Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 17
حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم
کا سفرنامہ تھائی لینڈ

ضبط وتحریر:مولانا فیصل احمد خاں

مدرسہ المعہد المدنی( تبلیغی مرکز) بینکاک کے مدیر مولانا موسی صاحب جلسہٴ دستار بندی کے سلسلے میں بہت فکر مند تھے، اس سلسلے میں انہوں نے حضرت شیخ الحدیث مولانا سلیم الله خان صاحب دامت برکاتہم کو تھائی لینڈ تشریف لانے کی دعوت دی الله تعالیٰ نے سارے مراحل اور قانونی کارروائیوں کو بسہولت پایہٴ تکمیل تک پہنچایا، چناں چہ6/مئی2016ء بروز جمعة المبارک صبح6:40 پر حضرت شیخ الحدیث مدظلہم، ان کے صاحب زادے جامعہ فاروقیہ کراچی کے نائب مہتمم حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب دامت برکاتہم اور ان کے فرزند مفتی معاذ خالد صاحب بینکاک ائیرپورٹ پر پہنچ گئے ائیرپورٹ پر معزز مہمانانِ گرامی کے اعزاز واستقبال کے لیے المعہد المدنی کے مدیر مولانا موسی صاحب مقامی تھائی تاجر محترم حاجی صالح صاحب اور ان کے داماد فاضل جامعہ بنوری کراچی مولانا نعیم صاحب المعہد المدنی کے شعبہ تحفیظ کے پاکستانی استاذ فاضل رائے ونڈ مولانا عمر فاروق صاحب اور راقم کے والد ماجد محترم جنا ب شاہد علی خان صاحب تشریف لائے۔

کئی دنوں پر مشتمل طویل انتظار کے بعد حضرت شیخ کی زیارت کی لذت، ان کی ہم نشینی کی ٹھنڈک صرف وجدان سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں، قلم وتحریر ان کو ضبط کرنے اور بیان کرنے سے قاصر ہیں #
        آنکھوں کی پی نہیں تم نے
        آنکھوں سے پی نہیں تم نے

الله تعالیٰ کے فضل وکرم سے امیگریشن کے مراحل سہولت وراحت سے تکمیل تک پہنچنے کے لیے رات کو راقم کے والدین اہلیہ او رمعصوم بچوں نے سورہ یسٰین کی تلاوت کرکے آنے والے معزز مہمانوں کے لیے خصوصی دعا کی۔

حضرات کرام ائیرپورٹ سے تبلیغی مرکز کے بالمقابل واقع حاجی صالح صاحب کے گھر میں تشریف لائے۔ ضعف اور سفر کی تھکان کے باعث حضرت شیخ صاحب آرام فرمانے لگے اور ناشتہ بھی نہیں فرمایا جب کہ دیگراحباب نے ناشتہ سے فراغت کے بعد آرام فرمایا پہلے سے طے شدہ پروگرام کے مطابق وسطِ بینکاک میں واقع پاکستان مسجد کے امام جناب مولانا عزیز بٹگرامی صاحب تشریف لے آئے چناں چہ 11:15 بجے پاکستان مسجد میں نماز جمعہ کے لیے رورانہ ہونا تھا۔ پہلے خیال یہ تھا کہ حضرت شیخ صاحب کو زحمت نہ دی جائے اور حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب ہی تشریف لے جائیں لیکن مولانا عزیز صاحب کے شدید اصرار اور ان کی تمنا کا خیال کرتے ہوئے حضرت والا کی خدمت میں عرض کر دیا گیا اور وہ مرد مجاہد تمام تر ضعف اورتھکاوٹ کے باوجود پاکستان مسجد جانے کے لیے آمادہ ہو گئے مرکز کی شوریٰ کے رکن جناب حاجی حنیف صاحب کے صاحب زادے بھائی ظہیر صاحب گاڑی چلا رہے تھے جب کہ دوسری گاڑی مولانا ایوب صاحب ڈرائیو کر رہے تھے پاکستان مسجد جانے والوں میں حضرات گرامی قدر کے ساتھ راقم کے والد محترم جناب شاہد علی خان صاحب اور راقم کے بچے محمد احمد خان، ابوبکر احمد خان اور عائشہ خان کے علاوہ مولانا عمر فاروق صاحب بھی تشریف لے گئے۔

