Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الثانی 1438ھ

ہ رسالہ

5 - 17
روضہٴ رسول صلی الله علیہ وسلم  کتاب وسنت کی روشنی میں!

مولانا محمد تبریز عالم قاسمی
	
یقینا مکان کی شہرت وشرافت،خاصیات وخصوصیات اور عظمت وعقیدت کا دارومدار صاحب مکان پر ہوتا ہے، مسجد اس لیے احب البقاع اور قابل احترا م ہے کہ وہ خانہ خدا اور مرکز ذکر الہیٰ ہے، کیا خانہ کعبہ کا تقابل کسی اور خانہ خدا سے کیا جاسکتا ہے ؟ نہیں، کیوں کہ وہ صرف خانہ نہیں، بلکہ تجلی ربانی کا مرکز ہے، وہ صرف ایک گھر نہیں، بلکہ پہلی عبادت گاہ ہے، وہ صرف مرکز اسلام ہی نہیں، بلکہ مرکز نزول وحی بھی ہے۔

مدینہ منورہ کی حیثیت ہجرت گاہ رسول صلی الله علیہ وسلم بننے سے پہلے ایک زراعتی شہر سے زیادہ نہیں تھی اور ہجرت گاہ رسول عربی صلی الله علیہ وسلم بننے کے بعد اس کی عظمت وعزت میں چار چاند لگ گئے، اس شہر کو پہلے یثرب کہا جاتا تھا، لیکن جب اسے قیام گاہ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے طور پر چن لیا گیا تو اس کا نام ” مدینہ“ پڑ گیا اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نورانیت سے ”منورہ“ بن گیا اور پھر آنجناب کی توجہات کی وجہ سے مدینہ کے مختلف فضیلتیں امت کے سامنے آئیں اور شرف وسعادت کی ایک مستند ترین بات یہ ہے کہ الله نے مدینہ کا نام طابہ اور طبیہ رکھا ، کہتے ہیں کہ کثرت اسماء، کثرت شرافت کو لازم کرتی ہے، صاحب وفا الوفاء نے مدینہ کے 96 نام شمار کیے ہیں۔

سرکاردو عالم صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو وہاں کی آب وہوا صحت بخش ہو گئی، وہاں کی سکونت دنیا وعقبیٰ کی بھلائی کا سبب بن گئی، وہاں کی تکلیف ومصیبت پر صبر کرنا، شفاعت نبی کا ذریعہ بن گیا، وہاں کے پھل، سبزی اور اشیاء خور ونوش، حتی کہ صاع ومد میں برکت ہونے لگی، وہاں طاعون اور دجال کا داخلہ ممنوع ہو گیا، اہل مدینہ کے ساتھ مکروفریب کرنے والے کو نمک کی طرح پگھلنے کی وعید سنائی گئی، وہاں جینے مرنے کے فضائل بیان کیے گئے، اس شہر مدینہ کے میوہ جات میں ہی نہیں، بلکہ شہر پاک کی خاک پاک میں تاثیر شفاودیعت کر دی گئی، وہاں کے باشندوں کے ساتھ تکریم وتعظیم کی وصیت کی گئی اور اخیر میں تو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے یہ اعلان کر دیا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو بزرگی دی اور اس کو حرم قرار دیا اور میں نے مدینہ کو بزرگی دی ہے اور مدینہ کے دونوں کناروں کے درمیان کی بزرگی کا تقاضایہ ہے کہ نہ تو اس میں خوں ریزی کی جائے، نہ وہاں جنگ کے لیے ہتھیار اٹھایا جائے اور نہ اس کے درخت کے پتے جھاڑے جائیں۔ ( مسلم، باب فضل المدینہ:1374)

اگرچہ حرم مکہ اور حرم مدینہ کے درمیان فقہی اعتبار سے فرق ہے، لیکن تعظیم وتکریم اور عزت وشرف کے اعتبار سے مکہ اور مدینہ کا حرمین شریفین ہونا متفق علیہ بات ہے، پھر مدینے کو نبوی قیام گاہ ہونے کی وجہ سے جس طرح غلبہ حاصل ہوا اور جس طرح انصار مدینہ اور مہاجرین نے مشرق سے مغرب تک پورے عالم کو اپنے زیراثر کیا، یہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں، بلکہ یہ اس حدیث کی کھلی تفسیر تھی جس میں سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا: مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں پر غالب رہے گی ۔ (بخار ی، باب فضل المدینہ:1871)

