حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم کا
سفرنامہ تھائی لینڈو رنگون
ضبط وتحریر:مولانا فیصل احمد خان
تھائی لینڈ کے طویل سفر اور تھکا دینے والی مصروفیات کے بعد حضرت والا دامت برکاتہم برما تشریف لے گئے تھے۔ چناں چہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب زید مجدہم نے اور برما کے سفر کے منتظمین نے اس امر کو پیش نظر رکھا کہ حضرت والا دامت برکاتہم کو زیادہ سے زیادہ راحت اور آرام کا موقع فراہم کیا جائے۔ اسی خیال کے پیش نظر سورتی جامع مسجد رنگون میں منعقد ہونے والی ختم بخاری کی تقریب میں پانچ مدارس مشترکہ طور پر شریک ہو کر حضرت والا کے فیوض سے مستفید ہوئے۔
6/ شعبان المعظم1437ھ مطابق15/ مئی2016ء بروز اتوار حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب کا درس ختم بخاری شریف جامع مسجد سورتی، رنگون، برما۔
نحمدہ ونصلّی علیٰ رسولہ الکریم، أعوذ بالله من الشیطٰن الرجیم ، بسم الله الرحمن الرحیم، الخ
﴿لقد مَن الله علی المؤمنین…﴾، ہم نے دارالعلوم دیوبند سے 1366ھ بمطابق1947ء میں فراغت حاصل کی، بخاری شریف مکمل اور ترمذی شریف اول حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے پڑھی ہے، یہ ایک وقت تھا، جو گزر گیا، پھر ایک وقت وہ آیا جب دارالعلوم دیوبند کی مسندِ حدیث خالی ہو گئی، علامہ سید انور شاہ کشمیری اور علامہ شبیر احمد عثمانی وہاں سے تشریف لے گئے۔ مولانا سید حسین احمد مدنی کا قیام سلہٹ میں تھا، اس موقع پر مولانا اشرف علی تھانوی رحمة الله علیہ نے مولانا مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ کو خط لکھ کر بھی دعوت دی کہ دارالعلوم دیوبند کی مسند آپ کی طرف دیکھ رہی ہے۔ آپ دارالعلوم دیوبند میں تشریف لائیں اور درس حدیث بھی جاری کریں، بیعت وارشاد بھی شروع فرمائیں اور آپ کے سیاسی مشاغل ہیں، اُن کو بھی آپ آزادی کے ساتھ جاری رکھیں، دارالعلوم کو آپ کی سیاسی مصروفیات میں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ چناں چہ مولانا سید حسین احمد مدنی دارالعلوم دیوبند تشریف لے آئے۔ یہ تو ہوئی ایک بات۔
الله تعالیٰ نے مولانا سید حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ کو جو اوصاف وکمالات عطا فرمائے تھے وہ کہیں اور نظر نہیں آئے۔ آپ ایک بات ہمیشہ یاد رکھیں کہ جب کسی ایک بزرگ کے اوصاف وکمالات کا ذکر کیا جارہا ہو تو دوسرے کسی بزرگ کی ہر گز ہرگز تنقیص یا تحقیر نہیں ہوتی، بلکہ الله تعالیٰ نے ہر بزرگ کو الگ الگ شان عطا کی ہوتی ہے، ہر بزرگ کو مختلف عمدہ شئون الله تعالی کی طرف سے عطا کی جاتی ہیں، وہ سب ہمارے لیے قابل احترام اور قابل تحسین ہیں۔ حضرت مدنی رحمة الله علیہ کی جن صفات کا میں مختصر طور پر ذکر کروں گا، اُن میں سب سے نمایاں صفت آپ کی تواضع ہے۔ حضرت مدنی درس گاہ میں تشریف لائے، ڈھائی سو طلبہ موجود تھے، ایک طالب علم نے آپ سے کہا کہ حضرت آپ کا پائے جامہ ٹخنوں سے نیچے ہے، اس موقع پر بجائے ناراض ہونے کے آپ نے اس طالب علم سے کہا آؤ! دیکھو ،اگر میرا پائے جامہ ٹخنوں سے نیچے ہوا تو میں اس کو اوپر کر لوں گا۔ وہ طالب علم آیا اور اس نے دیکھا کہ حضرت کا پائے جامہ ٹخنوں سے اوپر ہے، اس نے اعتراف کیا کہ حضرت مجھے مغالطہ ہوا ہے۔ اب آپ اندازہ لگائیے کہ اتنا بڑا شیخ اور ایک عام طالب علم اس سے اس طرح کا معاملہ کر رہا ہے، لیکن اسے غصہ نہیں آتا، یہ تواضع کی انتہاء ہے۔ (اس موقع پر حضرت والا رو دیے) آپ کی تواضع کا یہ بھی اثر تھا کہ آپ درس گاہ تشریف لاتے تو طلبہ آپ کو سوالات کی پرچیاں بھیجتے، آپ پورے انشراح کے ساتھ ایک ایک سوال کو پڑھتے اور ہر سوال کا جواب دیتے، بعض طلبہ لابالی ہوتے ہیں، وہ عجیب وغریب سوالات بھی کرتے۔ آپ ان کا جواب دیتے تھے، بعض طلبہ… آپ کے گھر یلو قسم کے معاملات کے بارے میں بھی سوالات کرتے، لیکن آپ غصہ نہ کرتے، یہ بھی آپ کی تواضع کا اثر تھا۔
ایک مرتبہ آپ ریل گاڑی میں سفر کررہے تھے، آپ کے سامنے ایک ذی وجاہت آدمی بیٹھا ہوا تھا، وہ قضائے حاجت والی جگہ کی طرف گیا، اس نے دیکھاکہ وہ گندگی سے بھرا ہوا ہے، چناں چہ وہ اپنی جگہ آکر بیٹھ گیا۔ حضرت مدنی رحمة الله علیہ نے محسوس فرمایا کہ یہ شخص حاجت کے لیے جانا چاہتا ہے، لیکن وہ گندگی سے بھرا ہوا ہے، چناں چہ آپ وہاں گئے اور اسے اچھی طرح صاف کرکے اس سے کہا کہ آپ بیت الخلا نہیں جاتے؟ اس نے جواب دیا کہ وہ گندگی سے بھرا ہوا ہے۔ آپ نے فرمایا ”جاؤ !جاکر دیکھو تو سہی۔“
اس تواضع کی نظیر نہ دیکھی، نہ سنی، یہ تواضع کی انتہا ہے۔ ( اس موقع پر بھی حضرت والا رو دیے)
پھر ایک موقع وہ آیا جب آپ نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی، حضرت گنگوہی رحمة الله علیہ سے الوداعی ملاقات فرمائی اور مکہ مکرمہ پہنچ کر حضرت حاجی امداد الله مہاجر مکی رحمة الله علیہ سے ملاقات فرمائی۔ ملتزم پر غلافِ کعبہ کو پکڑ کر الله تبارک وتعالیٰ سے دعا فرمائی کہ یا الله! میں نے دارالعلوم دیوبند میں جو علوم حاصلکیے ہیں اس کی یاد کو پختہ فرما دیجیے ۔اس کی تدریس کی توفیق عطا فرما دیجیے ۔چناں چہ الله تعالیٰ نے آپ کو توفیق عطا فرمائی اور آپ نے 12 سال مدینہ منورہ میں درس حدیث جاری فرمایا اور آپ کا درس عرب وعجم میں دوسرے شیوخ حدیث کے مقابلے میں زیادہ مقبول اور مشہور تھا۔ ایک کام تو آپ نے وہاں پہنچ کر یہ کیا کہ دن میں درس حدیث جاری فرماکر علوم کی تقسیم خلقِ خدا میں شروع فرما دی اور دوسرا کام یہ کیا کہ رات کو مدینہ منورہ کے باغات میں، جنگلات میں اور ویرانوں میں نکل کر الله الله کیا کرتے، مراقبہ ومشاہدہ فرماتے اور اپنے رب سے مضبوط تعلق قائم کرنے کی سعی اور محنت فرماتے ،علم کی تقسیم بھی ہو رہی تھی اور روحانیت کی ترقی کی کوشش بھی ہو رہی تھی ،اس کا نتیجہ یہ تھا کہ الله نے آپ کو ایسے ایسے کمالات واوصاف سے نوازا جن کی نظیر نہیں ملتی، میں نے پڑھا ہے اور اپنے بعض بزرگوں سے سنا ہے کہ ایک مرتبہ آپ روضہٴ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر حاضر ہوئے، سلام پڑھا الصلاة والسلام علیک یا رسول الله۔ روضہٴ اقدس سے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:”وعلیک السلام یاولدی․“
(اس موقع پر بھی حضرت والا رو دیے)
یہ عالی مقام الله تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمایا۔ ان واقعات کو ذکر کرنے سے میرا مقصد یہ ہے کہ آپ کو دیوبند کی صدارت کے لیے طلب کیا گیا، اس لیے کہ علامہ کشمیری اور علامہ عثمانی نے اس کو چھوڑ دیا تھا تو آپ کو الله نے کیسا نوازا؟ کیسا بلند مقام ملا؟ یہ نوازشات نہ علامہ کشمیری کو ملیں اور نہ علامہ عثمانی کو ملیں، ان کے اپنے مقامات ہیں، ان کے اپنے درجات ہیں، حضرت تھانوی کا ارشاد کہ اسلام کی صداقت کے لیے حضرت کشمیری کا وجود ایک علامت ہے، یہ إذا رء وا ذکر الله کا مصداق ہیں ،لیکن جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا کہ ہر ہر بزرگ کے اپنے اپنے اوصاف وکمالات ہیں، لہٰذاکسی کی حقارت دل میں نہیں آنی چاہیے۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنی رحمة الله علیہ کے انتقال کو ساٹھ برس ہو گئے ہیں۔ اب حضرت مدنی کے شاگرد خال خال کہیں ملیں گے، الله نے مجھے یہ شرف عطا فرمایا ہے، اب دیوبند کے فاضل تو بہت ملیں گے، لیکن مدنی کے شاگرد کم ملیں گے ۔ اب فاضل دیوبند بھی کئی قسم کے ہو گئے ہیں ، ہیں تو فاضلِ دیوبند ،لیکن مدنی کے شاگرد نہیں ہیں۔ اسی طرح مظاہریوں کا حال ہے کہ وہ بھی کئی قسم کے ہو گئے ہیں، ہم کسی کو غلط نہیں کہتے، سب اہل حق ہیں، فضلائے دیوبند جو قسم در قسم ہو گئے ہیں ،اسی طرح مظاہری جو کئی قسم کے ہو گئے ہیں، ہم کسی کو غلط نہیں کہتے ہیں، لیکن بہرحال یہ ماننا پڑے گا کہ اتحاد نہیں ہے۔ یہ بخاری شریف کی روایت تو تبرکاً پڑھی گئی ہے، یہ دوسری گفتگو جو عرض کی ہے وہ کچھ تو میرے مشاہدہ کی ہے اور کچھ سنی ہوئی ہے۔ میں نے یہ واقعات اس لیے ذکر کیے ہیں کہ آپ کے علماء تو جانتے ہیں، لیکن نئے فارغ ہونے والے فضلاء نہیں جانتے، ان کو بتانے کے لیے ان واقعات کا ذکر کیا ہے۔