نماز جمعہ سے قبل حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب کا بیان ہوا مولانا نے اپنے بیان میں ﴿فَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَیْْراً یَرَہ،وَمَن یَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرّاً یَرَہُ ﴾کو موضوع بنا کر اعمال کی اہمیت پر خوب توجہ دلائی دنیا کی بے ثباتی اور اس کی حقارت کو بیان فرمایا طویل حدیث کو ذکر فرماتے ہوئے نیک عمل کی طاقت اور اس کی عظمت واہمیت پر زور دیا۔ رجب اور شعبان کے مہینوں میں طلب برکت کی مسنون دعا کو ذکر فرماتے ہوئے رمضان المبارک کے استقبال اور اس کی تیاری کی خوب خوب ترغیب دی۔

بعدازاں امام صاحب کی دعوت کو قبول کرتے ہوئے تقریباً سات منٹ پر مشتمل حضرت والا زید مجدہم نے خطاب فرمایا، حضرت والا نے ارشاد فرمایا: آج باطل اور طاغوت نے ہر طرف نئی نئی چیزیں بکھیر دیں ہیں، نئی روشنیوں اور دنیا کی چمک دمک کے چکر میں نہ پڑو ”ولکم فی رسول الله أسوة حنسة“ سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کو اپناؤ ۔ جب آپ سنتوں کو اپنائیں گے اور آخرت کو ترجیح دیں گے تو آپ کام یاب ہوں گے اور اگر دنیا کے چکر میں آخرت کو فراموش کرد یں گے تو آپ ناکام ہوں گے۔“

نماز سے فراغت کے بعد کئی پاکستانی احباب حضرت والا کی زیارت وملاقات کا شرف حاصل کرنے کے لیے اگلی صفوف میں تشریف لائے، ان احباب میں سے جن احباب سے راقم کی ملاقات ہوئی ان میں حافظ خضر صاحب، بھائی عبدالمالک صاحب، بھائی جاوید صاحب، حافظ فیصل صاحب، بھائی وقاص صاحب، بھائی فاروق صاحب، بھائی عرفان صاحب او ربھائی اختر صاحب ودیگر شامل ہیں، ظہرانے کی پرتکلف دعوت بجنور انڈیا کے رہنے والے بھائی سلیم صاحب کے گھر میں تھی۔ اس موقع پر حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے باذوق طبیعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بھائی سلیم صاحب فرمایا کہ میری سسرال بھی بجنور سے ہے رخصت ہوتے ہوئے حضرت والا نے بھائی سلیم صاحب کی درخواست پر ان کے او ران کے اہل خانہ کے لیے دعا بھی فرمائی۔

آج بینکاک مرکز میں شب ہفتہ میں شب گزاری کا عمل ہونا تھا چناں چہ امیر مرکز محترم جناب غلام محمد قاسم صاحب المعروف بابوبھائی کی درخواست پر مغرب کے بعد حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب کا تفصیلی بیان مولانا نعیم صاحب کی ترجمانی کے ساتھ ہوا، جب کہ تقریباً 15 منٹ پر مشتمل حضرت والا کا خطاب بھی ہوا، حضرت والا نے ارشاد فرمایا:”کان رسول الله صلی الله علیہ وسلم متواصل الأحزان دائم الفکرة“، آپ صلی الله علیہ وسلم ہمیشہ غم گین رہتے تھے ہر وقت آپ پر فکر سوار رہتی تھی اور یہ فکر کون سی فکر تھی؟ یہ فکر اس کی تھی کہ کس طرح الله تعالیٰ کی مخلوق الله تعالیٰ سے جُڑ جائے، اس انسان کو پیدا الله نے کیا ہے اور یہ اپنا تعلق الله تعالیٰ کے غیر سے جوڑتا ہے آسمان کو کس نے بنایا، الله نے، زمینوں کو کس نے بنایا، الله نے، بادلوں سے پانی کس نے برسایا؟ الله نے، آپ کو کس نے بنایا؟ االله نے، کیا کوئی یہ کہہ سکتا ہے کہ ہم نے خود اپنے آپ کو بنایا ہے ہمارا مشاہدہ ہے کہ شادی کے عمل سے گزرنے کے باوجود سال ہا سال لوگ اولاد سے محروم رہتے ہیں تو جب ہمیں الله تعالیٰ ہی نے بنایا ہے تو ہمیں اسی سے جڑنے کی فکر کرنی چاہیے ایک بات یہ ہے کہ الله نے فرمایا ہے: ”ولکم فی رسول الله اسوہ حسنة“ تو ہمیں حضور صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں کو اپنانا ہے آج لوگ سنتوں کی پرواہ نہیں کرتے، نئی نئی چیزوں اور دنیا کی چمک دمک کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں۔

