Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

7 - 16
زاغوں کے تصرف میں ہے عقابوں کانشیمن

مولانا محمد غیاث الدین حسامی
	
مالیات سے متعلق انتظام وانصرام ایک حساس اورنازک ذمہ داری ہے ،مالیہ کی حفاظت ونگہ داشت ،اس کی منصفانہ وعادلانہ تقسیم اورصحیح مصرف میں اس کااستعمال نہایت کٹھن اورصبرآزماعمل ہے ،اس خارزاروادی سے وہی شخص بسلامت گزرسکتاہے جوایک طرف امانت ودیانت اورعدل وتقوی کامجسم پیکرہوتودوسری طرف اس کی تقسیم کے طریقہ کاراوراس کے شرعی مصارف سے بھی آشناہو،ورنہ اگریہ نازک منصب کسی خائن اورلٹیرے کے تصرف میں چلاجائے تواس سے جووسیع نقصانات اوربے شمارخرابیاں پیش آئیں گی وہ بیان سے باہرہے، کتنے ہی غرباء ومساکین کے حقوق ضائع ہوں گے؟ کتنے ہی بے سہارااوریتیم بچے نان شبینہ کے لیے ترسیں گے؟ کتنے ہی مزدوروملازمین کے حقوق تلف ہوں گے ؟ صرف یہی نہیں ؛بلکہ کرپشن اورمالی بدعنوانیوں کی وجہ سے معاشرہ کی فضا مکدرہوگی اوراطمینان وسکون اورچین وامان مفقود ہوجائے گا اوروہ معاشرہ جو انتشار اوربے اطمینانی کی کیفیت کاشکار ہواس کے افراد علوم وفنون ، صنعت وحرفت اورسیاست ومعیشت کے لحاظ سے مفلوج اورناکارہ ثابت ہوتے ہیں۔

آج کے اس پرفتن اورمہیب دورمیں جب کہ زندگی کے تما م شعبے انحطاط اورزوال کے شکارہیں وہیں بدقسمتی سے شعبہ مالیات جیسااہم اور نازک شعبہ بھی ایسے حریص اورزرپرست لوگوں کے تصرف میں ہے جو امانت ودیانت کے جوہرسے عاری اوراس کی منصفانہ تقسیم کے طریقہ کار سے ناآشنااورنابلدہیں،چناں چہ یہ ایک تلخ اورتکلیف دہ حقیقت ہے کہ قوم وملت کااجتماعی فنڈ،جس سے غرباء ومساکین کے گھرچولہاجلناچاہیے تھا، آج اسی فنڈسے عہدے دار عیش وعشرت کے مزے لوٹ رہے ہیں ،قوم وملت کاسرمایہ جس سے بے سہارااورنادارلوگوں کو سرچھپانے کے لیے آشیانہ کی تعمیرکی ضرورت تھی اسی سرمایہ سے منصب دارکئی منزلہ بلڈنگیں کھڑی کررہے ہیں،قوم کے پیسوں سے مہنگی سے مہنگی ائیرکنڈیشن کاریں خریدکرغریبوں کی غربت کامذاق اڑارہے ہیں۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی پوری انسانیت کے لیے نمونہ ہے، اورآپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کو اپناکرہی انسانیت فلاح وکامیابی کوحاصل کرسکتی ہے اورعروج واقبال مندی سے ہم کنارہوسکتی ہے ،چناں چہ عہدنبوی میں جب باقاعدہ اسلامی ریاست کی تشکیل عمل میں آئی، تو اسلامی بنیادوں پرجہاں دیگرحکومتی اداروں کی تنظیم وتنسیق کی گئی وہیں بیت المال بھی قائم کیاگیا،بیت المال کاایک مضبو ط اورمنظم نظام تھا، مسلمانوں سے اموال ظاہرہ کی زکاة وصول کرنے کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی دوراندیشی اور مومنانہ فراست سے ذمہ دار اور امانت دار سفراء اورعمال کاانتخاب فرمایا تھا اوران کے گزربسرکے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے معقول تنخواہ مقررکی تھی ؛لیکن خیال رہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ منصب، جس سے مالی منفعت وابستہ تھی، اپنے خاندان بنوہاشم میں سے کسی فردکونہیں دیا۔