جہاں تک آخری باب کی روایت کا تعلق ہے تو آپ کو معلوم ہونا چاہیے وہاں امام بخاری نے اعمال کے وزن کا ذکر کیا ہے اور اعمال کے وزن سے متعلق آپ کو معلوم ہے کہ اعمال اگر حسنات کی قبیل سے ہوں گے تو قبول ہوں گے اور اگر اعمال سیئات کی قبیل سے ہوں گے تو وہ رد کر دیے جائیں گے اور یہ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ اعمال کے قبول ہونے کا مدار اور انحصار اخلاق پر ہے، اگر اخلاق اچھے ہوں گے تو اعمال قبول ہوں گے اور اگر اخلاق خراب ہوں گے تو اعمال رد کر دیے جائیں گے اوراعمال کی عمدگی اور ناپسندیدگی کا مدار نیت کے حسن اور قبح پر ہے، نیت اچھی ہو گی تو اعمال اچھے اور پسندیدہہوں گے، نیت خراب ہو گی تو اعمال خراب ہوں گے، اعمال رد کر دیے جائیں گے۔
میری طرف سے فارغ ہونے والے طلباء اور وہ تمام علماء جو یہاں حاضر ہیں ان کو میں روایت حدیث کی اجازت دیتا ہوں اوران کو نصیحت کرتا ہوں، بلکہ ان سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ تقویٰ اختیار کریں اور اپنے بزرگوں کے نقش قدم پر چلیں اور وہی اتباع سنت کا طریقہ ہے۔ اس کے علاوہ زمانے میں اب نئی نئی چیزیں جو ہمارے سامنے آرہی ہیں انہیں رد تو کریں، مگر قبول نہ کریں ۔وصلی الله علیہ وسلم
رنگون (ینگون) میں محترم حاجی یعقوب صاحب اور ان کے صاحب زادے حضرت مولانا محمد صاحب زید مجدھم پہلے میزبان تھے، چناں چہ پہلے دن انہی کے گھر میں حضرات گرامی قدر کا قیام رہا، برما میں معزز علمائے کرام جو حضرت والا کی خدمت میں مشغول رہے، ان میں حضرت مولانا مفتی نور محمد صاحب (فاضل جامعہ دارالعلوم کراچی) مولانا جنید صاحب (فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی) مولانا محمد صاحب کے بھائی مولانا ابراہیم صاحب (فاضل ڈھابیل) حاجی اسحاق صاحب، بھائی یعقوب مینا صاحب حاضر باش خدام رہے۔ حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کے دورہٴ برما کے داعی اور پروگرام مرتب کرنے والے حضرت مولانا مفتی احمد صاحب (فاضل جامعہ فاروقیہ کراچی) محتاج بیان نہیں ہیں۔
رنگون میں قیام کے دوران جامعہ فاروقیہ کے قدیم وجدید فضلا قریب اور دور کے علاقوں سے زیارت شیخ دامت برکاتہم کے لیے حاضر ہوتے رہے، چوں کہ حضرت والا دامت برکاتہم کے ضعف کے پیش نظر ان کے لیے رہائشی مقام پر آرام ہی تجویز ہوا تھا، چناں چہ حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مختلف اوقات میں بیانات فرمانے کے لیے تشریف لے جاتے رہے، جن میں سے تبلیغی مرکز رنگون، جامع مسجد سورتی، مولانا محمد آکوجی صاحب کے زیرسرپرستی حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر (نور الله مرقدہ) کی خانقاہ اور نگینہ مسجد خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔
مولانا مفتی نور محمد صاحب کی رفاقت میں حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب کی طبیعت ناساز ہونے کی وجہ سے راقم کو ایک مدرسہٴ بنات میں جانا ہوا۔ الله تعالیٰ کی توفیق سے کچھ ترغیبی گفت گو بھی ہوئی۔
