Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1437ھ

ہ رسالہ

6 - 17
علم اور اہل علم کی ضرورت واہمیت

مولانا محمد سعد کاندھلوی دامت برکاتہم
	
میرے محترم دوستو، عزیزو! زندگی کے ہر شعبے کو حکم پر لاؤ، حکم پر اُس وقت آسکو گے، جب ہر شعبہ کا علم حاصل کرو گے، جتنی جہالت ہو گی اُتنا ہر شعبہ غیروں کے طریقوں پر جاوے گا۔

پاکستان، علماء اور مدارس کا چمن
الله نے تمہیں علم اور علماء کا ملک عطا فرمایا ہے، کیسا مدارس کا چمن یہ ملک ہے؟! اس پر جتنا شکر کرو کم ہے، کس طرح الله نے بڑے بڑے علمائے کرام اور مفتیانِ عظام تمہیں دیے ہیں!! خدانہ کرے، خدا نہ کرے! اگر ان سے اِستفادہ کا عزم نہ کیا اور ان سے تعلق قائم نہ کیا تو یہ بہت بڑی ناشکری ہو گی اور بہت بڑی نعمت کو ٹھکراؤ گے، کیوں کہ دُنیا میں ایسے ایسے ممالک بھی ہیں، جہاں پورے ملک میں کوئی کلمہ سکھانے والا اور کوئی مسائل بتانے والا نہیں ہے، الله نے تمہیں علماء اور مدارس کا ملک عطا فرمایا ہے۔

علم او رعلماء سے نفرت کرنا کفر ہے
اس لیے بار بار عرض کرتا رہتا ہوں کہ علماء کی زیارت کو عباد ت یقین کرو، علماء کی صحبت کو اپنی اوّلین ضرورت سمجھو ، علماء سے محبت کرنا علم سے محبت کرنا ہے اور علماء سے نفرت کرنا علم سے نفرت کرنا ہے اور علم سے نفرت کرنا اور نماز سے نفرت کرنا برابر ہے اور نماز سے نفرت کرنا کفر ہے، کفر ہے، کفر ہے۔

علم کی فرضیت
خداکی قسم! علم اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز فرض ہے۔ ہر مؤمن مرد وعورت کے ذمہ علم کا حاصل کرنا اسی طرح فرضِ عین ہے جس طرح نماز پڑھنا فرضِ عین ہے۔ مدارس کی طرف رُخ کرو اور اپنے بچوں کو دینی مدارس میں داخل کرو۔

ہر وہ عمل الله کے یہاں قبول ہو گا جو علم کے مطابق ہو۔ اتنا ایمان کا سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے کہ جو اس کو الله کی پہچان کرائے۔ اسی طرح اتنا علم سیکھنا ہر مؤمن کے ذمہ فرضِ عین ہے جو اس کو حرام وحلال کی تمیز کرا دے۔ ہاں! محدث بننا، فقیہ بننا، مفسر بننا یہ فرضِ کفایہ ہے، یہ ہر ایک کے ذمہ فرض نہیں ہے۔ علماء کی مجالس اور علماء کی صحبت سے فائدہ اُٹھاؤ، قدم قدم پر علماء سے پوچھ کر چلو۔ لیکن اس خیال میں رہنا کہ میں تو بظاہر جو کر رہا ہوں ٹھیک ہی کر رہا ہوں ( یہ غلط فہمی ہے)۔ یاد رکھو کہ الله کے یہاں کوئی عمل جہالت کے ساتھ قبول نہیں ہو گا اور نہ جاننا الله کے یہاں عذر نہیں ہے کہ الله! مجھے تو معلوم نہیں تھا، جہالت عذر نہیں ہے، چوں کہ الله نے سکھانے کے لیے رسول کو بھیج دیا:﴿ أَوَلَمْ نُعَمِّرْکُم مَّا یَتَذَکَّرُ فِیْہِ مَن تَذَکَّرَ وَجَاء کُمُ النَّذِیْر﴾․(الفاطر:37)…” کیا ہم نے تمہیں اتنی عمر نہیں دی تھی جس میں وہ شخص سمجھ سکتا تھا جو سمجھنا چاہتا؟ اور تمہارے پاس ڈرانے والا آیا تھا۔“ یہاں تک کہ میرے دوستو! کوئی عمل اخلاص کے ساتھ بھی علم کے بغیر قبول نہیں ہو گا۔ ایک آدمی بڑا مخلص ہے، لیکن جہالت کے ساتھ عمل کر رہا ہے تو الله کے یہاں قبول نہیں ہو گا۔

