Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

5 - 16
مومن کا ہتھیار

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم، ان الدین عندالله الاسلام، صدق الله مولانا العظیم

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا ارشاد ہے بے شک دین اور طریقہ تو الله تعالیٰ کے ہاں سب سے پسندیدہ اور بہترین اسلام ہے تمام ادیان میں تمام مذاہب میں سب سے اعلیٰ ،سب سے بہتر وہ اسلام ہے، اسلام کے معنی ہیں گردن نہا دن، اپنی گردن کو جھکا دینا۔

چناں چہ الله تعالیٰ کے احکامات اور الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقے ان کو طیب خاطر کے ساتھ، دل کی خوشی کے ساتھ قبول کرنا اور ان پر عمل کرنا یہ ہے اسلام۔ اب جتنے احکام ہیں جن کا ہمیں علم ہے، ہم جانتے ہیں ان پر پوری بشاشت کے ساتھ اور پورے اہتمام کے ساتھ عمل کرنا، یہ ترقی کا موجب ہے، نماز الله تعالی ٰ کا حکم ہے، زکوٰة الله تعالیٰ کا حکم ہے، حج الله تعالیٰ کا حکم ہے، چناں چہ ان احکام کے سامنے گردن جھکا دینا اور پورے اہتمام کے ساتھ انہیں اختیار کرنا اور سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو شریعت لے کر آئے ہیں، اس شریعت کو پوری بشاشت، انشراح، دل کی پوری خوشی کے ساتھ اختیار کرنا، اس پر عمل کرنا، یہ ہے ترقی کا موجب۔

آج میرے دوستو! پوری دنیا میں عام طور پر اسلام کو اختیار کرنے میں تردد، تکلف ہے، حالاں کہ ہم سب مسلمان ہیں، کلمہ گو ہیں، لا الہ الله محمد رسول الله کا اقرار کرتے ہیں، سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ و سلم کو اپنا نبی او ررسول مانتے ہیں، لیکن جب بات عمل کی آتی ہے تو پیر ڈگمگا جاتے ہیں، جب بات عمل کی آتی ہے تو مسلمان تذبدب اور شک کا شکار ہو جاتا ہے اور اس سے بھی آگے بہت بڑا طبقہ وہ انکاری ہے ، نماز پڑھتا ہی نہیں، آپ اگر نماز کی دعوت دیں تو وہ انکار کرتا ہے ، آپ روزے کی دعوت دیں، تو وہ انکار کرتا ہے، حج کی دعوت دیں انکار کرتا ہے، زکوٰة کی دعوت دیں انکار کرتا ہے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت کو اختیار کرنے کی دعوت دیں، تو انکار کرتا ہے اور آپ اہل علم سے پوچھ لیجیے گا کہ فرائض اسلام کا منکر، انکار کرنے والا، اس کا کیا حکم ہے؟

میں عرض کر رہاہوں کہ ایک طبقہ وہ ہے جو تذبدب کا شکار ہے، تردد کا شکار ہے اور اسے الله تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں تردد ہے او رپھر بہت سے لوگ وہ شرماتے ہیں، آپ نے دیکھا ہو گا ریلوے اسٹیشن پر، ایئرپورٹ پر، بس اسٹاپ پر، راستے میں نماز کا وقت ہو جائے وہاں آپ کسی کو نماز کے لیے کہیں، اذان کے لیے کہیں، تو وہ شرماتا ہے، اذان کیا کہیں گے؟ عجیب بات ہے؟! الله تعالیٰ اپنے بندے کو دیکھیں گے کہ وہ ریل میں بھی ،وہ بس اسٹاپ پر بھی، وہ ایئر پورٹ پر بھی، وہ جہاں بھی نماز کا وقت ہو گیا، رک گیا، وضو کیا، اذان دی، نماز پڑھی، تو الله تعالیٰ ناراض ہوں گے یا راضی؟ الله تعالیٰ خوش ہوں گے۔