رنگون میں حضرت والا دامت برکاتہم العالیہ کی ایک عجیب ادا دل پر نقش ہو کر رہ گئی، مغرب کے بعد رہائش پر حضرت والا کے ساتھ بعض خدام حاضر تھے، مولانا جنید صاحب نے حضرت والا سے درخواست کی کہ حضرت کچھ نصیحت فرمائیں، جواب میں حضرت والا نے فرمایا:
”نصیحت تو آپ مجھے کریں، مجھ پر الله تبارک وتعالی کی اس قدر نعمتیں ہیں، اس قدر نعمتیں ہیں، سفر وحضر میں ہر شخص میری راحت وآرام کے لیے پیش پیش رہتا ہے، لیکن میرے عمل میں کوتاہی ہی کوتاہی ہے ، کوتاہی ہی کوتاہی ہے، کوتاہی ہی کوتاہی ہے ( تین مرتبہ ارشاد فرمایا) میں تو اپنی بخشش کے لیے اپنے طلبہ کو ایک امید سمجھتا ہوں، جو دنیا بھر میں پھیلے ہوئے کار خیر میں مصروف ہیں، ورنہ اپنا تو کوئی عمل نظر نہیں آتا۔“
17/مئی کو صبح سات بجے کے قریب ہوائی اڈے کے لیے روانہ ہونا تھا ،راستے میں مدرسہ شوکت الاسلام کی عمارت کے سامنے سے گزرنا ہوا، چناں چہ مدرسے کے نظارے کو آنکھوں میں سجائے قافلہ ہوائی اڈے کی طرف روانہ ہو گیا، چاہنے والے میزبان اور دیگر علماء ورفقاء محبوب مہمانوں کو رخصت اور الوداع کہنے کے لیے ہوائی اڈے پر موجود تھے۔
ہوائی جہاز ایک گھنٹے کی پرواز کے بعد بینکاک پہنچ گیا، دوپہر دو بج کر دس منٹ بینکاک سے کراچی پرواز طے تھی، چناں چہ دو گھنٹے کا دورانیہ بینکاک کے ہوائے اڈے پر انتظارہ گاہ میں گزر گیا، اس دوران ظہر کی نماز بھی ادا کی گئی، شام ساڑھے پانچ بجے کے قریب یہ معزز قافلہ کراچی پہنچ گیا۔
تھائی لینڈ اور برما کے اس سفر میں راقم نے ایک بات بہت گہرے اثرات کے ساتھ محسوس کی، حضرت مولانا عبیداالله خالد صاحب زید مجدھم نے بھی اس امر کو مکرر ارشا د فرمایا، وہ اہم بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں بینکاک، تھائی لینڈ ،برما کے تذکرے ہمیشہ منفی رُخ اور شیطانی اعمال، عیش وعشرت کی دستیابی کے حوالوں سے ہی کیے جاتے ہیں، لیکن اس سفر میں یہ امر واضح طور پر محسوس کیا جاسکتا ہے کہ جہاں شیطان اور اس کے حواریوں نے تھائی لینڈ اور برما کو اپنی شکارگاہ بنایا ہوا ہے، وہاں رحمن کے خاص بندے اہل مدارس، اہل دعوت وتبلیغ اور تصوف والے حضرات بھی ان خطوں کو سیراب کرنے اور زر خیز بنانے میں مصروف عمل ہیں، چناں چہ اہل بصیرت کے لیے مایوسی کی کوئی وجہ نہیں ہے، بلکہ الله تعالیٰ کی مدد ونصرت، ان کی رحمت اور تائید غیبی کے اعتماد او ربھروسے پر میدان عمل سے وابستہ رہنا ہی وقت کا اہم تقاضا ہے، مکڑی کے جالے نظام غیبی کے تحت خود ہی چھٹتے اور سمٹتے جائیں گے۔ ان شاء الله العزیز۔
تمام قارئین سے راقم دو دعاؤں کی عاجزانہ استدعا کرتا ہے۔
میرے اور میرے والدین کے لیے کامل اور خالص ایمان پر خاتمہ بالخیر کے لیے ۔
میری اولاد کے لیے مسجد ومدرسہ والا دین کا سچا خادم بننے کے لیے۔