Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1437ھ

ہ رسالہ

4 - 17
ایصال ثواب کی حقیقت

استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
	
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

﴿ وَإِن کُنتُمْ عَلَی سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُواْ کَاتِباً فَرِہَانٌ مَّقْبُوضَةٌ فَإِنْ أَمِنَ بَعْضُکُم بَعْضاً فَلْیُؤَدِّ الَّذِیْ اؤْتُمِنَ أَمَانَتَہُ وَلْیَتَّقِ اللّہَ رَبَّہُ وَلاَ تَکْتُمُواْ الشَّہَادَةَ وَمَن یَکْتُمْہَا فَإِنَّہُ آثِمٌ قَلْبُہُ وَاللّہُ بِمَا تَعْمَلُونَ عَلِیْمٌ ، لِّلَّہِ ما فِیْ السَّمَاواتِ وَمَا فِیْ الأَرْضِ وَإِن تُبْدُواْ مَا فِیْ أَنفُسِکُمْ أَوْ تُخْفُوہُ یُحَاسِبْکُم بِہِ اللّہُ فَیَغْفِرُ لِمَن یَشَاء ُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاء ُ وَاللّہُ عَلَی کُلِّ شَیْْء ٍ قَدِیْر﴾․(سورہ بقرہ، آیت:283-84)
او راگر تم سفر میں ہو اور نہ پاؤ کوئی لکھنے والا تو گروی ہاتھ میں رکھنی چاہیے، پھر اگر اعتبار کرے ایک دوسرے کا تو چاہیے کہ پورا کرے وہ شخص کہ جس پر اعتبار کیا اپنی امانت کو اور ڈرتا رہے الله سے، جو رب ہے اس کا او رمت چھپاؤ گواہی کو اور جو شخص اس کو چھپاوے تو بے شک گناہ گار ہے دل اس کا اور الله تمہارے کاموں کو خوب جانتا ہے الله ہی کا ہے جو کچھ کہ آسمانوں اور زمین میں ہے اور اگر ظاہر کروگے اپنے جی کی بات یا چھپاؤ گے اس کو، حساب لے گا اس کا تم سے الله، پھر بخشے گا جس کو چاہے اور عذاب کرے گا جس کو چاہے اور الله ہر چیز پر قادر ہے

تفسیر: سچی گواہی دینے کا حکم
اب سفر میں لین دین کے بارے میں فرماتے ہیں کہ اگر تم سفر میں لین دین کرنے لگو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ تو اعتماد کا طریقہ یہ ہے کہ قرض لینے والا، قرض دینے والے کے پاس کچھ گروی رکھو ادے، اس طرح کرنا سفر کے علاوہ بھی جائز ہے، لیکن سفر کا تذکرہ اس اہتمام کے ساتھ اس لیے کیاکہ سفر میں گواہ اور کاتب بآسانی میسر نہیں ہوتے، لہٰذا وہاں اعتماد کا یہی طریقہ ہے، لیکن اگر صاحب حق کو مقروض پر اعتماد ہو تو رہن کی ضرورت نہیں، البتہ مقروض کو چاہیے اپنے ذمے جو مال ہے صحیح وقت پر اداکر دے اور خدا کا خوف دل میں رکھے، جان بوجھ کر حق نہ دبائے، پھر فرمایا کہ گواہی کو مت چھپاؤ۔

اس کی تفصیل یہ ہے کہ:
1..جھوٹی شہادت دینا اور سچی شہادت کو چھپائے رکھنا دونوں حرام ہیں، کیوں کہ دونوں کی وجہ سے صاحبِ حق، حق سے محروم ہو جاتا ہے۔
2..اگر صاحب حق کو معلوم نہ ہو کہ یہ شخص میرے حق میں گواہی دے سکتا ہے تو اس پرواجب ہے کہ صاحب حق کو اس بارے میں مطلع کر دے کہ میں تمہارے حق کا گواہ ہوں ۔ پھر اگر صاحب حق اسے گواہی کے لیے طلب کرے تو اس پر شہادت واجب ہے اور اگر صاحب حق باوجود علم کے خود اسے گواہی کے لیے طلب نہ کرے تو اس پر لازم نہیں کہ خود جاکر اس کے لیے گواہی دے۔
3..گواہی دینا چوں کہ واجب ہے لہٰذا اس پر اجرت لینا حرام ہے، ہاں! عدالت تک آنے جانے کا خرچہ وغیرہ ضرور دیا جائے گا۔

