Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

3 - 16
یہودیوں کے متعلق پیش گوئیاں

مفتی سمیع الرحمن
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہود کے متعلق فرمایا ہے:
﴿ضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الذِّلَّةُ أَیْْنَ مَا ثُقِفُواْ إِلاَّ بِحَبْلٍ مِّنْ اللّہِ وَحَبْلٍ مِّنَ النَّاسِ وَبَآؤُوا بِغَضَبٍ مِّنَ اللّہِ وَضُرِبَتْ عَلَیْْہِمُ الْمَسْکَنَة﴾ (اٰل عمران: 112)
”اور یہ جہاں نظر آئیں گے ذلت (کو دیکھو گے کہ) ان سے چمٹ رہی ہے ،سوائے اس کے یہ اللہ اور لوگوں کی پنا ہ میں آجائیں اور یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے غضب میں گرفتار ہیں اور ناداری ان سے لپٹ رہی ہے۔“

اس آیت کریمہ میں یہودیوں کے متعلق دو پیشنگوئیاں کی گئیں اور اس کی وجوہات بھی بیان کردی ہیں۔ یہ پیشنگوئیاں خاص اسرائیلی نسب رکھنے والے یہودیوں کے متعلق ہیں، جو غیر اسرائیلی یہودی جنہوں نے محض یہودی مذہب اختیار کررکھا ہے وہ اس سے مستثنیٰ ہیں، لہٰذا عملی انطباق میں اس پہلو پر ضروری نظر رکھتے ہوئے ان دو پیشن گوئیوں کا تاریخی تسلسل دیکھتے ہیں۔

ذلّت و خواری
ضُرِبَتْ عَلَیْھِم الذلّةسے بتلادیا گیا کہ ذلت و خواری کا طوق ان کی گردنوں میں ڈال دیا گیا۔ یہ دنیا کے جس کونے میں چلے جائیں، مال ومتاع کے ذریعے معاشرے میں اپنے قدو کاٹھ کو جس قدر بڑھالیں، ذلت وخواری کا یہ نقش ان سے محو نہیں ہوسکتا، یہودیوں کی پوری تاریخ اس پیشن گوئی پر اعلان صداقت کررہی ہے۔

اللہ تعالیٰ کی مسلسل نافرمانی، انبیاء علیہم السلام کی تکذیب اور انہیں قتل و اذیت کی بے باکی اور بت پرستی کے وبال نے انہیں ذلت و خواری کے ایسے گھڑے میں دھکیل دیا ہے جس سے نکلنے کی ہر کوشش انہیں مزید رسوائی سے دوچار کردیتی ہے، اس ذلت و خواری کی تشریح علامہ آلوسی رحمة اللہ علیہ نے جان ومال کی بے وقعتی سے کی ہے۔ (دیکھئے، روح المعانی، اٰل عمران، ذیل آیت: 112) یعنی ان کے جان و مال کی کوئی قدر قیمت دنیا میں نہیں ہوگی، ہر جگہ مار کھاتے اور مال سے ہاتھ دھوتے نظر آئیں گے۔

