Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

2 - 16
حلال اور حرام میں احتیاط

محترم ابوجمانہ
	
عصر حاضر میں حرام کا اتنا شیوع ہوچکا ہے اور حرام نے اتنی عمومیت اختیار کر لی ہے کہ حلال و حرام میں تمیز کرنا مشکل اور کٹھن ہوتا جارہا ہے،لیکن اہل ایمان کے پاس اسلام و شریعت اور قرآن وسنت کی شکل میں ایک ایسا پیمانہ موجود ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہوکر نہ صرف حرام سے اجتناب کرسکتے ہیں، بلکہ شبہات سے بچتے ہوئے حلال کو اختیار کرسکتے ہیں، چناں چہ امام بخاری اور امام مسلم رحمہما اللہ نے صحیحین میں حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت نقل کی ہے: عن الشعبي عن النعمان بن بشیر رضي اللّٰہ عنہ قال: سمعتہ یقول: سمعت رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم یقول: وأہوی النعمان بإصبعیہ إلی أذنیہ: ”إن الحلال بیّن، وإن الحرام بیّن، وبینہما مشتبہات لا یعلمہن کثیر من الناس، فمن اتقی الشبہات استبرأ لدینہ وعرضہ، ومن وقع في الشبہات وقع في الحرام؛ کالراعي یرعی حول الحمی یوشک أن یرتع فیہ، ألا وإن لکل ملک حمی، ألا وإن حمی اللّٰہ محارمہ، ألا وإن فی الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وہي القلب“․( صحیح البخاري، کتاب الإیمان، باب فضل من استبرأ لدینہ:1/20، رقم الحدیث: 52، وفي باب الحلال بیّن والحرام بیّن وبینہما مشبّہات: 3/35، رقم الحدیث: 2051․ وفي صحیح مسلم، باب أخذ الحلال وترک الشبہات: 3/ 1219، رقم الحدیث: 1599)․ترجمہ: امام شعبی رحمہ اللہ نے حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے اپنے دونوں کانوں کی طرف انگلیوں سے اشارہ کر کے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ” بلا شبہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، جو کوئی شبہ کی ان چیزوں سے بچتا ہے وہ اپنے دین و آبرو کو بچا لیتا ہے اور جو ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا(سو وہ حرام میں پڑ گیا) اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو (شاہی ) چراہ گاہ کے اردگرد چراتا ہو، قریب ہے کہ وہ جانوروں کو اس میں داخل کردے، سنو! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراہ گاہ ہوتی ہے (جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی) اللہ کی حمی اس کے محارم، یعنی اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ سنو! جسم کے اندر ایک ٹکڑا ہے جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا جسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، سنو ! وہ ٹکڑا دل ہے“۔

حدیث کی عظمت و شان
اس حدیث مبارکہ کی عظمت و شان پر علمائے اسلام کا اتفاق واجماع ہے، کیوں کہ یہ ان چند احادیث میں سے ایک ہے جن پر اسلام کا مدار ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اسلام کا مدار تین احادیث پر ہے، الأعمال بالنیات․ یعنی اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔ من أحدث في أمرنا ما لیس منہ فہو رد․ یعنی جس نے دین میں کسی نئی چیز کو ایجاد کیا تو وہ مردود ہے۔ الحلال بین والحرام بین․ یعنی حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے۔ (طرح التثریب للعراقي:2/6․ جامع العلوم والحکم لابن رجب الحنبلي: 1/9․ فیض القدیر للمناوي: 5/83)․حدیث کی مشہور کتاب ”سنن أبی داود “ کے مصنف امام ابو داوٴد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پانچ لاکھ احادیث لکھی ہیں، ان میں اپنی کتاب میں چار ہزار آٹھ سو منتخب کر کے جمع کی ہیں، انسان کے اپنے دین کے لیے چار حدیثیں کافی ہیں، الأعمال بالنیات․ من حسن إسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ․ یعنی آدمی کے حسنِ اسلام میں سے ہے کہ وہ لایعنی چیزوں کو ترک کردے۔ لا یکون الموٴمن موٴمنا حتی یرضی لأخیہ مایرضاہ لنفسہ․ یعنی موٴمن اس وقت تک کامل ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے (مسلمان) بھائی کے لیے وہی پسند کرے نہ جو اپنے لیے پسند کرتاہے۔ إن الحلال بیّن وإن الحرام بیّن، وبینہما أمور مشتبہات ․ یعنی بلا شبہ حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے، ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں۔ (طرح التثریب للعراقي: 1/50․شرح النووي علی صحیح مسلم: 11/27․ عمدة القاري:1/57․ شرح أبي داود للعیني:1/17․ جامع الأصول للجزري: 1/190 )

علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے ” لا یکون الموٴمن موٴمنا حتی یرضی لأخیہ مایرضاہ لنفسہ“ کی جگہ ” ازہد في الدنیایحبک اللّٰہ، وازہد فیما في أیدي الناس یحبک الناس“ والی حدیث نقل کی ہے۔ (التمہید لما في الموطأ من المعاني والأسانید: 9/201)․

امام نووی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھانے پینے اور لباس وغیرہ کی صلاح و بہتری پر تنبیہ فرمائی ہے کہ ان چیزوں کا حلال ہونا ضروری ہے، حلال کو پہچاننے کا راستہ بتلادیا ہے اور مشتبہات کو ترک کرنے کا حکم دیا ہے، اس لیے کہ اس سے آدمی اپنے دین اور آبرو کی حفاظت کرسکتا ہے، اس کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال کے ذریعہ سمجھایا اور آخر میں انتہائی اہم بات، یعنی دل کے احوال کی نگرانی کے بارے میں تنبیہ فرمائی ہے۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم: 11/27)․

اس حدیث مبارکہ سے یہ بھی معلوم ہوا کہ چیزیں تین طرح کی ہیں۔

پہلی قسم: ایک وہ جو حلال محض ہیں، وہ واضح ہیں کہ لوگ ان چیزوں کا حلال ہونا جانتے ہیں، جیسے: گندم کی روٹی، پھل فروٹ، گھی، شہد، دودھ اور حلال جانوروں کا گوشت وغیرہ، اسی طرح گفتگو میں، دیکھنے میں اور چھونے وغیرہ امور میں حلال کو واضح جانتے ہیں۔

دوسری قسم: اسی طرح حرام محض بھی واضح ہے اور لوگ اسے جانتے ہیں، جیسے: شراب، خنزیر، مردار، پیشاب، بہتا خون، زنا، جھوٹ، غیبت، چغل خوری اور اجنبی و نامحرم عورتوں کو دیکھنا وغیرہ۔

تیسری قسم: تیسری قسم کی چیزیں وہ ہیں کہ جن کا حلال اور حرام ہونا واضح نہیں، امام نووی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ مشتبہات سے مراد وہ امور ہیں جن کی حلت و حرمت متعارض ہوں، اس میں ورع اور تقوی یہ ہے کہ ایسے امور اور چیزوں سے مکمل اجتناب کیا جائے، ان کا رتکاب بالکل بھی نہ کیا جائے۔ (شرح النووي علی صحیح مسلم: 11/27،28)․

آج بہت ساری چیزوں پر ”حلال“ اور ”اسلامی “ کا لیبل لگا کر مارکیٹ کی زینت بنایا جارہا ہے، کھانے پینے، لباس اور خرید و فروخت وغیرہ کئی چیزوں اور معاملات وغیرہ جو کہ حرام ہیں یا کم از کم ان کی حلت مشکوک ہے ان پر اسی طرح کے لیبل کوچسپاں کیا جارہا ہے، بلکہ بعض یورپی ممالک سے غیر شرعی مذبوحہ کا گوشت ڈبوں میں پیک کر کے درآمد کیا جاتا ہے اور ان پر بھی ”حلال “ کا مونو گرام چسپاں کیا گیا ہوتا ہے، حالاں کہ اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔کئی مالیاتی اداروں کی اسلامائیزیشن کی جاچکی ہے، اس بارے میں جمہور اہل علم و فتوی یہ واضح کرچکے ہیں کہ ان سے معاملات جائز نہیں، بعض حضرات نے اگرچہ مالیاتی اداروں کی اسلامائزیشن کو فقہی جواز کا سہارا دیا ہے، لیکن احتیاط اور تقوی کا تقاضا یہ ہے کہ ان سے بھی اجتناب برتا جائے۔