ہر نئی معلومات علم نہیں ہے
سب سے پہلے یہ سمجھو اور اُمت کو سمجھاؤ کہ علم کیا ہے؟ اہل باطل نے دھوکہ دہی سے مسلمانوں کو یہ سمجھایا کہ”اگر تم نے صرف قرآن اور حدیث کو علم سمجھا تو تم بہت پیچھے رہ جاؤ گے،تمہیں دنیا میں کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا۔ دیکھو! صرف قرآن وحدیث علم نہیں ہے، بلکہ سائنس بھی علم ہے ، ڈاکٹری بھی علم ہے، انجنیئرنگ، تجارت، دنیا کی خاک چھاننا اور اسباب کی تحقیق کرنا یہ بھی علم ہے، تم صرف قرآن وحدیث ہی کو علم نہ سمجھنا،…، یہ میں وہ بات کہہ رہا ہوں جو غیروں نے ہمیں سکھلائی ہے۔ میرے دوستو! عزیزو! آج اس بات کا سمجھا نا بڑا جہا دہے، بڑا جہاد ہے، بڑا جہا دہے۔ ورنہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس زمانے میں نوجوان کے دماغوں میں یہ بات بیٹھ گئی ہے کہ صرف قرآن وحدیث علم نہیں، بلکہ دنیوی فنون اور اس کی معلومات کا حاصل کرنا یہ بھی علم کا حصہ ہے، لہٰذا جس علم سے ہمارا معاش متعلق ہے اس علم کو اہم درجہ دینا چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ اولادیں سترہ اٹھارہ بیس پچیس سال تک پہنچ جاتی ہیں انہیں کچھ خبر نہیں، الله ہم سے کیا چاہتا ہے او رکون سا علم ہم پر فرض ہے، چوں کہ انہیں یہ سمجھا دیا گیا کہ علم معاش کے حصول سے تمہاری زندگی متعلق ہے، اس لیے وہی علم ہے اور وہ یہ نہیں دیکھتے کہ معاش سے متعلق جو نام نہاد علم مجھ پر فرض کیا جارہا ہے، یہ ایسا اندھا کنواں ہے کہ جس میں سمجھ دار بھی ڈوب رہے ہیں اور ناسمجھ بھی، یہاں تک کہ موت آجاتی ہے اور بے دینی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، ہائے افسوس!!!

میرے دوستو! عزیزو! باطل نے اپنے فنون کو علم قرار دے کر اُمت مسلمہ کو علم سے کاٹ دیا ہے اور یہ باور کرادیا کہ جو چاہو سیکھو، سب علم ہے، نہیں ،میرے دوستو! ہر گز نہیں ، علم صرف وہ ہے جو الله ہم سے چاہتے ہیں او رمحمد صلی الله علیہ وسلم کے طریقے سے چاہتے ہیں، صرف وہ علم ہے سارا علم قبر کے تین سوالات پر محدود ہے:”من ربک، من نبیک، مادینک“ گویا کہ علم نام ہے :”ربوبیت کا علم، شریعت کا علم اور سنت کا علم“، جو کچھ اس کے سوا ہے وہ علم نہیں ہے اور اس پر علم کی حدیثوں کو فٹ کرنا بڑی حماقت ہے۔

دنیوی فنون کی رغبت کے لیے احادیث علم کو فٹ کرنا گم راہی ہے
یہ تو گم راہی ہے کہ دنیوی فنون کے لیے علم کی احادیث کو استعمال کرکے دنیوی فنون کی رغبت پیدا کی جائے، میرے دوستو! عزیزو! یہ بڑی گم راہی ہے۔

موجودہ زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ
یہ کہنا کہ ” جدید آلات واسباب نے علماء سے مستغنی کر دیا“ اس لیے میں با ربار کہتا رہتا ہوں کہ علم علماء کی صحبت سے حاصل کرو، آج لوگ کہتے ہیں کہ آلات واسباب نے علماء سے مستغنی کر دیا کہ ہم تو علم خود ہی حاصل کر لیں گے کہ اب تو سارا علم آلات پر آگیا ہے، کیا ضرورت ہے علماء کی؟ یہ اس زمانہ کا سب سے بڑا فتنہ ہے کہ اُمت کو اپنی دینی رہبری کے لیے علماء کی ضرورت نہ رہے، اس لیے میں اہتمام سے کہہ رہاہوں کہ علماء کی زیارت کو عبادت یقین کرواور اپنی اولادوں کو دینی مدارس میں داخل کرو، ورنہ میرے دوستو! عزیزو! اُمت اس دھوکہ میں پڑ چکی ہے کہ بھئی! سب کچھ علم ہے، جو چاہو سیکھو۔ نہیں، میرے دوستو! ہر گز نہیں، علم صرف وہ ہے جو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ پر الله ہم سے چاہتے ہیں، صرف اس کو علم کہتے ہیں ۔ غیروں کے تجربات کو علم سمجھنا سب سے بڑی جہالت ہے۔

