نیت کی قوت، اللہ کی قوت
ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)
نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․
أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم․
﴿قُلْ إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ﴾․ ( سورہ الأنعام:162)
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إنما الأعمال بالنیات․ صدق الله مولانا العظیم، وصدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذلک لمن الشٰھدین، والشکرین والحمد لله رب العلمین․(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب بدء الوحی، رقم الحدیث:1)
الله تعالیٰ کا ارشاد ہے، قُلْ آپ فرما دیجیے إِنَّ صَلاَتِیْ وَنُسُکِیْ بے شک میری نماز اور میری قربانی، یعنی میری جانی او رمالی عبادت،وَمَحْیَایَ وَمَمَاتِیْ اور میری زندگی او رمیری موت، لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن الله کے لیے ہے، جو تمام جہانوں کا بادشاہ اور تمام جہانوں کا رب ہے، میری عبادت بھی، خواہ وہ جانی ہو وَنُسُکِیْ اور میری قربانی بھی، خواہ وہ عبادت مالی ہو اور میری زندگی اور میری موت سب الله کے لیے ہے۔ اسی طرح، سرور کائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: إنما الأعمال بالنیات۔ بے شک تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔
انسان اس دنیا میں جو زندگی گزارتا ہے، عموماً اس کا سامنا دو چیزوں سے پڑتا ہے: عادت اور عبادت۔
کھانا پینا، سونا جاگنا، رفع حاجت وغیرہ․․․ سب عادتیں ہیں۔ ان سے کسی کو مفر نہیں۔ کوئی ان کے بغیر گزارا نہیں کرسکتا۔ ہر آدمی مسلسل کھا رہا ہے، پی رہا ہے، سو رہا ہے، جاگ رہا ہے اور جتنی بھی چیزیں انسانی زندگی سے متعلق ہیں، ان سب کو وہ کر رہا ہے۔ یہ کام اگر بطور عادت کے کیے جائیں تو ہم مسلمانوں میں او رغیر مسلموں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ غیر مسلم بھی یہ کام کرتے ہیں، اور ہم مسلمان بھی یہ کرتے ہیں۔ وہ بھی بول رہے ہیں، چل رہے ہیں، کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں، سارے کام کر رہے ہیں؛ اور ہم مسلمان بھی یہ تمام کام کرتے ہیں۔
اس بات کو اگر مزید بڑھایا جائے تو یہ کہنے دیجیے کہ ہم میں اور جانوروں میں کوئی فرق نہیں رہے گا، اس لیے کہ جانور بھی آپس میں باتیں کررہے ہیں، کھا رہے ہیں، پی رہے ہیں، اپنی دیگر ضروریات پوری کررہے ہیں۔ تو پھر مسلمان میں اور ایک غیر مسلم میں یا انسان میں اور جانور میں کیا فرق ہے؟ یہودی بھی وہ کام کر رہے ہیں، عیسائی بھی وہ کام کر رہے ہیں، شیر بھی وہ کام کر رہا ہے، کتابھی کر رہا ہے، بلی بھی کر رہی ہے․․․ اور، ہم مسلمان بھی یہ سب کام کرتے ہیں۔
یہ بات سمجھ لیجیے کہ اصل جو فرق ہے عادت کا وہ یہ ہے کہ یہ تمام کام، یہ تمام عادتیں، عبادت بن سکتی ہیں۔ اور ان کے عبادت بننے میں کوئی بہت زیادہ محنت نہیں کرنی پڑتی۔ صرف نیت کرنی پڑتی ہے۔ اور نیت کیا ہے، النیة فعل القلب․ (البحرالرائق، کتاب الصوم،2/283)
