Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالقعدہ 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 16
دعا اور ا س کے آداب

مفتی شفیق الدین الصلاح، تیمرگرہ
	
دعا اللہ تعالیٰ کے خزانوں سے لینے کا اہم ذریعہ اور سبب ہے ، دعا میں وہ طاقت اور قوت ہے کہ جو لکھی ہوئی تقدیر کو تبدیل کر دیتی ہے ، آنے والے مصائب کو دور کر دیتی ہے ، مشکل حالات و بلیّات میں پھنسنے سے بچاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے قرب وتعلق کو بڑھاتی ہے ،دعا اتنی مہتم بالشّان اور لا بدی امر ہے کہ خدا تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے بارہا اس کے مانگنے کی تاکید فرمائی ہے اور نہ مانگنے والوں پر سخت نکیر، ناراضگی اور غضب کا اظہار فرمایا ہے۔

چناں چہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :﴿ واِذَا سًَألکَ عِبادِی عَنِّی فَاِنِّی قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَةَالدَّاعِ اِذا دعَانِی ﴾(سورةالبقرة :186)
ترجمہ:اور جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے پوچھیں تو میں اُن کے قریب ہوں ،دعا مانگنے والے کی دعا کو قبول کرتا ہوں جب وہ مجھ سے مانگتا ہے ۔

﴿اُدْعُوْنِی اَسْتَجِبْ لَکُمْ ﴾․ ترجمہ ”: مجھ سے دعا مانگو ، میں تمہاری دعا قبول کروں گا ۔“
اور رسول مقبول صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے :
1..”الدُّعاء سِلاحُ المُوٴمِن، و عِمَادُ الدِّین، و نُورُ السَّمٰوٰت و الأرض“․ترجمہ :” دعا موٴمن کا ہتھیار،دین کا ستون اور آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے ۔ “

2..”لا تَعْجِزُوْا فِی الدُّعاء ِ فأِنَّہ لا یھْلِکُ معَ الدُّعاءِ أحَدٌ․“ (ابنِ حبان ) ترجمہ :” دعا میں عاجز مت بنو ، اس لیے کہ دعا کے ساتھ کوئی شخص ہلاک نہیں ہوسکتا۔ “

3..الدُعاء یَنْفَعُ مِمَّا نَزَلَ و مِمّا لَمْ یَنْزِلْ ، فَعَلَیْکُمْ عِبَادَ اللہ بالدُّعاء “ (ترمذی ) ترجمہ: ”دعا ہر آئی ہوئی اور آنے والی مصیبت کے ازالے میں نافع ہوتی ہے ، پس اے اللہ کے بندو! دعا کو لازم پکڑو ۔“

اور ایک جگہ تو آپ نے مکمل تصریح فرمائی ہے کہ : ” مَنْ لَمْ یَسْئلِ اللہَ یغْضِبْ عَلَیہ․ “ (ابن ماجہ )
ترجمہ : جو شخص اللہ سے نہیں مانگتا اللہ اس سے ناراض ہوجاتا ہے۔ ان تمام فرامین سے معلوم ہوا کہ دعااہم عبادت اور مہتم بالشان امرہے ،ہر قسم کی پریشانیوں،مصیبتوں اور آفتوں سے بچانے کااور اللہ کے قرب اور نزدیکیت کو بڑھانے کا ذریعہ ہے اوردنیا و عقبٰی میں سر خ روئی اور سر بلندی کا سبب ہے ۔

لیکن آج المیہ یہ ہے کہ مسلمان دعا کی حقیقت سے واقف نہیں ، رسمی رواجی طور پر چند رٹے ہوئے الفاظ دہرا کر منھ پر ہاتھ پھیر لیتے ہیں ، اور اسی کو دعا سمجھتے ہیں ، حالاں کہ دعا ایک حقیقت رکھتی ہے ، کچھ شرائط و ضوابط چاہتی ہے اور چند آداب کا تقاضا کرتی ہے ، اگر اُن آداب کی رعایت کی جائے اور دعا کرتے وقت ان کو عملی جامہ پہنایا جائے، تب دعا عند اللہ مقبول ہوگی اور اپنا اثر دکھلائے گی اور اگر اُن آداب کی رعایت کیے بغیر دعا مانگی جائے ،تو اس میں جان نہ ہوگی اور اس کے ذریعے حاجات پوری نہ ہوں گی ۔ امام احمد نے کتاب زھد میں بنی اسرائیل کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کی ایک جماعت ایک مشکل مصیبت میں گرفتار ہوگئی ، اس کے ازالہ کے لیے وہ بارگاہِ ایزدی میں گڑگڑانے کے لیے ایک میدان میں نکل کھڑے ہوئے اور ربِّ ذوالجلال کی بارگاہ میں آہ و زاری کرنے لگے ، تو اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ نجس بدنوں کے ساتھ آکر میرے سامنے دعا کے لیے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں؟ حالاں کہ تم نے نا حق خون سے اپنے ہاتھوں کو گندہ کیا ہوا ہے اور اپنے گھروں کو حرام چیزوں سے بھر لیا ہے ، اس کے ہوتے ہوئے تو میرا غضب تم لوگوں کے لیے سخت ہوچکا ہے، اب تم مجھ سے دور ہی ہوتے جاؤ گے ۔ کہ ان کی دعا شرائط و آداب سے خالی تھی، اس لیے اللہ کی جانب سے نہ سننے کی اور زجر وتوبیخ کی خبر دی گئی ، اسی طرح نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی دعا کے آداب کی رعایت کو لازم قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ” اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا کو قبول نہیں فرماتا۔ لہٰذا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ دعا کی حقیقت کو سمجھے اور اس کے آداب سے واقفیت حاصل کرے اور ان آداب کی رعایت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں گڑگڑائے ، ذیل میں ان آداب کا تذکرہ کیا جاتا ہے ۔