بیت المال میں جواموال جمع ہوتے تھے وہ کئی طرح کے ہوتے تھے ،ایک توزکاة کے اموال تھے ،دوسرے وہ اموال تھے جوصحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین ثواب اورتقرب خداوندی کے لیے وقتافوقتا اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے،اس کوہم نفلی صدقات وعطیات سے تعبیرکرسکتے ہیں،تیسرے فئی اورغنیمت کے اموال تھے جومسلمانوں کو کفارسے جہادکرنے کے نتیجہ میں حاصل ہوتے تھے،چوتھے جزیہ اورٹیکس تھاجوذمی اورمعاہدلوگ اسلامی ریاست میں رہنے کی وجہ سے اداکرتے تھے ،آپ صلی الله علیہ وسلم بذات خود محتاج اورنادارلوگوں کے مابین یہ اموال تقسیم فرماتے تھے اورملی وفلاحی کاموں کے لیے مناسب رقم مختص فرماتے تھے،لیکن ان اموال میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی ورع واحتیاط کایہ عالم تھاکہ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم صدقہ کی کھجورتقسیم فرمارہے تھے ،اتنے میں حضرت حسن  نے ایک کھجوراٹھاکراپنے منہ میں لے لی،آپ صلی الله علیہ وسلم بے چین ہوگئے، اورفرمایا:اے حسن ! کیاتمہیں معلوم نہیں ہے کہ صدقہ کامال ہمارے لیے حرام ہے۔(مشکاة المصابیح ،حدیث نمبر:1822)

ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم غریب اورتنگ دست صحابہ کے مابین مال غنیمت تقسیم فرمارہے تھے،اسی اثناء میں حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کاشانہ نبوت پر حاضر ہوئیں اورعرض کیا کہ اے اباجان ! گھریلو کام کاج کرنے کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے پڑگئے ہیں، آپ ایک باندی ہمیں عنایت فرمادیں ؛تاکہ وہ گھریلو کاموں میں ہمار اہاتھ بٹائیں ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی لخت جگر کو جواب دیاکہ ابھی فقراء مہاجرین کی ضرورتیں پوری نہیں کی جاسکی ہیں ، ایسی صورت میں میں تمہارے لیے کیسے حصہ لگا سکتاہوں ؟

آپ کی سیرت طیبہ میں یہ خاموش پیغام ہے کہ مالیہ کی منصفانہ وعادلانہ تقسیم اوراس کاشرعی مصارف میں استعمال شعبہ مالیات کے منتظم ونگراں کی اہم ذمہ داری ہے اوراجتماعی فنڈمیں تمام مسلمانوں کاحق ہے ،اس پرکسی خاص شخص کی اجارہ داری نہیں ہے،نیزمنصب وعہدہ ، جس میں مالی اختیارات لازمی طورپرحاصل ہوتے ہیں،اپنے افرادخاندان کو سپرد کرنا اور قوم وملت کے پیسوں سے اپنے اعزاء واقارب کو نوازنانہایت مذموم اور ناپسندیدہ عمل ہے اوراسلامی تعلیمات کی روح کے منافی ہے۔