نیت زبان کا کام نہیں ہے۔ نیت ہاتھ کا کام نہیں ہے۔ نیت دل کا فعل ہے۔ چناں چہ اگر آدمی کھاتے وقت یہ نیت کر لے کہ میں اس لیے کھا رہا ہوں تاکہ مجھے قوت حاصل ہو اور میرے لیے الله کی بندگی کرنا آسان ہو؛ میں اس لیے پی رہا ہوں کہ مجھے راحت اور قوت حاصل ہو تاکہ میرے لیے الله کی بندگی کرنا آسان ہو، کیوں کہ ہم الله کے بندے ہیں اور ہم مسلمان ہیں․․․ تو ہمارے یہ تمام کام عبادت بن سکتے ہیں۔ ذرا بتائیے، اس نیت کے کرنے میں کتنا وقت خرچ ہوتا ہے؟ اس میں لمحہ لگتا ہے۔ کوئی بہت وقت بھی نہیں لگتا۔ ہماری اپنی مرضی تو ہے ہی نہیں، سب کچھ الله کی رضا اور خوش نودی کے لیے کرنا ہے کہ وہ راضی ہو جائے۔
ایک آدمی نے غلام خریدا۔ مالک نے اس سے پوچھا، کیا کھاؤ گے؟ اس نے کہا، جو مالک کھلا دے گا وہ کھالیں گے۔ مالک نے پوچھا، کیا پیو گے؟ اس نے کہا، جومالک پلائے گا، پی لیں گے۔ مالک نے پوچھا، کیا پہنو گے؟ اس نے کہا، جو مالک پہنائے گا، پہن لیں گے۔
مالک نے پوچھا، تمہاری بھی کوئی مرضی ہے؟ اس نے کہا، اگر میری مرضی ہوتی تو میں غلام نہ ہوتا۔ اگر میری مرضی ہوتی تو پھر میں آزاد ہوتا۔ اسی طرح، ہم سب عبادالله ہیں، یعنی ہم سب الله کے غلام ہیں۔ ہم سب الله کے بندے ہیں۔ جب ہم سب الله کے بندے ہیں، الله کے غلام ہیں تو ہماری کوئی مرضی نہیں۔ صرف الله کی مرضی ہے۔
الله کی مرضی کیا ہے؟
الله کی مرضی خوب سمجھ لیجیے۔ ہر کام محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے پر ہو۔ نماز جو فرض ہے، فرض کیجیے، فجر کی نماز میں دو رکعات فرض ہیں۔ اب ایک آدمی کہتا ہے کہ بھائی راتیں لمبی ہیں، خوب اچھی طرح سویا ہوں، طبیعت میں نشاط ہے، آج میں فجر کی دو رکعتوں کی بجائے چھے رکعات پڑھوں گا، دو رکعتوں سے کیا بنے گا؟! الله اکبر کہے گا، سورہ فاتحہ پڑھے گا، قرآن پڑھے گا، رکوع کرے گا، سبحان ربی العظیم کہے گا، سجدے کرے گا، سبحان ربی الاعلیٰ کہے گا۔ آپ بتائیں کہ کیا اس کی نماز ہو جائے گی؟
کیوں؟ اس لیے کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے طریقے کے مطابق نہیں ہے۔
اسی طرح، ظہر کی نماز میں کوئی آدمی کہے کہ جی! گرمی بہت ہے، آج میں ظہر کی چار رکعات کی بجائے دو رکعات پڑھ لوں۔ تو کیا اس کے چار رکعات کی بجائے دو رکعت پڑھنے سے اس کی نماز ہو جائے گی؟
نہ کمی کی اجازت ہے اور نہ بیشی کی اجازت ہے۔
الله تعالیٰ کے احکامات کو محمد رسول الله کے طریقے کے مطابق کرنا ہے۔
یہ یاد رکھیے کہ جب بندہ بندگی اختیار کرے گا اور الله تعالیٰ کی مرضی حاصل کرنے کی کوشش کرے گا تو الله تعالیٰ اس کے کام بنائیں گے، بگاڑیں گے نہیں۔ سارے کام بنیں گے، بگڑیں گے نہیں۔
مسواک کو لے لیجیے۔ آج کل لوگ دانتوں کی صفائی کے لیے ٹوتھ برش کرتے ہیں۔ لیکن اصل مسواک ہے۔ مسواک سے کیا ہوتا ہے؟ مسواک سے منھ اور دانت صاف ہوں گے۔ سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسواک کا بہت اہتمام فرماتے تھے اور آج کل ہم لوگ اتنا ہی اس سے دور ہیں۔ جب کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بہت اہتمام فرماتے تھے۔ صرف وضو میں نہیں، وضو کے سوا بھی مسواک کا اہتمام فرماتے تھے۔ کسی سے ملنے جارہے ہیں، تب بھی مسواک؛ کسی سے مل کے آرہے ہیں، تب بھی مسواک۔ کسی نے پوچھا، اے الله کے رسول ! آپ اتنا مسواک کا اہتمام فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری گفت گو فرشتوں سے ہوتی ہے اور فرشتوں کو بدبو سے نفرت ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ میرے منھ میں ہر وقت خوش بو ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مسواک کا اتنا اہتمام ہے کہ جب آپ اس عالم فانی سے عالم بالا کی طرف سفر فرمارہے ہیں اور انتقال کا وقت ہے، تب بھی مسواک کررہے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کا سر مبارک میری گود میں تھا۔ یہ مرتبہ کسی اور کے پاس نہیں ہے کہ آپ کا سر میری گود میں ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارے سے مسواک طلب کی۔ الله سے ملاقات کے لیے جارہے ہیں۔ چناں چہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی الله عنہا سمجھ گئیں اور فوراً مسواک لی او رمسواک کو حضرت عائشہ رضی الله عنہا نے اپنے دانتوں سے نرم کیا اور نرم فرماکر آپ صلی الله علیہ وسلم کو دی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کا آخری سفر بھی حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی گود میں تھا اور آخری عمل جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، وہ کیا ہے؟ مسواک۔(عن عائشہ رضی الله عنہا: دخل عبدالرحمن بن أبی بکر علی النبی صلی الله علیہ وسلم وأنا مسندتہ، إلی صدری، ومع عبدالرحمن سواک رطب یستن بہ، فأبدہ رسول الله ا بصرہ، فأخذت السواک، فقضمتہ، وطیبتہ، ثم دفعتہ إلی النبی ا فاستن بہ، فمارأیت رسول الله ا استن استنانا قط أحسن منہ، فما عدا أن فرغ رسول الله ا رفع یدہ أو اصبعہ، ثم قال: فی الرفیق الأعلی ثلاثا ثم قضی، وکانت تقول: مات ورأسہ بین حاقنتی وذاقنتی“(بخاری، کتاب المغازی، باب مرض النبی صلی الله علیہ وسلم ووفاتہ، رقم الحدیث:4438)
ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کا منھ صاف رہے۔ مسواک کرنے سے کیا ہو گا؟ منھ صاف ہو گا۔ الله کے رسول صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا:
السواک مطھرة للفم مسواک منھ کو پاک کرتی ہے، ومرضاة للرب(السنن الکبری للنسائی، کتاب الطہارة، الترغیب فی السواک1/75) اور رب کو راضی کرتی ہے۔ مسواک سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں۔
میں نے اپنی ایک خاتون عزیزہ کو مسواک پیش کی تو وہ کبھی مسواک کو دیکھیں اور کبھی مجھے دیکھیں۔ ہمارے ہاں تو مردوں میں مسواک کا رواج نہیں، عورتوں میں بھلا کیا ہوگا؟ وہ کہنے لگیں، یہ کیا ہے؟
میں نے کہا مسواک ہے۔ چونکہ مسواک کا رواج ہی نہیں، عادت ہی نہیں، اس لیے آپ اپنے گھروں میں تجربہ کر لیں، کسی کو مسواک دیں، خاص کر کسی خاتون کو مثلاً اپنی والدہ کو، خالہ کو، اپنی پھوپھی کو تو وہ پہلے آپ سے پوچھیں گی، یہ کیا ہے؟
مسواک سے منھ صاف ہو، یہ عادت ہے، اس سے ایک انسانی ضرورت پوری ہوتی ہے، لیکن اگر اس کے استعمال کے وقت صرف نیت کرلی کہ مسواک کرنے سے میرا رب راضی ہوجائے تو یہ عادت اب عبادت بن جائے گئی۔
ایک نوجوان حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ کی خدمت میں اُن کی عیادت کرنے آئے۔ جب وہ جانے لگے تو آپ نے انھیں بلوایا۔ جب وہ آیا تو حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے اس سے فرمایا: یا أخی ارفع ثوبک، اے میرے بھائی، یہ اپنے کپڑے ذرا اوپر کر لو فإنہ انقیٰ لثوبک کیا کوئی آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے خراب ہوں؟ ہر آدمی چاہتا ہے کہ اس کے کپڑے صاف ہوں۔الله تعالیٰ کام بناتے ہیں، بگاڑتے نہیں۔ حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ نے اس سے فرمایا: کپڑا اوپر کرلو۔ اس سے کیا فائدہ ہو گا؟ دنیاوی فائدہ تو یہ ہے کہ تمہارے کپڑے صاف رہیں گے ، انقی لثوبک اور دینی فائدہ یہ کہ عادت، عبادت بن جائے گی، واتقی لربک(أسد الغابہ4/187) اپنا کپڑا، اپنی شلوار کا پائنچاٹخنوں سے اوپر اٹھا کر رکھو گے تو اس سے تمہارے رب بھی راضی ہوجائیں گے