کن صورتوں میں گواہی واجب ہے؟
1..حقوق الله میں بلا مطالبہ بھی گواہی دینا واجب ہے، ان میں طلاق، وقف، رمضان، عید الفطر، عیدالاضحی کا چاند، ظہار، ایلاء وغیرہ کے معاملات آتے ہیں۔
2..اگر شہادت کے لیے طلب کیا گیا ہو تب گواہی دینا واجب ہے، اگر اس واقعہ کی تحقیق اسی گواہی پر موقوف ہو تو گواہی نہ دینے سے گناہ گار ہو گا۔
3..وہ جرائم جن پر حدود واجب ہوتی ہیں، مثلاً زنا، شراب نوشی، اتہام، ان میں مسلمان کے ساتھ پردہ پوشی کرنا گواہی دینے سے بہتر ہے۔ (بدائع الصنائع8/283، ردالمحتار4/370، البحرالرائق،7/59)

﴿لِّلَّہِ ما فِیْ السَّمَاواتِ وَمَا فِیْ الأَرْض…﴾گزشتہ آیت میں دل کے گناہ کا تذکرہ تھا کہ جس گواہی کو وہ چھپا رہا ہے اور صرف زبان ہی کی برائی نہیں، بلکہ اس کے دل کی بھی برائی ہے، کیوں کہ اس کا منشا تو نیت قلب ہی ہے، لہٰذا اس آیت میں بھی اعمال قلبیہ کا تذکرہ ہے۔

پس آسمانوں اور زمینوں میں جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب صرف الله ہی کی ملکیت میں ہے، لہٰذا اسے اختیار ہے کہ وہ جو چاہے قانون اپنی ملکیت کے لیے منظورکر لے، لہٰذا تمہارے لیے یہ قانون ہے کہ تمہارے دلوں میں جو کچھ اختیاری عقائد اور نیات ہیں، انہیں تم اپنے اعضاء وجوارح کے ذریعے ظاہر کرو یا پوشیدہ رکھو ،الله تعالیٰ ان سب کا محاسبہ کرے گا۔پھر ان میں سے کفر یہ عقائد پر کوئی معافی نہیں، اس کے علاوہ جسے الله تعالیٰ چاہے اپنی رحمت سے معاف کر دے اور جسے چاہے عذاب دے دے۔اعضاء وجوارح، زبان اور دل تینوں کے افعال دو قسم پر ہیں۔
1..اختیاریہ 2.. غیر اختیاریہ۔

اعضا ء وزبان کے افعال اختیاریہ تو واضح ہیں ،البتہ دل کا فعل اختیاری وہ عقیدہ، نظریہ یا خیال ہے، جسے دل نے جان بوجھ کر اپنایا ہے اور وہ اس پر بدستور قائم ہے۔

اعضاء وجوارح کی غیر اختیاری حرکت، جیسے ہاتھ کے رعشہ کی حرکت ہے اورزبان کا غیر اختیاری فعل یہ ہے کہ کہنا کچھ چاہتا تھا، مگر زبان پھسل گئی اور منہ سے کچھ اور لفظ نکل گیا۔

اسی طرح دل کا غیر اختیاری فعل یہ ہے کہ دل میں کوئی وسوسہ پیدا ہوا یا کوئی خیال پیش آیا، لیکن وہ شخص اس پر رکانہیں یا اسے اپنایا نہیں۔

پس آیت میں دل کے امور اختیار یہ کے متعلق مؤاخذہ کا تذکرہ ہے، مثلاً دل میں یہ خیال بسا لیناکہ” میں تمام لوگوں سے اچھا ہوں “یا اس طرح کے دیگر معاصی جواختیاری ہوں ان پر مؤاخذہ ہو گا۔

