Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1437ھ

ہ رسالہ

9 - 17
عبادات کی یکسوئی کا مہینہ رمضان

مفتی محمد مجیب لرحمن دیودرگی
	
اہلِ اسلام پر رب ذو الجلال کی جانب سے ہونے والی بے شمار نعمتوں میں ایک اہم نعمت ماہِ رمضان کی عطا ہے، سال میں ایک دفعہ ایسا موقع بھی عنایت فرمادیتے ہیں، جس میں بندہ اپنے سیاہ اعمال کو سفید ی سے بدل سکتا ہے، اپنے گناہوں کے انبار کو نیکیوں کے ڈھیرسے تبدیل کرسکتا ہے، سال بھر ہونے والی عملی کوتاہیوں کا ازالہ ایک ماہ بھر عبادت وانابت سے کرسکتا ہے، جب یہ اتنی بڑی نعمت ہے اور رب کریم نے ہمیں اس سے سرفراز بھی فرمایا ہے اور زرین موقع بھی عنایت فرمادیا تو اس کا ضیاع بھی جرم عظیم ہے؛ بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے اس سلسلے میں سخت وعید وارد ہوئی کہ جو ماہِ رمضان پائے اور اپنی مغفرت نہ کروائے اس کے لیے ہلاکت کی بد دعا کی گئی ہے، لہٰذا جو بھی موقع ملے اسے غنیمت جانتے ہوئے اس کی قدر کرلینی چاہیے اور اپنے آپ کو اعمال میں لگانے سے نہ اکتانا چاہیے، یہ رمضان کا مہینہ ہے، عبادات میں تھکانے کے لیے ہے، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا معمول رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی جو نقل کیا گیا ہے وہ حیرت انگیز ہے، جب رمضان کا مہینہ داخل ہوتاتو آپ صلی الله علیہ وسلم تہہ بند سختی سے باندھ لیتے، علامہ مناوی فرماتے ہیں کہ اس سے مرادہ یہ ہے کہ عبادت میں بہت ہی زیادہ کوشش کرتے۔ (فیض القدیر5/168)

حضرت عائشہ فرماتی ہیں جب رمضان کا مہینہ آتا تو آپ صلی الله علیہ وسلم کے چہرے مبارک کا رنگ بدل جاتا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی نمازوں میں اضافہ ہوتا اور دعاوٴں میں بہت ہی زیادہ گریہ وزاری فرماتے۔ (الدر المنثور) رنگ بدل جانے کی توجیہ کرتے ہوئے محدثین نے لکھا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اس بات کا خوف کرتے تھے کہ کہ بندگی کا جو حق ہے وہ حق ادا نہ ہوسکے گا اس خوف سے رنگ میں تبدیلی ہوجاتی اور اس میں امت کے لیے تعلیم بھی ہے کہ وہ بھی اس مہینہ کی عظمت وقدر کو پہچانے، جب کسی کی قدر کو پہچانی جائیگی تو اس کا خوف بھی بڑھ جائے گا۔(منتہی السوٴل علی وسائل الوصول إلی الشمائل 3/180)

حضرت عمر سے مروی ہے کہ وہ رمضان کی آمد کے ساتھ کہتے ”مرحبا بمطہرنا “ اے ہم کو پاک کرنے والے! تیرا آنا مبارک ہو،۔رمضان مکمل خیر ہی ہے، دن کا روزہ، رات کا قیام ،اس مہینہ میں خرچ کرنا تو گویا اللہ کے راستے میں خرچ کرنا ہے۔ (تنبیہ الغافلین 1/321)

اسلام میں تو آپ صلی الله علیہ وسلم اور صحابہ رمضان کا بہت ہی زیادہ اہتمام فرمایا کرتے ہی تھے، اس سے آگے بڑھ کر زمانہٴ جاہلیت میں بھی رمضان کا احترام کیا جاتا، حضرت مطلب جو عبد المطلب کے چچا تھے، ان کا قریش میں بڑا مقام ومرتبہ تھا، رمضان کی آمد کے ساتھ ہی غارِ حرا میں چلے جاتے، تاکہ لوگوں سے علیٰحدہ رہیں، اللہ کے جلال، اللہ کی عظمت میں غور وفکر کریں اور مسکینوں کو کھلایا کرتے تھے اور کعبة اللہ کازیادہ طواف کرتے تھے۔(المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام7/75)

ابو بکر شبلی کے بارے میں مذکور ہے کہ رمضان کی آمد کے ساتھ ہی یہ عبادت میں بہت ہی زیادہ کوشش کرتے اور یہ کہتے یہ مہینہ ایسا ہے جس کو میرے رب نے عظمت والا قرار دیا ہے، یہ زیادہ حق دار اس بات کا ہے کہ میں اس کی عظمت کروں۔ (تاریخ دمشق 66/53)

حضرت حنینی کے سلسلہ میں منقول ہے کہ جب رمضان آتا تو وہ حدیث کے سننے کو چھوڑ دیتے، ان سے امام مالک نے پوچھا تم نے سماع حدیث کو کیوں چھوڑ دیا؟ اگر اس میں کوئی ناپسندیدہ بات ہوتی تو وہ رمضان کے علاوہ میں بھی ہوتی، حضرت حنینی نے جواب دیا: میں یہ چاہتا ہوں کہ اس مہینہ کو عبادت کے لیے فارغ کرلوں۔ (موٴطا مالک 1/192)