دین اسلام جانوروں کی طرح زندگی گزارنے کا نام نہیں ہے۔
میں نے عر ض کیا کہ کھانا تو شیر بھی کھاتا ہے، کتا بھی کھاتا ہے، بلی بھی کھاتی ہے، چوہا بھی کھاتا ہے، ہندو بھی کھاتا ہے، یہودی بھی کھاتا ہے، نصرانی بھی کھاتا ہے۔ کسی جان دار کو کھائے بغیر چارہ نہیں، سب کھاتے ہیں۔ لیکن ہمارے اور جانوروں کے کھانے میں کچھ فرق ہونا چاہیے یا نہیں ہونا چاہیے؟ ہم جانور نہیں ہیں، یا ہم ہندو نہیں ہیں، ہم یہودی ونصرانی نہیں ہیں۔ ہم کون ہیں؟ ہم مسلمان ہیں، ہم محمدی ہیں، ہم محمد صلی الله علیہ وسلم کے امتی ہیں۔
کھانا تو کھانا ہے۔ آدمی کھانا کھاتا ہے تاکہ بھوک ختم ہو جائے، تاکہ ضعف ختم ہو جائے، طاقت ملے۔ کھانے سے طاقت تو ملے گی۔ لیکن کھانے کے شروع میں اگر آپ نے بسم الله پڑھ لی اور کھانے کے آخر میں الحمدلله پڑھ لی تو آپ کے اگلے پچھلے تمام صغیرہ گناہ صاف ہو جائیں گے۔ (عن معاذ بن أنس رضی الله عنہ قال: قال رسول الله ا: من أکل طعاما فقال: الحمدلله الذی أطعمنی ھذا ورزقنیہ من غیر حول منی ولا قوة، غفرلہ ماتقدم من ذنبہ․(الأذکار النوویہ،2/5)
اتنا مختصر سا عمل ہے کہ کھانا شروع کرنے سے پہلے بسم الله کہہ لیجیے اورکھانے کے آخر میں الحمدلله کہہ لیجیے۔
یہ کھانا الله کی بہت بڑی نعمت ہے۔ یہ کھانا الله تعالیٰ نے ہمیں دیا ہے۔ کھانا کھانے کی پوری تفصیل شریعت میں ہے کہ کھانا بیٹھ کر کھایا جائے۔ میز کرسی پر کھانا ہمارے پیارے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے۔ (عن أنس رضی الله عنہ قال: ما علمت النبی صلی الله علیہ وسلم أکل علی سکرجة قط، ولا خبز لہ مرقق قط، ولا أکل علی خوان قط، قیل لقتادة: فعلی ما کانوا یاکلون؟ قال: علی السفر․ (الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأطعمة، باب الخبز المرقق والأکل علی الخوان والسفر، رقم الحدیث:5071)) ہم کھانا بیٹھ کر کھائیں۔
ہم کھانا دسترخوان بچھا کر کھائیں۔ ہم کھانا اپنے سامنے سے کھائیں(عن وھب بن کیسان أبی نعیم قال: أتی رسول الله صلی الله علیہ وسلم بطعام، ومعہ ربیبہ عمر بن أبی سلمہ، فقال: سم الله، وکل ممایلیک)(الجامع الصحیح للبخاری، کتاب الأطعمہ، باب الأکل ممایلیہ، رقم الحدیث:5063) یہ کھانا عبادت بن جائے گا۔
ہماری زندگی کے جتنے بھی امور اور معاملات ہیں اور جتنی بھی زندگی کی عادتیں ہیں، ہر عادت ہماری عبادت بن سکتی ہے، بشرطے کہ اس عادت کو کرتے وقت نیت کر لی جائے۔اور میں نے عرض کیا کہ نیت کرنے میں آدمی کو کچھ خرچ نہیں کرنا پڑتا۔
امام بخاری رحمہ الله کی ”الجامع الصحیح“ جس کے بارے میں علماء فرماتے ہیں أ صح الکتب بعد کتاب الله یعنیلله تعالیٰ کی کتاب (قرآن پاک) کے بعد سب سے صحیح کتاب ہے، اس میں سب سے پہلی حدیث ہے، إنما الأعمال بالنیات آپ صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں کہ تمام اعمال کا مدار نیتوں پر ہے۔
اب ایک قسم تو ہے اچھی نیت․․․ بہت شان دار، مطلوب ہے ،محمود ہے، وہی ہونی چاہیے۔ اور دوسری قسم ہے بری نیت․․․ جو مذموم ہے، جسے ہر گز نہیں ہونا چاہیے۔ لیکن ایک تیسری قسم کی نیت بھی ہوتی ہے جس میں ہم سب مبتلا ہیں اور وہ ہے کہ کوئی نیت ہی نہیں ہے۔
