Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

9 - 16
نماز کے تعلق سے ہماری کو تاہیاں

مولانا محمد ارشد قاسمی
	
ہم سب کا مشاہدہ ہے کہ دنیا میں جو بھی چیز معرض وجود میں آتی ہے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد کار فرما ہوتا ہے…تو کائنات کی ہر شے جسے اللہ نے پیدا کیا ہے وہ بے مقصد کیسے ہوسکتی ہے؟اللہ تعالیٰ خود فرماتا ہے:﴿وَمَا خَلَقْنَا السَّمَاء وَالْأَرْضَ وَمَا بَیْْنَہُمَا لَاعِبِیْنَ ، لَوْ أَرَدْنَا أَن نَّتَّخِذَ لَہْواً لَّاتَّخَذْنَاہُ مِن لَّدُنَّا إِن کُنَّا فَاعِلِیْنَ﴾(سورة الأنبیاء :17-16) اور ہم نے نہیں بنایا آسمان اور زمین کو اور جو کچھ ان کے بیچ میں ہے کھیلتے ہوئے ،اگر ہم چاہتے کہ بنالیں کچھ کھلونا تو بنا لیتے اپنے پاس سے، اگر ہم کو کرنا ہوتا ۔

ظاہر ہے کہ انسان کائنات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے،لہٰذا اس کی تخلیق کی بھی ایک علت اور مقصد ہے ۔قرآن کی آیت ﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِیَعْبُدُون﴾(سورة الذاریات:56) انسان کے مقصد تخلیق کو واضح کرتی ہے ،اس آیت کی رو سے علتِ پیدائش عبادت ہے اور عبادت اوامرو نواہی میں اللہ کی اطاعت کا نام ہے جس کا سلسلہ کلمہٴ شہادت سے شروع ہوتا ہے اور اِماطة الأذی پر ختم ہوتا ہے ،اسی سلسلہٴ عبادت کی ایک اہم کڑی نماز ہے، جو اسلام کادوسرا رکن ہے اور ہر مسلمان پر فرض ہے ،کفر و ایمان کے درمیان حد فاصل ہے ،آخرت میں سب سے پہلے اسی فریضہ کے بارے میں سوال کیا جائے گا،اگر نماز درست ہوئی تو کام یاب و کامران، ورنہ ناکام و نامراد ۔قرآن و احادیث نماز کی اہمیت و فضیلت سے بھری پڑی ہیں ،قرآن میں سیکڑوں جگہ نماز کا ذکر آیا ہے ،کبھی قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے تو کبھی ایمان والے کی صفت کے طور پر بیان کیا گیا ہے ،کبھی ایمان بالغیب کے ساتھ تذکرہ ہے تو کبھی صبر کے ساتھ ۔نماز سے کھلم کھلا بندگی کا اظہار ہوتا ہے ،اس میں بندہ اللہ سے گفتگو کرتا ہے اور حالت ِسجود میں اللہ کے قریب تر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کوئی حاجت لاحق ہوتی تو آپ نماز کے لیے کھڑے ہو جاتے ،نماز سے آپ کو حد درجہ شغف تھا اور اعلان فرمایا کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز ہے ۔نماز کا انکار تو دائرہٴ اسلام سے خارج کردیتا ہے،اس کا اقرار اور پھر سستی و کاہلی کے سبب ترک اور تاخیر عن الوقت بھی قابل معافی جرم ہے، جس میں قضا اور توبہ واجب ہے ۔جو لوگ نماز کو ضائع کرتے ہیں (یعنی وقت مقررہ پر ادائیگی نہیں کرتے )ان کا ٹھکانا جہنم ہے ،قرآن کریم نے منافقین کو دھوکہ باز کا خطا ب دیا ،کیوں کہ وہ نماز سستی و کاہلی اور دکھاوے کے لیے پڑھتے تھے ۔جہنمیوں سے پوچھا جائے گا کہ تم جہنم کیسے چلے گئے ؟ وہ سب سے پہلے یہی جواب دیں گے کہ ہم نماز نہیں پڑھتے تھے ۔جس نے عصر کی نماز چھوڑ دی اس نے اپنا سارا عمل ضائع کردیا۔ (بخاری )عصر کی نماز چھوٹ جانے سے ایسے ہی دکھ ہونا چاہیے جیسے کسی نے اپنے مال واولاد کو کھودیا ہو، جیسا کہ ابو داؤد اور ترمذی کی روایت میں اس کی بین دلیل ہے :”من فاتتہ صلاة العصر فکانما وترأھلہ ومالہ․“ حضرت ابو قتادةکہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ رب العزت سے نقل کرتے ہیں کہ اے نبی !میں نے آپ کی امت پر پانچ نمازیں فرض کی ہیں اور میں نے عہد کر لیا ہے کہ جو شخص وقت مقررہ پر ان کی پابندی کرے گامیں اس کو جنت میں داخل کروں گا اور جو اس کو ضائع کرے گا اس کے لیے میرا کوئی عہد و پیمان نہیں(ابو داؤد)۔