بہرحال اس طویل تفصیل کے بعد ایک اہم سوال یہ ہوتا ہے کہ آخر وہ یثرب، مدینہ منورہ کیوں بنا؟ وہاں کی خاک، حضور کی آمد کے بعد خاک پاک کیوں بنی؟ اور اس خاک پاک کی عزت وآبرو میں ایسا اضافہ کیوں ہوا کہ #
        خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا

سر کا دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی آمد سے پہلے بھی وہاں لوگ جیتے اور مرتے تھے، لیکن سرکار دو عالم کی آمد کے بعد وہاں کا جینا عبادت اور وہاں کا مرنا عبادت کیوں بنا؟ وہاں کے ذرات آفتاب وماہتاب کیوں بنے؟ لوگوں نے وہاں کی خاک کو سرمہ چشم بنانے میں فخر کیوں محسوس کیا؟ الغرض اس طرح کے جتنے سوالات ہو سکتے ہیں، ان کا ایک ہی جواب ہے او راس جواب کے سوا اور کوئی جواب ہو بھی نہیں سکتا، وہ یہ کہ اب وہ صرف یثرب نہیں،بلکہ مدینة الرسول بن گیا، اس رسول کا شہر بن گیا جس کے لیے پوری کائنات بنائی اور سجائی گئی، جس پر خود خالق کائنات او رمعصوم فرشتے درود وسلام بھیجتے ہیں، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کے سامنے حضرت جبرئیل علیہ السلام بھی با ادب بیٹھتے ہیں، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کو حالت بیداری میں دیدار الہٰی کا شرف حاصل ہوا، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جو صرف نبی نہیں ،بلکہ خاتم النبیین ہونے کے ساتھ رحمة للعالمین بھی ہے، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جس کی شان والاتبار میں گستاخی موجب کفر ہونے کے ساتھ ساتھ موجب قتل بھی ہے او رجس کی اطاعت کے بغیر خداکی اطاعت بے کار ہے ، وہ اس رسول کا شہر بن گیا جن کے بارے میں ایک شاعر نے حقیقت پسندانہ شعر کہنے کی کوشش کی ہے #
        رُخِ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا کوئی آئینہ
        نہ ہماری بزم خیال میں ہے اور نہ دکان آئینہ ساز میں

اختصار کی کوشش کرتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب کچھ صرف اس لیے ہوا کہ وہاں سرکار دو عالم ، فخر موجودات، محسن کائنات صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس نے مستقل سکونت اختیار کر لی، جن کی ایک ادنیٰ صحبت بھی ہزار سالوں کی عبادت سے افضل ہے، ایک واقعہ پڑھیے، جو سیرت کا مشہور واقعہ ہے، غزوہ حنین میں مسلمانوں کو بہت زیادہ مال غنیمت ہاتھ آیا تھا، جس کے حق دار انصار مدینہ بھی تھے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے تالیفِ قلب کی مصلحت کے پیشِ نظر سارا مال قبائلِ قریش میں تقسیم فرما دیا ، انصار مدینہ پر اس کا بڑا گہرا اثر ہوا اور دل میں ایسی کبیدگی پیدا ہو گئی کہ کچھ لوگوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم اپنی قوم سے مل گئے، جب حضور کو اس کی اطلاع ہوئی تو آپ نے درد انگیز تقریر فرمائی اور ایک تاریخی جملہ ارشاد فرمایا:
ترجمہ:” اے جماعت انصار! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو سکتے کہ لوگ اونٹ او ربکریاں لے کر جائیں او رتم رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو اپنے یہاں لے جاؤ، اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں محمد کی جان ہے، یقینا تم جولے کر جاؤ گے وہ اس سے ہزار درجے بہتر ہے، جسے وہ لوگ لے کر جائیں گے۔“ (زادالمعاد:3/416)