آج کے دورمیں محکمہٴ مالیات، خواہ سرکاری ہوں یاپرائیویٹ ،کسی ملی وفلاحی تنظیم کاہویاکسی عصری واسلامی اسکول کا،یہ ایک ناقابل انکارحقیقت ہے کہ مجموعی طورسے محکمہٴ مالیات پرایسے خائن اورلٹیرے لوگوں کی بالادستی ہے(واضح رہے کہ اس انحطاط پذیردورمیں بھی ایسی متعدد فلاحی تنظیمیں اورمتعدد عصری واسلامی اسکول ہیں جوقوم کی تعمیروترقی میں مصروف ہیں، اوران میں مالیہ کی منصفانہ وعادلانہ تقسیم اورشرعی مصارف میں اس کے استعمال کاجوخاص اہتمام کیاجاتاہے وہ قابل رشک اورقابل تقلیدہے،ایسی تنظیموں اورتعلیمی اداروں کی طرف میراروئے سخن نہیں ہے ) جوقوم وملت کے سرمایہ کاناجائزاستعمال کرتے ہیں،قوم کے پیسوں سے اپنے معیارزندگی کو بلندبنانااورعیش وعشرت کے اسباب ووسائل جمع کرناایک وبائی مرض کی شکل اختیارکرگیاہے،جس شخص کوکچھ دنوں پہلے رہنے کے لیے مکان میسرنہیں ہوتا جوں ہی وہ کسی عہدہ پرفائز ہوتاہے کئی منزلہ مکانات کھڑے کر لیتا ہے،پہلے سواری کے لیے سائیکل تک بھی اسے میسرنہیں تھی عہدہ ملنے کے بعد وہ نہایت مہنگی سواریوں میں گھومتاپھرتاہے، پہلے معمولی اورسادہ کپڑوں پروہ قناعت کرلیتاتھااب نہایت جاذب نظراوربیش بہاقیمت پوشاک زیب تن کرتاہے اوراس طرح اجتماعی فنڈ،جس سے عام لوگوں کاحق متعلق ہے، کواپنی جاگیرسمجھتاہے کہ جس طرح چاہتاہے اس میں تصرف کرتاہے،نہ ملازمین کے حقوق کاخیال ، نہ ان کی بنیادی ضروریات کی طرف توجہ ،ظاہرہے کہ ہمارے معاشرے کی یہ صورت حال کافی افسوس ناک اورغم انگیزہے اورفوری طورپراصلاح طلب ہے۔

ظاہرہے کہ اجتماعی فنڈمیں خردبرد کرنااوراس کواپنی ذات کے لیے خاص کرلیناغلول ہے اورغلول کے بارے میں قرآن واحادیث کے اندر کافی سخت وعیدیں آئی ہیں،اللہ تبارک وتعالی کاارشادہے:﴿وَمَا کَانَ لِنَبِیٍّ أَن یَغُلَّ وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُون﴾(آل عمران :161)ایساممکن ہی نہیں ہے کہ نبی سے خیانت ہوجائے اورجوشخص خیانت کرے گاوہ قیامت کے دن خیانت کی ہوئی چیزکولے کرحاضرہوگا،پھرہرشخص کو اس کے عمل کاپوراپورابدلہ دیاجائے گااوران پرذرابرابرظلم نہیں کیاجائے گا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے :اے لوگو!ہم جس کوعامل بنائیں اورپھروہ ہم سے ایک سوئی یااس سے بھی ہلکی چیزچھپائے تووہ خیانت ہے، جسے لے کروہ قیامت کے دن حاضرہوگا۔ (ابوداوٴد،حدیث نمبر:3581)حضرت ابومسعودانصاری  فرماتے ہیں کہ مجھے جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے عامل بناکربھیجنا چاہا تو فرمایا: اے ابومسعود!جاوٴایسانہ ہوکہ میں تمہیں قیامت کے دن اس حال میں پاوٴں کہ تمہاری پیٹھ پراونٹ ہو،جوآوازنکال رہاہو،جسے تم نے خیانت سے لے لیاہو،میں نے کہا:حضور!پھرتومیں نہیں جاتا،آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اچھا!میں تمہیں زبردستی بھیجتابھی نہیں۔(ابوداوٴد، حدیث نمبر:2947) آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک موقع پر فرمایا:اگرکوئی پتھرجہنم میں ڈالاجائے توسترسال تک چلتارہے ؛لیکن تہہ تک نہیں پہنچتا، خیانت کی چیزکواس طرح جہنم میں پھینک دیاجائے گا،پھرخیانت کرنے والے سے کہاجائے گاجااسے لے آ،یہی اللہ کافرمان:﴿وَمَن یَغْلُلْ یَأْتِ بِمَا غَلَّ یَوْمَ الْقِیَامَةِ ثُمَّ تُوَفَّی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُون﴾ کامطلب ہے۔(تفسیرابن کثیر:2/136)اجتماعی سرمایہ میں خیانت کرنے والاشخص دراصل بے حیااوربے شرم ہوتاہے،شروع شروع میں وہ اجتماعی فنڈمیں خاموشی اورچپکے سے خیانت کرتاہے ،پھرمسلسل یہ عمل کرنے کی وجہ سے اتناجری اوربے غیرت ہوجاتاہے کہ اس کے گناہ ہونے کابھی تصوردل سے نکل جاتاہے ،حتی کہ وہ کھلم کھلااورعلی الاعلان خیانت کرنے لگتاہے ،اس کی تائیدحدیث پاک سے بھی ہوتی ہے:حضورصلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جب اللہ جل شانہ کسی شخص کے ہلاک فرمانے کاارادہ فرمالیتے ہیں توسب سے پہلے اس سے حیا اور شرم کوزائل کردیتے ہیں اورجب وہ بے شرم بن جاتاہے تواس کو تودیکھے گاکہ وہ لوگوں کی نگاہوں میں مبغوض اورناپسندیدہ بن جاتاہے اور جب وہ اس حالت کو پہنچ جائے گاتواس سے امانت زائل ہوجائے گی ،اوروہ خائن بن جائے گااورعلی الاعلان خیانت کرنے لگے گااورجب اس حالت کوپہنچ جائے گاتواس کے دل سے رحمت نکال لی جائے گی اوروہ مخلوق پرشفقت نہ کرے گااورجب وہ اس درجہ پرپہنچ جائے گاتولوگوں کے یہاں ملعون ومردودبن جائے گا،اورجب اس درجہ پرپہنچ جائے گاتوتواس کو دیکھے گا کہ اسلام کی رسی اس کے گلے سے نکل جائے گی ۔(الجامع الصغیر،حدیث نمبر:3467)