نئی پود کی جہالت کی وجہ
میرے دوستو! عزیزو! اس بات کو تسلی، سنجیدگی او ربہت ہی ٹھنڈے دماغ سے سمجھنا ہو گا، میں نئی پود کی جہالت کی وجہ بتا رہا ہوں کہ اگر ان کو یہ سمجھا دیا جاتا کہ یہ ( قرآن وسنت) علم ہے ، وہ ( عصری ذرائع) فن ہے، تب بھی معاملہ آسان تھا کہ یہ دونوں چیزوں کوحاصل کر لیتے، دنیوی فنون کو اپنی دنیوی ضرورت کے لیے اور علم الہٰی کو دنیا اور آخرت میں کام یابی کے لیے، لیکن مشکل یہ ہے کہ ان کو سمجھایا گیا ہے کہ علم یہ نہیں، علم یہ ہے اور یہاں تک سمجھا دیا گیا کہ جو علم الہی ہے وہ علماء سے متعلق چیز ہے، وہ علماء سمجھتے ہیں سمجھاتے ہیں ، ہم سے متعلق جو علم ہے یہ تو دنیا کا علم ہے۔

اپنی جہالت کا احساس کب ہو گا؟
جب تک علم اور فن کے درمیان فرق نہیں کیا جاوے گا اُس وقت تک اپنی جہالت کا احساس نہیں ہو گا اور علم الہٰی کے حاصل کرنے کی فکر اور رغبت نہیں پیدا ہو گی، یہ بات اچھی طرح یاد رکھیں کہ علم صرف وہ ہے جو ہم سے ہمارا رب چاہتا ہے۔ حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ علم میں لگنا اس بات کی توفیق میں لگنے کو کہتے ہیں کہ ہم سے ہمارا رب کیا چاہتا ہے؟ مخلوق ہم سے کیا چاہتی ہے؟اس میں لگنے کو تو کہیں بھی علم نہیں کہا گیا۔

دنیوی فنون کو علم صرف قارون نے سمجھا ہے
میری بات ذرا غور سے سننا! اگر دُنیوی فنون کو علم سمجھا ہے تو وہ صرف قارون نے سمجھا تھا، اسی قارونیت پر ہم سب چل رہے ہیں، کیوں کہ جب اس سے یہ کہا گیا کہ یہ الله نے تجھے جو کچھ دیا ہے اس میں دارِ آخرت کی جستجو کرتارہ اور دنیا میں سے اپنا حصہ فراموش مت کر اور اس میں الله کے حکم کے مطابق چل ﴿وَابْتَغِ فِیْمَا آتَاکَ اللَّہُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلَا تَنسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا﴾(سورہ قصص، آیت:77) تو اُس نے کہا کہ یہ سب کچھ مجھے میرے علم کی وجہ سے دیا گیا ہے ﴿قَالَ إِنَّمَا أُوتِیْتُہُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی﴾ جس علم کو قارون علم کہہ رہا ہو، اس کو ہم بھی علم کہیں؟ یہ ہماری جہالت نہیں ہو گی تو پھر کیا ہو گا؟ قارون کا یہ کہنا کہ﴿إِنَّمَا أُوتِیْتُہُ عَلَی عِلْمٍ عِندِی﴾ یہ بتلارہا ہے کہ یہ قارون کا علم ہے، کسی نبی کا علم نہیں کہ جو کچھ مال میرے پاس ہے یہ میں نے اپنے فن اور علم سے کمایا ہے، یہ الله نے نہیں دیا ہے،ہمیں علم اور فن میں فرق کرنا ہو گا، تاکہ ہمارے دلوں میں اس علم کی اہمیت پیدا ہو جس کو الله نے ہم پر فرض کیا ہے، جس کو علم شریعت کہتے ہیں۔

ہم دنیوی فنون کی تحصیل سے نہیں روکتے
دیکھو! ہم دنیوی فنون سیکھنے سے نہیں روکتے، بالکل نہیں روکتے، یہ ایک ضرورت ہے، جس چیز کی جو اہمیت ہے اس کو اس کیے درجہ میں رکھنا چاہیے، لیکن دنیوی فنون کو حاصل کرنے کے لیے ان حدیثوں کا استعمال جو محض علم الہٰی کے لیے ہیں، یہ انتہائی بے وقوفی کی بات ہے۔

