Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

14 - 16
خواتین کا عشقِ رسول ﷺ

مولانا سیف الله سومرو
	
ویسے بھی عورت سراپا محبت ہے اور عورت جب بھی کسی سے محبت کرتی ہے تو ٹوٹ کر محبت کرتی ہے او رایسی محبت خواتین کے عشقِ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی تھی، جو دل کی گہرائیوں سے تھی اور ٹوٹ کر محبت تھی حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم جومحورِ عشق ان سے صحابیات رضی الله تعالیٰ عنہن کی الفت وپیار کا رنگ تھا جس میں وہ منفرد ویگانہ تھیں، یہ وہ مقدس ہستیاں تھیں جو اپنے محبوب آقا ئے نام دار حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے آرام کا بھی بے حد خیال رکھتی تھیں اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے آرام کے ساتھ دفاع کی خاطر اپنی ذات کی پروا نہیں کرتی تھیں۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منسلک چیزوں کو بطور یاد گار محفوظ کر لیتی تھیں اور ان اشیا کے استعمال میں جس رنگ عشق ومحبت کا اظہار انہوں نے کیا وہ قابل ذکر ہے، ان مضامین سے پتا چلتا ہے کہ خواتین نے کیسے اپنے آقا نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ محبت کی ہے اور اپنے او راپنے بچوں کی جان پیغمبر پاک صلی الله علیہ وسلم کے اوپر جان نثار کی ہے۔

حضرت سیدہ اُم سلیم کا عشق رسول
رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم اپنے مبارک قدم جس گھر میں لے کر جاتے اس گھر کی قسمت پر عرش وفرش رشک کرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی صحابیات رضی الله عنہن کے گھروں میں بھی تشریف لے جایا کرتے تھے۔ وہ جب اپنے پیارے محبوب ،سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کو اپنے گھروں میں دیکھتی تھیں تو ان کا دل موج بہاراں کی طرح سے کھل اٹھتا تھا اور ان کی خوشی کی انتہا نہ ہوتی تھی۔

حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے بے پناہ محبت کرتی تھیں، ان کی محبت کا یہ عالم تھا کہ جب آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لے جاتے تھے اور دوپہر کو آرام فرمایا کرتے تھے تو حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا آپ کے مشک وعنبر جیسے پسینے اور ٹوٹے ہوئے بالوں کو ایک شیشی میں جمع کرکے رکھ لیتی تھیں اور اس کو دل وجان سے عزیز رکھتی تھیں۔

”اُم سلیم پانی لاؤ“ سامنے مشکیزہ لٹک رہا تھا ،وہ اس میں سے پانی انڈیلنے لگیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اسے ہی لے آؤ“

آپ مشکیزہ لے آئیں تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس کا دہانہ اپنے منھ مبارک سے لگایا اور پانی پیا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم تشریف لے گئے تو حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا نے مشکیزے کے اس دہانے کو کاٹ کر اپنے پاس بطور یادگار محفوظ کر لیا، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہونٹوں نے اس حصے کو چھوا تھا، یہ تھا عشق رسول۔

حضرت اُم سلیم کا بچوں کو حُبّ رسول کی تعلیم دینا
حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ حضرت اُم سلیم رضی الله عنہا کے لخت جگر تھے، ان کے بال بڑے رہتے تھے، ایک روز انہوں نے ارادہ کیا کہ ان کو کاٹ دیں۔ جب آپ کی والدہ ماجدہ کو یہ بات معلوم ہوئی تو وہ تڑپ اٹھیں، اپنے بیٹے کو مخاطب کرکے فرمایا: ”انس ان بالوں کو مت کاٹنا، کیوں کہ ان بالوں کو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے پکڑا تھا۔“

انہی خاتون کا یہ بھی دلچسپ واقعہ ہے، حضرت ابو طلحہ رضی الله عنہ غزوہ حنین میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ہنستے ہوئے آئے اور عرض کیا کہ آپ کو معلوم ہے اُم سیلم رضی الله عنہا نے خنجر لگا رکھا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا تم اس کا کیا کرو گی؟ تو کہنے لگیں جب بھی کوئی مشرک میرے سامنے آیا اس کے پیٹ میں گھونپ دوں گی، یہ تھا اُم سلیم کا عشق۔

حضرت سیدہ اسماء بنت ابی بکر صدیق  کا عشق رسول
اسماء  بنت ابی بکر صدیق رضی الله عنہ بھی نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے بہت محبت اور عقیدت رکھتی تھیں، حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا نے سفر کی تیاری کی تو انہوں نے اپنے آقا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا جبہ مبارک اپنی ہم شیرہ حضرت اسماء رضی الله تعالیٰ عنہا کو دیا، جو انہوں نے بڑی محبت وادب سے سنبھال کر رکھا۔ اس جبے سے حسنِ عقیدت کا یہ عالم تھا کہ جب گھر میں کوئی فرد بیمار ہوتا تو آپ اپنے محبوب صلی الله علیہ وسلم کا جبہ مبارک نکال کر دھوکر ،اس کا پانی مریض کو پلا دیتی تھیں جس سے وہ صحت یاب ہو جاتا تھا۔ حضرت اسماء رضی الله عنہا کا آپ صلی الله علیہ وسلم سے عشق ومحبت کا یہ عالم تھا کہ جب بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کا جبہ مبارک دیکھتیں، آپ کی آنکھوں میں آنسو آجاتے، نظروں کے سامنے حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا عہد مسعود اور حسین وجمیل چہرہ مبارک گھوم جاتا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے فراق میں غمگین ہو جاتی تھیں۔