میں عرض کر رہاہوں کہ بہت سے لوگ شرماتے ہیں، عجیب بات ہے کہ وہ راستے ، وہ طریقے جو الله تعالیٰ کے دشمنوں کے ہیں اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے دشمنوں کے ہیں، ان کو اختیا رکرنے میں کسی کو شرم نہیں آتی، فخر کرتے ہیں، فخر کرتے ہیں۔

آپ سوچیے، ہر ہر آدمی یہ سوچے کہ میرا معاملہ کیا ہے ؟ میں الله کے احکامات کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہوں؟

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں ، آپ کی سنتوں، آپ کی شریعت سے میرا سلوک کیا ہے ؟ توہم سب کی سمجھ میں بات آئے گی۔

ہندوستان میں ایک بہت بڑے شاعر تھے، یہ بھی آپ کو معلوم ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بادشاہوں کے زمانے میں جو سرکاری زبان تھی وہ فارسی تھی تو فارسی کا بہت چرچا تھا۔

چناں چہ ہندوستان میں بھی بڑے بڑے فارسی کے شاعر تھے، علامہ اقبال مرحوم کی شاعری آپ دیکھیں ،بہت بڑا حصہ فارسی میں ہے، حالاں کہ وہ ایرانی نہیں، وہ فارسی النسل نہیں۔

تو ہندوستان کے ایک بہت بڑے شاعر نے، سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شان میں ایک نعت لکھی، بہت عظیم الشان نعت، اس نعت کا بڑا چرچا ہوا، اور وہ چرچا اور شہرہ ایران تک پہنچا، ایران کی تو زبان ہی فارسی ہے، وہاں اس نعت کو بہت سراہا گیا، چناں چہ ایک شخص نے جو فارسی میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی شان میں شاعری اور نعت سنی، تو اس کے دل میں یہ جذبہ پیدا ہوا، کہ میں اس شاعر کو جاکے دیکھ لوں۔

اس زمانے میں سہولتیں بھی نہیں تھیں، سفر میں بہت مشکلات ہوتی تھیں ،وہ بے چارہ ایران سے سفر کرتا کرتا دلی پہنچا اور دلی پہنچ کر اس نے وہاں لوگوں سے معلومات کرنی شروع کیں ، تو لوگوں نے راہ نمائی کی اور شاعر کا پتہ بتا دیا، وہ اس پتے پر پہنچ گیا، جب وہاں پہنچا تو گھر سے پتہ چلا کہ وہ محلے میں نائی کی دکان پر گئے ہیں، چناں چہ وہ نائی کی دکان تلاش کرتے کرتے وہاں پہنچ گیا، وہاں دیکھا کہ وہ شاعر صاحب کرسی پر بیٹھے ہوئے ہیں اور اپنی داڑھی منڈوارہے ہیں، جس کو آج کل کی زبان میں شیو کرنا کہتے ہیں، اسے بڑا صدمہ ہوا، اس کے دل پر بہت بڑا نشتر لگا، اتنا بڑا شاعر، اس نے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی شان میں اتنی عظیم الشان نعت کہی ہے اور میں اس کے دیدار کے لیے ،اس کی زیارت کے لیے اتنی دور سے یہاں پہنچا ہوں اور یہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو منڈوارہا ہے تو اس ایرانی نے کہا :

آغاچہ می کنی ریش می تراشی۔
جناب آپ کیا کر رہے ہیں ؟ داڑھی منڈوا رہے ہیں؟

تو اس شاعر نے کہا:وبلے ریش می تراشم،ولکن دلے کسے مسلمان نمی تراشم۔
جی ہاں! میں داڑھی منڈوا رہاہوں، داڑھی کٹوا رہا ہوں، لیکن میں کسی مسلمان کا دل نہیں کاٹتا، کسی مسلمان کا دل زخمی نہیں کرتا۔