توریت کے مطالعہ کی خبر پر نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کا غصہ
حضرت عمر رضی الله عنہ کو ایک بار یہ خیال پیدا ہوا کہ ہمیں یہ بھی تو معلوم کرنا چاہیے کہ ہم سے پہلے نبیوں پر کیا احکامات نازل ہوئے تھے؟ حضرت عمر رضی الله عنہ کو توریت او رانجیل پڑھنے کا شوق پیدا ہوا اور کچھ اوراق ہاتھ میں لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کے سامنے حاضر ہوئے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا: یہ ہاتھ میں کیا ہے ؟ (جواب دیا کہ:) یا رسول الله! میں نے توریت پڑھی ہے، تاکہ ہماری معلومات میں اضافہ ہو کہ الله نے حضرت موسی علیہ السلام پر کیا احکامات نازل کیے تھے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم کو حضرت عمررضی الله عنہ کے اس عمل پر اتنا غصہ آیا کہ آپ منبر پر تشریف فرما ہوئے اور صحابہ رضی الله عنہم جمع ہوگئے، اتنا آپ کو غصہ تھا کہ انصار تلواریں لے کر آگئے کہ آپ کو کس نے ستایا ہے؟ سارا غصہ حضرت عمررضی الله عنہ پر تھا کہ ” عمر! نے توریت کیوں پڑھی ہے؟ جو قرآن میں لے کر آیاہوں، جو علم سنت اور طریقت وشریعت میں لایا ہوں، کیا عمر کی نجات کے لیے یہ کافی نہیں ہے؟ “ پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”لوکان موسی حیاً لما وسعہ إلا اتباعی‘․‘(مشکوٰة ، کتاب الایمان، باب الاعتصام بالکتاب والسنة، الفصل الثانی، ج۱، ص:30، قدیمی)” اگر آج موسی زندہ ہو کر آجائیں تو ان کی نجات بھی میرے طریقہ پر ہے۔ “ یعنی اگر تم نے اب موسی کا طریقہ اختیار کیا تو گم راہ ہو جاؤ گے۔

بہت خطرے کی بات
آپ غور کریں او راندازہ کریں کہ ایک اتنا بڑا عالم عمر رضی الله عنہ کہ جن کا مقام یہ ہے کہ ”لو کان بعدی نبیاً لکان عمر“ کہ ”میرے بعد اگر نبوت کا دروازہ کھلا ہوتا تو عمر  نبوت کی استعداد رکھتے ہیں۔“ حضرت عمر رضی الله عنہ سب سے زیادہ الله کی کتاب کو سمجھنے والے تھے، اس درجہ کا صحابی سب کچھ سیکھنے کے بعد توریت پڑھ رہا ہے، توریت بھی وہ پڑھی جو پہلے نبی کا علم شریعت تھا، الله کی طرف سے ایک نبی پر نازل ہوا تھا، اُس پر بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کو اتنا غصہ آیا کہ آنکھیں سرخ ہو گئیں، تو آپ اندازہ کریں کہ جو علم ، علم تھا، لیکن اب منسوخ ہو گیا، اس کی تحصیل کی خواہش پر حضرت عمر رضی الله عنہ پر آپ کو اتنا غصہ آیا تو جو علم سرے سے علم ہی نہیں، دنیوی فن ہے، اگر مسلمان اس زمانہ میں اسے علم الہٰی سے جاہل ہوکر حاصل کرکے اپنے آپ کو عالم سمجھیں اور علم کی حدیثیں اس پر فٹ کریں تو ایسے لوگوں پر قیامت کے دن آپ صلی الله علیہ وسلم کو کس قدر غصہ آئے گا؟؟ اندازہ کر لیا جاوے۔

ہمیں دعوت کے ذریعہ ایمان کی طرح علم کی بھی ضرورت ہے
ہمیں جس طرح دعوت سے ایمان کی ضرورت ہے، اسی طرح دعوت کے ذریعہ سے علم کی بھی ضرورت ہے اور علم کو بھی اخلاص چاہیے، جو ہمارے دلوں میں الله کا خوف پیدا کرے،کیوں کہ جس دل میں الله کا خوف نہیں ہے وہ عالم نہیں ہو سکتا، اسے اسلام کی معلومات ضرور ہوں گی، لیکن وہ عالم نہیں ہو سکتا۔

عالم وہ ہے جس کے دل میں الله کا خوف ہو
عالم کے لیے تو شرط ہے کہ اس کے دل میں الله کا خوف ہو ، کیوں کہ الله نے حصر کے ساتھ فرما دیا: ﴿انما یخشٰی الله من عبادہ العلماء﴾ علم تقوی کا نام ہے، علم زندگی کے تمام شعبوں میں چوبیس گھنٹے الله کے حکموں کا پابند ہو کر چلنے کا نام ہے۔ فرمایا: علم دو قسم کا ہے:”العلم علمان: علم فی القلب، فذاک العلم النافع، وعلم اللسان، فذاک حجة الله لابن آدم“… علم دو قسم کا ہے: زبان کا اور دل کا۔ زبان کا علم وہ ہے جس کے بارے میں حدیث میں آتا ہے کہ جو انسان کے لیے قیامت کے دن مصیبت بنے گا، اس کے خلاف حجت بنے گا اور دل کا علم وہ ہے جو ابن آدم کو نفع دے گا۔ علم کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے ذریعہ الله کا خوف پیدا ہو، علم کے ذریعہ خشیت پیدا ہو وہ علم الہٰی ہے، سب سے بڑا عالم وہ ہے جو الله سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہو، اس لیے ایک صحابی رضی الله عنہ نے عرض کیا: یا رسول الله! سب سے بڑا عالم بننا چاہتا ہوں، فرمایا:”اتق الله تکن أعلم الناس“ کہ ”تقویٰ اختیار کرو، تم سب سے بڑے عالم ہو جاؤ گے۔“ علم الله کی صفت ہے، وہ الله سے تعلق کے بقدر حاصل کیا جاتا ہے۔