روح المعانی میں ہے کہ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضي الله عنهم کو بہت سخت معلوم ہوئی، پس آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کہ کہنے لگے یا رسول الله! ہم پہلے ایسے افعال کے مکلف تھے جن کی استطاعت رکھتے تھے ،یعنی نماز ، روزہ، جہاد اور صدقہ اور اب الله جلّ شانہ نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی ہے، جس کی استطاعت ہم نہیں رکھتے، اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اہل کتاب کی طرح ”سَمِعْنَا وَعَصَیْْنَا“ کہنا چاہتے ہو؟ بلکہ یہ کہو ”سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْْکَ الْمَصِیْر“ جب صحابہ یہ آیت پڑھنے لگے اور اس بات پر عہد اطاعت کرتے ہوئے ان کی زبان لڑ کھڑانے لگی تو الله تعالیٰ نے اگلی آیات نازل فرمائیں۔(روح المعانی، البقرة:284)

یہ اس لیے ہوا کہ آیت کے ظاہری الفاظ میں امور قلبیہ اختیار یہ کی قید صراحتاً ذکر نہیں کی گئی ہے، لہٰذا اس کے ظاہری الفاظ سے صحابہ کرام ث یہ سمجھے کہ امور قلبیہ غیر اختیار یہ میں بھی مواخذہ ہو گا، اس لیے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ ہمارے اختیار میں نہیں، لیکن اس وقت آپ پر بھی حالت خشیت کا غلبہ اس قدر تھا کہ آپ کی نظر آیت کے صرف ظاہر پر رہی اور غلبہٴ خشیت کی بنا پر صحابہ کو ”سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا“ کی تلقین فرمائی اور اس کی تفصیل وحی پر ہی چھوڑ دی۔

اس طرح کی ایک مثال اس وقت بھی ملتی ہے جب آپ عبدالله بن ابی (رئیس المنافقین) کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے آگے بڑھے تو سیدنا عمر بن خطاب  نے فرمایا کہ یا رسول الله! یہ منافق ہے اس پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے آیت ﴿اسْتَغْفِرْ لَہُمْ أَوْ لاَ تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَہُمْ سَبْعِیْنَ مَرَّةً فَلَن یَغْفِرَ اللّہُ لَہُمْ﴾پڑھ کر فرمایا کہ مجھے دو چیزوں، یعنی استغفار کرنے اور نہ کرنے کے درمیان اختیار دیا گیا ہے، میں نے ایک جانب کو اختیار کر لیا۔ (صحیح البخاری، رقم:1269ط: دارالشعب القاھرة)یہاں بھی غایة رحمت کے غلبہ کی وجہ سے آپ نے الفاظ کی ظاہری تخییر پر نظر فرمائی۔

پس بالکل اسی طرح یہاں غایت خشیت کے غلبہ کی وجہ سے آپ نے بھی الفاظ کے ظاہری معنی ہی کی طرف نظر فرمائی ۔ اس پر اگلی آیات میں اس کی تشریح کر دی گئی کہ دل کے افعال غیر اختیاریہ پر کوئی پکڑ نہیں۔

سلف صالحین کی اصطلاح میں اسے بھی نسخ کہا جاتا ہے، اس لیے متقدمین نے اس آیت کو منسوخ لکھا ہے اور ما بعد کی آیتوں کو ناسخ شمار کیا ہے۔(ملخص از بیان القرآن، البقرة:284)