مولانا الیاس رحمة الله علیہ کا یہی غم تھا کہ کس طرح الله تعالیٰ کے بندے الله تعالیٰ سے جڑ جائیں حضور صلی الله علیہ وسلم کا بھی یہی غم تھا، سارے نبیوں کا بھی، یہی کام تھا۔آج دعوت وتبلیغ میں یہی کوشش ہے کہ انسان الله سے جڑ جائیں اور اس کے احکام کی پیروی کرنے والے بن جائیں۔

میں عاجز او رمعذور ہوں، آدھی تہائی بات مشکل سے کہہ پاتا ہوں میری بات کا خلاصہ یہ ہے کہ دعوت وتبلیغ کی محنت نبیوں والی محنت ہے حضور صلی الله علیہ وسلم کی محنت ہے کہ کس طرح ہم الله تعالیٰ سے جڑ جائیں اور اس کے احکام کی پیروی کرنے والے بن جائیں اس کام کے لیے خوب ہمت کرو، پیچھے نہ ہٹو۔

حضرت والا کے خطاب کے بعد تشکیل والے حضرات نے کھڑے ہو کر تشکیل کا عمل شروع کر دیا او ر مجمع تبلیغی تقاضوں کے لیے اپنے ناموں کو پیش کرنے لگا۔

نماز عشاء سے فراغت کے بعد حضرت والا قیام گاہ پر آرام کے لیے تشریف لے گئے اور دیگر حضرات گرامی قدر راقم کے گھر عشائیہ کے لیے تشریف لے گئے۔

آج7/مئی بروز ہفتہ امیر مرکز جناب بابو صاحب کے بڑے صاحب زادے بھائی آصف صاحب کے گھر ناشتے کا اکرام مقرر تھا، حضرت والا مع جملہ احباب ناشتے کے لیے تشریف لے گئے۔

تبلیغی مرکز مسجد”المدنی“ من پوری بینکاک میں 8:30 بجے جلسہٴ دستار بندی کی پروقار تقریب کا آغاز ہوا۔ تلاوت قرآن مجید، حمد باری تعالیٰ ہدیہٴ نعت بخدمت آقائے نام دار، سرور دو عالم صلی الله علیہ وسلم اور دیگر نظمیں اور أناشید سے تقریب کی رونق میں خوب اضافہ ہوا۔

9:30 بجے کے قریب حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب زید مجدہم کو اصلاحی بیان اور طلباء کرام سے خطاب کی دعوت دی گئی۔ حضرت الاستاذ بیان کے لیے تشریف لائے تو آپ نے یہ دیکھا کہ دورہٴ حدیث کے طلباء کرام احادیث کی کتب لیے ہوئے جہاں بیٹھے ہوئے ہیں وہ جگہ اسٹیج سے نیچے ہے چناں چہ حضرت مولانا نے اسٹیج پر بیٹھنے سے پہلے کتاب کے ادب کا خیال فرماتے ہوئے طلباء سے کہا کہ وہ اپنی کتابیں یہاں سے اٹھا کر کسی دوسری بلند جگہ پر رکھ دیں چناں چہ وہ کتابیں مسجد کے منبر کے اوپر رکھ دی گئیں۔ حضرت مولانا نے بیان میں فرمایا:

رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے” خیر کم من تعلم القرآن وعلمہ“ تم میں سے سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن مجید کو سیکھے اور دوسروں کو سیکھائے مولانا نے فرمایا اس حدیث میں قرآن مجید سیکھنے اور سکھانے والوں کا عظیم الشان مقام بیان کیا گیا ہے چناں چہ آپ حضرات طلباء کبھی بھی احساس کم تری کا شکار نہ ہوں اور دوسرے دنیاوی علوم پڑھنے والے حضرات سے اپنے آپ کو کبھی بھی کم تر خیال نہ فرمائیں۔