الله والا علم علماء کے پاس امانت ہے
الله والا علم ہر عالم کے پاس امانت ہے، امانت پہنچانے والا معاوضہ نہیں لیا کرتا، یہ تو اس کے ذمہ ہے، جس طرح ڈاکیہ ڈاک پہنچاتا ہے، اس کی تنخواہ حکومت کے ذمہ ہوتی ہے، اسی طرح میرے دوستو! عالم کا معاوضہ الله کے ذمہ ہے۔

جب اُمت میں دین سیکھنے کے لیے خرچ کرنے کا جذبہ نہ رہے تو اب علماء پر ذمہ داری ہے کہ اُمت کو ہر حال میں دین سکھلایا جائے اور اس کا معاوضہ نہ لیا جائے:”لا اسئلکم علیہ مالا، لا اسئلکم علیہ أجرا“ علم کو پہنچاؤ اُمت کی امانت سمجھ کر۔ لیکن کسی غلط فہمی میں نہ رہیے کہ اگر کسی کو دین پھیلانے، قرآن سکھلانے اور علم سکھلانے کی تنخواہ ملتی ہے تو یہ اس کے پڑھانے کا ہر گز بدل نہیں ہے، بلکہ یہ اس مشغلہ کا بدل ہے جس مشغلہ کو چھوڑ کر یہ عالم ،دین کی خدمت میں لگا ہوا ہے اور وہ عالم بھی اس کو دینی خدمت کا بدل کبھی نہ سمجھے۔ علم سکھلانے کا کوئی بدل نہیں، سوائے جنت کے۔ ظاہر بات ہے یہ ایک انسان ہے، اس کے ساتھ ضروریات لگی ہوئی ہیں، اس کو دنیا میں کوئی مشغلہ بھی کرنا تھا، تجارت بھی کرنی تھی، لیکن اس نے تجارت اور دیگر معاشی کاموں کو چھوڑ کر بچوں کو پڑھانے میں اپنا وقت لگایا تو یہ اُس مشغلہ کا بدل ہے جس کو چھوڑا گیا ہے۔

اگر علم اسباب پر موقوف ہو گیا تو امت کا بڑا طبقہ جاہل رہے گا
آج کتنا پیشہ شادیوں پر خرچ ہورہا ہے، لیکن علم کے حصول پر خرچ کے لیے ہم تیار نہیں، تو کیسے جہالت ختم ہو گی؟ اور بغیر جہالت کے ختم ہوئے عبادت قبول ہے نہ اعمال، کچھ نہیں ، علم حاصل کرو، تاکہ عبادتیں کا مل ہو جائیں۔ عبادت کا کمال علم سے ہے، عبادت پر استقامت یقین سے ہے اور عبادت کی قبولیت اخلاص ہے۔

اگر علم اسباب پر موقوف ہو گیا تو امت کا بڑا طبقہ جاہل رہے گا، کیوں کہ وہ بھی جاہل رہیں گے جن کے پاس سیکھنے کے اسباب نہیں اور وہ بھی نہیں سکھلائیں گے جن کو معاوضہ نہ ملے، اجرت تو اس وقت کی ہے جو وقت تعلیم کے لیے فارغ کیا گیا ہے۔

علماء کی ذمہ داری
علماء کی ذمہ داری بھی بتلا دی، علماء کیا کہتے ہیں کہ:”جی جاہل تو سیکھتے ہی نہیں، آتے ہی نہیں ہمارے پاس کہ ہم سکھلا دیں!“ نہیں میرے دوستو! حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: علماء جاہلوں کو دین سکھلاویں، علماء جاہلوں کی تربیت کریں اور اُن کو دین پر آمادہ کریں اور علماء عوام کو دین کی تعلیم دیں۔ صحابہ رضی الله عنہم کے لیے تو یہ بہت بڑی بات تھی، چوں کہ جس بات کو محمد صلی الله علیہ وسلم نے اپنی زبان مبارک سے فرما دیا ہے اس کا جو اثر اس وقت تھا، قیامت تک کے لیے اس کا وہی اثر ہے، یہ بات نہیں ہے کہ وہ سیکھنے آئیں تو سکھلا دیں گے۔ عرض کیا: یا رسول الله! وہ ہم سے دسیکھتے ہی نہیں، ہم کیا کریں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے کوئی جواب نہیں دیا، بلکہ اپنی بات کو دہرایا، مطلب یہ تھا کہ اگر وہ سیکھنے نہیں آتے تو میرے تمہارے ذمہ ہے کہ ان کو جا کر سکھلا ؤ۔