﴿آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَیْْہِ مِن رَّبِّہِ وَالْمُؤْمِنُونَ کُلٌّ آمَنَ بِاللّہِ وَمَلآئِکَتِہِ وَکُتُبِہِ وَرُسُلِہِ لاَ نُفَرِّقُ بَیْْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِہِ وَقَالُواْ سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَکَ رَبَّنَا وَإِلَیْْکَ الْمَصِیْرُ، لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَا لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْْہَا مَا اکْتَسَبَتْ رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِیْنَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْْنَا إِصْراً کَمَا حَمَلْتَہُ عَلَی الَّذِیْنَ مِن قَبْلِنَا رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَةَ لَنَا بِہِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلاَنَا فَانصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکَافِرِیْنَ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:285-86)
مان لیا رسول نے جو کچھ اترا اس پر اس کے رب کی طرف سے اور مسلمانوں نے بھی، سب نے مانا الله کو اور اس کے فرشتوں کو اور اس کی کتابوں کو اور اس کے رسولوں کو، کہتے ہیں کہ ہم جدا نہیں کرتے کسی کو اس کے پیغمبروں میں سے او رکہہ اٹھے کہ ہم نے سنا اور قبول کیا، تیری بخشش چاہتے ہیں اے ہمارے رب اور تیری ہی طرف لوٹ کر جانا ہےالله تکلیف نہیں دیتا کسی کو مگر جس قدر اس کی گنجائش ہے، اسی کو ملتا ہے جو اس نے کمایا اور اسی پر پڑتا ہے جو اس نے کیا ، اے رب ہمارے!نہ پکڑ ہم کو اگر ہم بھولیں یا چوکیں اے رب ہمارے اور نہ رکھ ہم پر بوجھ بھاری جیسا رکھا تھا ہم سے اگلے لوگوں پر ، اے رب ہمارے اور نہ اٹھوا ہم سے وہ بوجھ کہ جس کی ہم کو طاقت نہیں اور درگذر کر ہم سے اوربخش ہم کو اور رحم کر ہم پر ، تو ہی ہمارا رب ہے، مدد کر ہماری کافروں پر

ربط: یہ دونوں آیات گذشتہ آیت کی تشریح ہیں۔

تفسیر: اہل ایمان کی مناجات
پہلی آیت میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور مؤمنین کی مدح کی گئی ہے اور دوسری آیت میں تشریح ہے۔﴿آمَنَ الرَّسُولُ…﴾ یعنی رسول اور تمام مؤمنین اپنے رب کی طرف سے اتاری چیزوں پر ایمان لاتے ہیں۔اب اس ایمان مجمل کی تفصیل فرماتے ہیں کہ سب کے سب ایمان لاتے ہیں الله کی توحید اور اس کی صفات پر اور الله کے ملائکہ پر کہ ان کا وجود حق ہے اور الله کی نازل کردہ کتب پر کہ وہ سب کی سب الله کی طرف سے حق ہیں اور الله کے رسولوں پر کہ انہیں الله نے پیغام ہدایت کے ساتھ دنیا میں بھیجا اور ہم ان کے ماننے والے ہیں۔

اور ان رسولوں کے درمیان کسی طرح کافرق نہیں کرتے کہ بعض کی نبوّت پر ایمان لائیں اور بعض کا انکار کریں، بلکہ سب کو مانتے ہیں، اورکہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم نے سنا اور مان لیا اے رب! ہمیں بخش دے ،تیری طرف ہمیں لوٹنا ہے۔

﴿لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً…﴾
اس آیت کریمہ میں گذشتہ آیت کی تشریح ہے کہ الله تعالیٰ کسی شخص پر کوئی چیزواجب یا حرام نہیں کرتا، مگر اس کی وسعت کے مطابق، لہٰذا دل کے غیر اختیاری فعل وسوسے وغیرہ پر کوئی مواخذہ نہیں اور اسی طرح زبان اور اعضا وجوارح کے غیر اختیاری افعال پر بھی کوئی مؤاخذہ نہیں ہے۔

ایصال ثواب
﴿ لَہَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْْہَا مَا اکْتَسَبَت﴾ منکرین ایصال ثواب اس آیت کو بڑے شد ومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کے لیے فائدہ مند یا نقصان دہ صرف وہی عمل ہوتا ہے جو اس نے خود کیاہو، لہٰذا کسی دوسرے شخص کی طرف سے انسان کے مرنے کے بعد کچھ قرآن پڑھ کر یا نیک اعمال کرکے بخش دینے سے اس کا ثواب مردے کو نہیں پہنچتا، اسی طرح سورہٴ نجم میں ہے﴿وَاَن لیْسَ لِلِانْسَانِ اِلّا مَاسَعٰی﴾ (النجم:39) (یعنی انسان کے لیے صرف وہی ہے جو اس نے کمایا) اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ کسی دوسرے کی طرف سے ایصال ثواب بے کار ہے، کیوں کہ مردے کو صرف اپنے کیے ہوئے اعمال کا بدلہ ملتا ہے، دوسروں کے اعمال کا نہیں۔

اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد اس کے جاری کیے گئے برے طریقے یا اچھے طریقے کا بدلہ یا دوسروں کی طرف سے بخشے گئے نیک اعمال کا ثواب ملتا رہتا ہے۔

منکرین ایصال ثواب کے استدلال کا جواب یہ ہے کہ آیت میں اتنا عموم نہیں جو بظاہر سمجھ میں آتا ہے، بلکہ آیت میں کچھ تخصیص ان احادیث کی وجہ سے آگئی ہے جن میں ایصال ثواب کا ثبوت ملتا ہے، احادیث ہم بعد میں ذکر کریں گے، پہلے آیت کا مطلب سمجھ لیں۔

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو کسی عمل بلا واسطہ کا یا کسی بھی عمل کا ابتدائی ثواب وعقاب صرف اسی صورت میں ملتا ہے جب وہ عمل اس نے خود کیا ہو، ہاں! اگر مرنے کے بعد بھی انسان کسی نیک عمل کا واسطہ بنارہا تو اسے اس کا ثواب ضرور ملے گا، جیسے اپنی زندگی میں مسجد بنائی اور اس کے مرنے کے بعد لوگ اس میں نماز باجماعت پڑھتے ہیں تو چوں کہ یہ مُردہ ان کے نیک عمل کا واسطہ (بذریعہ تعمیر مسجد) بنا ہے، لہٰذا ان کا اجر اس کو بھی ملے گا، اسی طرح اگر کوئی شخص شراب خانہ بنا کر مر جاتا ہے اور اس کے مرنے کے بعد جب تک یہ شراب خانہ چلتا رہے گا اس کا گناہ اس کو بھی ملے گا، کیوں کہ یہ مردہ دوسرے لوگوں کے لیے شراب نوشی کا واسطہ بنا ہے۔

اسی طرح احادیث سے اس کا بھی ثبوت ملتا ہے کہ اگر کوئی شخص ہدیةً ایصال ثواب کرے تو اس کا ثواب بھی مردے کو پہنچتا ہے، غور کیا جائے تو یہ بھی درحقیقت اسی کے عمل کا ثواب ہوتا ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں ان لوگوں پر کوئی احسان یا ان کے ساتھ کوئی بھلائی کی تھی جس کے بدلے میں وہ لوگ اسے اپنے نیک اعمال کا ثواب ہدیہ کرتے ہیں ۔پس اس اعتبار سے یہ سب اسی کے اپنے اعمال ہوئے جن کا بدلہ اسے دیا جارہا ہے ۔

ایصال ثواب کے بارے میں احادیث مبارکہ:
حضرت عمرو بن شعیب اپنے والد اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں:
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص جب نفلی صدقہ کرے تو اس میں حرج نہیں کہ اس کو اپنے والدین کے ( ثواب پہنچانے کے لیے ) کر دے تو والدین کو اس کا پوا پورا ثواب پہنچ جائے گا اور صدقہ کرنے والے کے اجر ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔(المعجم الاوسط للطبرانی، رقم الحدیث:7726)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایصال ثواب کرنا نہ صرف ثابت ہے، بلکہ ایصال ثواب کرنے والے اور جس کے لیے کیا جائے دونوں کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہوتی ،بلکہ دونوں کو نیک عمل کا پورا پورا اجر ملتا ہے ۔

حضرت ابوہریرہ رضي الله عنه سے مروی ہے :
ایک شخص نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میرے والد کا انتقال ہو گیا ہے اور (اپنے ترکہ میں ) انہوں نے مال چھوڑا ہے اور کوئی وصیت نہیں کی ہے تو (اگر) میں ان کی جانب سے صدقہ کر دوں تو کیا میرا یہ صدقہ ان کے لیے ( ان کی خطاؤں کا) کفارہ بنے گا؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جی ہاں۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث:3081)

حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہما سے مروی ہے کہ میرے دادا عاص بن وائل نے زمانہٴ جاہلیت میں سو اونٹوں کی قربانی کی منت مانی تھی ( جسے وہ پورانہ کرسکے اور انہوں نے اپنے دو بیٹے ہشام اور عمرو چھوڑے) تو ان کی طرف سے ان کے ایک بیٹے ہشام بن عاص نے اپنے حصے کے پچاس اونٹ ذبح کیے ، پھر ( میرے والد) عمرو بن عاص ص نے (اسلام لانے کے بعد) حضور صلی الله علیہ وسلم سے اس بارے میں سوال کیا (سوال کا مقصد یہ تھا کہ اگر میں ان کی طرف سے بقیہ پچاس اونٹ ذبح کروں تو کیا اس سے ان کو کچھ نفع ہو گا یا نہیں ؟) حضور صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا:

”اما ابوک فلو اقر بالتوحید صمت وتصدقت عنہ نفعہ ذالک“․(مسند احمد، مسند عبدالله بن عمرو، رقم الحدیث:6417) ترجمہ: اگر تمہارے باپ ”لا الہ الا الله“ کے ماننے والے ہوتے (عین مومن ہوتے اور) پھر تم ان کی طرف سے روزے رکھتے اور صدقہ کرتے تو اس سے ان کو نفع ہوتا۔

اس حدیث سے واضح معلوم ہوتا ہے کہ ایصال ثواب کافر یا مشرک کے لیے نہیں ہو سکتا، البتہ مسلمان کے لیے کیا جائے تو اس کے لیے نفع بخش ہو سکتا ہے۔

حضرت عبدالله بن عباس رضی الله عنہما سے مروی ہے :
سعد بن عبادة کی غیر موجودگی میں ان کی والدہ کی وفات ہو گئی تو وہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میری والدہ کا انتقال ہو گیا ہے اور میں اس موقع پر موجود نہ تھا تو کیا اگر میں ان کی طرف سے کچھ صدقہ کروں تو یہ ان کے لیے فائدہ کا باعث ہو گا ( یعنی کیاان کو اس کا ثواب پہنچے گا)؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب میں فرمایا: جی ہاں، حضرت سعد نے عرض کیا کہ میں آپ کو گواہ کرتا ہوں کہ میرا مخراف (نامی) باغ میری والدہ پر صدقہ ہے۔

یہ چند احادیث ہم نے ذکر کی ہیں، ان کی اسناد وصحیح یا حسن کے درجہ میں ہے، ان کے علاوہ بھی کئی ایک احادیث اس بارے میں دلالت کرتی ہیں کہ مسلمان کے مرنے کے بعد کسی دوسرے کی طرف سے نیک اعمال کا ثواب اسے پہنچتا ہے جب کہ وہ شخص اس کا ثواب ہدیةً بخشے۔(جیساکہ حج بدل کی کئی احادیث کتب میں مذکور ہیں) اور اخبار وآثار بزرگان دین سے بھی یہ امر حد تواتر کو پہنچا ہے ۔ ( امداد الفتاوی:5/389) یہی وجہ ہے کہ ایصال ثواب کے منکرین اہل السنة والجماعة سے خارج اور بدعتی شمار کیے گئے ہیں،چناں چہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ الله فرماتے ہیں:

”وقد دل علیہ الکتاب والسنة والاجماع ، فمن خالف ذالک کان من اہل البدع“․ ( الفتاوی الکبرٰی لابن تیمیہ: قولہ تعالیٰ : وان لیس اللانسان الاما سعیٰ، ج:3)
ترجمہ: اور ( ایصال ثواب پر) قرآن سنت اور اجماع تینوں سے دلیل موجود ہے پس جس نے اس (ایصال ثواب) کا انکار کیا تو وہ اہل بدعت میں سے ہے۔

