Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

11 - 16
اسلام میں کردار وعمل کی اہمیت

مولانا اسرارالحق قاسمی
	
اسلام میں اعمالِ صالحہ کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ قرآن میں متعددد مقامات پر ایمان کے ساتھ اعمال صالحہ کاذکر آیا ہے ۔مثال کے طورپر ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ”قسم ہے زمانے کی! یقینا انسان گھاٹے میں ہے، سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور اعمال صالحہ کیے․․․․“(العصر)اس آیت میں صاف طورپر بتایا گیا ہے کہ اگر انسان ایمان والا اور نیک عمل کرنے والا نہیں ہے تو پھر وہ نقصان میں ہے ، خواہ وہ اعلی تعلیم کا حامل ہو یا ناخواندہ ہو، خواہ صحت مند وتوانا ہو یا بیمار وناتواں، خواہ وہ صاحبِ ثروت ہو یا غریب ومفلوک الحال، جب تک انسان مومن اور اعمال صالحہ کا حامل نہیں ہوگا ، اس وقت تک وہ قرآن کے مطابق کام یاب وبامراد قرار نہیں دیاجاسکتا۔سورہٴ التین میں بھی اس مفہوم کو بیان کیا گیا ہے ۔ فرمایا گیا: ”تحقیق کہ ہم نے انسان کو بہترین سانچہ میں پیدا کیا ،پھر اس کو نیچوں سے نیچے پھینک دیا،مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کیے۔“(التین)مذکورہ د ونوں سورتوں میں اللہ تعالیٰ نے یہ بات قسم کھاکر بیان کی ہے۔ سورہ العصر میں زمانے کی قسم کی کھائی ہے اور سورہ تین میں زیتون اور انجیر ، طورسینا اور پرامن شہر کی قسم کھائی ہے۔ یعنی تاکید کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ انسان اپنی خوبیوں کے باوجود اس وقت تک نقصان میں ہے جب تک کہ وہ ایمان نہیں لاتا اور عمل صالح نہیں کرتا۔

یہ اللہ کا بڑا احسان ہے کہ اس نے انسان کو بے شمار اوصاف سے مزین کیا ہے اور اسے باعزت وباوقار بنایا ہے ، نیز اسے بلند رتبے پر فائز کیا ہے ۔جیسا کہ ایک جگہ باری تعالی نے ارشاد فرمایا: ”اور ہم نے بنی آدم (انسان) کو مکرم بنایا ہے۔“

حضرت آدم علیہ السلام کی تخلیق سے قبل انسان کے مرتبے ومنصب کی خبر دیتے ہوئے اللہ تعالی نے ارشادفرمایا: ” اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں زمین میں خلیفہ بنانے والا ہوں۔“(بقرہ) اول الذکر آیت میں اللہ تعالی نے بتایا کہ انسان عزت وتکریم کے لائق ہے ،اس کا احترام کیا جانا چاہیے۔ موٴ خرالذکر آیت میں باری تعالیٰ نے انسان کو خلیفہ فی الارض قرار دے کر بیان کردیا کہ روئے زمین پر وہ خلافت ونیابت الہی کے مقام ومنصب پر فائز کیا گیا۔ ان تمام آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان مشرف بھی ہے ، بلند مرتبے کا حامل بھی اور ان گنت اوصاف سے آراستہ وپیراستہ بھی،لیکن تمام اوصاف ومحاسن کے باوجود اس کے لیے کام یابی کا وعدہ اسی وقت ہے جب وہ صاحبِ ایمان بھی ہو اور باعمل بھی ۔ایک جگہ اور قرآن میں ارشاد فرمایا گیا ہے ”تم ہی سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو“یعنی اگر انسان ایمان والا نہیں ہے تو وہ تمام خوبیوں اور صلاحیتوں کے باوجود کامیابی وسربلندی سے دور رہے گا بلکہ آخرت میں اسے سخت مصائب وعذاب کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ جیساکہ قرآن مجید کی متعدد آیات اس پر دلالت کرتی ہیں۔ ایمان سے مراد حقیقی معنوں میں ایمان والا ہوناہے کہ وہ ایمان کے تقاضوں کو پورا کرتا ہو۔ایمان کے تقاضے اسی وقت پورے ہوسکتے ہیں جب کہ ایمان والے کا عمل قرآن وحدیث کے مطابق ہو۔ قرآن میں جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، مومن ان کو بجالاتاہو اور جن چیزوں سے رکنے کاحکم دیا ہے ان سے رک جاتا ہو۔ایمان کا مطلب پوری طرح سے اپنے آپ کو اللہ کے حضورمیں پیش کردینا ہے اور اپنی زندگی کو اسی کے احکام کے آگے زیر کردیناہے۔یہ نہیں کہ ایک طرف مومن ہونے کا دعوی کیا جائے اور دوسری طرف اپنے قول یا عمل سے احکامِ الہی کی خلاف ورزی کی جائے ۔