دین اور آبرو کی حفاظت
امور مشتبہ سے دور رہنے اور خود کو بچانے میں نہ صرف دین کی حفاظت ہے، بلکہ عزت و آبرو بھی محفوظ ہوجاتے ہیں، سابق میں مذکور حدیث میں یہ بھی ارشاد ہوا ہے: ” فمن اتقی الشبہات استبرأ لدینہ وعرضہ “․ یعنی جو کوئی شبہ کی چیزوں سے بچتا ہے وہ اپنے دین اور آبرو کو بچا لیتا ہے۔ انسانی زندگی میں پیش آنے والے نت نئے حوادث اگر مشتبہات کی قبیل میں سے ہوں تو ان سے اجتناب کرلینا چاہیے، اس میں آدمی کا دینی فائدہ بھی ہے اور دنیاوی بھی، کیوں کہ مشتبہ چیزوں میں پڑنے سے لوگ برا بھلا کہتے ہیں،جس سے انسان کی عزت متاثر ہوتی ہے، یہ اس کی دنیا کا نقصان ہے۔ دینی نقصان یہ ہے کہ ان مشتبہ چیزوں میں پڑنے والا آگے چل کر شیطان کے ورغلانے سے خالص حرام چیزوں میں مبتلا ہوسکتا ہے، لہذا مشتبہات سے اجتناب کی وجہ سے لوگوں کی باتوں اور طعنوں سے بھی بچیں گے اور شیطان کے ورغلانے اور اغوا کاری سے بھی حفاظت ہوگی۔

مثال کی وضاحت
حدیث مبارکہ میں امور مشتبہ کو چرواہے کی مثال سے سمجھایا گیا ہے، چناں چہ ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ” ومن وقع في الشبہات وقع في الحرام، کالراعي یرعی حول الحمی یوشک أن یرتع فیہ“․ یعنی اور جو ان شبہ کی چیزوں میں پڑ گیا(سو وہ حرام میں پڑ گیا) اس کی مثال اس چرواہے کی ہے جو (شاہی ) چراہ گاہ کے اردگرد چراتا ہو، قریب ہے کہ وہ جانوروں کو اس میں داخل کردے۔ مطلب یہ ہوا کہ اگر چرواہے کی طرح انسان اپنے نفس کو مشتبہات کے معاملہ میں آزاد چھوڑ دے اور احتیاط نہ کرے تو جیسے چرواہا بے احتیاطی کی وجہ سے جانور بادشاہ کی چراہ گاہ میں داخل کر کے سزا کا مستحق بن جاتا ہے ایسے ہی انسان بھی مشتبہات میں بے احتیاطی کی وجہ سے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کا ارتکاب کرکے اللہ کی پکڑ اور عقاب کی زد میں آجاتاہے، اللہ کے محارم سے بچنے کا راستہ امور مشتبہ سے اجتناب اور دوری میں پنہاں ہے، بلکہ علماء نے یہ لکھا ہے کہ بکثرت مکروہات کا ارتکاب آدمی کو حرام میں مبتلا کردینے کا باعث بنتا ہے ، علامہ ابن المنیّر اسکندرانی رحمہ اللہ نے اپنے شیخ ابو القاسم قبّاری رحمہ اللہ کے مناقب میں نقل کیا ہے کہ وہ فرماتے تھے: ”المکروہ عقبة بین العبد والحرام، فمن استکثر من المکروہ تطرق إلی الحرام، والمباح عقبة بینہ وبین المکروہ، فمن استکثر منہ تطرق إلی المکروہ“․ ( فتح الباري: 1/127)․یعنی مکروہ بندہ اور حرام کے درمیان ایک گھاٹی ہے جو شخص بکثرت مکروہات کا ارتکاب کرے گا وہ حرام میں مبتلا ہوگا، اسی طرح مباح بھی بندہ اور مکروہ کے درمیان ایک گھاٹی ہے جو کثرت سے مباحات کو اختیار کرے گا وہ مکروہات تک ضرور پہنچے گا۔