باوجود یکہ نماز ایک انتہائی اہم اور مہتم بالشان عمل ہے، ہم لوگ اس کی طرف سے انتہائی غفلت میں مبتلا ہیں ،ہماری کوتاہیاں ان گنت ہیں ،ہم میں سے ہر شخص، چھوٹا ہو یا بڑا ،پڑھا لکھا ہو یا ان پڑھ ،مرد ہو کہ عورت، نہ جانے نماز میں کون سی جسامت ،ثقل اور بھاری پن ہے کہ اس کو انجام دینے سے گریز کرتا ہے۔بڑے بڑے اجر و ثواب کے باوجود اس کی طرف قدم بادل نخواستہ ایسے اٹھتے ہیں جیسے بار برداری کا کام انجام دینے جارہے ہوں۔ہم دیکھتے ہیں کہ ایک شخص اخلاق کے اعلی منصب پر فائز اور سو فیصد نمبر کا حق دار ہے پر نماز میں صفر ،ایک دوسرا دینی کتابوں کا شو قین، لیکن اس کے دل و دماغ نماز کے شوق سے عاری ،ایک تیسرا اصلاح معاشرہ کا پر زور حامی ،مگر”اِن الصلاة تنھی عن الفحشاء والمنکر“ کے فہم و ادراک سے خالی ،ایک علمی شخصیت کے لیے ریسرچ اور تحقیق میں بیس گھنٹہ تن من کھپانا آسان، لیکن نماز کے لیے دس منٹ کھڑے ہونا بارِ گراں ۔سچ تو وہی ہے جسے اللہ نے بیان فرمایا: ﴿الَّذِیْنَ یَظُنُّونَ أَنَّہُم مُّلاَقُوا رَبِّہِمْ وَأَنَّہُمْ إِلَیْْہِ رَاجِعُون﴾(سورہ البقرہ:46)کہ نماز سخت مشکل کام ہے سوائے ان فرماں بردار بندوں کے لیے جنہیں یقین ہے کہ رب سے ملنا ہے اور اسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے ۔