1..اخلاص اور یقین کا ہونا…دعا گہرے اخلاص اور پاکیزہ نیت کے ساتھ مانگی جائے ، اپنی دعاوٴں کو نمود و نمائش ، ریا کاری اور شرک سے بے آمیز اورپاک رکھی جائے اور پورے یقین اور وثوق کے ساتھ مانگی جائے کہ وہ ہمارے حالات سے پورا واقف اور انتہائی مہربان ہے ، وہ اپنے بندوں کی پکار کو سنتا ہے اور ان کی دعاوٴں کو قبول بھی فرماتا ہے ۔

سورة بقرہ میں ہے : ترجمہ : ”آپ انہیں بتا دیجیے کہ میں اُن سے قریب ہوں ، پکارنے والا جب مجھے پکارتا ہے تو میں اُس کی دعا کو قبول کرتا ہوں“ (186 )

2..خشوع و خضوع کا التزام کرنا …دعا کرتے وقت خشوع وخضوع کو پیدا کرنا اور بتکلف اپنے اوپر منت سماجت اور رونے کی کیفیت کو ظاہر کرنا نہایت ضروری ہے ، چناں چہ سیدنا ابو بکرصدیق کا فرمان ہے کہ اگر تمہیں رونا نہ آئے تو رونے جیسی شکل ہی بنا لو ، رونے والی دعا رنگ لاتی ہے ، غزوہ بدر کے موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم کے پوری رات رونے نے کیا اثر دکھلایا کہ چھوٹی سی جماعت نے اُن کفار کو شکست فاش دے دی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی ساری رات آہ و زاری نے دشمن کے بحری بیڑے کو غرق کردیا ، دعائیں آج ان صفات سے خالی ہیں ۔

3..دعا کرتے وقت ظاہر اور باطن کو پاک رکھنا… دعا مانگتے وقت ظاہری آداب ،طہارت ،پاکیزگی کا پورا پورا خیال رکھنا چاہیے اور قلب کو بھی ناپاک جذبات ، گندے خیالات اور بے ہودہ معتقدات سے پاک رکھنا چاہیے۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
ترجمہ : ”بے شک خدا کے محبوب بندے وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرتے ہیں اور نہایت پاک صاف رہتے ہیں۔“ (البقرة 222 )

4..دعا دل سے مانگنی چاہیے … نبی صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا کو قبول نہیں کرتا۔ (مسلم )
شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے کیا خوب کہا ہے :
        بات جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے
        پرَ نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
اس لیے دعا کرتے وقت ہمہ تن متوجہ ہو کر دعا مانگنی چاہیے۔

5..دعا میں تنگ نظری نہ کرنی چاہیے … دعا میں تنگ نظری اور خود غرضی سے بھی بچنا چاہیے اور خدا کی عام رحمت کو محدود سمجھنے کی غلطی کر کے اس کے فیض و بخشش کو اپنے لیے خاص کرنے کی دعا نہ کرنی چاہیے ۔

حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ مسجدِ نبوی میں ایک بدو آیا ، اس نے نماز پڑھی ، پھر دعا مانگی اور کہا اے خدا! مجھ پر اور محمد صلی الله علیہ وسلم پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما ۔ تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ” تو نے خدا کی وسیع رحمت کو تنگ کردیا۔ “ ( بخاری )

6..مسنون دعاوٴں کا اہتمام کرنا چاہیے … جو دعائیں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنی مبارک زبان سے مانگی ہیں ان کا اہتمام کرنا چاہییکہ ان ادعیہ نے قبولیت کے دروازے دیکھ رکھے ہیں اور عربی میں مانگنے کو ترجیح دی جائے ، علامہ شامی نے اس پربڑی تاکید فرمائی ہے۔