آپ تشریف لائے، اچھی نیت کرکے آئیں، آپ مسجد میں بیٹھے ہیں، اچھی نیت سے بیٹھیں، آپ نے اچھے کپڑے پہنے ہیں، اچھی نیت سے پہنیں ، آپ نے خوش بو لگائی ہے، اچھی نیت سے لگائیں۔ ان سب پر اجر ہے ، سب پر نیکیاں ہیں۔ اس کے برعکس، ایک ہے بدنیت، بری نیت، مثلاً خدانخواستہ ہم نے یہ سارے کام کیے، لیکن ہم نے دکھاوے کے لیے کیے کہ لوگ دیکھیں کہ میں جمعہ پڑھنے جارہا ہوں، لوگ دیکھیں کہ میں نے اچھے کپڑے پہنے ہیں، لوگ دیکھیں کہ میں نے خوش بو لگائی ہے۔ یہ بدنیتی ہے۔ یہ غلط نیت ہے۔
لیکن جس مرض میں سب سے زیادہ مبتلا ہیں وہ ہے بے نیت، یعنی کوئی کام کرنے کی کوئی نیت ہی نہیں ہے جب کہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم فرمارہے ہیں إنما الأعمال بالنیات کہ تمام اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔
نیت ”فعل القلب“ ہے ،د ل کا کام ہے۔ اس دل کے کام میں لمحہ لگتا ہے۔ آپ بیٹھے بیٹھے ایک لمحے کے اندر اچھی نیت کرسکتے ہیں۔ اگر خدانخواستہ بری نیت تھی تو توبہ کر لیں۔ یہ توبہ بھی لمحاتی چیز ہے کہ اے الله !میں توبہ کرتا ہوں او رمیں یہ نیت کرتا ہوں۔
خوب یاد رکھیے کہ مسلمان الله کا بندہ ہے۔ وہ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کا امتی ہے۔ اس کے لیے الله تعالیٰ کے احکامات کو محمد رسول الله کے طریقوں پر کرنا ضروری ہے۔ مسلمان کوئی کام اپنی مرضی سے نہیں کرے گا بلکہ مسلمان کی اپنی مرضی نہیں ہوتی، وہ الله کی رضا اور خوش نودی کے لیے عمل کرتا ہے۔ چناں چہ وہ چھوٹے سے چھوٹا عمل الله کی رضا کے لیے کرے گا، الله کی خوش نودی کے لیے کرے گا․․․تو الله کی طاقت اور قوت اس کے ساتھ ہو گی۔
آج سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم الله کی طاقت سے واقف نہیں ہیں۔ ہم دوسری چیزوں کی طاقت سے واقف ہیں․․․ پیسے کی طاقت، دولت کی طاقت، فلاں کی طاقت، فلاں کی طاقت وغیرہ۔ لیکن، ہم اللہ کی طاقت و قوت سے واقف نہیں۔
حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ عیسائیوں سے جہاد کے لیے چلے تو ان کے ساتھ آٹھ سو صحابہ تھے۔ چناں چہ جنگ سے پہلے جب عیسائیوں کے سردار سے ملاقات ہوئی تو اس نے کہا، میں تو آپ لوگوں کو بڑا سمجھ دار سمجھتا تھا، آپ تو بڑے احمق اور بے وقوف ہیں کہ ان آٹھ سو آدمیوں کو اتنی بڑی فوج سے لڑوانے آئے ہیں۔ حضرت خالد بن ولید رضی الله عنہ نے فرمایا کہ ہم لوگ نہیں لڑ رہے، ہمارا تو تعلق اوپر والے سے ہے، الله سے ہے ،وہ فتح عطا فرماتا ہے، اس نے ہمیں شریعت عطا فرمائی ، ہم تو الله کی خو ش نودی کے لیے لڑ رہے ہیں، اس کی رضا کے لیے لڑ رہے ہیں۔
چناں چہ ان آٹھ سو صحابہ کی اپنے سے کئی گنابڑی تعداد کی فوج سے سات گھنٹے لڑائی ہوئی۔ اس جنگ میں تیرہ ہزار کافر مردار ہوئے اور صرف سات صحابہ شہید ہوئے۔ غور کیجیے، کیا یہ عقل میں آنے والی بات ہے؟
لیکن، جب آدمی الله کا ہو جاتا ہے اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی اتباع اختیار کرتا ہے، تو الله تعالیٰ کی طاقت اس بندے کے ساتھ ہوتی ہے اور الله رب العزت اسے اس دنیا میں بھی کام یابی عطا فرماتے ہیں اور آخرت کی ہمیشہ ہمیشہ کی کام یابی بھی مقدر فرماتے ہیں۔
ربنا تقبل منا إنک أنت السمیع العلیم، وتب علینا إنک أنت التواب الرحیم، وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وعلی آلہ وأصحابہ اجمعین، برحمتک یا أرحم الراحمین․