تبلیغ اور تعلیم میں کوئی فرق نہیں ہے
اس لیے تبلیغ اور تعلیم میں کوئی فرق نہیں ہے، آنے والوں کو سکھلانا بھی شعبہ ہے او رجاکر سکھلانا بھی شعبہ ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تو ایک آیت کی تبلیغ کا بھی حکم دیا ہے۔ جاکر تعلیم دو، یہ تبلیغ ہے۔ آنے والوں کو تعلیم دو، یہ تعلیم ہے۔ حضرات صحابہ رضی الله عنہم دونوں کاموں میں برابر لگے رہتے تھے۔

علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث کیوں ہیں؟
یاد رکھنا کہ علماء کو انبیاء علیہم السلام کا وارث اُس طریقہٴ تعلیم کے ساتھ قرار دیا گیا ہے جو طریقہٴ تعلیم حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی الله عنہم کا تھا کہ وہ تعلیم نقل وحرکت کے ساتھ ہے، ہم یہ نہیں کہتے کہ علماء اپنے کام چھوڑ کر نکلیں، امامت، خطابت، درس وتدریس، تصنیف وتالیف اور شعبہ افتاء چھوڑ کر نکلیں۔ نہیں! ہم یہ نہیں کہتے، کیوں کہ الله تعالیٰ بھی یہی فرمارہے ہیں، الله نے یہ فرمایا ہے کہ ایمان والوں کو چاہیے کہ سب یک بارگی نہ نکلیں:﴿وَمَا کَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِیَنفِرُواْ کَآفَّةً﴾کہ ایمان و الوں کے لیے مناسب نہیں ہے کہ سب یک بارگی نکل جاویں﴿فَلَوْلاَ نَفَرَ مِن کُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْہُمْ طَآئِفَةٌ لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْنِ وَلِیُنذِرُواْ قَوْمَہُمْ إِذَا رَجَعُواْ إِلَیْْہِمْ لَعَلَّہُمْ یَحْذَرُون﴾․(سورہ توبہ، آیت:122) ایسا کیوں نہیں کرتے کہ ایمان والوں کی جماعت کا ایک حصہ الله کے راستہ میں نکلے۔ کیوں نکلیں؟ دیکھو! عجیب بات ہے، اس آیت میں فرمایا ہے:﴿لِّیَتَفَقَّہُواْ فِیْ الدِّیْن﴾ دین کے اندر کمال اور سمجھ پیدا کرنے کے لیے نکلیں، لازم ہے کہ واپس آکر مقام پر علم کو پھیلا دیں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ” علماءِ صحابہ رضی الله عنہم “ کو حرکت پر رکھا تھا، تاکہ اُمت میں کہیں بھی جہالت پیدا نہ ہو اور علم صرف طلب والوں کے اندر محدود نہ ہو جاوے کہ یہ پڑھنے کے لیے آئے ہیں، پڑھ لیویں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے علم کی مثال بادل سے دی ہے اور بادل میں حرکت ہے۔ آپ علمائے کرام تو ہلکی بات کرنے لگے ہیں کہ بھئی ، ہم تو کنواں ہیں، پیاسا کنویں کے پاس آتا ہے، کنواں پیاسے کے پاس نہیں جایا کرتا، نہیں؟ ہر گز نہیں، ایسی بات نہیں ہے ، علماء کو انبیاء علیہم السلام کا وارث قرار دیا گیا ہے او رانبیاء علیہم السلام نے نقل وحرکت کے ذریعے علم کو پھیلایا ہے اور علم کی مثال بادل سے دی ہے، جو زمین کسی قابل نہیں، جس زمین میں اگانے کی صلاحیت نہیں اس پر بھی بادل برستا ہے، اپنے علم کو لے کر حرکت میں آؤ کہ اُمت کو علم پہنچانا ہے اور دعوت سے اپنے علم کے اندر رسوخ پیدا کرنا ہے۔

حضرت مولانا محمدیوسف صاحب  کے نزدیک علماء کا مرتبہ
ایک بار حضرت مولانا محمدیوسف صاحب رحمہ الله نے مفتی زین العابدین صاحب رحمہ الله سے فرمایا کہ:” مفتی صاحب! ایک جماعت ہے، میرا دل چاہتا ہے کہ اُس جماعت کو لے کر آپ جائیں، کیوں کہ اُس میں بڑے بڑے علماء اور بڑے بڑے اہل کمال آئے ہیں۔“