تو اس ایرانی نے کہا :آغا دلے کسے مسلمان نمی تراشی،ولکن دلے محمد صلی الله علیہ وسلم می خراشی۔
تم کسی مسلمان کا دل زخمی نہیں کرتے، لیکن محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا دل زخمی کرتے ہو۔

میرے دوستو! ہم جائز ہ لیں، غور کریں، ہم مسلمان ہیں،ہم مجبوراً مسلمان نہیں ہیں، ہم سوچ سمجھ کر مسلمان ہیں، ہم سب میں یہاں کوئی آدمی ایسا نہیں بیٹھا جو کہے کہ جی میں مجبوراً مسلمان ہوں، الحمدلله، ثم الحمدلله، ہم بااختیار مسلمان ہیں، ہم نے سوچ سمجھ کر اسلام کو اختیار کیا، ہم اپنی مرضی سے الله کی بندگی کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں۔

کسی نے ہم پر ڈنڈا نہیں چلایا، زبردستی نہیں کی، جب ہم مسلمان ہیں ،ہم با اختیار مسلمان ہیں، ہم الله کے بندے اور الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اُمتی ہیں، تو میرے دوستو! پھر ہم الله کے احکامات پر کیوں عمل نہیں کرتے؟ ہم الله کے رسول صلی الله علیہ و سلم کی سنتوں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟

چناں چہ اس کی بھی وجہ ہے او را س کی وجہ ہے ماحول سے دوری کہ آدمی ماحول میں نہیں ہے، ایک موتی ہے ، ہیرا ہے ،وہ گندی نالی کے اندر پڑا ہوا ہے ، تو وہ گندی نالی میں جب پڑا ہوا ہے تب بھی ہیرا ہے، لیکن اس کا ماحول گندگی کا ہے، نجاست کا ہے، آلودگی کا ہے، آپ اس کو وہاں سے نکال کر ایک گلاس پانی میں ڈال دیں، تو اس کی چمک دمک، اس کی روشنی، اس کی اہمیت اور قیمت سب کچھ لوٹ آئے گی۔

بالکل یہی صورت حال آج کے مسلمان کی ہے کہ وہ اسلامی ماحول میں نہیں ہے، اسلامی مزاج او راسلامی تربیت میں نہیں ہے، آپ مجھے بتائیے کہ ایک آدمی صبح سے لے کر شام تک دنیا کے ماحول میں رہے گا، صبح سے لے کر شام تک دنیا، دنیا، دنیا … تو اس کا اثر اس پر پڑے گایا نہیں پڑے گا؟ چناں چہ تجربہ کار لوگ بتاتے ہیں اور یہ واقعہ ہے کہ آدمی کے دل پر اثر وہ ماحول کا ہے، کان سے سنتا ہے، آنکھ سے دیکھتا ہے، زبان سے بولتا ہے ،دل سے سوچتا ہے، تو اس پر خود بخود اثر پڑتا ہے اور آہستہ آہستہ آہستہ وہ اسلام کے مزاج اورماحول میں ڈھل جاتا ہے۔

چناں چہ اس وقت ضرورت یہ ہے کہ ہم کوشش کریں کہ اپنا ماحول صحیح کریں، اپنی صحبت بہتر کریں، کچھ لوگ وہ ہیں جن کوالله تعالیٰ نے اختیار دیا ہے، آپ مجھے بتائیے کہ وہ شخص جو شوہر ہے، باپ ہے، بڑا بھائی ہے، کتنے معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ جن میں وہ بااختیار ہوتا ہے، اسی طرح ہم اپنے گھروں کے اندر، اپنے ماحول میں کوشش کریں کہ ہم اپنے آپ کو شیاطین کے اثرات سے محفوظ رکھیں۔