غور کریں، انصار مدینہ کو خوش کرنے کے لیے مال وزر بھی دیا جاسکتا تھا اور وہ اس کے متمنی بھی تھے، کیوں کہ وہ اس کے حق دار تھے، لیکن رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس ایسی بے نظیر، لاثانی اور روحانی ونورانی ذات تھی کہ آپ نے انہیں ” رسول الله“ ہی عنایت فرما دیا، انصار مدینہ کے تو نصیب ہی چمک اٹھے، ان کے نصیبہ ور ہونے میں کیا کوئی کلام بھی ہو سکتا ہے، سچ ہے ہر چیز میں خیر کا پہلو بھی ہوتا ہے، انصار کی یہ ناراضگی وکبیدگی کتنی سود مند ثابت ہوئی کوئی انصار سے ہی پوچھے اور یہاں حضور صلی الله علیہ وسلم کا اپنے آپ کو محمد نہ کہنا، بلکہ رسول الله کہنا ایک ایسی لطیف تعبیر ہے، جسے اہل دل ہی سمجھ سکتے ہیں، روایتوں میں آتا ہے ، انصار مدینہ یہ سن کر اتنا روئے کہ ان کی ڈاڑھیاں تر ہو گئیں اور سب نے بیک زبان کہا کہ ہم دل وجان سے اس سودے پر راضی ہیں، اب ہمیں کچھ نہیں چاہیے، کیوں کہ ہمیں لازوال دولت مل گئی:”رضینا برسول الله صلی الله علیہ وسلم قسما وحظا․“ (زادالمعاد:3/416)

آپ علیہ السلام اپنی زندگی میں جس طرح تمام مسلمانوں کے لیے محبت واحترام کا مرکز تھے اپنی وفات کے بعد بھی آپ کا روضہٴ اقدس دنیا کے تمام مسلمانوں کے لیے محبت واحترام کامرکز ہے، یہ ہمارے ایمان کا اٹوٹ حصہ ہے۔

روضہٴ رسول کا مقام
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اپنی قبر میں، بلکہ جملہ انبیائے کرام علیہم السلام کا اپنی قبروں میں زندہ ہونا جمہورِ امت کے متفقہ مسائل میں سے ہے، اگرچہ حیات کی نوعیت میں فرق ہے، اس لیے مدینہ منورہ کی سر زمین کا وہ حصہ جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے جسد اطہر اور اعضائے مبارکہ سے مس کر رہا ہے، وہ پورے روئے زمین میں افضل ترین حصہ ہے، بلکہ قاضی عیاض مالکی  نے اس پر اجماع نقل کیا ہے کہ یہ حصہ کعبہ سے بھی افضل ہے۔

روضہٴ رسول کی زیارت کے فضائل
سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جس نے میری قبر کی زیارت کی اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی۔“

تشریح… شیخ عبدالحق محدث دہلوی لکھتے ہیں:” اس خصوصیت کی کوئی خاص وجہ ہے، کیوں کہ جہاں تک حضور صلی الله علیہ وسلم کی شفاعت کا تعلق ہے اس نعمت سے ہر مسلمان کو نوازا جائے گا اور آپ کی یہ کرم فرمائی اور مومن نوازی جملہ مسلمانوں کے لیے عام ہے، لیکن یہاں پر شفاعت سے مراد خاص شفاعت ہے، جو درجہ خاص کے حصول کا ذریعہ ہو گی، ان کے علاوہ غیر زائرین کا اپنے زیادتی اعمال اور کثرت فضائل کے باوجود اس درجہ پر پہنچنا میسر نہ ہو گا۔

آگے لکھتے ہیں:
اس کے علاوہ زائر کے لیے یہ بشارت بھی ہے کہ وہ دین اسلام پر مرے گا، یہ بھی سیّدِ انام علیہ الصلوٰة والسلام کی برکت کے طفیل ہو گا ، وہ اس طرح کہ شفاعت کے لیے دین اسلام پر مرنا ضروری ہے۔( جذب القلوب الی دیار المحبوب:258)