چناں چہ پہلے بُخْتَ نَصَّر بابلی بادشاہ 598 قبل مسیح میں ان کے وطن بیت المقدس پر حملہ آور ہوا اور پورے شہر کی عمارتوں کو ڈھاکر جلادیا، ہزاروں یہودیوں کو تہ تیغ کرکے باقی ماندہ ہزاروں کو اپنے ساتھ قید کرکے بابل لے گیا۔ ستر سال کی غلامی کے بعد قدرت انہیں ایک دوسرے عذاب سے دوچار کرنے کے لیے فلسطین دوبارہ لے آئی۔ چناں چہ 198 قبل مسیح میں شاہ انطاکیہ انٹیوکس ثالث کا حملہ خدائی کوڑا بن کر ان پر برسا، اس نے شہر کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔ 63قبل مسیح رومی سردار پومپی نے حملہ کرکے ایک بار پھر انہیں قتل و اسارت کا مزہ چکھایا۔70ء میں رومی شاہ ٹائٹس خدا کا عذاب بن کر ان پر اترا، جس نے قتل و تعذیب کے نت نئے طریقے ان پر آزمائے، پوری مملکت کو ایک سرے سے دوسرے سرے تک روند ڈالا، سوا لاکھ یہودیوں کو قتل کرکے فتح کا جشن منایا، چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار، یہودیوں کے قبول ایمان سے مایوس ہوچکے تھے، بلکہ حضرت مسیح پر ایمان لانے کی وجہ سے یہود کی تنگ نظری کا شکار تھے، اس لیے انہوں نے اپنی دعوت کا رخ یہودیوں سے پھیر کررومیوں کی طرف موڑ لیا، جس میں بنیادی کردار موجودہ مسیحیت کے بانی پولُس کا تھا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ رومیوں نے مسیحیت قبول کرکے یہودیوں کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔ فلسطین پر قبضہ کرکے مقدس مقامات ان سے چھین لیے، یہودیوں نے جو ظلم مسیحیوں پر کیے تھے، اس کا انتقام مسیحیوں نے ”اینٹ کا جواب پتھر“ کی صورت میں لیا۔ باہمی چپقلش میں صاحب حیثیت یہودی فلسطین کو چھوڑ کر عرب میں آباد ہونا شروع ہوگئے۔ چناں چہ طائف، یمن، بحرین، تیما، فدک، وادی القریٰ اور بالخصوص مدینہ منورہ میں کافی تعداد میں آباد ہوگئے۔ عرب میں آباد ہونے کے دو مقصد تھے، مسیحیوں کے ظلم سے نجات آخری نبی کا انتظار ،جس کے ذریعے مسیحیوں پر غلبے کا یقین رکھتے تھے۔

طلوع اسلام کے بعد یہود کی ذلت و خواری کی جھلک
جب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لائے اس وقت یہودیوں کے تین قبائل مدینہ میں مقیم تھے۔ بنو قینقاع، بنونضیر، بنو قریظہ۔ اول الذکر دونوں قبائل بوجہ عہدشکنی کے مدینہ منورہ سے ذلیل کرکے جلا وطن کردیے گئے اور بنو قریظہ غزوہ ٴ احد کے موقع پر مشرکین کے ساتھ ساز باز کرکے مسلمانوں کے ساتھ غداری کے مرتکب ہوئے اور اس کے نتیجے میں ان کے مردوں کو قتل اور عورتوں اور بچوں کو غلام بنالیا گیا۔ مدینہ منورہ سے جلا وطن ہونے والے یہودی خیبر کو اپنا مرکز بناکر مسلمانوں کے دشمن مشرکین کی سرپرستی کرنے لگے۔ان کی سرکوبی کے لیے 7ھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر پر حملہ کرکے اسے اپنے قبضے میں لے لیا اور یہودی ذمی بن کر مسلمانوں کے ماتحت زندگی کا عذاب جھیلنے لگے۔ یہاں تک کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے انہیں جزیرة العرب سے نکال دیا۔ یوں ایک بار پھر یہ آوارہ جہاں ہوگئے۔

سینکڑوں سال تک یہ مسلمانوں کے ماتحت جزیہ دے کر امن وسکون کی زندگی گزارتے رہے، انہیں اپنے مذہبی احکام پر عمل کرنے کی مکمل اجازت رہی۔ مسلمان معاشرے میں ہمیشہ ان کی جان و مال محفوظ رہی، اس دوران یہ مسیحی ممالک روس، انگلستان، فرانس ، ہسپانیہ، جرمنی، اٹلی وغیرہ میں بار ہا جاکر آباد ہوئے، لیکن ان پر مسیحیوں نے شدید ترین مظالم ڈھائے۔ ان کی پوری کی پوری آبادیوں کو ڈھادیا جاتا، انہیں زندہ جلادیا جاتا، جنگلی درندوں سے بھڑوادیاجاتا۔ جہاں کہیں کسی کے یہودی ہونے کا پتہ چلتا مسیحی مجمع اس پر ٹوٹ پڑتا اور وہیں یہودی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ یورپ کے مسیحی ممالک نے یہودیوں پر جو ستم ڈھائے ہیں اس کا اندازہ یہودیوں کی مرتب کردہ کتاب ”ہولوکاسٹ “سے کیا جاسکتاہے، اگرچہ زیب داستان بڑھانے کے لیے اس میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے، لیکن اس مبالغے کے پردے میں حقیقت کی جھلک بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔ یورپی ممالک کے ان ظالمانہ رویوں سے تنگ آکر یہ مسلمانوں کے پاس ہی پناہ لیتے رہے۔ صدیوں تک یہودیوں کی حفاظت کرنے والے مسلمانوں کی نیکی کا صلہ” اسرائیلی مملکت “جس درندگی کے ساتھ دے رہی ہے ، شاید محسن کشی کی اس سے بدتر مثال دنیا میں کہیں نہیں مل سکے گی۔