حضرت سیدہ اُم عمارہ کا میدانِ جہاد میں عشق رسول
حضرت ام عمارہ رضی الله عنہا غزوہ احد میں زخمیوں کو پانی پلا رہی تھیں، جب فتح شکست میں تبدیل ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کو حضرت اُم عمارہ نے دیکھا تو آپ نے مشکیزے کو ایک طرف رکھ دیا اور قریب ہی پڑے ہوئے شہید کی تلوار اٹھائی اور اپنے آقا حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے پاس جاکر کھڑی ہو گئیں، تاکہ دشمن کا کوئی تیر یا کوئی ہتھیار آپ صلی الله علیہ وسلم تک نہ پہنچ سکے، جب کوئی قریب آتا اس سے بڑی بہادری وجرات کے ساتھ مقابلہ کرتی تھیں۔

ابن قمیہٴ جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا بہت بڑا موذی دشمن تھا وہ جب سامنے آیا تو اس کے سامنے بہادری سے سامنے آئیں اور اس کو میدان جنگ سے مار بھگایا، لیکن اس معرکہ میں خود کو بھی جسم پر بہت بڑے بڑے زخم لگے ،مگر اس کے باوجود سینہ سپر ہوکر جنگ کرتی رہیں، اس پر حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا عمارہ رضی الله عنہا نے مردوں سے بڑھ کر بہادری دکھائی ہے، اتنی بہادری کسی اور میں کہاں۔“

پھر رسول کریم صلی الله علیہ وسلم نے خود ان کے زخموں پر پٹی بندھوائی اور دریافت فرمایا” تم کیا چاہتی ہو؟“ عرض کیا ” الله کے رسول! میرے لیے دعا فرمائیں کہ آخرت میں بھی آپ کے قدموں میں جگہ نصیب ہو۔“

جب حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے تو کہنے لگیں ، اب دنیا میں کسی مصیبت کی مجھے پروا نہیں، پھر اپنے زخمی بیٹے عبدالله رضی الله عنہ کی طرف متوجہ ہوئیں اور اسے کہا ” بیٹا! آخری دم تک دشمنوں سے لڑتے رہنا۔“

الله کی راہ میں شہید ہونے والی دلہن اور اس کے دولہا کا جذبہ شہادت
اُم حکیم بنت حارث رضی الله عنہا کی سیرت میں آیا ہے کہ وہ عکرمہ رضی الله عنہ کی بیوی تھیں، وہ اپنے شوہر کے ساتھ لڑنے کے لیے گئیں، عکرمہ رضی الله عنہ شہید ہو گئے تو ان سے خالد بن سعید بن عاص رضی الله عنہ نے شادی کر لی، جب مرج الصفر میں جنگ ہوئی خالد رضی الله عنہ نے ان کے ساتھ شب عروسی کا ارادہ کیا تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ ایک دن انتظار کرتے، تاکہ الله کفار کو شکست دے دیتا تو بہتر ہوتا، خالد رضی الله عنہ نے کہا میرے دل میں آتا ہے کہ شاید میں شہید ہو جاؤں گا ۔انہوں نے کہا کہ آپ کی مرضی۔ صبح ہوئی تو خالد رضی الله عنہ نے ولیمہ کیا، کھانے سے ابھی فارغ نہیں ہوئے تھے اتنے میں رومی آگئے، خالد رضی الله عنہ شہید ہو گئے، ان کے کپڑوں پر شادی کے رنگ کے نشانات باقی تھے۔ اسی لڑائی میں ام حکیم رضی الله عنہا بھی اسی دن شہید ہوئیں ،جس خیمہ میں ان کی شادی ہوئی تھی انہوں نے اس جنگ میں اس خیمے کے بانس سے سات رومی قتل کیے او رپھر خود بھی شہید ہو گئیں۔

ام حرام رضی الله عنہا پہلی مسلمان عورت جو سوار ہو کر سمندر پار لڑنے کی غرض سے گئیں
حضو راکرم صلی االله علیہ وسلم نے اُم حرام بنت ملحان رضی الله عنہا کے گھر میں آرام فرمایا، جب آپ جاگے تو فرمایا کہ میری امت کے کچھ لوگ مجھے دکھائے گئے جو دریا پر سوار ہو کر بادشاہوں کی طرح لڑنے کے لیے جائیں گے، جہازوں کشیتوں پر۔ اُم حرام رضی الله عنہا کہتی ہیں میں نے کہا یا رسول الله! دعا کریں کہ میں ان میں سے ہو جاؤں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم انہیں میں سے ہو ۔ فرماتے ہیں کہ اس خاتون سے عبادہ بن صامت رضی الله عنہ نے شادی کی، یہ بھی ان کے ساتھ نکلیں، جب دریا عبور کیا تو سواری پر سوار ہو کر جارہی تھیں اور گرپڑیں، پھر شہید ہو گئیں، یہ غزوہ قبرص تھا، وہیں دفن کی گئیں اور اس لشکر کے امیر حضرت معاویہ رضی الله عنہ تھے، حضرت عثمان رضی الله عنہ کے عہد خلافت سنہ27ھ میں یہ لڑائی ہوئی اور شہادت کی طلب گار خاتون کی آرزوئیں پوری ہوئیں۔