مولانا ظفر احمد تھانوی لکھتے ہیں… زائر کے لیے شفاعت کی جو بشارت ہے کیا اس سے بڑھ کر بھی کوئی فضیلت ہو سکتی ہے۔ (اعلاء السنن:102،ص:498)

حضرت عبدالله بن عمر سے مروی ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے حج کیا او راس کے بعد میری قبر کی زیارت کی میری وفات کے بعد تو وہ (زیارت کی سعادت حاصل کرنے میں ) انہیں لوگوں کی طرح ہے جنہوں نے میری حیات میں میری زیارت کی۔ (شعب الایمان: فضل الحج والعمرة:3857)

مولانا محمد منظور نعمانی  اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
”رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا اپنی قبر مبارک میں، بلکہ تمام انبیاء علیہم السلام کا اپنی منور قبور میں زندہ ہونا جمہورِ امت کے مسلّمات میں سے ہے، اگرچہ حیات کی نوعیت میں اختلاف ہے اور روایات اور خواص امت کے تجربات سے یہ بھی ثابت ہے کہ جو امتی قبر پر حاضر ہو کر سلام عرض کرتے ہیں، آپ ان کا سلام سنتے ہیں اور جواب دیتے ہیں، ایسی صورت میں بعد وفات آپ کی قر پرحاضر ہونا اور سلام عرض کرناایک طرح سے آپ کی خدمت میں حاضر ہونے اور بالمشافہہ سلام کا شرف حاصل کرنے ہی کی ایک صورت ہے اور بلاشبہ ایسی سعادت ہے کہ اہل ایمان ہر قیمت پر اس کو حاصل کرنے کی کوشش کریں۔“ (معارف الحدیث:4/458)

جس شخص نے مکہ کا قصد کیا اور پھر میری زیارت اور میری مسجد میں شرف حاضری کے حصول کا قصد کیا تو اس کے دو مقبول حج لکھے جاتے ہیں۔ (جذب القلوب:261)

روضہٴ اقدس کی زیارت کے فضائل کے سلسلہ میں یہ تین روایتیں بطور نمونہ کے لکھی گئی ہیں، تفصیل کے لیے شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی جذب القلوب کا مطالعہ کریں، جس میں انہوں نے اختصار کے ساتھ تیرہ روایات کو جمع کیا ہے، اگرچہ بعض روایات پر کلام بھی کیا گیا ہے، جن کے بارے میں مولانا محمد منظور نعمانی صاحب  کا تبصرہ ایک وقیع تبصرہ ہے، لکھتے ہیں:
”رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی قبر مبارک کی زیارت کے جن منافع اور برکات ومصالح کا اوپر ذکر کیا گیا ہے، اگر اس کو پیش نظرکھ کے ان احادیث پر غور کیا جائے جو اس زیارت کی ترغیب میں مروی ہیں تو خواہ سند کے لحاظ سے ان پر کلام کیا جاسکے، لیکن معنوی لحاظ سے وہ دین کے پورے فکری اورعملی نظام کے ساتھ بالکل مرتبط اور ہم آہنگ نظر آئیں گی اور ذہنِ سلیم اس پر مطمئن ہو جائے گا کہ قبر مبارک کی یہ زیارت، صاحبِ قبر کی ذاتِ اقدس کے ساتھ ایمانی تعلق اور محبت وتوقیر میں اضافہ اور دینی ترقی کا خاص وسیلہ ہے، یقین ہے کہ ہر خوش نصیب ، صاحبِ ایمان بندہ جسے الله تعالیٰ نے زیارت کی سعادت سے بہرہ ور فرمایا ہے اس کی شہادت دے سکے گا۔“ (معارف الحدیث:ج4،ص:459)

