Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

11 - 17
بانی دارالعلوم دیوبند، حجة الاسلام
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتویؒ

محترممحمد علی نقشبندی

حضرت مولانا قاسم نانوتوی شعبان یا رمضان1248ھ (1832) میں پیدا ہوئے، آپ بچپن ہی سے بڑے ذہین، ہو شیار، نیک اور بہاد رانسان تھے۔ آپ نے ابتدائی تعلیم دیوبند کے مکتب میں حاصل کی، پھر سہارن پور چلے گئے، بڑی کتابوں کے لیے مولانا مملوک علی نانوتوی کے ساتھ دہلی تشریف لے گئے۔ حدیث کی اکثر کتابیں آپ نے مولانا عبدالغنی مجددی سے پڑھیں۔ ابوداؤد شریف مولانا احمد علی سہارن پوری  کے پاس پڑھی۔ حاجی امداد الله مہاجر مکی کے ہاتھ پر بیعت ہوئے اور سلوک کی منازل طے کیں۔1857ء میں ان کی قیادت میں جنگ آزادی میں حصہ لیا۔ 4 جمادی الاولیٰ1297ء بروز جمعرات بعد از نماز ظہر مولانا کا انتقال ہوا۔ آپ نے صرف 49 سال عمر پائی۔ الله تعالی نے مولانا کو علم، عمل او راخلاص ان تینوں چیزوں میں بہت کمال عطا فرمایا تھا۔ 

شیخ الہند مولانا محمود الحسن ، مولانا فخر الحسن گنگوہی، مولانا یعقوب نانوتوی رحمہم الله تعالیٰ آپ کے مشہور شاگرد ہیں۔ آپ کے تلمیذ خاص مولانا فخر الحسن گنگوہی نے آپ کی سوانح پر ایک ضخیم کتاب لکھی، مگر وہ ضائع ہو گئی، مولانا یعقوب نانوتوی کی سوانح عمری، مولانا مناظر احسن گیلانی کی سوانح قاسمی (3جلد) پروفیسر انوار الحسن کی انوارقاسمی او رامام اہل سنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صاحب نوّر الله مرقدہ کی بانی دارالعلوم دیوبند۔ ہم اس وقت صرف چند اہم واقعات پر اکتفا کرتے ہیں، بیشتر واقعات ارواح ثلاثہ سے ماخوذ ہیں۔

بخاری شریف کے آخری پانچ پاروں کا عربی حاشیہ حضرت مولانا احمد علی سہارن پوری نے حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی سے لکھوایا، حالاں کہ اس وقت آپ کی اتنی شہرت نہ تھی، گویا نئے نئے فارغ ہوئے تھے، لیکن الله تعالیٰ نے اپنے دین کا اتنا بڑا کام لیا کہ آج بھی جب پاکستان او رانڈیا میں بخاری شریف چھاپی جاتی ہے تواس کے آخری پاروں پر آپ کا لکھا ہوا عربی حاشیہ بھی چھپتا ہے۔ سبحان الله۔ اسی طرح اردو میں سب سے زیادہ چلنے والی تفسیر عثمانی میں آخری دو سورتوں کے حاشیہ پر مولانا عثمانی  نے حضرت نانوتوی ہی کی تفسیر کو نقل کرکے برکت حاصل کی۔مولانا مملوک علی یرقان کے مرض میں مبتلا ہو گئے۔ آپ کے سب شاگردرات کو سو جاتے، مگر آپ ساری رات اپنے استاد کو پنکھا جھلتے رہتے تھے۔ آپ تنہائی پسند تھے۔ اکثر چپ رہتے تھے۔ خوش مزاجی کے باوجود آپ اکثر مغموم سے رہتے، گویا ہر وقت آخرت کا فکر سوار رہتا اور عاجزی کا یہ عالم تھا کہ فرمایا کرتے تھے، ” اس علم نے خراب کیا، ورنہ اپنی ذات کو ایسی خاک میں ملاتا کہ کوئی بھی نہ جانتا۔ پرندوں کے تو گھونسلے ہوتے ہیں مگر میرا تو گھونسلہ بھی نہ ہوتا۔“ فتوے دینے سے گریز کرتے تھے، کوئی مسئلہ پوچھتا تو کسی اور عالم کی طرف بھیج دیتے تھے۔

زہد ودنیا سے بے رغبتی کا یہ عالم تھا کہ کبھی مسجد یا مدرسے سے تنخواہ نہ لی۔ کتابوں کی تصحیح کا کام کرتے تھے اور او راس کے بدلے چار پانچ روپے لے لیتے تھے۔ اور جو ملتا تھا مہمانوں پر خرچ کر دیا کرتے تھے۔ایک دفعہ حجامت بنوا رہے تھے کہ ایک بہت بڑا رئیس آپ کو ملنے کے لیے آیا۔ اس کے ہاتھ میں رومال تھا، جو پیسوں سے بھرا ہوا تھا۔اس نے آپ کو سلام عر ض کیا اور وہ رقم قدموں میں رکھ دی اور عرض کیا، ”حضور! اس کو قبول کریں۔“ حضرت نے اس رومال کو قدموں سے الگ کر دیا، پھر اس آدمی نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا کہ حضور! قبول کر لیں۔ بالآخر اس نے وہ پیسے آپ کے جوتوں میں رکھ دیے۔