مسلمان آج کام یابی سے بہت دور نظر آتے ہیں ۔ زبوں حالی وپسماندگی نے ان کا محاصرہ کیا ہوا ہے۔ ناکامی صرف معاشی واقتصادی سطح پر ہی نہیں، بلکہ تعلیمی سطح پر بھی ہے، معاشرتی سطح پر بھی ہے ، تہذیبی ،فکری اور سیاسی سطح پر بھی ۔ غرض کہ زندگی کے اکثر شعبوں میں وہ کمزور تر ہیں۔فی زمانہ مسلمانوں کی درگت کی وجہ اس کے علاوہ اور کیا ہوسکتی ہے کہ ان کی آبادی کا بڑا حصہ ایمان اور اعمال صالحہ کے اعتبار سے کم زور ہے۔ ایمان کا مطلب ہے کہ اللہ پر کامل یقین ہو ، اس کی وحدانیت کو دل سے مانا جائے ، وہی مالک حقیقی ہے ، وہی خالق کائنات ہے، اسی کے اشارے پر کائنات کانظام چلتا ہے، اسی کی مرضی سے سب کچھ ہوتا ہے ۔ پھر اللہ کے علاوہ کے آگے جھک جانا ، اللہ کے علاوہ دوسرے لوگوں سے اپنی مرادیں چاہنا کیوں؟ کیا موجودہ زمانے کے لوگوں کا ایمان واقعی اتنا مستحکم ہے اور وہ قرآن کی تعلیمات اور احادیث نبوی کے مطابق زندگی بسر کررہے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں کی زندگی بڑی غفلت میں گزررہی ہے ۔ وقت کا تقاضا تو یہ تھا کہ وہ اس غفلت کی چادر کو چیر کر بیدار ہوجاتے ، مگر وہ اور زیادہ مدہوش ہوتے جارہے ہیں۔

قرآنی تعلیمات کو دیکھیں اور مسلمان اپنے اعمال کو دیکھیں ۔ قرآن میں فرمایا گیا کہ ”زناکے قریب مت جاؤ ، یہ فحش عمل اور بری راہ ہے “یہ باری تعالیٰ کا واضح حکم ہے اور زنا کے قریب بھی جانے کی ممانعت ہے مگر کیا مسلمان اس فحش عمل سے اجتناب کررہے ہیں۔ آج پوری دنیا میں زناکاری وفحاشی نے اپنے پاؤں پھیلادیے ہیں ۔ نہ صرف مغربی ممالک میں، بلکہ مشرقی ممالک میں بھی زناکاری وبدکاری زوروں پر ہے۔صرف اس قبیح عمل میں غیر مسلم اقوام ہی شامل نہیں ، بلکہ مسلمان بھی شریک نظر آرہے ہیں۔ اسلام میں زناکاری وفحاشی سے بچنے کے لیے پورا ایک نظام پیش کیا گیا تھا،لیکن مسلمان اس کے مطابق زندگی گزارتے نظر نہیں آتے۔ اسلام نے جھوٹ بولنے سے منع کیا ہے اور سچ بولنے کی تاکید کی ہے، بلکہ سچوں کی صحبت اختیار کرنے کا حکم بھی دیاگیا ہے۔ارشادِ باری ہے: ”صادقین کے ساتھ رہو“ کیا مسلمان سچائی پر عمل پیرا ہیں ؟کیا وہ جھوٹ نہیں بولتے ؟ کیاوہ وعدوں کو توڑ کرقرآن وحدیث کی صریح خلاف ورزی نہیں کرتے؟ کیا عہدشکنی میں وہ کسی اور ملت سے پیچھے ہیں؟ سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں کی بڑی تعداد آج کذب گوئی میں گلے گلے تک ڈوبی ہوئی ہے ۔بہت سے تو ایسے ہیں کہ جھوٹ کو معیوب ہی نہیں سمجھتے ، اس لیے وہ نہ صرف ان مقامات پر جھوٹ بولتے نظر آتے ہیں جہاں ان کا مفاد وابستہ ہوتا ہے، بلکہ ان جگہوں پر بھی سفید جھوٹ بول دیتے ہیں جہا ں ان کا کوئی فائدہ بھی نہیں ہوتا ۔