روضہٴ رسول کی زیارت کا حکم
انبیاء چوں کہ اپنی قبروں میں زندہ ہوتے ہیں۔ سر کاردو عالم صلی الله علیہ وسلم بھی اپنی قبر اطہر میں باحیات ہیں، اس لیے زیارت قبر اطہر کے فضائل بیان کیے گئے ہیں، انہیں روایات کے پیش نظر احناف کے یہاں زیارت روضہ اقدس کا حکم قریب بہ واجب ہے، جمہور کے نزدیک مستحب ہے اور بعض مالکیہ اور بعض ظاہریہ کے نزدیک واجب ہے۔

ملاعلی قاری  نے شرح الشفاء میں قاضی عیاض مالکی کے حوالے سے لکھا ہے:
یعنی قبر اطہر کی زیارت مسلمانوں کی متفق علیہ سنت ہے اور اس کی ایسی فضیلت ہے جس کی رغبت ہر مسلمان کو کرنی چاہیے۔ (شرح الشفاء:2/150)

لہٰذا ہر صاحب استطاعت شخص کی یہ خواہش ہونی چاہیے کہ اسے جب بھی موقع ملے گا وہ روضہٴ اقدس کی زیارت کرے گا اور جو لوگ حج کرنے جاتے ہیں، انہیں روضہٴ اقدس کی زیارت بھی کرنی چاہیے، اگرچہ روضہٴ اقدس کی زیارت حج کا کوئی رکن یا جز نہیں ہے، لیکن شروع سے امت کا یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ خاص کردور دراز علاقوں کے مسلمان جب حج کو جاتے ہیں تو روضہ پاک کی زیارت اور وہاں درود سلام کی سعادت ضرور حاصل کرتے ہیں اور کسی سے اس کا انکار منقول نہیں ہے، تو یہ اجماع کے درجہ میں ہے، اعلاء السنن کے حاشیہ میں ہے:

اور جن لوگوں نے زیارت قبر اطہر کو ممنوع ومکروہ لکھاہے، ان کے بارے میں ملا علی قاری لکھتے ہیں: یعنی باب زیارت کی روایات بہت زیادہ ہیں، اس کے فضائل مشہور ہیں اور جس نے بھی اس کا انکار کیا ہے حقیقت میں اس نے ان بدعات ومنکرات کا انکار کیا ہے، جن میں سے اکثر گناہ کبیرہ تک پہنچ جاتے ہیں۔ (مرقرة المفاتیح، رقم الحدیث:2756، باب حرم المدینہ)

البتہ حاجیوں کے لیے بہتر یہ ہے کہ وہ پہلے حج مکمل کر لیں، پھر زیارت کے لیے مدینہ منّورہ جائیں، کیوں کہ حج فرض ہے اور زیارت روضہ اقدس قریب بہ واجب ہے اور حق الله کی تقدیم مناسب بات ہے، البتہ حضرت حسن  نے امام ابوحنیفہ سے بڑی اچھی بات نقل کی ہے کہ اگر حج فرض ہو تو حاجی کے لیے بہتر یہ ہے کہ پہلے حج کرے، پھر زیارت کرے، اگرچہ زیارت کیتقدیم میں کوئی گناہ نہیں، وہ بھی جائز ہے اور اگر حج نفل ہو تو اسے احتیار ہے، جس سے چاہے آغاز کرے۔ (دیکھیے: فتح القدیر:3/197، کتاب الحج)

روضہٴ اقدس کی زیارت کے لیے سفر کا شرعی حکم
ابن تیمیہ رحمہ الله قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر کو ناجائز کہتے ہیں، وہ فرماتے ہیں کہ مسجدنبوی میں نماز ادا کرنے کی نیت سے سفر کرے، پھر روضہ اقدس کی زیارت کرے، مستقل طور سے روضہٴ اقدس کی نیت سے سفر نہ کرے، لیکن جمہور امت کے نزدیک قبر اطہر کی زیارت کے لیے سفر کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ اہم عبادتوں میں سے ہے اور بڑا کار ثواب ہے، کیوں کہ روضہٴ اقدس کی زیارت کی فضیلت کے بارے میں روایات بہ کثرت وارد ہیں، دوسری بات یہ کہ پوری امت کا یہ تعامل چلا آرہا ہے کہ ہر حاجی مکہ کا ایک لاکھ نمازوں کا ثواب چھوڑ کر چار سو میل طویل سفر کرکے مدینہ جاتا ہے، ظاہر ہے کہ حجاج صرف مسجد نبوی کی زیارت کے لیے نہیں جاتے، بلکہ ان کا مقصود روضہٴ اقدس پر حاضر ہوتی ہے او رتعامل ایک مستقل دلیل ہے، چناں چہ ابن ہمام  لکھتیہیں: یعنی میرے نزدیک بہتر یہ ہے کہ خالص زیارت کی نیت کرے، کیوں کہ حدیث ”تحملہ حاجة الازیارتی“( کہ میری زیارت کے سوا کوئی حاجت اس کو نہ لائی ہو ) کے ظاہر کے موافق ہے۔ (فتح القدیر:3/180)