ہم ایسا ماحول بنائیں کہ گھر میں قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام ہو، گھر میں نوافل پڑھنے کا اہتمام ہو، گھر میں آج کی شیطانی چیزیں جو آج کے ماحول کو برباد کر رہی ہیں، خراب کر رہی ہیں، ان سے اپنے گھر کو محفوظ رکھیں۔ تو اس سے ایک مبارک ماحول پیدا ہو گا۔

آپ جو نئی عمر کے لوگ ہیں ان کو تعجب ہو گا، جو پرانے حضرات ہیں انہیں یاد ہے کہ ہمارے گھروں میں فجر کی نماز خواتین پڑھا کرتی تھیں اور اس کے بعد قرآن کریم کی تلاوت کرتی تھیں، اس کے بعد پھر وہ باروچی خانے میں جاتی تھیں، اس سے پہلے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، نما ز، تلاوت، پھر کام اور ساتھ ہی ساتھ کچھ پڑھنے پڑھانے کا سلسلہ بھی چلتا تھا، نمازیں ہو رہی ہیں، تلاوت ہو رہی ہے، ذکر واذکار ہو رہا ہے اور گھر کے کام بھی ہو رہے ہیں، اس کا نتیجہ کیا ہوتا تھا؟ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ نسلیں، اولادیں، نیک ماں باپ کی فرماں بردار، آپس میں محبتوں والی۔

اور اب یہ بات ہمارے ماحول سے نکل گئی، مجھے ایک دوست نے بتایا کہ ایک زمانے میں سکھر میں اتنے گھروں میں تلاوت کا اہتمام تھا کہ آدمی ایک گلی سے گزرتا تو ایسا محسوس کرتا جیسے مکتب میں چل رہا ہو، ہر طرف سے تلاوت، ہر طرف سے تلاوت۔

اب ہمارے گھروں میں یہ ماحول نہیں، اس کا نتیجہ کیا ہے ؟ ہر دوسرے آدمی سے آپ سنیں گے، کوئی کہتا ہے ہم پر کسی نے جادو کر دیا ہے، کوئی کہتا ہے ہمارے گھر میں جنات آتے ہیں، کوئی کہتا ہے ہمارے اوپر اثرات ہو گئے ہیں۔کوئی کہتا ہے فلاں ہو گیا ہے ،فلاں ہو گیا ہے، کچھ بھی نہیں ہوتا، جو کچھ کیا وہ ہم نے خو دکیا، کسی نے کچھ نہیں کیا۔

ایک بہت بڑے عامل، بہت بڑے، جو جنات وغیرہ کا علاج کرتے ہیں، وہ مجھ سے کہنے لگے کہ مولانا! جب ہم بیت الخلاء میں:”اللھم انی أعوذبک من الخبث والخبائث“ پڑھ کر نہیں جائیں گے، تو جنات نہیں آئیں گے تو کون آئے گا؟

الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے تو ہمیں ہر جگہ، علاج بتایا ہے، ہر چیز بتائی ہے، میں عرض کر رہاہوں کہ یہ ساری چیزیں ہماری خود کردہ ہیں، کسی نے کچھ نہیں کیا۔ہمارے ہاں کراچی میں ایک بہت بڑے نفسیات کے ڈاکٹر ہیں کہتے ہیں کہ یہ مضمون نفسیات کا ایسا ہے کہ اس میں نظر کچھ نہیں آتا، اندرونی مسائل ہوتے ہیں، تو اس میں مریض ڈاکٹروں کے پاس، دس دس سال، بیس بیس سال پچیس پچیس سال گزار دیتا ہے اور جو دوائیں وہاں ہوتی ہیں وہ دوائیں نہیں ہوتیں، وہ سب نشہ آور، سکون پہچانے والی ہوتی ہیں۔