ام عمارہ کا مدعی نبوت مسیلمہ کذاب کے خلاف جذبہ حُبّ رسول
اُم عمارہ رضی الله عنہا، جن کانام نسیبہ بنت کعب انصاریہ ہے یہ بہت عظیم خاتون تھیں، آپ غزوہ خیبر، حنین اور احد میں شریک ہوئیں ،فاروق اعظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں احد کے دن میں جس طرف دیکھتا تھا یہ عورت اسی طرف سے میرا دفاع کر رہی ہوتی تھیں۔ اُم عمارہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ میں احد کے دن لڑی، مجھے اس میں بارہ زخم آئے، ایک زخم گہرا گردن میں تھا ،اسی پر مرہم لگایا، اتنے میں منادی نے کہا کہ حمرا ء لاسد میں جمع ہو جائیں۔ میں نے پٹی باندھ کر خون بند کر دیا اور وہاں چلی گئی۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ کے دور حکومت میں مرتدین سے جہاد میں اُم عمارہ رضی الله عنہا شریک ہوئی تھیں، جب مسیلمہ کذاب کو الله نے قتل کرا دیا، تب واپس لوٹیں، انہیں بارہ زخم لگے تھے، یہ زخم صرف اسی ایک جہاد کے تھے، نسیبہبنت کعب کو جب اپنے بیٹے حبیب بن زید کے قتل کی اطلاع ملی، جو مسیلمہ کے خلاف لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے تو انہوں نے قسم کھائی کہ یا مسیلمہ کو ماروں گی یا شہید ہو جاؤں گی تو وہ خالد بن ولید کے ساتھ یمامہ گئیں، مسیلمہ مارا گیا اور اس جہاد میں ان کا ایک بازو کٹ گیا تھا۔

حضرت خنساء رضی الله عنہا کا عشق رسول اور اپنے بیٹوں کو شہادت کی وصیت کرنا
قادسیہ میں لوگ جمع ہونے لگے تو حضرت خنساء بنت عمرو نے اپنے چاروں بیٹوں کو بلایا، ان کو وصیت کی اور کہا اے میرے بیٹو! تم اسلام کے فرماں بردار بن گئے اور ہجرت کرکے پسندیدہ بن گئے۔ الله کی قسم! تمہارے گھر سے باہر نہیں گئی اور نہ میں تم پر جبر کرتی ہوں اور نہ تمہارے ہلاک ہونے کی طمع کرتی ہوں، الله کی قسم! جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تم ایک ہی باپ کے بیٹے ہو، جس طرح ایک ماں کے ہو، میں نے تمہارے باپ کی خیانت نہیں کی اور نہ تمہارے ماموں کو رسوا کیا او رنہ تمہارے نسب کو تبدیل کیا اورنہ تمہاری عزت کو خراب کیا اور نہ ہی تمہاری عزت کو بے آبرو کیا ہے۔ اور تم جانتے ہو کہ الله نے کافروں کے ساتھ لڑنے میں کتنا بڑا اجر لکھا ہے اور یاد رکھو! آخرت کا گھر دنیا کے گھر سے بہتر ہے۔ جب صبح ہو جائے تو اپنے دشمنوں سے لڑائی کے لیے جاؤ ،الله سے اپنے دشمنوں پر مدد مانگو اور جب تم دیکھو کہ جنگ بھڑک چکی ہے اور جنگ کی آگ اپنے اندر داخل ہونے والوں پر لپکے تو اس کے شعلوں میں گھس جاؤ اور ان کے آگے اگلے محاذ پر جاکر لڑو، غنیمت اور سلامتی کے ساتھ کام یاب ہو جاؤ، کام یابی اور عزت کے ساتھ جنت میں ہمیشہ والا گھر بنالو۔

تو ان کے بیٹے ماں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے نکلے او رجب صبح ہوئی تو وہ میدان جنگ میں کود پڑے اور ایک ایک کرکے شہید ہوتے گئے، جب ان کے قتل کی خبر حضرت خنساء رضی الله عنہا کو ملی تو انہوں نے کہا الحمدلله! تمام تعریفیں الله کے لیے ہیں جس نے ان کی شہادت کے ذریعے ہمیں عزت دی اورمیں امید کرتی ہوں کہ الله مجھے اپنی رحمت میں ان کے ساتھ اکھٹا کر دیں گے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی الله عنہ ان کے چاروں بیٹوں کا وظیفہ ان کی والدہ کو دیتے تھے، ہر ایک کا وظیفہ دو سو درہم تھا۔(خواتین اسلام کا مثالی کردار، ص:175)

Flag Counter