آج ہمارا حال یہ ہے انگریزی دان دیکھ کر جماعت کو اُن کے حوالہ کر دیتے ہیں۔ خط بھی آتا ہے کہ یہ پروفیسر صاحب ہیں، انگریزی جانتے ہیں، یہ جماعت چلالیں گے۔ معیار گھٹتے گھٹتے اعداءِ دین کی زبان پر آگیا ۔ کہاں معیار تھا صحابہ رضی الله عنہم کا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اَمیر طے کرنے کے لیے مشورہ نہیں کیا، بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم بلا تفریق ہر ایک کے پاس الگ الگ بیٹھے اور ہر ایک سے الگ الگ قرآن سنا، جس کا قرآن سب سے اَچھا تھا فرمایا کہ :”تم ہی ان سب کے امیر ہو، اس لیے کہ امام ہی امیر ہوتا ہے۔“ فرمایا: ” تمہاری امامت وہ کرے جو زیادہ علم رکھنے والا ہو ، شریعت کو جو زیادہ جاننے والا ہو۔“ یہ نہیں کہا کہ تم میں تجربہ زیادہ کس کا ہے؟ تم میں سے انگریزی کس کو زیادہ اچھی آتی ہے؟

سنت طریقہ یہ تھا کہ تم میں سے اچھا قرآن کون پڑھ سکتا ہے ؟ پہلے اس بات کا اہتمام ہوتا تھا او رایسے ساتھی جماعت کے ساتھ لگائے جاتے تھے جواُن کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کریں۔

تو حضرت مولانا محمدیوسف صاحب رحمہ الله علیہ نے مفتی زین العابدین صاحب رحمة الله علیہ سے فرمایا کہ” میراا دل چاہتا ہے کہ تم جماعت لے کر جاؤ!“ پھر فرمایا کہ ”تین دن بعد جماعت آئے گی “ جواباً مفتی صاحب رحمة الله علیہ نے عرض کیا کہ :” تین دن کے لیے خانقاہِ رائے پور حضرت رائے پوری رحمة الله علیہ کے پاس جانا چاہتا ہوں “، حضرت رحمة الله علیہ نے فرمایا:” ضرور جاؤ!“ علماء اور مشائخ کی خدمت میں دُعا اور اِستفادہ کی غرض سے حضرت رحمة الله علیہ ساتھیوں کو بھیجا کرتے تھے، لیکن فرمایا کہ:” دیکھو! ٹھیک تین دن کے بعد آجانا، مفتی صاحب رحمة الله علیہ چلے گئے، تین کے بجائے پانچ دن گزر گئے۔ حضرت مولانا محمدیوسف صاحب رحمة الله علیہ نے حضرت شیخ رحمة الله علیہ کو خط لکھا کہ :”مفتی زین العابدین صاحب تین دن کے لیے رائے پور گئے تھے، پانچ دن گزرگئے، اَب تک نہیں آئے، اِدھر جماعت اُن کا انتظار کر رہی ہے۔“ حضرت شیخ رحمة الله علیہ سہارن پور سے رائے پور تشریف لے گئے او رجاتے ہی مفتی صاحب رحمة الله علیہ سے پوچھا کہ:” تین دن کے بعد اب یہاں کیا کر رہے ہو؟“، مفتی صاحب رحمة الله علیہ نے عرض کیا کہ : ” حضرت! مجھے تو نظام الدین ہی جانا ہے، لیکن مجھے یہاں کے قیام میں کچھ ایسی کیفیت اور ذکر کے ایسے انوار حاصل ہو رہے ہیں کہ مجھے خیال ہوا کہ ایسی کیفیت اور ایسا موقع پھر حاصل ہو نہ ہو، اس لیے میں نے یہاں کا وقت بڑھالیا، مجھے یہاں کی خلوت میں جو کیفیت حاصل ہو رہی ہے اُس کیفیت نے یہاں روکے رکھا“ بہرحال پھر تشریف لے گئے۔

دعوت کی محنت کا مقصد اُمت سے جہالت کو ختم کرنا ہے
علم کی دعوت کے ذریعے جہالتیں ختم ہو ں گی او راُمت علماء سے جڑے گی۔ اس محنت کا مقصد جہالت کو ختم کرنا ہے، یہ محنت تو اُمت میں علم کے حصول کی طلب پیدا کرتی ہے، جب یہ محنت ہو گی تو یہ احساس ہو گا کہ ہمیں علماء کی ضرورت ہے، علماء کی صحبت ومجالست اختیار کرنے کی ضرورت ہے اور یہی اس دعوت کا مقصود ومطلوب ہے۔

تمام دنیوی شعبوں میں دین کیسے زندہ ہو گا؟
میرا تو بہت جی چاہتا ہے کہ علماء آدھے دن دینی کاموں میں لگیں اور آدھے دن تجارت بھی کریں، حضرت ابوبکر رضی الله عنہ وحضرت عمررضی الله عنہ دینی کاموں کے ساتھ ساتھ تجارت بھی کیا کرتے تھے۔