اب مریض جاتا ہے کہ فائدہ نہیں ہوا، تو آج کل دواؤں کی کمپنیاں بہت ساری ہیں، دوا ایک ہی ہے، اب مریض کو اور اس کے متعلقین کو خوش کرنے کے لیے کمپنی کا نام بدل دیتے ہیں اور اس کی کچھ مقدار بڑھا دیتے ہیں، تو لوگ کہتے ہیں کہ ڈاکٹر صاحب نے دوا بدل دی ہے، فائدہ ہوا ہے، اسی میں عمریں گزر جاتی ہیں۔

وہ ہمارے دوست ہیں، انہوں نے مجھ سے کہا کہ جی ہم جانتے ہیں کہ بہت سے لوگ ہوتے ہیں کہ جن کو نفسیات وغیرہ کا مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن چوں کہ ہمارا پیشہ ہے، چیک کرتے ہیں، اس سے باتیں کرتے ہیں، دوائیں لکھ دیتے ہیں تو اگر آپ اجازت دیں تو ایسا آدمی جس کو میں یہ سمجھوں کہ یہ نفسیاتی نہیں ہے، آپ کے پاس بھیج دوں، میں نے کہا نہیں بھئی! میرے پاس کیوں بھیجو گے؟

میں تو ان کاموں کو جانتا نہیں ہوں او رپھر نفسیاتی لوگ تو آپ کو معلوم ہے کہ ان کے مسائل بھی بہت ہیں۔ بہرحال انہوں نے میر ی بات نہیں مانی او رایک دن ایک صاحب میرے پاس آئے، اور انہوں نے کہا کہ مجھے فلاں ڈاکٹر صاحب نے آپ کا پتہ دے کر بھیجا ہے، آپ میر ی بات سن لیں، بہرحال انہوں نے بھیج دیا تھا تو میں نے مناسب نہیں سمجھا کہ ان کی بے اکرامی ہو، میں نے کہا فرمائیے کیا پوچھنا ہے؟ انہوں نے کہا کہ میری بیٹی ہے، میرے ساتھ آئی ہے، گیٹ کے باہر گاڑی میں بیٹھی ہے اورپانچ سال ہو گئے ہیں کہ وہ بالکل چپ ہے، کوئی بات نہیں کرتی، ہم بڑا اصرار کرتے ہیں کھانے کے لیے، کھانا نہیں کھاتی او ربات کریں تو بات نہیں کرتی، سب بڑے پریشان ہیں اور جس ڈاکٹر کے پاس ہم گئے ہیں پانچ سال سے ان سے علاج کر رہے ہیں ،اب انہوں نے کہا ہے کہ آپ فلاں کے پاس جائیں تو میں نے ان سے کہا کہ آپ بچی کے پاس جاکر میری بات کرا دیں تو فون پر انہوں نے میری بات کرائی، میں نے اس سے پوچھا کہ آپ اپنا علاج کروانا چاہتی ہیں؟ اس نے کہا ہاں! میں علاج کروانا چاہتی ہوں، میں نے کہا آپ کی جو ہم عمر بچیاں ہیں ان جیسی زندگی گزارنا چاہتیہیں ؟ اس نے کہا ہاں! گزارنا چاہتی ہوں تو میں نے کہا میرا طریقہ علاج یہ ہے کہ میں ایک مہینہ آپ کو کچھ باتیں بتاؤں گا، آپ اس پر اگر عمل کریں گی تو پھر علاج کروں گا، آپ اس کے لیے تیار ہیں؟ اس نے کہا تیار ہوں۔

میں نے کہا پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر مخصوص ایام نہ ہوں تو آپ ہر وقت پاک رہیں گی، باوضو رہیں گی، جو مخصوص ایام ہیں وہ تو مستثنیٰ ہیں، لیکن اس کے علاوہ جاگتے ہوئے آپ باوضو رہیں گی، جہاں وضو ٹوٹا فوراً جاکے وضو کر لیا، یہ آپ کر لیں گی؟ اس نے کہا کر لوں گی۔