قرآن وحدیث کی تعلیمات سے معلوم ہوتا ہے کہ رزّاق صرف اللہ ہے۔اللہ نے ہر ایک کا رزق مقدّر کردیا ہے ۔جس کے لیے جتنا رزق لکھ دیا گیا ہے، اس کو اتنا ہی ملے گا، اس سے زیادہ کسی بھی صورت میں نہیں ملے گا۔ اللہ نے رزق کو اتنا وسیع کیا ہو اہے کہ وہ ہر شخص کورزق دیتا ہے ، حتی کہ ان جانوروں کو بھی رزق عطاکرتا ہے کہ جو عقل وخرد نہیں رکھتے ، جن کے پاس کوئی معاشی پلاننگ نہیں ہوتی ،جوڈیوٹی کے طور طریق بھی نہیں جانتے۔بہت سے ایسے کیڑے مکوڑے جو پہاڑوں، غاروں، سمندروں، دریاؤں اور پتھروں میں رہتے ہیں اللہ انہیں بھی رزق پہنچاتا ہے ۔ پھر جس مخلوق کو باری تعالی نے بے شمار اوصاف کے ساتھ پیدا کیا ، شعور وعقل سے نوازا، بہترین سانچے میں تخلیق کی ، اہم رتبہ عطاکیا ، مکرم وباعزت بنایا ،اسے کیوں نہ رزق سے نوازے گا؟!!لیکن انسان اللہ کے وعدے اور اس کے نظامِ رزق سے غالباً غیر مطمئن ہوکر صرف اپنی منصوبہ بندیوں ،اپنی کوششوں پر توکل کررہا ہے اوردولت کے لیے بہت سے ایسے کام بھی زیر عمل لارہا ہے جو شرعی اعتبار سے غلط ہیں، بلکہ حرام ہیں ۔ یعنی انسان کو حرام طریقے سے کمانے میں کوئی قباحت محسوس نہیں ہورہی ہے۔اس معاملے میں برادرانِ اسلام بھی پیچھے نظر نہیں آتے۔بلاشک وشبہ ایسے مسلمان بھی ہیں جواکلِ حلال کے لیے کوشاں ہیں اور اس بات کا اہتمام کرتے ہیں کہ وہ ناجائز اور حرام مال سے بچ جائیں، لیکن مشاہدات کے مطابق ایسے مسلمانوں کی تعداد کم نظر آرہی ہے۔اسلام میں اکل حلال کو بہت اہم بتایا گیا ہے کہ اس پر اعمال اور دعاؤں کی قبولیت کا دارومدار ہوتا ہے۔ لیکن مسلمانوں کو اس کی پروا کم ہی نظر آرہی ہے۔مال ودولت کمانے میں بے احتیاطی دنیادار مسلمانوں کے یہاں ہی نظر نہیں آرہی، بلکہ دین دار مسلمانوں کے یہاں بھی اس طرح کی بے احتیاطی خوب دیکھنے کو مل رہی ہے، بلکہ حقائق تو اس بات کی طرف بھی اشارہ کررہے ہیں کہ بعض دین داری کے علم بردار مذہب فروشی اور ملت فروشی کا دھندہ بھی چلا رہے ہیں۔ دین کے نام پر دولت اکٹھی کرنا ان کا نصب العین ہے، ملت کے نام کو اپنی مقبولیت کی سیڑھی بنانا اور پرتعیش زندگی کے لیے گویادین وملت کا فروخت کرنا ان کے یہاں کوئی قبیح بات نہیں ہے۔جب معاملہ یہاں تک ہو تو پھر مسلمان کیسے کام یاب ہوں گے ؟ اور خستہ حالی ونامرادی ان کو کیوں نہ گھیر لے گی؟ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمان ایمان اور اعمالِ صالحہ دونوں اعتبار سے مستحکم ہوں ، اپنے کرداروعمل کو اسلام کے مطابق بنانے پر زوردیں اور اللہ کی ذات پر کامل یقین وبھروسہ رکھیں ۔

Flag Counter