ذیل میں ہم مختصراً اہم اور واضح کو تاہیوں اور غلطیوں کا تذکرہ کر رہے ہیں۔

٭…نماز کے لیے وضو شرط کی حیثیت رکھتا ہے ،اگر وضو صحیح نہیں تو نماز بھی صحیح نہیں ،وضو میں ہماری سب سے بڑی کوتاہی پانی کا بیجا اسراف ہے، آج کل نل کا رواج ہے، جسے ایک بار وضو کے لیے کھول دیا جاتا ہے تو پھر وضو مکمل ہونے کے بعد ہی بند کیا جاتا ہے ،دوران وضو مسلسل پانی گرتا رہتا ہے، جو وضو کے لیے مقررہ مقدار سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک لیٹر سے کم پانی وضو کے لیے استعمال فرماتے تھے ۔حضرت انس  فرماتے ہیں:”کان النبی صلی الله علیہ وسلم یتوضأ بالمد، ویغتسل بالصاع اِلی خمسة أمداد․“(صحیح مسلم)۔علماء کا اتفاق ہے کہ ایک مد ایک لیٹر سے کم ہے، ”المد ھو رطل و ثلث بغدادی ویساوی 675غراما ،والصاع ھو أربعة أمداد ویساوی 2751غراما 2700غراما“․(الفقہ الاسلامی ،ج1،ص379)اب ہم خود اندازہ کریں کہ ہم کتنے لیٹر پانی کا استعمال کرتے ہیں؟ہاں !اس کا یہ مطلب قطعاً نہیں کہ پانی بچانے میں ہمارے اعضا ہی سوکھے رہ جائیں اور جہاں پانی پہنچنا ضروری ہو وہاں پانی نہ پہنچے ۔لوگ پیر دھونے میں کافی بے توجہی برتتے ہیں،نتیجتاً پیرایڑیوں کی طرف سوکھا رہ جاتا ہے ،ایسے لوگوں کے لیے ہلاکت ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا”ویل للأعقاب من النار“․(صحیح مسلم)

بعض لوگوں کا یہ گمان کہ وضو کرنے کے بعد اگر نجاست کپڑے یا بدن پر لگ جائے تو وضو کا لوٹانا ضروری ہے بالکل درست نہیں ،انہیں چاہیے کہ بس نجاست کو دور کر لیں ۔ایسے ہی کچھ لوگوں کا یہ خیال کہ بال کٹوانے سے وضو دوبارہ کرنا ضروری ہے صحیح نہیں ،بال کٹوانے سے وضو پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے۔

٭…یہ زمانہ چوں کہ فیشن کا ہے ،نئے نئے کپڑوں کا چلن خوب ہے، جس میں چھوٹے اور چست کپڑے بھی ہیں اور باریک بھی اور یہی کپڑے پہن کر نماز ادا کی جاتی ہے۔چھوٹے کپڑوں کا نقصان یہ ہے کہ وہ دوران نقل و حرکت ستر عورت کے فرض منصبی کو ادا نہیں کر پاتے ،جب کہ چست اور باریک کپڑے بدن کی ساخت اور خدو خال کی نمائش کرتے ہیں، جو کہ عریانیت کا دوسرا نام ہے۔

ایک اور غلطی جو کہ بہت ہی عام ہے اور تقریباً ہر خاص و عام اس میں مبتلا ہے ”اِلا من عصمہ الله“ اوروہ نماز کے لیے ایسے کپڑوں میں نکلنا جس میں نہ ہی وہ بازار جاتا ہے اور نہ ہی دوست و احباب کے گھر ،حق تو یہ تھا کہ نماز کے لیے سب سے عمدہ کپڑے چنے جاتے، مگر کم ازکم ایسے کپڑا تو ضرور ہونا چاہیے جسے پہن کر کہیں بھی جایا جاسکے ،لیکن حد تو یہ ہے کہ خوابگاہی کے لباس کو نماز کے لیے خاص کردیا جاتا ہے ۔جائے عمل ،بازار اور رشتہ دار کے پاس جانے کے لیے عمدہ ،نفیس اور خوش بودار کپڑے اور شہنشائے کائنات کے دربار میں مریل اور بویابدبودار کپڑے ،کیا یہی انصاف ہے؟ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :﴿یَا بَنِیْ آدَمَ خُذُواْ زِیْنَتَکُمْ عِندَ کُلِّ مَسْجِد﴾(سورہ الأعراف:31)اے بنی آدم !ہر عبادت کے موقع پر اپنی زینت سے آراستہ رہو۔ اور زینت سے آراستگی میں سب سے بڑا کردار لباس کا ہی ہوتاہے، اس حقیقت سے شاید ہی کسی کو انکار ہو۔