حمی اللہ
دنیا کا دستور ہے کہ ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراہ گاہ ہوا کرتی ہے، اللہ کا حمی اس کے محارم ہیں، جیسا کہ حدیث میں اس کو بیان کیا گیا ہے : ” ألا وإن لکل ملک حمی، ألا وإن حمی اللّٰہ محارمہ“․ یعنی سنو! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراہ گاہ ہوتی ہے (جس میں کسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں ہوتی) اللہ کی حمی اس کے محارم، یعنی اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے جن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے وہ اللہ تعالی کی حمی ہے، جیسا کہ ناحق قتل، زنا، چوری، بہتان، شراب ، جھوٹ، غیبت، چغلی اور باطل طریقہ سے لوگوں کامال کھانا وغیرہ تمام معاصی” حمی اللہ“ ہے، جس طرح بادشاہ کے چراہ گاہ میں داخل ہونے سے پکڑ ہوتی ہے اور سزا ملتی ہے، تو جو محارم اللہ کے قریب جائے گا اور ان کا ارتکاب کرے گاتو وہ موجب سزا ہوگا۔(شرح النووي علی صحیح مسلم: 11/28)․

تمام اعمال کی درستی کا مدار
جس طرح طبعی اعتبار سے انسانی جسم اور زندگی کا مدار دل ہے، قلب کی حرکت بند ہوجائے توآدمی مرجاتا ہے اور اس کا سارا نظام زندگی ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح روحانی اعتبار سے تمام اعمال کی اصلاح اور درستی کا مدار قلب یعنی دل کی درستگی اور اصلاح پر موقوف ہے، اس بات کو حدیث میں ان الفاظ کے ساتھ بیان کیا گیا:” ألا وإن فی الجسد مضغة إذا صلحت صلح الجسد کلہ، وإذا فسدت فسد الجسد کلہ، ألا وہي القلب“․سنو! جسم کے اندر ایک ٹکڑا ہے جب وہ سنور جاتا ہے تو سارا جسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے، سنو ! وہ ٹکڑا دل ہے۔ ان الفاظ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات پر تنبیہ فرمائی ہے کہ اگر امور مشتبہ اور محارم سے بچنا چاہتے ہو تودل کی اصلاح کرو،حقیقت یہ ہے کہ اگر دل میں خوف خدا موج زن ہوجائے تو پھر مشتبہات سے اجتناب اور احتراز مشکل نہ رہے گا، اگر خدا نخواستہ دل میں فساد آجائے اور خشیت الہی سے عاری ہو تو پھر جسم کے ہر ہر عضو سے صادر ہونے والا عمل فاسد ہو گا اور وہ اللہ کی نافرمانی اور بغاوت کی طرف لے جانے والا ہوگا۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ جب یہ امت خاص طور سے خواص واہل علم حرام سے اجتناب کیا کرتے تھے تو اس وقت ان کے جانور بھی حرام آمدنی سے فراہم کیا گیا چارا کھانا پسند نہیں کرتے تھے اور یہ آج بھی ممکن ہے ،اس کے لیے حرام سے بچنے کے ساتھ ساتھ مشتبہات سے بھی احتراز کرنا ہوگا، آدمی یہ تب ہی کرسکتا ہے جب اس کا دل صحیح اور صالح ہو، دل کی اصلاح کے لیے اہل دل، یعنی اللہ والوں اور صادقین و صالحین کی صحبت کو اختیار کرنا پڑے گا۔

اللہ تعالی امت مسلمہ کو پھر سے ایمان اور اعمال صالحہ والی زندگی نصیب فرمائے، محارم سے اجتناب اور مشتبہات سے احتراز کے ساتھ دل کی اصلاح کے لیے صادقین و صالحین کی صحبت اختیار کرنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین ثم آمین۔

Flag Counter