اور شیخ الحدیث مولانا خلیل احمد سہارن پوری نے یہی علمائے دیوبند کا مسلک نقل کیا ہے:
یعنی ہمارے نزدیک او رہمارے مشائخ کے نزدیک زیارت قبر سید المرسلین ( ہماری جان آپ پر قربان) اعلیٰ درجہ کی قربت او رنہایت ثواب اور سبب حصول درجات ہے، بلکہ واجب کے قرب ہے، گو شدِّ رحال اور بذل جان ومال سے نصیب ہو اور سفر کے وقت آپ کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ میں مسجد نبوی وغیرہ کی نیت کر ے۔ (المہند علی المفند:27)

روضہٴ اقدس پر درود وسلام
حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے: رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی بھی مجھ پر سلام بھیجتا ہے، الله تعالیٰ میری روح مجھ پر واپس کر دیتے ہیں، یہاں تک کہ میں اس کے سلام کا جواب دے دیتا ہوں۔ (بوداد، رقم الحدیث:2041، باب زیارت القبور)

اس روایت میں اگرچہ روضہٴ اقدس کی قید نہیں ہے، لیکن سنن ابوداؤد کے مصنف نے یہ روایت باب زیارت القبور کے تحت ذکر کی ہے، جس کا مطلب ہے کہ یہاں حضور پر سلام سے مراد زیارت روضہ اقدس کے وقت سلام کرنا ہے، چناں چہ اس کی تائید اس روایت سے ہوتی ہے، جو شعب الایمان میں نقل کی گئی ہے، اس کے الفاظ ہیں:”مامن عبد یسلّم علي عند قبری․“(شعب الایمان:3859، باب فضل الحج والعمرة)

اور درود کے سلسلہ میں روایات بھی بکثرت وارد ہیں۔ ( دیکھیے القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع)

بہرحال الله تعالیٰ نے ایسا نظام بنایا ہے کہ آپ روضہٴ اقدس کے پاس سلام کریں تو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم خود سنتے ہیں اور اس کے سلام کا جواب وعلیک السلام کے ذریعہ دیتے ہیں، گویا ایک اعتبار سے روضہٴ اقدس پر سلام کرنے سے ہم کلامی کا شرف حاصل ہوتا ہے، اگر یہ نعمت ساری دنیا، بلکہ اس دنیا جیسی چار پانچ دنیا خرچ کرکے بھی حاصل ہو تو ایک امتی کے حق میں ارزاں اور سستی ہے۔

حضرت شاہ صاحب  کا مشاہدہ
حضرت شاہ ولی الله محدث دہلوی ( م:1176ھ) قدس سرہ نے اپنی کتاب حجة الله البالغہ میں مذکورہ حدیث کے تحت گفت گو کی ہے ، خلاصہ درج ذیل ہے:
”روح پاک جو مشاہدہ حق میں مشغول ہے اور جس کا کسی طرف التفات باقی نہیں رہا، باذن الہیٰ وہ سلام پیش کرنے والے کی طرف ملتفت ہوتی ہے اور جواب دیتی ہے، یعنی روح پاک سے سلام کرنے والے کو فیض پہنچتا ہے، شاہ صاحب فرماتے ہیں : میں نے 1144ھ میں جب میرا قیام مدینہ منورہ میں تھا، اس بات کا با ربار مشاہدہ کیا ہے یعنی روح نبوی سے فیض پایا ہے۔“ (رحمة الله الواسعہ:4/345)