حقیقت یہ ہے کہ شعبہ مالیات سے متعلق ذمہ داریاں بھاری ہیں ، اوراس کے تقاضے کافی اہم ہیں اورذراسی غفلت وبے اعتنائی بڑے نقصانات کاپیش خیمہ ثابت ہوتی ہے ؛اسی لیے صحابہ کرام ، تابعین عظام اورسلف صالحین نے ایسی ذمہ داریاں قبول کرنے سے گریزکیااورممکنہ حدتک انہوں نے مالیات سے متعلق عہدوں سے اپنادامن بچایااوراگرکسی مصلحت اورمجبوری کی وجہ سے انہوں نے ایسے عہدوں کوقبول بھی کیا تومالیہ کی حفاظت ونگہ داشت پرخاص توجہ دی اورصحیح مصرف میں اس کے استعمال کو یقینی بنایااوراجتماعی فنڈسے اپنے لیے اتنی قلیل اورحقیرتنخواہ مقررکی کہ مشکل سے ان کا گھرچلتاتھا،اوررہن سہن اتناسادہ ہوتاتھاکہ عام آدمی معلوم ہوتے تھے،ذیل میں صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین… جنہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی فیض صحبت نے کندن بنادیاتھا،ان میں سے ہرفرداپنے عہد کاگل سرسبد،مینارہٴ نوراورنوع انسانی کے لیے باعث شرف وافتخارتھا…کے واقعات لکھے جاتے ہیں، جنہیں خلافت سونپی گئی اورانہوں نے وسیع وعریض اسلامی خطوں پرحکومت کی ، لیکن مسلمانوں کے اجتماعی فنڈمیں ورع واحتیاط کا یہ عالم تھاکہ اپنے گزربسرکے لیے نہایت معمولی تنخواہ مقررکی اورشاہانہ اورپرتعیش زندگی پرانہوں نے فقیرانہ اوردرویشانہ زندگی کوترجیح دی :