٭…نماز کے تعلق سے ہماری ایک کوتاہی یہ بھی ہے کہ ادائیگی نماز کے لیے اگر حالت سازگار ہو ں، یعنی بسہولت تمام نماز ادا کی جاسکتی ہو تو نمازسے سبک دوش ہو جاتے ہیں اور اگر حالات ناموافق یا نامناسب ہوں، مثلاً کسی مجلس یا محفل کا حصہ ہوں اور وہاں سے جانا پڑے تو وہیں پڑے رہتے ہیں اور بعد میں پڑھنے کا بہانہ دل میں لے کر بیٹھ جاتے ہیں یا پھر ہوائی جہاز ،ٹرین یا بس میں سفر کر رہے ہوں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ نماز کیسے پڑھی جائے ؟مسائل کاعلم نہیں ،نماز کی اہمیت سے آگاہی نہیں،چناں چہ اگلے وقت کے لیے ٹال دی جاتی ہے ،اب آگے کا حال صاحب حال جانے کہ آیا وہ پڑھتا ہے یا پھر راہ فرار اختیار کرتا ہے ،اللہ سب کے احوال سے باخبر ہے ،اِنہ یعلم السر واخفی ۔

اس بات کا یقین ضروری ہے کہ نماز کی ادائیگی ہر حال میں ضروری ہے ،خواہ سفر میں ہو یا حضر میں ،خشکی میں ہو یا دریا میں ،صحرا میں ہو یا سبزہ میں ہو یا سبزہ زار میں ،کوہسار میں ہو یا وادی میں ،وقت آجائے تو وہی مطلوب و مقصود بن جائے پانی ملے تو وضو، ورنہ تیمم کرکے نماز ادا کرے ۔

٭…ہماری ایک کوتاہی یہ بھی ہے کہ نماز کو اپنے ٹائم ٹیبل سے باہر رکھتے ہیں ،روزانہ کی نقل و حرکت اور اعمال و افعال کا وقت مقرر ہے اور مقررہ وقت میں اس کی انجام دہی بھی ہوتی ہے ،مگر نماز یا تو ٹائم ٹیبل میں ہے ہی نہیں اور اگر ہے تو اس کے وقت کو غصب کر کے تفریح طبع کے کام میں لایا جاتا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے!! دنیوی کام اپنے وقت مقررہ پر انجام پذیر ہوں اور دین کے ایک اہم ترین فریضہ پر کوئی توجہ نہ دی جائے؟! جب کہ اللہ نے بندے کو تکلیف نہ دے کر خود ہی ٹائم ٹیبل تیار کر رکھا ہے ،﴿أَقِمِ الصَّلاَةَ لِدُلُوکِ الشَّمْسِ إِلَی غَسَقِ اللَّیْْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْر﴾(سورہ بنی اِسرائیل :78) اے پیغمبر! سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز قائم کرو اور فجر کے وقت قرآن پڑھنے کا اہتمام کرو۔

٭…نماز کے تعلق سے ہماری ایک بڑی کو تاہی یہ بھی ہے کہ ہم نماز خود تو پڑھ لیتے ہیں، لیکن اہل خانہ کی طرف توجہ نہیں دیتے ،گھر کی عورتیں اور بچے عام طور پر نماز میں کوتاہی کرتے ہیں اور ہم ان کو اس کا پابند نہیں بناتے، جب کہ نماز کی فرضیت سب کے لیے یکساں ہے ،قرآن کی آیت ﴿وأمر اھلک بالصلاة واصطبر علیھا﴾(اپنے گھر والوں کو نماز کا حکم دیں اور خود بھی اس پر جم جائیں )اس سلسلہ میں واضح ہدایت ہے ۔بچے اگر بالغ نہ ہوں تب بھی انہیں نماز کے لیے تیار کرنا ضروری ہے ۔ابو داؤد میں صحیح سند کے ساتھ مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:﴿مروا أولادکم بالصلاة وھم أبناء سبع، واضربوہم علیہا وھم أبناء عشرو فرقوا بینھم في المضاجع﴾(اپنی اولاد کو نماز کا حکم دو جب سات سال کے ہوں اور نماز نہ پڑھنے پر ان کی پٹائی کروو جب وہ دس سال کے ہوں اور ان کے بستروں کو الگ کردو)۔