پہلی جنگ عظیم کے زمانے میں یہودی جرمنی اور آسٹریا میں خوب چھائے ہوئے تھے ۔ اسلامی خلافت عثمانیہ جرمنوں کی اتحادی تھی، فریق مخالف برطانیہ اور اس کے حلیف ممالک تھے۔ اس جنگ میں یہودیوں نے برطانیہ کو سرمایہ اور قوم کی ہر قابلیت کی پیشکش اس شرط پر کی کہ اختتام جنگ پر فلسطین کو یہودی وطن بنانے کا پختہ وعدہ کیا جائے۔ برطانیہ کو سرمائے کی بھی ضرورت تھی اور جرمن کے غداروں کی بھی۔ وہ یہودی قوم کی صورت میں اسے مل گئے، نیز یہود کی اس پیشکش سے خود برطانیہ کو یہودی آبادی کو اپنے مملکت سے جان چھڑاکر دوسری جگہ بسانے کا موقع بھی مل رہا تھا، یوں اپنے مفادات کی خاطریہود و نصاریٰ ایک ہوگئے۔ دوسری طرف فلسطین کی باگ ڈور خلافت عثمانیہ کے پاس تھی اور خلافت عثمانیہ اس جنگ میں جرمنی کا اتحادی بن کر برطانیہ کے مقابلے پر تھا۔ جرمنی کی شکست کا اثر خلافت عثمانیہ کے منقسم ہونے کی صورت میں ظاہر ہوا اور فلسطین کا اختیار برطانیہ کے ہاتھوں آگیا۔ چناں چہ 1917ء میں وہ رسوائے عالَم دستاویز شائع ہوئی جس میں یہودیوں کو فلسطین میں بسانے اور ان کے جان و مال کی حفاظت کا یقین دلایاگیا تھا۔ دوسری جنگ عظیم کے زمانے میں یہودی دھڑا دھڑ اسلحہ حاصل کرنے اور لاکھوں یہودیوں کو فلسطین میں لابسانے میں کام یاب ہوگئے۔ بالآخر 1947ء میں اقوام متحدہ نے تقسیم فلسطین کا ظالمانہ فیصلہ کرکے تیسری جنگ عظیم کی بنیاد رکھ دی۔

امریکہ اور یورپی ممالک کی چھتری تلے یہودی اپنی مملکت کو پرسکون بنانے کے لیے سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں ، لیکن خدا نے ان کے حق میں ذلت ہی لکھی ہے۔ مملکت ، فورس ، یورپی تعاون انہیں مسلمانوں کے خوف سے مطمئن نہیں رکھ سکتا۔ مسلمان کبھی بھی اس غاصبانہ مملکت کو تسلیم نہیں کرسکتے، نہ مقدس مقامات کی حوالگی قابل قبول ہے۔ دنیاکے منظر نامے میں اسرائیلی مملکت کے قیام کے بعد دنیامیں جو کچھ ہورہا ہے شاید یہودیوں پر خدا کے آخری کوڑے کا پیش خیمہ ہے، کیوں کہ احادیث رسول صلی الله علیہ وسلم میں نزول عیسیٰ عليه السلام کے بعد یہودیوں کی اجتماعی قتل گاہ کی پیشن گوئی بھی اسی مقام پر کی گئی ہے۔