اور امام نووی رحمہ الله فرماتے ہیں:
”انّ المیت لا یلحقہ بعد موتہ ثواب فھو مذھب باطل قطعاً وخطأ بین مخالف لنصوص الکتاب والسنة واجماع الامة فلا التفات الیہ ولا تعریج علیہ“․ (شرح النوی علی صحیح المسلم،ج1، ص:25)

ترجمہ: یہ مذہب کہ میت کو اس کے فوت ہونے کے بعد ثواب نہیں پہنچتا قطعی طور پر باطل ہے اور واضح طور پر خطا ہے، اس لیے اس کی طرف توجہ نہیں کی جائے گی اور نہ اس پر اعتماد کیا جائے گا۔

رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَا
گزشتہ الفاظ میں امور قلبیہ غیر اختیاریہ کا مکلف نہ ہونا بیان کر دیاتھا اور اب ان الفاظ میں دعا کے پیرایہ میں امور جوارح غیر اختیاریہ یعنی افعال غیر اختیاریہ کا مکلف نہ ہونا بیان فرماتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہماری داروگیر نہ فرمائیے ان افعال میں جو بھولے سے یا چوک سے سرزد ہوئے ہیں، اور یہ بھی درخواست ہے کہ اے ہمارے رب! ہم پر سخت احکام کا بوجھ مت ڈالیے جیسا کہ پچھلی امتوں پر ڈالا تھا اور آخرت یا دنیا میں کوئی ایسا بار ہم پر نہ ڈالیے جس کی ہمیں استطاعت نہ ہو، پس ہم سے درگذر کیجیے او رہمیں بخش دیجیے اور ہم پر رحم کیجیے، کیوں کہ آپ ہمارے کار ساز ہیں ،سو ہمیں کفار پر غلبہ عطا فرمائیے۔

رسول ا نے فرمایا کہ میری امت سے خطا اور بھول اور جس فعل پرا کراہ ہو سب مرفوع ہے۔(روح المعانی، سورة البقرة:286)

اس سے یہ معلوم ہوا کہ اس امت سے پچھلی امتوں کو خطا اور نسیان کا مکلف بنایا گیا تھا، پھر اشکال ہو گا کہ اس سے تو تکلیف مالا یطاق لازم آئے گی، جس کی نفی اسی آیت کے شروع میں ”لاَ یُکَلِّفُ اللّہُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَہَاً“ کے ذریعے کر دی گئی، اس اشکال کا جواب یہ ہے کہ ممکن ہے کہ خطا ونسیان کی بہت سی صورتوں میں آثار کے ترتّب کو تکلیف شمار کیا گیا ہو، جس طرح بعض صورتوں میں اس امّت پر بھی خطاونسیان کے باوجود آثار مرتب ہوتے ہیں ،جیسے قتل خطا میں دیت اور تکلم نسیان میں فساد صلوٰة کا ترتب ہونا، پس یہ ممکن ہے کہ گزشتہ امتوں پر بہت سی صورتوں میں خطا ونسیان پر بھی حکم شرعی مرتب ہوا کرتا ہو ۔اور یہ جو کہا گیا کہ سخت احکام کا بوجھ ہم پر مت ڈالنا جیسے کپڑا ناپاک ہونے کی صورت میں کاٹ ڈالنا یا معافی کی صورت میں صرف قتال مقرر ہونا وغیرہ وغیرہ۔

اشکال: ان سب باتوں کو دعا کے پیرایہ میں ذکر کیا گیا ہے، حالاں کہ کوئی بھی شخص اپنی وسعت سے زیادہ کا مکلف نہیں بنایا جاتا، یہ قاعدہ مقرر بھی ہو چکا، اس کے باوجود دعا کا کیا فائدہ؟

جواب: زمانہ نزول قرآن میں احتمال نسخ تو موجود ہی تھا، پس حاصل دعا کا یہ ہوا کہ اے رب یہ تمام احکام منسوخ نہ کرنا۔

اشکال: تو کیا نسخ فرماکر ”تکلیف مالایطاق“ یعنی انسان کو اس کی طاقت ووسعت سے زیادہ کا مکلف کیا جائے گا؟ یہ تو عقلاً ممتنع ہے۔