ساری دنیا ہو گی جاہلوں کے ہاتھ میں اور ہم یہ سمجھیں گے کہ ہمارا کام صرف پڑھنا ہے، آج ہم نے سارا بازار اور ساری تجارت جاہلوں کے حوالہ کر دی ہے، جب تک ہم تجارتوں، زراعتوں، حکومتوں کو اور دنیا جہاں کے تمام سرمایہ داری کے نقشوں کو یہ سمجھ کر چھوڑے رکھیں گے کہ یہ ہمارے کرنے کے کام نہیں ہیں، تو خدا کی قسم !اس میں کبھی دین نہیں آسکتا، کیسا مزا آوے کہ ایک عالم آدھے دن پڑھتا ہو اور آدھے دن خود عملی طور پر بازار جاکر دیکھے کہ جو علم میں پڑھا رہا ہوں اس کے مطابق تجارت ہو رہی ہے یا نہیں؟ یہ کتنے بڑے نقصان کی بات ہے کہ ایک آدمی تجارت کا علم حاصل کرے اور اس کے محلہ کا بازار علم کے مطابق نہ ہو، اگر ایسا نہ کیا گیا تو جو حرام راستہ کی کمائیاں ہیں وہ سب علم وعمل کو لے ڈوبیں گی۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ :” ہم تجارت چھڑوانا نہیں چاہتے، بلکہ تجارت کو حکم پر لانا چاہتے ہیں، ورنہ وہ ہو گا جو قوم شعیب کے ساتھ ہوا۔“ حکم پر لانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ عملی طور پر ان شعبوں کا علم لے کر ان میں داخل ہوں۔

دین کے کسی شعبہ کا انکار محمداکے لائے ہوئے احکامات کا انکار ہے
الله نہ کرے، الله نہ کرے، دین کے کسی شعبے کا انکار یا اس کا استخفاف یا اس کی افادیت سے انکار کہ مثلاً: مدارس سے کیا ہو گا؟ یہ بھی ایک مرض اور بیماری پیدا ہوگئی ہے لوگوں میں ، میرے دوستو! عزیزو! غور سے سن لو! جو اس کام میں رہتے ہوئے دین کے کسی شعبے کا انکار کرے خدا قسم! وہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دو کاموں میں سے ایک کا انکار کر رہا ہے، پکی بات ہے، بالکل سچی بات ہے، کیوں کہ اس کام کو کسی خیر کے کام کے معارض سمجھنا یہ محمد صلی الله علیہ وسلم کے لائے کاموں میں سے ایک کام کو دوسرے کے معارض سمجھنا ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سب سے بڑی صفت ”صفتِ جامعیت“ ہے ، یہ جامعیت اپنے اندر پیدا کرو، کیوں کہ اس محنت سے پورا دین وجود میں آنا ہے، اس لیے حرام ہے ہمارے لیے یہ سوچنا کہ ” اس شعبے سے کیا ہو گا؟ اُس شعبہ سے کیا ہو گا؟ “ جتنے دین کے شعبے ہیں یہ دعوت کی آمدنی ہے، لوگ اپنی آمدنی کو سنبھال کر رکھتے ہیں کہ دعوت کی محنت سے لوگوں میں علم کی طلب پیدا ہو، مساجد قائم ہوں، مدارس قائم ہوں، تربیت گاہیں قائم ہوں، دین کے شعبے وجود میں آتے ہیں دعوت کے کام سے، یہ تو ہو نہیں سکتا کہ دعوت کے کام ہوں اور دین کے شعبے مقصود نہ ہوں، یہ ایسا ہے کہ کوئی آدمی تجارت کرے او رکہے کہ مجھے آمدنی مقصود نہیں ہے یا آمدنی کو ضائع کر دے، وہ کیسا بے وقوف آدمی ہو گا؟ لوگوں کو اپنی آمدنیوں سے ایسی محبت ہوتی ہے کہ وہ اس کو خون پسینہ کہتے ہیں کہ یہ میرا خون پسینہ ہے۔

دعوت سے دین کے سارے شعبے زندہ ہوتے ہیں اور یہ میری بات یاد رکھنا کہ یہ شعبے اس وقت تک قائم رہیں گے جب تک دعوت کی نقل وحرکت قائم رہے گی۔ آپ ذرا پچھلا زمانہ اُٹھا کر دیکھیں، ساری تاریخ اس کی گواہ ہے ، حضور صلی الله علیہ وسلم نے ہر صحابی کو معلم بنایا تھا:”بلغوا عنی ولو آیة“ جب علم، نقل وحرکت سے الگ ہو جاوے گا تو عام اُمت میں جہالت پھیل جاوے گی اور علم اُمت کے ایک محدود طبقہ کی چیز بن کر رہ جاوے گا، اگر علم کے بغیر نقل وحرکت ہے تو جاہلانہ نقل وحرکت ہو گی۔ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة الله علیہ فرماتے تھے کہ: میرا دل چاہتا ہے کہ جتنی جماعتیں نکلیں ان میں ایک عالم ہو او رایک قاری ہو، تاکہ نکلنے والے قرآن سیکھ کر آویں #
        شاید کہ اُتر جائے ترے دل میں مری بات

Flag Counter