مسکنت و محتاجگی
یہودکے متعلق دوسری پیشن گوئی مسکنت اور محتاجگی کی ہے، یعنی کبھی یہ معاشی خودمختاری حاصل نہیں کرسکتے، یہودی دنیا میں جہاں کہیں رہے ہیں وہاں کی مقامی آبادی کے تناسب سے معاشی طور پر فقر و مسکنت کا شکار رہے۔ یہ پیشن گوئی من حیث القوم کی گئی ہے۔ یہودی ”قوم “کی حیثیت سے مسکنت کے عذاب سے نہیں نکل سکتے، اگر قوم کے کچھ افراد غیر معمولی طور پر مال دار ہوجائیں تو وہ پیشن گوئی کے خلاف نہیں ہے ، ان میں جو افراد معاشی طور پر غیر معمولی طور پر مستحکم ہوتے ہیں وہ بھی ٹیکس اور لوٹ مار کے خوف سے اپنا رہن سہن محتاجوں کا سا رکھتے ہیں۔خوف کی وجہ سے اپنے خون پسینے کی کمائی سے فائدہ نہ اٹھاسکنا اور اپنی مال داری پر فقر کی چادر پھیلائے رکھنا بھی ایک طرح کی مسکنت ہے۔ (وقال اٰخرون: المراد بالمسکنة اٰن الیھودی یظھر من نفسہ الفقر وإن أغنیاء موسراً․ تفسیر کبیر، اٰل عمران ذیل آیت: 112)

مولانا عبدالماجد دریا آبادی رحمة اللہ علیہ رقم طراز ہیں:
”مفلسی، محتاجی، تنگ دستی کے انتساب پر عجب نہیں کہ ناظرین کو حیرت ہواور سوال دل میں پیدا ہو کہ تموّل تو یہود کا ضر ب المثل ہے، پھر اس قوم کو محتاج و تنگ دست کیسے قرار دیا جاسکتا ہے؟ لیکن یہ محض دھوکا اور عام طور پر چلا ہوا مغالطہ ہے، دولت و ثروت جتنی بھی ہے وہ قوم یہود کے صرف اکابر ومشاہیر تک محدود ہے، ورنہ عوام یہود کا شمار دنیاکی مفلس ترین قوموں میں ہے، یہ بیان خود محققین یہود کا ہے۔ جیوش انسائیکلو پیڈیامیں ہے”گو یہود کا تموّل ضرب المثل کی حد تک شہرت پاچکا ہے، لیکن اہل تحقیق کا اتفاق ہے کہ یہود یورپ کے جس جس ملک میں آباد ہیں وہاں کی آبادی میں انہیں کے مفلسوں کا تناسب بڑھا ہوا ہے۔“ (جلد 10، ص: 151)

”عوام یہود دوسری قوموں سے زیادہ غریب ہیں، یہ اور بات ہے کہ ان کے چند افراد بہت زائد دولت مند ہیں۔“ 1/161 (تفسیر ماجدی، البقرة ذیل آیت: 61)

فقر یہود کا وصف لازم ہے۔
آیت کریمہ میں یہود کے متعلق دو پیشن گوئیاں بیان کی گئی ہیں:
1.ذلت،2. مسکنت و فقر
پہلی پیشن گوئی کے متعلق تو بتایا گیا ہے کہ وہ عہد الہٰی اور عہد انسانی پر پورا اترنے کی وجہ سے کم ہوسکتی ہے، مگر مسکنت کا ذکر کسی شرط کے بغیر اور”ذلت “سے جد ا طور پر بیان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ”مسکنت“ یہودیوں کے حق میں وصف لازم ہے۔ عہدالہٰی یا عہد انسانی کے تحت زندگی گزاریں یا اس کے بغیر اس عذاب سے انہیں چھٹکارا نہیں مل سکتا۔ (تفسیر کبیر رازی، اٰل عمران، ذیل آیت:112)

یہودی قوم ذلت سے چھٹکارا پاسکتی ہے؟
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں یہودی قوم کو ذلت و رسوائی سے چھٹکارا پانے کے دوراستے دکھائے ہیں:

حبل من اللہ
”حبل “ عہد کو کہتے ہیں۔ حبل من اللہ کا مطلب ہے کہ یہودی عہد الہٰی پر پورا اترنے کی صورت میں اس ذلت سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور عہد الہٰی سے مراد وہ عہد ہے جو اللہ تعالیٰ نے عالم ارواح میں تمام انسانوں کو جسم دے کر ان سے ﴿الست بربکم قالوا بلی شھدنا﴾ کے ذریعے توحید کا اقرار کرایا تھا۔ اگر یہودی اس عہد کی پاس داری کرتے ہوئے، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لاتے ہوئے، تو حید کی عملی گواہی دے دیں تو جان ومال کی بے وقعتی کے عذاب سے محفوظ ہوسکتے ہیں۔ ”حبل من اللہ“ کی دوسری تفسیر جزیہ کی ادائیگی سے بھی کی گئی ہے ، یعنی یہود مسلمانوں کے ماتحت جزیہ دے کر اطمینان کی زندگی گزارسکتے ہیں۔ چوں کہ یہ جزیہ مسلمان بحکم الہٰی یہود سے وصول کرتے ہیں اس لیے عہد الہٰی سے تعبیر کیاگیا ہے۔ (عن ابن عباس، زاد المسیر، اٰل عمران: 112)