٭…نماز میں قرآن کریم کا پڑھنا ایک رکن ہے، جس کی ادائیگی ضروری ہے ،اس سلسلہ میں مختلف لوگوں کی مختلف کوتاہیاں ہیں ،کسی کو قرآن پڑھنا ہی نہیں آتا تو کسی کو سورت یاد نہیں ،کسی کو یاد ہے مگر ناقص ،کسی کو مکمل یاد ہے، مگر شین قاف درست نہیں، جس کی وجہ سے حروف صحیح ادا نہیں ہو پاتے، جو عربی زبان میں معانی و مفہوم کے تغیر و تبدل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ایسے تمام لوگوں پر اتنا قرآن کریم سیکھنا اور یاد کرنا جس سے کم از کم نماز درست ہوجائے، فرض ہے ،اس فرض سے پہلو تہی اختیار کرنے والا گنہگار ہے اور آخرت میں اس سے باز پرس ہوگی ۔کسی کے پاس یہ عذرنہیں ہونا چاہیے کہ ہمارے لیے قرآن سیکھنا انتہائی مشکل ہے ،ہمیں کوئی سکھانے والا نہیں ،کیوں کہ اس زمانہ میں سنجید ہ کوشش ہو تو ہزار طریقے دستیاب ہو سکتے ہیں ،قرآ ن سیکھنے اور سکھانے کے بہت سارے افراد اور اداروں نے خود کو وقف کر رکھا ہے، جن سے بآسانی مدد لی جا سکتی ہے ۔

٭…نماز کے اندر ہماری جو کوتاہیاں ہیں ان میں دو بڑی کوتاہی عمومی طور پر سر زد ہوتی ہیں ،ایک تو تعدیل ارکان سے جی چراتے ہیں ،یعنی نماز کو اطمینا ن سے ادا نہیں کرتے، جب کہ اس کا کرنا واجب ہے ،حضرت ابو ہریرہ  کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے ،ایک اور شخص بھی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی ،نماز کے بعد آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ے سلام عرض کیا ،آپ نے کہا کہ واپس جاؤ اور دوبارہ نماز پڑھو ،تم نے نماز نہیں پڑھی ،وہ دوبارہ پڑھ کر آیا ،پھر آپ نے وہی کہا کہ جاؤ اور پھر سے نماز پڑھو ،تم نے نماز نہیں پڑھی اور پھر سہ بارہ بھی اس سے ایسا ہی کہا تو اس شخص نے کہا کہ اللہ کی قسم! آپ مجھے بتائیں ،میں اس سے اچھی نہیں پڑھ سکتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھر جو کچھ قرآن سے میسر ہو پڑھو ،پھر رکوع کرو اوررکوع اطمینان سے کرو ،پھر رکوع سے اٹھو اور خوب اطمینان سے کھڑے ہوجاؤ ،پھر سجدہ کرو اور خوب اطمینان سے کرو ،پھر سجدے سے اٹھو اور خوب اطمینان سے بیٹھو اور ایسا ہی ہر نماز میں کرو۔(متفق علیہ)

دوسری کو تاہی نماز میں خشوع کا فقدان ہے، جس کے دو اسباب ہیں:
1..کچھ لوگ تو اس کا اہتمام ہی نہیں کرتے ،صرف اور صرف بے اعتنائی اور لا پرواہی برتتے ہیں، جو کہ ایک مستقل سبب ہے ۔
2..دوسرے وہ لوگ ہیں جن کے یہاں اہتمام تو ہے، مگر اس کی حقیقت سے ناواقف ہیں اور اس کو اختیار و قدرت سے باہر سمجھتے ہیں ۔پہلے لوگوں کا علاج اس آیت میں ہے : ﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ ، الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ﴾(سورہ الموٴمنون :2-1)کہ وہ مومنین کام یاب ہیں جن کی نماز خشوع کے ساتھ ہوتی ہے ،یعنی اللہ کے یہاں خشوع والی نماز مطلوب ہے ۔دوسرے لوگوں کا علاج یہ ہے کہ وہ خشوع کی حقیقت کو سمجھیں، جو ذیل میں بیان کی جارہی ہیں ۔