میں نے کہا دوسری بات یہ ہے کہ آپ ہر نماز اول وقت میں پڑھیں گی، جیسے ہی وقت داخل ہو نماز پڑھ لیں، فجر کا وقت داخل ہو نماز پڑھ لیں، ظہر کا وقت داخل ہو نماز پڑھ لیں، عصر کا، مغرب کا، عشا کا، جیسے ہی وقت داخل ہو نماز پڑھ لیں، میں نے کہا یہ دوکام آپ کر لیں گی؟ اس نے کہا کر لوں گی، اس کے والدسے میں نے کہا کہ آپ ان سے یہ دو کام کروائیں اورایک مہینے کے بعد پھر آئیں، میں معلوم کروں گا کہ اس نے اس پر عمل کیا ہے یا نہیں کیا ہے؟ اگر کیا ہو گا تو پھر علاج شروع کریں گے، چلے گئے۔

وہ ایک مہینے کے بجائے بیس دن بعد واپس آئے اور وہ صاحب جو بچی کے باپ تھے ان کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا اور کبھی میرا ہاتھ چومے کبھی میری پیشانی چومے، کہنے لگے مولانا! آپ نے تو ہمارا گھر آباد کر دیا، ہماری بچی ماشاء الله ٹھیک ہو گئی، ماشاء الله گاڑی میں بیٹھی ہے، سب سے مل رہی ہے، بات کر رہی ہے، کھا رہی ہے، پی رہی ہے تو اب آپ علاج شروع کریں، میں نے کہا کہ جب ٹھیک ہو گئی ہے تو علاج کس بات کا؟

پھر میں نے ان کو سمجھایا کہ میں نے کوئی علاج نہیں کیا اور نہ یہ میرا کام ہے، میں یہ کام نہیں کرتا، لیکن میں یہ جانتا ہوں کہ آج کل بہت بڑی تعداد مردوں کی اور عورتوں کی نجس اور ناپاک رہتی ہے، جب ایک آدمی نجس اور ناپاک ہو گا تو اس کے اوپر تو ساری دنیا کی مصیبتیں آئیں گی۔

سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وضو مومن کا ہتھیار ہے، اگر میری کسی سے دشمنی ہو اور میں نے یہاں بندوق لگائی ہوئی ہو، پستول لگایا ہوا ہو اور میرا دشمن دیکھ رہا ہو، تو وہ میرے قریب آئے گا؟ وہ دور سے دیکھے گا کہ یہ مسلح ہے، کبھی بھی قریب نہیں آئے گا، میرے دوستو! جو آدمی باوضو ہو گا شیطان اس کے قریب آسکتا ہے؟ ممکن ہی نہیں، ہتھیار ہے، وہ مسلح ہے، ہتھیار بند ہے۔

ایک ہے صفائی او رایک ہے طہارت، دونوں میں بڑا فرق ہے، یہ جو آپ اسپرے پرفیوم کرتے ہیں، یہ خوش بو کے لیے نہیں ہیں، لوگ تو کرتے ہیں خوش بو کے لیے، لیکن اس کی ایجاد خوش بو کے لیے نہیں بلکہ بد بو کو چھپانے کے لیے ہے، جن لوگوں نے ایجاد کیا ہے آپ جائیں ان کے ملکوں میں، وہ ٹھنڈے ملک ہیں وہاں طہارت وغیرہ کچھ نہیں، بیس بیس سال تک لوگ استنجا نہیں کرتے، نہ بڑے پیشاب کا، نہ چھوٹے کا، آپ بتائیے کہ بیس سال، تیس سال ساری ساری عمر جو آدمی غسل نہیں کرے گا، استنجا نہیں کرے گا اس کا کیا حال ہو گا؟! اور پھر کتے ان کے ساتھ ہوتے ہیں، کتے کی اپنی خاص بو ہوتی ہے، وہ بو ان کے اندر رچ بس جاتی ہے، اب یہ جو بدبوئیں ہیں، ان بدبوؤں کو چھپانے کے لیے اسپرے کرتے ہیں، خوش بو کے لے نہیں ، آپ لندن چلے جائیں، پیرس چلے جائیں ، وہاں پر میٹرو اور زمین دوز ٹرینیں چلتی ہیں، صبح سات بجے آتے ہیں خوش بوکا اسپرے کرکے آتے ہیں، مجمع ہوتا ہے، ہر آدمی خوش بو کا اسپرے کرکے آیا ہے اور شام کو چار بجے واپسی ہوتی ہے، تو اب وہ جیب میں تو خوش بو رکھ کر نہیں جاتے، اب شام کو چار بجے آپ کسی ٹرین میں سفر نہیں کرسکتے، کسی اسٹیشن پر کھڑے نہیں ہو سکتے، اتنی خوف ناک بدبو کہ آپ تصور نہیں کرسکتے۔