لیکن اس صورت میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جزیہ بھی ایک طرح کی ذلت ہے، اسے ذلت سے چھٹکارا پانا کیسے کہہ سکتے ہیں؟ قرآن کریم میں بھی اسے ذلت کی کیفیت بتلایا گیا ہے۔ ﴿حَتَّی یُعْطُواْ الْجِزْیَةَ عَن یَدٍ وَہُمْ صَاغِرُون﴾ (سورہ التوبة: 29)

اس کے جواب میں علامہ رازی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ذلت کا اطلاق قتل، اسارت، غلامی ، مال کے مباح ہونے، معاشرے میں ناپسندیدہ ہونے اور معمولی فرد سمجھنے کے مجموعے پر ہوتا ہے۔ حبل من اللہ کے استثنا سے ذلت کے اس مجموعے سے بچ جائے گا، لیکن ذلت کی کچھ صورتیں بہرصورت لاحق رہیں گی۔ استثناء مجموعے کی نفی پر دلالت نہیں کرتا۔ لہٰذا حبل من الناس سے یہود کی جان و مال تو محفوظ ہوجائے گی، مگر عزت نفس ، معاشرے میں باعزت شہری اور جزیہ سے چھٹکارے کی ضمانت نہیں مل سکتی۔ (تفسیر کبیر رازی، اٰل عمران ذیل آیت: 112)

حبل من الناس
حبل من اللہ کی مذکورہ بالا کی گئی تفسیر کے بعد حبل من الناس سے مراد لوگوں سے کیے مختلف معاہدے اور صلح نامے ہیں، جس کی آڑ میں یہ اپنی جان و مال کو محفوظ رکھ سکیں گے۔ اس میں جزیہ داخل نہیں، کیوں کہ وہ حبل من اللہ کی ایک صورت ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، اٰل عمران ذیل آیت: 112) البتہ مسلمان کی طرف سے شخصی امان اس میں داخل ہے۔

ایک شبہ کا جواب
مذکورہ بالا تفصیل سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہود کبھی قومی اور معاشی خودمختاری حاصل نہیں کرسکیں گے، مگر اب ہم اسرائیل کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے وہ قوم خود مختار ہوچکی ہے؟!

اس کا جواب دینے سے پہلے یہ بات جان لیں کہ قرآن کریم نے ذلت و مسکنت کی خبر جس قوم کے متعلق دی ہے وہ اسرائیلی قوم کے ساتھ مخصوص ہے، اگر کوئی شخص اسرائیلی نسل سے تعلق نہیں رکھتا، مگر اس مذہب کواختیار کرکے خود کو یہودی کہلاتا ہے وہ اس کے متعینہ مصداق سے خارج ہے،لہٰذا ایسے لوگوں کی حالت و معیشت دیکھ کر قرآنی آیت کو ان پر نہیں پرکھنا چاہیے۔ ایسے لوگوں کی اچھی خاصی تعداد یہودی قوم میں ہے۔

اس تمہید کے بعد اب یہ جان لیجیے کہ موجودہ مملکتِ اسرائیل کی بقا حبل من الناس کے سہارے ہے۔ اگر عالم کفر اس کی سرپرستی سے اپنا ہاتھ کھینچ لے تو چند لمحوں میں اس مملکت کا وجود دنیا کے نقشے سے محو ہوجائے گااور ان کا معاشی ستون بھی عالمی کفر کی امداد سے مستحکم نظر آتا ہے۔ وگرنہ حقیقت میں من حیث القوم اسرائیلی تنگ دستی سے دوچار ہیں، جس کی تفصیل گزرچکی ہے۔

Flag Counter