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ پہلے خلیفہ راشد ہیں ، آپ نے اپنے گزر بسر کے لیے بیت المال سے نہایت معمولی اورحقیر تنخواہ مقررکی تھی،ان کے سوانح نگاروں نے لکھاہے کہ ڈھائی سو دینار سالانہ ان کی تنخواہ تھی۔(الریاض النضرة فی مناقب العشرة : 1/255)ایک مرتبہ گھر والوں نے کچھ پیسے بچاکر حریرہ تیار کرکے ان کے سامنے پیش کیا ، تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اتنی مقدار تنخواہ سے وضع کردی اورفرمایاکہ تجربہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ ابوبکر کا گھر اس سے بھی کم میں چل سکتا ہے ۔

حضرت عمربن خطاب رضی اللہ عنہ دوسرے خلیفہ راشد ہیں ، ان کے جاہ وجلال سے باطل کے ایوانوں میں زلزلہ آجاتاتھا، ان کے رعب ودبدبہ سے دشمنان اسلام کی ہمتیں پست ہوجاتی تھیں ، ان کے نام سے عالم کفر کے بڑے بڑے حکام اوربزم کفر کے قائد ونقیب تھراتے اور کانپتے تھے؛ لیکن ان کی سادگی اورکسر نفسی کا یہ حال تھاکہ موٹا جھوٹا کپڑاپہنتے ،جس پر کئی کئی پیوند لگے ہوتے ، فرش زمیں پر آرام فرماتے، جس کی وجہ سے ان کی پشت پر سنگ ریزوں کے نشان پڑ جاتے تھے ، ان ہی کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ ان کے زمانہ خلافت میں مدینہ کے اندر سخت قحط پڑا ،بھوک اوربد حالی کی وجہ سے لوگ بدحال اور پریشان ہوگئے ، اس زمانہ میں انہوں نے دودھ اورگھی کا استعمال ترک کردیا اورفرمایا کہ لوگ بھوک سے پریشان ہوں اورعمر دودھ اور گھی کا استعمال کرے؟! ایسانہیں ہوسکتا۔ (محض الصواب فی فضائل امیر المومنین عمر بن الخطاب :2/567)

حضرت اسماعیل بن محمد بن سعدبن ابی وقاص  فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عمر  کے پاس بحرین سے مشک اورعنبرآیا،حضرت عمر نے فرمایا:اللہ کی قسم !میں چاہتاہوں کہ مجھے کوئی ایسی عورت مل جائے جوتولنااچھی طرح جانتی ہواوروہ مجھے یہ خوش بوتول دے، تاکہ میں اسے مسلمانوں میں تقسیم کرسکوں ،ان کی بیوی عاتکہ بنت زیدنے کہامیں تولنے میں بڑی ماہرہوں،لائیے! میں تول دیتی ہوں،حضرت عمر نے فرمایا:نہیں، تم سے نہیں تُلواناہے ،انہوں نے کہا:کیوں؟ حضرت عمر نے فرمایامجھے ڈرہے کہ تواسے اپنے ہاتھوں سے ترازومیں رکھے گی(یوں کچھ نہ کچھ خوش بوتیرے ہاتھوں کولگ جائے گی اورکنپٹی اورگردن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)اوریوں تواپنی کنپٹی اورگردن پراپناہاتھ پھیرے گی،اس طرح تجھے مسلمانوں سے زیادہ خوش بومل جائے گی۔(حیاة الصحابة:2/508)