جب حضرت اٹھے تو نہایت استغنا کے ساتھ جوتے جھاڑے اور سارا روپیہ زمین پر گر گیا، اس نے پھر منت سماجت کی، مولانا نے حافظ انوار الحق صاحب سے ہنس کر فرمایا،”حافظ جی! ہم بھی دنیا کماتے ہیں او راہل دنیا بھی کماتے ہیں۔فرق صرف یہ ہے کہ ہم دنیا کو ٹھکراتے ہیں اور وہ قدموں پر گر جاتی ہے اور دنیا والے اس کے قدموں میں گرتے ہیں اور انہیں ٹھکراتی ہے۔“ اور یہ فرما کر وہاں سے چلے گئے۔ (ارواح ثلاثہ) حضرت مولانا صاحب متواضع ہونے کے ساتھ ساتھ بڑے خود دار اور غیرت مند بھی بہت تھے۔ فرماتے تھے جو شخص ہمیں محتاج سمجھ کر ہدیہ دیتا ہے اس کا ہدیہ لینے کو جی نہیں چاہتا ہے او رجواس غرض سے دیتا ہے کہ اس کے مال میں برکت ہو اور ہمارے لینے کو احسان سمجھے اس کا ہدیہ لینے کو جی چاہتا ہے۔اگرچہ دو چار پیسے ہی کیوں نہ ہوں۔ (ارواح ثلاثہ،ص:246)

حضرت مولانا نوتوی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے انتہائی عشق کرتے تھے، ادب کا یہ عالم تھا کہ حضرت مدنی  فرماتے ہیں آپ سبزرنگ کا جوتا، جو اس زمانے میں اعلیٰ سمجھا جاتاتھا ،کبھی نہیں پہنتے تھے، کیوں کہ سبز رنگ کا وہ احترام کرتے تھے، اس لیے کہ روضہٴ مبارک کا رنگ بھی سبز ہے اور مدینہ منورہ میں باجود سواری ملنے کے ننگے پاؤں چلے۔

حضرت کو رسول الله صلی الله علیہ وسلمکے فضائل ومناقب بیان کرنے کا اتنا عشق تھا کہ ہندؤوں اور عیسائیوں کے مجمع میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فضائل ومناقب اور ختم نبوت کو عقلی دلائل سے ثابت کر دیتے تھے، تفصیلات کے لیے مباحثہ شاہجہان پور، میلہ خدا شناسی، انتصار الاسلام اور قبلہ نما ملاحظہ کریں۔

مولانا کے نزدیک جیسا فرق آگ اور گرم پانی کی گرمی میں ہے، ایسا ہی فرق نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم اور باقی انبیاء علیہم السلام کی نبوت میں ہے، کیوں کہ باقی انبیاء اپنی امتوں کے لیے نبی تھے، مگر نبی ں کے امتی ہیں، آپ کے مطیع ہیں ،ایک وقت میں دو دو نبی بھی ہوئے، جیسے ابراہیم، لوط، موسی وہارون ، یحییٰ وعیسی علیہم السلام، مگر آپ کی موجودگی میں کوئی نبی نہیں، اگر بالفرض آپ انبیائے سابقین کے زمانہ میں آجاتے تو وہ آپ پر ایمان لاتے، آپ کی اطاعت کر لیتے۔ آپ نے یہ مضمون انتصار الاسلام، تحذیر الناس وغیرہ میں مبرھن فرمایا ہے۔ جب مباحثہ شاہ جہانپور میں مولانا نے ہندؤوں اورعیسائیوں کو لاجواب کر دیا اور اسلام کی سچائی کا ڈنکا بجا دیا تو مولانا یعقوب نانوتوی نے فرمایا کہ اب مجھے مولانا کی وفات قریب معلوم ہوتی ہے۔ کیوں کہ حق تعالیٰ کو ان سے جو کام لینا تھا وہ پورا ہو چکا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ سب مسلمان اسلام کی بنیاد بن جائیں اور خدا کی حجت اس کے بندوں پر پوری ہو جائے ۔ (ارواح ثلاثہ، ص:254) کے آخر میں حضرت مولانا میں قاسم نانوتوی کے چند اشعار جو مولانا زکریا نے فضائل اعمال میں فضائل درود شریف کے آخر میں نقل کیے ہوئے ہیں #
        جہان کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں
        تیرے کمال کسی میں نہیں مگر دو چار
        خوشا نصیب یہ نسبت کہاں نصیب میرے
        تو جس قدر ہے بھلا میں برا اسی مقدار
        یہ سن کے کہ آپ شفیع گناہگاراں ہیں
        کیے ہیں میں نے اکٹھے گناہ کے انبار
        الہی اس پر اور اس کی تمام آل پہ بھیج
        وہ رحمتیں کہ عدد کر سکے نہ ان کو شمار

Flag Counter