت کی بیماری کے صرف تین دن ہسپتال میں گزرے۔ ڈیڑھ دن پٹیل ہسپتال میں اور ڈیڑھ دن ٹبہ ہسپتال میں۔ آپ حیران ہوں گے کہ بیماری اپنی پوری طاقت کے ساتھ آگئی تھی، لیکن کوئی ایک نماز بھی حضرت کی قضاء نہیں ہوئی۔ پورے ہوش وحواس میں، آخر وقت میں بھی، وصال سے صرف بیس منٹ پہلے حضرت نے فرمایا: بھئی! تیمم کرنا ہے۔ جب میں نے تیمم کا بندوبست کیا تو حضرت نے فرمایا کہ بھئی! یہ جو چیزیں لگی ہوئی ہیں، یہ تیمم میں رکاوٹ ہیں، ڈرپ وغیرہ، کئی چیزیں اس سے رکاوٹ ہو رہی ہے، اسے ہٹاؤ۔ میں نے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔ ڈاکٹر نے کہا، مشکل ہے۔ میں نے ڈاکٹر سے جا کر کہا کہ آپ نہ ہٹائیں، لیکن ذرا وہاں کوئی حرکت کریں اور کوئی اضافی ٹیپ لگا ہوا ہو تو آپ اس کو ہٹا دیں۔ ڈاکٹر اس پر راضی ہو گیا۔ جو اضافی ٹیپ وغیرہ تھے ان کو ہٹا دیا تو حضرت نے نہایت سکون اوراطمینان کے ساتھ تیمم فرمایا اور نہایت سکون او راطمینان کے ساتھ نماز پڑھی۔ یہ انتقال سے صرف بیس منٹ پہلے کی بات ہے۔

یہ درحقیقت، ایمان اور تعلق مع الله ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرمایا، تمام انبیاء نے فرمایا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، یہ ہمارا ایمان ہے۔ چناں چہ آپ کی نبوت کازمانہ ایک صدی، دو صدی، پانچ صدی، دس صدی کا نہیں ہے، تاقیامت آپ نبی اور رسول ہیں۔ آپ سوچئے کہ ایسا نبی اور رسول جو امام الأنبیاء ہو، جو سید الرسل ہو ،جو خاتم النبیین ہو، وہ اپنے آخری وقت میں قیامت تک آنے والی اپنی امت کو جو نصیحت اور وصیت کرے گا وہ بہت زیادہ اہم ہو گی یا نہیں ہوگی؟ قیامت تک آنے والی اپنی امت کو آخری پیغام، وہ آخری پیغام معلوم ہے کیا ہے؟ وہ آخری پیغام ہے اپنی امت کے نام”الصلوٰة، الصلوٰة‘، وما ملکت أیمانکم․“(مسند امام احمد بن حنبل، حدیث أم سلمة زوج النبی صلی الله علیہ وسلم، رقم الحدیث:26727)

نماز، نماز، نماز اور اپنے ماتحتوں کا خیال رکھو۔

جن حضرات کا الله تعالیٰ سے اور سرورکائنات، جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جتنا گہرا، شدید اور قوی، مضبوط اور مبارک تعلق ہو گا، وہ اپنی نمازوں میں بھی اتنے ہی قوی اور طاقت ور ہوں گے۔ چناں چہ حضرت والد نوّر الله مرقدہ کا آخری عمل بھی نماز ہے، اطمینان، سکون کے ساتھ۔

ہم سب کی یہ اخلاقی ذمے داری بھی ہے،حضرت کے ساتھ محبت کے اعتبار سے بھی، ہر اعتبار سے یہ تقاضا ہے کہ ہم نے حضرت کی زندگی میں حضرت سے جو سنا، حضرت سے جو سیکھا، اس پر عمل کرنے کی توفیق الله تعالیٰ ہمیں عطا فرمائے اور ہم اس پر عمل کرنے کی کوشش فرمائیں۔

الله تعالیٰ حضرت کے درجات بلند فرمائے، حضرت کو جنت الفردوس میں اعلیٰ سے اعلیٰ مقام نصیب فرمائے اور سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم، صحابہ کرام اور تابعین، تبع تابعین، بزرگان دین کی معیت اور ان سب کا ساتھ الله تعالیٰ انہیں عطا فرمائے۔ اور الله تعالیٰ حضرت کے قائم کیے ہوئے تمام کاموں کو تاقیامت حضرت کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ ہم سب کو مل کر اس کی کوشش کرنے کی توفیق عنایت فرمائے کہ ہم ان تمام کاموں کو حضرت کے مزاج، حضرت کے مقام، حضرت کے اندازمیں ان کو سرانجام دیں۔ الله تعالیٰ ہمیں توفیق دے اور اس میں ہماری مدد فرمائے۔

ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم، وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین․

Flag Counter