حضرت ابن عمرفرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے کچھ اونٹ خریدے،اوران کوبیت المال کی چراگاہ میں چھوڑآیا،جب وہ خوب موٹے ہوگئے تومیں انہیں بیچنے کے لیے بازارلے آیا،اتنے میں حضرت عمر بھی بازارتشریف لے گئے اورانہیں موٹے موٹے اونٹ نظرآئے توانہوں نے پوچھاکہ یہ اونٹ کس کے ہیں؟لوگوں نے بتایا کہ یہ عبد اللہ بن عمرکے اونٹ ہیں ۔کہنے لگے واہ امیرالمومنین کے بیٹے!! ابن عمردوڑے آئے اورانہوں نے پوچھاکیابات ہے؟ حضرت عمررضی الله عنہ نے فرمایا:یہ اونٹ کیسے ہیں؟ابن عمر نے فرمایا کہ میں نے یہ اونٹ خریدے تھے اوربیت المال کی چراگا ہ میں چرنے کے لیے بھیجے تھے ،اب میں ان کوبازارلے آیاہوں، تاکہ میں دوسرے مسلمانوں کی طرح انہیں بیچ کرنفع حاصل کروں،حضرت عمر نے فرمایا ہاں چراگاہ میں لوگ ایک دوسرے سے کہتے ہوں گے : امیرالمومنین کے بیٹوں کے اونٹ چراؤ،اورامیرالمومنین کے بیٹے کے اونٹ کوپانی پلاؤ،میرے بیٹے ہونے کی وجہ سے تمہارے اونٹ کے ساتھ زیادہ رعایت کی گئی ہوگی ؛اس لیے ان اونٹوں کوبیچواورجتنی رقم میں تم نے یہ اونٹ خریدے تھے اتنی رقم لے لو ،باقی رقم بیت المال میں جمع کرو۔(حیاة الصحابة:2/510)

حضرت ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالی عنہ ان خوش نصیب صحابہ میں سے ہیں جنہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیاہی میں جنتی ہونے کی بشارت دی تھی ، پوراملک شام آپ  ہی کی سرکردگی میں فتح ہوا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ نے انہیں شام کا گورنر مقرر کیا تھا،ملک شام مناظر فطرت کا گہوارہ تھا، وہاں کی آب وہوا صحت افزااورفرحت بخش تھی، شام کا خطہ اپنی زرخیزی اورقدرتی مناظر کے لحاظ سے عرب کے صحرا نشینوں کے لیے ایک جنت ارضی سے کم نہ تھا،دوسری طرف ملک شام میں اس وقت کے لحاظ سے انتہائی متمدن اورترقی یافتہ رومی تہذیب کا دوردورہ تھا،سیم وزر اوردولت وثروت کی فراوانی تھی،ہرگام پر عشرت کدے اورعطربیز پھولوں سے مہکتے ہوئے گل زار اورچمن زارتھے؛لیکن آپ علیہ الصلاة والسلام کی بافیض صحبت کی وجہ سے ملک شام کی دل فریب رنگینیاں اور ہوش ربا مناظران پراثرانداز نہیں ہوسکے،اس کا اندازہ حضرت ابوعبیدہ بن جراح  کے ایک واقعہ سے ہوگا،ایک مرتبہ حضرت عمر  ملک شام تشریف لائے اورحضرت ابوعبیدہ سے کہا کہ مجھے اپنے گھر لے چلو ، حضرت ابوعبیدہ نے کہا کہ : اے امیرالمومنین! آپ میرے گھر جاکر کیا کریں گے ؟ شاید آپ کو گھر چل کر میری حالت زار پر آنسو بہانے کے سواکچھ حاصل نہ ہو ،جب حضر ت عمر نے اصرار کیا تو حضرت ابوعبیدہ  انہیں اپنے گھر لے گئے،حضرت عمر گھر میں داخل ہوئے تو انہیں کچھ سامان ہی نظر نہیں آیا ، حضرت عمر نے حیران ہوکرپوچھا کہ آپ  کاسامان کہاں ہے ؟ یہاں تو بس ایک نمدہ ، ایک پیالہ اورایک مشکیزہ نظر آرہاہے، آپ ملک شام کے گورنر ہیں ، کیا آپ کے پاس کھانے کو بھی کچھ ہے ؟ تو حضرت ابوعبیدہ  ایک طاق کی طرف بڑھے اوروہاں سے روٹی کے کچھ ٹکڑے اٹھالائے ، یہ دیکھ کر حضرت عمر  رونے لگے ، حضرت ابوعبیدہ نے فرمایا کہ اے امیرالمومنین !میں نے پہلے ہی کہا تھاکہ آپ کو میری حالت زار پر رونے کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا،پھر حضر ت ابو عبید ہ نے کہا کہ با ت دراصل یہ ہے کہ انسان کے پاس اتنا زاد سفر ہونا چاہیے جو اسے خوا ب گا ہ تک پہنچادے۔ حضرت عمر  نے فرمایا : اے ابوعبیدہ  دنیا کی رنگینیوں نے ہم سب کو بدل ڈالا؛ لیکن تم کو نہیں بدلا۔(سیراعلام النبلاء للذہبی : 3/13)