﴿اقرأ وارتق ورتل کما کنت ترتلھا فی الدنیا وإن منزلتک عند اٰخر اٰیة تقرأھا﴾

قرآن پڑہیئے اور جنت کے درجوں پر چڑھیے اور ترتیل کے ساتھ ایسے پڑھیے جیسے آپ دنیا میں پڑھا کرتے تھے اور آپ کا مقام وہاں پر ہے جہاں آپ پڑھتے پڑھتے آخری آیت پر پہنچیں گے۔

مولانا نے فرمایا یہ مقام کسی دنیاوی علوم کے حامل ڈاکٹر، انجینئر وغیرہ کو نہیں دیا جائے گا یہ صرف اہل قرآن کا مقام ہو گا﴿خیر القرون قرنی ثم الدین یلونھم ثم الذین یلونھم﴾” سب سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے پھر وہ جو اس کے بعد ہے پھر وہ جو اس کے بعد ہے۔“

مولانا نے فرمایا: اس حدیث میں لفظ ”قرنی“ میں ایک لطیف اشارہ کے ذریعے چاروں خلفائے راشدین کے زمانوں کو بھی عہد نبوی (علی صاحبہ الصلاة والسلام) کے ساتھ گویا متحد فرما کر ہدایت یافتہ قرار دیا گیا ہے چناں چہ قرنی میں ”قاف“ سے حضرت ابوبکر صدیق کے آخری حرف قاف کی طرف اشارہ ہے”قرنی“ کا دوسرا حرف حضرت عمر فاروق کے نام میں عمر کے آخری را کی طرف اشارہ ہے اسی طرح قرنی کا نون حضرت عثمان غنی کے نون کی طرف اور قرنی کا آخری حرف یا حضرت علی کے نام کے آخری حرف یا کی طرف اشارہ کر رہا ہے رضی الله عنہم أجمعین۔

مولانا نے فرمایا آپ غور فرمائیں کہ مذکورہ حدیث میں عہد نبوی کو سب زمانوں سے بہترین زمانہ قرار دیا گیا ہے اس زمانے میں کیا کام ہوتا تھا صحابہ کرام رضی الله عنہم اجمعین شب وروز حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی مجلس اور صحبت میں حاضر رہتے تھے اور آپ کے ارشادات سنتے او رانہیں یاد کرتے او ران پر عمل کرتے تھے چناں چہ آپ کو دورہٴ حدیث کے اس سال میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ایک گونہ مشابہت حاصل رہی اور یہ مشابہت آپ کے لیے بہت بڑا اعزار اور شرف ہے لہٰذا آپ کبھی بھی احساس کم تری کا شکار نہ ہوں بلکہ اپنے مرتبے کو پہنچانتے ہوئے اپنی ذمے داری کا احساس کریں۔

مولانا نے فرمایا: طلباء کرام اور علماء کرام کو صفات سے آراستہ ہونا ان کے مراتب اور درجات کے لیے از حدضروری ہے ان صفات میں سب سے اہم اور ضروری صفت ادب ہے با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب کی مثل مشہور ہے ادب کا دائرہ بہت وسیع ہے جس میں اساتذہ کا ادب کتابوں کا ادب مدرسے کا ادب آلات علم کا ادب درس گاہ کا ادب کیوں کہ اس درس گاہ کی وجہ سے دھوپ ، بارش وغیرہ سے محفوظ رہتے ہوئے بآسانی ہم نے علم حاصل کر لیا چناں چہ اس کا ادب بھی ہونا چاہیے یہاں تک کہ مدرسے کے چوکیدار ، باورچی، مالی، خاکروب کا بھی ادب ضروری ہے کیوں کہ یہ لوگ ہمارے تحصیل علم میں ہمارے معاون اور مدد گار ثابت ہوئے۔ آپ یاد رکھیں بڑے بڑے ذہین فطین طلباء بے ادبی کی وجہ سے محروم ہو جاتے ہیں دوسری اہم صفت ”تواضع“ ہے ”من تواضع لله رفعہ الله“ جو الله کے لیے پستی اور چھوٹا پن اختیار کرتا ہے الله تعالیٰ اسے اعزاز او رمرتبہ عطا فرماتے ہیں جو درخت جتنا پھل دار ہوتا ہے وہ اتنا ہی جھکا ہوا ہوتا ہے او رجو درخت پھلوں سے بالکل خالی ہوتا ہے وہ بالکل سیدھا اکڑا ہوا ہوتا ہے چناں چہ آپ حضرات تواضع اختیار فرمائیں الله تعالیٰ آپ کی افادیت کو خوب بڑھا دیں گے اور اس میں برکت ہو گی۔