7..دعا کے ساتھ اسباب بھی اختیارکرنے چاہیے … صرف دعا پر اکتفا کرنا کہ اے اللہ! مجھے گھر بیٹھے بیٹھے رزق دے دے اور پورا دن گھر میں پڑا رہے ، کوئی سبب اختیار نہ کرے ، تو ایسی دعا کہاں قبول ہوگی ؟

حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم غزوہ خندق میں بھوک کی وجہ سے نڈھال ہورہے تھے ، لیکن سبب اختیار کرنے ( کچھ سالن اور روٹی ملنے ) کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے برکت کی دعامانگی، تب دعا پر اثرا ت مر تب ہوگئے ۔

8..دعا برابر مانگتے رہنا چاہیے … خدا کے حضور اپنی عاجزی ، احتیاج اور عبدیت کا اظہار خود ایک عبادت ہے، خدا نے خود دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے کہ بندہ جب مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی سنتا ہوں ۔ اس لیے دعا مانگنے سے کبھی نہ اکتائیے اور اس چکر میں کبھی نہ پڑیئے کہ دعاسے تقدیربدلے گی یا نہیں ، تقدیر کا بدلنا نہ بدلنا ، دعا کا قبول کرنا یا نہ کرنا خدا کا کام ہے ، جو علیم و حکیم ہے ۔ بندے کا کام بہر حال یہ ہے کہ وہ ایک فقیر اور محتاج کی طرح برابر اس سے دعا کرتا رہے اور لمحہ بھر کے لیے بھی خو د کو بے نیاز نہ سمجھے ، نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ ”سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو دعا کرنے میں عاجز ہو “ ( طبرانی )

اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کافرمان ہے کہ : ” جو شخص خدا سے دعا نہیں کرتا خدا اس پر غضب ناک ہو جاتا ہے۔ “ ( ترمذی)

9..دعامیں بہ تکلف قافیہ بندی سے پرہیز کرنا چاہیے… دعا سادہ انداز میں مانگنی چاہیے ،بہ تکلف قافیہ بندی ، گانے اورسر ہلانے سے پرہیز کرنا چاہیے ، حضور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور ایسی کیفیت کو نا پسند فرمایا ہے ۔

دعا کا طریقہ
باوضو ہو کر قبلہ رخ بیٹھا جائے ، خدا کو حاضر وناظر تصور کر لیا جائے ، دونوں ہاتھ اپنے سینے کے برابر اٹھائے جائیں ، ہتھیلیاں آسمان کی طرف رکھی جائیں اور عاجزی کو اپنے اوپرمسلط کر کے نظریں نیچے رکھی جائیں ، پھر خدا تعالیٰ کی حمد و تعریف کی جائے اور درود شریف پڑھ کر پہلے اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگی جائے ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی تمام حاجات رکھی جائیں ، اور پھر اپنے اقربا ، رشتہ داروں اور تمام مسلمانوں کے لیے خوب دعا مانگی جائے ، اخیر میں درود شریف پڑھ کر منہ پر ہاتھ پھیر لیا جائے اوریقین کرتے ہوئے اٹھے کہ یہ دعا اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ضرور قبول ہوچکی ہوگی۔

قبولیتِ دعا کے خاص اوقات وحالات
خدا سے ہر آن دعا مانگتے رہنا چاہیے کہ وہ اپنے بندوں کی فریاد سے کبھی نہیں اکتاتا ، البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ خاص اوقات اور مخصوص حالات ایسے ہیں،جن میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں ، لہذا ان مخصوص حالات میں دعاؤ ں کا خصوصی اہتمام کرنا چاہیے ۔ ذیل میں ان کا تذکرہ کیا جاتا ہے :
٭…رات کے پچھلے حصہ میں۔ ٭…شبِ قدر میں ۔ ٭…عرفہ کے دن، یعنی 9 ذی الحجہ کو۔٭…جمعہ کے مخصوص ساعات میں (جو خطبہ کے شروع ہونے سے نماز کے ختم تک یا اس دن نماز عصر کے بعد سے نماز مغرب تک )  ٭…اذان کے وقت ۔٭… میدانِ جہاد میں صف بندی کے وقت۔ ٭…اذان اور تکبیر کے درمیانی وقفہ میں۔ ٭…رمضان کے مبارک ایام میں، بالخصوص افطارکے وقت ۔ ٭… فرض نمازوں کے بعد ۔ ٭…سجدے کی حالت میں ۔ ٭… شدید مصیبت اور انتہائی رنج و غم کی حالت میں ۔ ٭… کسی دینی مجلس میں ۔ ٭…قرآن پاک کے ختم کے وقت ۔ ٭…بارش برسنے کے وقت ۔

ان تمام اوقا ت وحالات میں دعاکی قبولیت کی تصدیق احادیث مبارکہ میں آئی ہوئی ہے ۔

اللہ تعالیٰ ہم سب کو صحیح آداب کے ساتھ دعا مانگنے کی توفیق عطا فرمائیں ۔ آمین !

Flag Counter