علامہ سخاوی نے اپنی مایہ ناز کتاب القول البدیع میں روضہ اقدس پر کیے جانے والے سلام کے تعلق سے کئی واقعات نقل کیے ہیں ، چند ملاحظہ فرمائیں:
سلیمان بن سحیم  سے منقول ہے کہمیں نے خواب میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی زیارت کی، میں نے پوچھا: ”اے الله کے رسول! جو لوگ آپ کے روضے پر حاضر ہوتے ہیں اور آپ پر سلام کرتے ہیں، آپ اس کو سمجھتے ہیں؟ سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں سمجھتا ہوں اور ان کے سلام کا جواب بھی دیتا ہوں۔“

ابراہیم بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے حج کیا، پھر فراغت کے بعد مدینہ آیا اور روضہٴ اقدس پر حاضر ہو کر سلام کیا، تو میں نے حجرہٴ شریف کے اندر سے ”وعلیک السلام“ کی آواز سنی۔“ (القول البدیع فی الصلوٰة علی الحبیب الشفیع:1/165، مکتبہ شاملہ)

سید احمد کبیر رفاعی رحمہ الله، جو عبدالقادر جیلانی رحمہ الله کے معاصر ہیں، انہوں نے555ء میں جب حج کیا اور وضہٴ اقدس پر حاضر ہوئے تو عرض کیا: السلام علیکم یا جدی․ نانا جان السلام علیک۔ جواب مسموع ہوا وعلیک السلام یا ولدی (بیٹا ! وعلیک السلام) اس پر ان کو وجد ہوا اور بے اختیاریہ اشعار زبان پر جاری ہوئے:
”جب ہم دور تھے تو اپنی روح کو اپنا نائب بنا کر بھیج دیا کرتے تھے، وہ روضہٴ اقدس صلی الله علیہ وسلم پر زمین بوس ہو جایا کرتی تھی، اب جسم کی باری آتی ہے، ذرا اپنا دست مبارک بڑھائیے، تاکہ میرا لب اس سے بہرہ ور ہوسکے اور ہونٹوں کو ( بوسہ) کی دولت نصیب ہو جائے۔“

علامہ جلال الدین السیوطی  نے نقل کیا ہے کہ روضہٴ اقدس کے اندر سے ایک نہایت نورانی ہاتھ ظاہر ہوا ( جس کے روبرو آفتاب بھی ماند تھا) وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا دست مبارک تھا، انہوں نے دوڑ کر بوسہ دیا اور بے ہوش ہو گئے، بس ہاتھ غائب ہو گیا، مگر کیفیت یہ ہوئی کہ تمام مسجد نبوی میں نور ہی نور پھیل گیا،ایسا نور کہ اس کے سامنے آفتاب کی بھی حقیقت نہ تھی اور واقعی آفتاب کی، اس نور کے سامنے کیا حقیقت ہوتی؟! ایک بزرگ سے، جو کہ اس واقعہ میں حاضر تھے، کسی نے پوچھا کہ آپ کورشک تو بہت ہوا ہو گا، فرمایا ہم تو کیا ،اس وقت ملائکہ کو بھی رشک تھا کہ ہمیں بھی یہ دولت نصیب ہوتی۔ (دیکھیے خطبات حکیم الامت، ص:14/202)

اگرچہ بعض ظاہر پرست او رتصوف سے دلچسپی نہ رکھنے والے علماء نے اس واقعہ کا انکار کیا ہے، لیکن محققین علماء نے اس واقعہ کی صحت پر شبہ نہیں کیا، ہمارے اکابر میں حضرت تھانوی نے اشرف الجواب میں، اسی طرح مفتی عبدالرحیم لاجپوری نے فتاوی رحیمیہ میں اس واقعہ کو علامہ جلال الدین سیوطی کے رسالہ”شرف مختم“ کے حوالے سے سند کے ساتھ نقل کیا ہے۔

Flag Counter