تیسری اہم صفت اجتماعیت ہے آپ انفرادیت کو اختیار نہ فرمائیں بلکہ اجتماعیت کے ساتھ رہیں مرکز نظام الدین دہلی کے ایک بزرگ مولانا عبیدالله بلیاوی نور الله مرقدہ تھے، وہ بہت شفقت فرماتے تھے ان سے میرا بہت تعلق تھا بہت عرصہ پہلے میں مرکز نظام الدین حاضر ہوا پرانی تعمیر میں مسجد سے داخل ہو کر دائیں جانب مولانا کا کمرہ تھا میں مولانا کے کمرے میں داخل ہوا تو انہوں نے بہت محبت کا اظہار فرمایا اور مجھ سے فرمایا کہ آپ میرے کمرے میں ہی رہیں چناں چہ میں ان کے کمرے میں قیام پذیر رہا دو تین دن گزرنے کے بعد حضرت مولانا نے مجھ سے پوچھا کہ آپ وضو کہاں کرتے ہیں؟ میں نے بتا یا کہ نلوں والے وضو خانے میں مرکز میں ایک دوسرا وضو خانہ حوض والا بھی تھا میرے جواب پر حضرت مولانا نے تین مرتبہ” انا لله وإنا إلیہ راجعون“ پڑھا۔

میں نے عرض کیا حضرت مجھ سے ایسی کیا غلطی ہو گئ؟

حضرت مولانا نے جو جواب دیا وہ میرے دل پر آج تک نقش ہے مولانا نے فرمایا کہ دیکھو نل الگ الگ ہیں ان سے الگ الگ والا جذبہ پیدا ہوتا ہے او رحوض ایک ہے اور اس میں سب کے ہاتھ ڈلتے ہیں، چناں چہ اس پر وضو کرنے سے اجتماعیت والا جذبہ پیدا ہوتا ہے اب غور فرمائیں کہ مولانا نے کتنے اہتمام سے اجتماعیت کی اہمیت کو ذکر فرمایا۔

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب نے فرمایا کہ آج دنیا میں قسم قسم کی آوازیں لگ رہی ہیں آپ اُدھر متوجہ نہ ہوں، کسی احساس کم تری کا شکار نہ ہوں بلکہ انہی مدارس ومکاتب میں مشغول رہیں۔ جس طرح الله تعالیٰ نے قرآن مجید کی حفاظت کا ذمہ لیا ہے بالکل اسی طرح وہ لوگ جو قرآن مجید کو پڑھتے اور پڑھاتے ہیں ان کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا ہے بلکہ وہ درس گاہیں جن میں قرآنی تعلیم دی جاتی ہے ان کی بھی حفاظت کا ذمہ لیا ہے۔

اس طرح حضرت مولانا نے طلباء کرام کو مفید اور ضروری ہدایات کے ساتھ بیان کو مکمل فرمایا۔

مولانا کا بیان نہ صرف طلباء بلکہ علماء کرام اور مدرسین کے لیے نہایت نافع ثابت ہوا حضرت مولانا کے تفصیلی خطاب کے بعد تقریب کے دوسرے شرکاء جن میں مدرسہ کے مدیر مولانا موسی صاحب کا تعارفی بیان اور دورہٴ حدیث کے طالب علم لقمان کا عربی میں حسن اخلاق اور حیا کے موضوع پر خطاب شامل ہے بعدا زاں یمن کے ایک عالم کا بیان ہوا جو سلسلہٴ نقش بندیہ کے شیخ حبیب عمر حفظہ الله ورعاہ کے متوسلین میں سے ہیں بزبان عربی الله تعالیٰ کی محبت او راتباع سنت کے موضوع پر پُر مغز بیان فرمایا۔ (جاری)

Flag Counter