ایران فتح ہونے کے بعد حضرت عمر نے حضرت حذیفہ  کو امیر مدائن مقرر کیا،جب وہ مدائن تشریف لے گئے تو اہل شہر نے ان کاگرمجوشانہ استقبال کیا اور پیشکش کی کہ آپ کی جو خواہش ہو ہم اسے پوراکرنے کے لیے تیار ہیں ، انہوں نے فرمایا :طعاما آکلہ، وعلف حماری ہذا،من تبن․ (سیر اعلام النبلاء:4/30) میرے لیے بس اتنا کافی ہے کہ کھانے کے لیے مجھے کھانا مل جائے اور میری اس سواری کے لیے چارہ ،حضرت عمر  کو جب ان کے مدینہ آنے کی اطلاع ملی تو راستہ میں چھپ کر بیٹھ گئے ، مقصد یہ تھا کہ اگر وہ مدائن سے مال ودولت جمع کرکے لائے ہیں تو اس کا پتہ چل جائے ؛ لیکن انہوں نے ان کو اسی حال میں دیکھا جس حال میں وہ مدینہ سے گئے تھے، تو خوشی سے ان کو اپنے گلے لگالیا ۔(حوالہ بالا)

حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کچھ دنوں مدائن کے گورنر رہے ، اتنی سادہ اورمعمولی زندگی گزارتے تھے کہ انہیں دیکھ کر اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ یہ مدائن کے امیر ہیں ، عام لوگوں کی طرح سادہ اورعام لباس میں را ہ پر چلتے پھرتے، ایک مرتبہ شام کے ایک تاجر نے انہیں مزدور سمجھ کر گٹھری اٹھانے کو کہا، انہوں نے بلاکسی توقف اورتامل کے گٹھری اٹھالی ، کچھ دور چلنے کے بعد لوگوں نے تاجر سے کہا کہ یہ مدائن کے امیر ہیں ، تو تاجر بڑاحیران ہو ااوردل دل میں شرمندہ بھی ، اس نے حضرت سلمان فارسی  سے معذرت کی اورگٹھری رکھنے کے لیے کہا ؛ لیکن حضرت سلمان  اس پر تیار نہیں ہوئے اورفرمایا کہ میں نے ایک نیکی کرنے کا ارادہ کرلیا ہے ؛ لہذاجب تک میں اس کو پورانہیں کروں گا سامان نیچے نہیں رکھوں گا ، بالآخر سامان گھر پہنچاکر ہی دم لیا ۔(طبقات ابن سعد :4/66)

حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ کو پانچواں خلیفہ راشد کہا جاتاہے، انہیں تجدیدی کارناموں کی وجہ سے اپنے عہد کا مجدد کہاجاسکتاہے ، بنوامیہ کی حکومت نے بہت سی برائیوں کو جنم دیا تھا، جاہلی تفاخر ، نسل پرستی، عصبیت اوراقرباء پروری نبوت اورخلافت کی برکت سے دب گئے تھے ، بنوامیہ کے دور عہد میں پوری طرح ازسرنو زور پکڑ چکے تھے ، بیت المال پرشاہی خاندان کی اجارہ داری تھی ، نومسلموں سے جزیہ وصول کیا جاتاتھا، ایسے حالات میں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمة اللہ علیہ نے زمام خلافت سنبھالا ، اورخلافت علی منہاج النبوة قائم فرمائی ، عدل وانصاف کو عام کیا ، جا ہلی تفاخر اوراقرباء پروری کو ختم کیا ،مجلس سلطنت جس نے کسری وقیصر کارنگ وروغن اختیار کرلیاتھا،انہوں نے اسے نہایت سادہ بنایا، ان کی ابتدائی زندگی نہایت نازو نعم میں گزری تھی ، خوش حال اورامیر زادہ کی طرح زندگی بسر کرتے تھے ، وہ جس راہ سے گزرتے وہ راہ ان کے لگائے ہوئے مشک وعنبرکی خوش بو سے بس جاتی اور آنے جانے والوں کو ان کے نشان راہ کی خبر دیتا ، لوگ دھوبی کو کپڑادیتے وقت تاکید کرتے کہ میراکپڑا عمربن عبدالعزیز کے کپڑے کے ساتھ دھونا ؛تاکہ ان کے کپڑے کی خوش بو میرے کپڑے میں بھی بس جائے۔ (سیرة عمر بن عبد العزیز:25) لیکن زمام خلافت سنبھالنے کے بعد ان کی زندگی بدل گئی ، فراخ دستی کی جگہ تنگ دستی آگئی ، خوش حالی کی جگہ بد حالی آگئی ، شاہانہ زندگی کی جگہ فقیرانہ اوردرویشانہ زندگی نے لے لی ، ان ہی کا واقعہ ہے کہ کبھی کبھی کپڑاسوکھنے کا انتظارکرنے کی وجہ سے جمعہ کی نماز کے لیے تاخیر سے پہنچتے ۔ایک مرتبہ ان کی صاحب زادی ان سے بات کے دوران منھ پر کپڑارکھ لیتی تھی ، وجہ دریافت کرنے پر پتہ چلا کہ کھانے میں صرف دال اور پیاز کھائی ہے، جس کی وجہ سے منھ میں بدبو پید اہوگئی ہے۔ ان کے دووقت کھانے کا صرفہ دودرہم یومیہ سے زیادہ نہ تھا۔(حوالہ بالا)

حضر ت سلطان صلاح الدین ایوبی رحمة اللہ علیہ سے کون مسلمان ناواقف ہوگا؟ انہوں نے ہی صلیبی فوجوں کی صفوں میں انتشار برپاکیا ، فلسطین اورمسجد اقصی کو سام راجی طاقتوں کے چنگل سے آزاد کیا،اپنی بے مثال جنگی مہارتوں سے شکست خوردہ مسلمانوں کو سہارادیا ،اس مر د مجاہد نے مصر میں چوبیس سال اورشام میں انیس سال حکومت کی ، لیکن ان کی سادگی اور دنیاوی سازوسامان سے بے رغبتی کا یہ حال تھا کہ کبھی ان پر زکاة فرض نہیں ہوئی ، انہوں نے اپنے ترکہ میں صرف ایک دینار اور سینتالیس درہم چھوڑے ، ان کے پاس اس کے علاوہ نہ کوئی جائیداد تھی اورنہ ہی سوناچاندی ۔(دیکھیے الاعلام للزرکلی ، النوادر السلطانیة )

اس وقت پوری انسانیت جن کٹھن اورصبرآزماحالات سے گزررہی ہے وہ کسی حساس اوردل دردمندرکھنے والے شخص پرمخفی نہیں ہے،ایک طرف معاشی وسائل کی قلت اورآسمان چھوتی ہوئی مہنگائی کااسے سامناہے تودوسری طرف فقروفاقہ اورافلاس وبھوک کاشکارہے ،ہرکوئی جورزماں اور نامساعد حالات کاشاکی ہے، ہرشخص مہنگائی اورافراط زرکاشکوہ کررہاہے، ہر آدمی قلیل آمدنی اورمعمولی تنخواہ کاگلہ کررہاہے،ان دگرگوں حالات اورسلسلہ وارمصائب کے پیچھے بہت سے اسباب وعوامل کارفرماہیں،جن میں اہم اوربنیادی سبب محکمہٴ مالیات میں ناجائزتصرف اوراس کاغلط استعمال ہے، ضرورت ہے اس بات کی کہ مالیات کے شعبہ کو مضبوط اورمنظم بنایاجائے اوریہ نازک منصب ایسے لوگوں کوسپردکیاجائے جوامانت ودیانت کے جوہرسے آراستہ ہوں، قوم وملت کی خدمت کا بے لوث جذبہ رکھتے ہوں ، تب ہی صحت منداورخوش گوارمعاشرے کی تعمیر ممکن ہو گی ۔

Flag Counter