جواب: اس کا امتناع عقلی نہیں، بلکہ مذکورہ قاعدے کی رو سے اس کا امتناع شرعی ہے، پس نسخ ہونے سے امتناع شرعی بھی ختم ہو جائے گا۔

اشکال: پھر جس چیز کی وسعت وطاقت انسان کے پاس نہیں اس کا مکلف بنانے میں کیا فائدہ؟ یقینا انسان حکم کی بجا آوری سے قاصر رہے گا۔

جواب: تکلیف کا یہ مطلب تو ضروری نہیں کہ اس پر عمل ہی کیا جائے ،کیوں کہ ہر حکم کی حکمت عمل کرنے ہی میں منحصر نہیں، بلکہ ہو سکتا ہے کہ آخرت میں اس پر بعض آثار مرتب ہوتے ہوں مثلاً اس لیے محاسبہ ہوتا کہ عبد کو اپنا مملوک محض ہونا ظاہر ہو جائے ، پھر معذرت کے بعد معاف کر دیتے، سوافادہ علم خود فائدہ اور حکمت ہے۔

اور اگر عمل ہی کو فائدہ سمجھا جائے تو یہ بھی ممکن ہے کہ جتنے مراتب خطا ونسیان کے اور وساوس وخطرات کے معاف کیے گئے ہیں ان میں بعض اختیاری ہوں، چناں چہ تأمل سے یہی معلوم ہوتا ہے، اس لیے ان کا مکلف بنانے میں کوئی اشکال نہ تھا، پھر آخر میں ”وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا“ فرمایا گیا، گویا ”وَاعْفُ عَنَّا“ سے ”تجاوز عن الخطأ والنسیان“کی طرف اشارہ ہے اور ”و اغفرلنا “سے احکام شاقہ کا بوجھ ڈالنے کی طرف اشارہ ہے،کیوں کہ اگر ان احکام کا مکلف بنایاجاتا تو لازماً کوتاہی ہوتی جو مغفرت میں ایک گونہ خلل کا باعث ہوتی لہٰذا ” وَاغْفِرْ لَنَا “فرما کر اسی طرف اشارہ کیا گیا اور ”وَارْحَمْنَا“ سے وسعت وطاقت سے زیادہ کا مکلف نہ بنانے کی طرف اشارہ ہے، کیوں کہ رحم کا یہی مقتضا ہے۔(ملخص از بیان القرآن)

یہ تو اپنے محبوب، یعنی مالک کل جہاں کے بارے میں اپنی پسندیدہ چیزیں مانگنے کا ذکر تھا او راب آخر میں اپنے دشمنوں ،یعنی کفار کے بارے میں بھی اپنی پسندیدہ چیز، یعنی ان پر غلبہ مانگ کر دعا کو ختم کیا گیا۔ گویا کہ یوں کہا گیا کہ اے ہمارے رب! ہم تیرے بارے میں یہ پسند کرتے ہیں کہ تو ہمارے گناہوں سے درگزر فرما، ہماری مغفرت فرمااور ہمارے حال پر رحم فرما، کفار کے بارے میں یہ پسند کرتے ہیں کہ ہمارا ان پر غلبہ ہو، لہٰذا وہ بھی ہمیں نصیب فرما۔ آمین

سورة بقرہ کی آخری آیات کے فضائل
حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص سورہ بقرہ کی یہ آخری دو آیتیں کسی رات میں پڑھ لے تو اسے (جہنم کے عذاب سے حفاظت کے لیے)کافی ہو جائیں گی۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:5007)

ایک حدیث میں ہے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے سے دو ہزار سال قبل ایک مکتوب لکھا اور اس میں سے دو آیتیں نازل فرما کر سورہ بقرہ کو ختم فرمایا: جس گھر میں تین راتوں تک یہ آیتیں پڑھ لی جائیں اس میں شیطان نہیں ٹھہر سکتا۔(جامع الترمذی، رقم الحدیث:2882) اس کے علاوہ ان دو آیتوں کے فضائل پراور بھی احادیث وارد ہیں۔

Flag Counter