خشوع کی لغوی حقیقت سکون ہے اور اس کی حقیقتِ شرعیہ قلب اور جو ارح کا سکون ارادی ہے اور سکون مقابل ہے حرکت کے ،لہٰذاجوارح کا سکون یہی ہے کہ جس حرکت کا شرعا امر نہیں وہ حرکت نہ کرے، یعنی اپنے ارادے سے ہاتھ پاؤں عبث نہ ہلائے ،اِدھر اُدھر گردن یا نظر سے التفا ت نہ کرے ،سر اوپر کو نہ اٹھائے ،بالوں کو اور کپڑوں کو بار بار نہ سنوارے ،بدون ضرورت،نہ کھجلائے، نہ کھنکارے وغیرہ وغیرہ اور قلب کا سکون یہ ہے کہ اپنے ارادہ سے کسی بات کو نہ سوچے ،اگر کوئی خیال خود بخود آجائے تو وہ منافی خشوع نہیں ،پس غلطی لوگوں کی یہ ہے کہ خشوع کے معنی یہ سمجھنے لگے کہ بالکل ہی خیال نہ آئے ،اسی بنا پر اس کو محال سمجھنے لگے۔ مذکورہ بالا تعبیر سے واضح ہو گیا کہ خشوع اختیاری فعل ہے اور ہر شخص اس پرقادر ہے اور بہت آسان ہے ،البتہ توجہ کی ضرورت ہے۔(ماخوذ از ”اپنی نماز درست کیجیے۔ “حضرت تھانوی)

نماز کے سلسلہ میں ہماری کوتاہیاں تو بہت ہیں جنکا حصر کرنا نہ ہی ہمارا مقصود ہے اور نہ ہی اس چھوٹے سے مقالہ میں اس کی گنجائس ہے، ہاں مگر کوتاہیوں کے سدباب کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے اس سلسلے میں سابق کتاب کے حوالہ سے کچھ حذف واضافہ کے ساتھ تین باتوں کا تذکرہ مناسب سمجھتا ہوں جو کہ کوتاہیوں کی تلافی میں کافی اہم مقام رکھتے ہیں۔

1..دین کی بنیادی باتوں کا سیکھنا، خاص طور پر ان مسائل کا جو ہمیں روزمرہ پیش آتے ہیں جیساکہ وضو اور نماز جود ن بھر میں کم از کم پانچ بار پیش آتے ہیں۔
2..نماز کے چھوڑنے پر کیا کیا وعیدیں قرآن وحدیث میں وارد ہوئی ہیں ان کا ذہن میں استحضار ضروری ہے، جیسے کہ بے نمازی کا دوزخ میں جانا یا اس کا قارون وہامان کے ساتھ جہنم میں حشر ہونا قیامت میں سب اعمال سے پہلے نماز کی باز پرس، پھر جہنم کی ہولناکی کا اندازہ لگانے کے لیے برزخ ودوزخ کے حالات پڑھنا اور سننا۔
3..ہر شخص کو چاہیے کہ نماز ادا کرنے کے لیے اپنے اوپر جبر کرے اور ہمت دکھائے، کیوں کہ کوئی بھی کام بغیر ہمت کے کتنا آسان کیوں نہ ہو دشوار ہو جاتا ہے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو نماز قائم کرنے والا بنائے اور ہماری کوتاہیوں اور لغزشوں کو معاف فرمائے۔ آمین۔
وصلی الله علی نبینا محمد وآلہ وسلم

Flag Counter