ابو العباس احمد بن سالم بن عمر بن عبد اللہ بن جہران یہ بڑے عبادت گذار تھے، بہت زیادہ تلاوت کا اہتمام کرتے، خلوت نشین رہتے، جب رمضان کا مہینہ آتاتو لوگوں سے بالکلیہ علیٰحدہ ہوجاتے، کسی بھی دنیاوی چیز کے سلسلہ میں گفت گو نہ فرماتے، ان کے زماے میں ان جیسا کوئی نہ تھا۔ (العقود اللولویة فی تاریخ الدولة الرسولیة2/64)

ابو الحسن بن نصر آلوسی جب رمضان آجاتا تو کسی سے بات ہی نہیں کرتے تھے، نہ اہل وعیال سے، نہ ہی کسی اور سے ،جب کوئی ضرورت ہوتی تو لکھ کر دیتے ،وہ دنیا سے بے رغبت تھے، ان کی اہلیہ، جو خود نیک صالح تھیں، ان کا بیان ہے کہ رمضان میں ہر رات میں ایک قرآن ختم فرماتے، عبادت میں ٹھہرنے کی وجہ سے ان کے پائے مبارک پر ورم آجاتا۔ (ترتیب المدارک وتقریب المسالک 1/382)

رمضان المبارک میں عبادات کے اجر میں اضافہ کیا جاتا ہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : ”عمرة في رمضان تعدل حجة“ کہ رمضان میں کیے جانے والے عمرہ کا ثواب حج کے برابر ملتا ہے اسی ثواب کو مد نظر رکھتے ہوئے ابو نصر البذنیمی، جو کہ نابینا تھے ،اس کے باوجو درمضان المبارک میں تیس عمرے کرتے تھے، کوئی ان کا ہاتھ پکڑ کرلے جاتا تھا۔(طبقات الشافعیہ 4/109)

ان کی عبادت انتھائی قابلِ ر شک ہے ، نابینا ہیں، معذور ہیں، اس کے باوجود بہانہ بنا کر گھر میں بیٹھے رہنا پسند نہیں کررہے ہیں، بلکہ عبادت کے لیے یکسوئی کو ترجیح دے رہے ہیں، وہ بھی ایسی عبادت کو ترجیح دے رہے ہیں جس میں تعب ہے، مشقت ہے، تکلیف ہے،جس کا نابینا فرد کے لیے تنہا ادا کرنا بھی آسان نہیں، ان کے اس عمل سے ہم صحت مندوں کو سبق سیکھنے کی ضرورت ہے کہ تھوڑی سی عبادت کے لیے بھی ہماری طبیعتیں آمادہ نہیں، سید علوی بن محمد کے سلسلہ میں آتا ہے کہ وہ بہت ہی بڑے عابد تھے، جب رمضان کا چاند دکھائی دیتا تو وہ عبادت کے لیے یکسوہوجاتے، جمعہ کی نماز، تراویح اور دیگر جماعت کی نماز ہی کے لیے گھر سے نکلا کرتے۔(خلاصة الاثر فی اعیان القرن الحادی عشر 2/191)

مالک بن دینار نے عجیب وغریب واقعہ نقل کیا ہے کہ بصرہ والوں نے رمضان کے قریب ایک باندی خریدی، بصرہ والے کھانے پینے کی چیزیں خریدنے لگے ،جس کو باندی نے دیکھ لیا، اس نے سوال کیا کہ یہ کیا کررہے ہو؟ لوگوں نے جواب دیا رمضان کے لیے یہ سب خرید رہے ہیں، باندی نے کہا، میں اُویسی قوم کی رہنے والی ہوں جن کے پاس پورا زمانہ ہی رمضان ہے، قسم بخدا میں تم لوگوں کے پاس نہیں رہوں گی۔(المجالسة وجواہر العلم 5/146)

الغرض رمضان کی آمد ہم سے اس بات کاتقاضا کررہی ہے کہ ہم دیگر مصروفیات کو کم کریں، رمضان کو عبادت کے لیے خاص کرلیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل اور بزرگان دین کا عمل اس بات کا شدت سے ہم سے مطالبہ کررہا ہے کہ ہم خارجی مصروفیات سے بالکلیہ احتراز کریں، زیادہ سے زیادہ وقت مسجد میں، عبادت میں ،تلاوت میں، ذکر میں اوردینی امور میں لگائیں، بلکہ بعضے اکابر تو کئی ایک دینی امور تر ک کر کے صرف اورصرف عبادت اور تلاوت ہی کے لیے رمضان المباک کو خاص کرلیتے، کئی اکابر کا سابق میں تذکر ہ کیا گیا کہ وہ رمضان میں بے کار باتیں یا لغویات میں مصروف رہنا تو کجا، بلکہ وہ ضروری بات کرنے تک کو نا پسند کرتے تھے اور کوئی سخت ضرورت ہوتی تو لکھ کر بات کرتے، اس طرح کے واقعات کا اگر چہ اس زمانہ میں اتباع دشوار ہے، پھر بھی یہ واقعات ہمیں عمل پر ابھارنے کا ذریعہ بنتے ہیں، ان واقعات کو پڑھ کر بندوں کو عبادات کی ترغیب ہوتی ہے، اسی لیے ان واقعات کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔اکابر اسلاف کے اس طرزِ عمل کو پڑھ کر ہمارے اندرون میں عمل کی چنگاری بھڑکنی چاہیے، عمل کی خواہش پیدا ہونی چاہیے، تاکہ جو رمضان المبارک کے فضائل احادیث میں ذکر کیے گئے ہیں ان کے کچھ تو مستحق ہم بھی ٹھہریں، اللہ تعالیٰ اس رمضان کو ہمارے لیے عبادتوں والا، اطاعتوں والا رمضان بنادے ،آمین!

Flag Counter