تو میرے دوستو! طہارت الگ چیز ہے، طہارت وہ ہے جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے بیان کی ہے کہ پیشاب کے بعد استنجا کرنا اطمینان سے کہ اب کوئی قطرہ باقی نہیں، اب پاخانے کا کوئی ذرہ باقی نہیں رہا، اطمینان سے، اب اس کے بعد وضو ہے، ہاتھ دھو رہا ہے، ناک میں پانی ڈال رہا ہے، چہرہ دھو رہا ہے اور سر کا مسح کر رہا ہے، پیر دھو رہا ہے، یہ الله کا حکم ہے ، اس کے اسرار اور رموز الله جانتا ہے۔ اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ یہ ہتھیار ہے۔

تو میرے دوستو! ہم نے وہ طریقے چھوڑ دیے اور میں عرض کر رہا تھا کہ یہ ساری چیزیں ہمارے اندر کیسے آئیں گی؟ اس کے لیے صحبت ہے، بغیر صحبت کے نہیں آئیں گی۔ یاد رکھیں! کوئی آدمی کتاب پڑھ کر ڈرائیور نہیں بن سکتا، کوئی آدمی کتاب پڑھ کر درزی نہیں بن سکتا، یا ایسا ہے کہ کتاب پڑھ لی تو گاڑی چلانا آگئی؟ استاد ہوتا ہے اس کے بغیر کام نہیں ہوتا ہے۔

اگر کتاب سے کام ہوتا تو الله تعالیٰ کتاب بھیج دیتے، نبی نہیں بھیجتے، ہر کتاب کے ساتھ نبی بھیجا۔

تو اس کے لیے ضروری ہے صحبت کی اور وہ صحبت قسم قسم کی ہے، اچھی صحبت بھی ہے، بری بھی، آپ مسجد میں بیٹھے ہیں، یہاں آپ اچھی صحبت میں ہیں، آپ قرآن کریم کی تلاوت کر رہے ہیں، تو آپ کو قرآن کریم کی صحبت حاصل ہے، آپ احادیث مبارکہ پڑھ رہے ہیں، تو آپ کو احادیث مبارکہ کی صحبت حاصل ہے، آپ اچھی کتاب پڑھ رہے ہیں، تو آپ کو اچھی کتاب کی صحبت حاصل ہے، آپ ایک اچھے دوست کے ساتھ بیٹھے ہیں، ایک عالم دین کے ساتھ بیٹھے ہیں، آپ اپنے دین اور دنیا کا فائدہ دیکھیں کہ میرا فائدہ کہاں ہو گا؟ تو ہمارا فائدہ وہ اچھی صحبت میں ہے۔

اچھی صحبت حاصل کریں، بری صحبت سے بچیں، ہم اس کی کوشش کریں، اس کا اہتمام کریں۔

الله تعالیٰ ہمیں اچھی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

”اللھم صل علیٰ سیدنا ومولانا محمد وعلیٰ آلہ وسلم، ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرّحیم․ وصلی الله تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․“

Flag Counter