مبصر کے قلم سے
ادارہ
چند معروف لیکن غیر مستند احادیث
تالیف: مفتی صداقت علی
صفحات:123 سائز:23x36
ناشر: تحقیق کدہ، پشاور
مولانا مفتی صداقت علی جامعة العلوم الاسلامیہ الفریدیہ، اسلام آباد کے فاضل اور جامعہ عثمانیہ پشاور کے متخصص ہیں، انہوں نے فراغت کے بعد تبلیغی جماعت میں اندرون ملک سال اور بیرون ملک دو اسفار کے علاوہ بھی کافی وقت لگایا ہے، اس دوران انہیں مواعظ اور بیانات ومجالس میں مختلف قسم کی ایسی روایات سننے کو ملیں جو معروف ومتداول کتب حدیث میں موجود نہیں ہیں، لہٰذا ان کے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس طرح کی روایات کی تحقیق کر لی جائے، چناں چہ زیر نظر کتاب میں انہوں نے اس طرح کی پچپن روایات کی تحقیق پیش کی ہے جو عام مجالس ومواعظ میں حدیث کی حیثیت سے مشہور ومعروف ہیں، حتی کہ بعض علماء اور اہل علم بھی ناواقفیت کی وجہ سے انہیں حدیث کی حیثیت سے بیان کر دیتے ہیں، جب کہ در حقیقت وہ موضوع، بے سند اور من گھڑت روایات ہیں اور حدیث نبوی کی حیثیت سے انہیں بیان کرنا درست نہیں ہے۔ کتاب کی ابتداء میں مؤلف نے کتاب کے متعلق کچھ گزارشات پیش کی ہیں جنہیں یہاں نقل کر دیا جاتا ہے :
”اس کتاب کے مطالعہ کے دوران مندرجہ ذیل باتیں ذہن نشین رہنی چاہییں۔
یہ کتاب ایک مقدمہ، چھ ابواب اور ان کی ذیلی فصول پر مشتمل ہے۔ جن میں سے پہلے باب میں حدیثِ موضوع کی تعریف، اس کا حکم اور حدیث گھڑنے کے اسباب ذکر کیے گئے ہیں۔ باقی پانچ ابواب میں کل پچپن ایسی روایات ذکر کی گئی ہیں جن کی نسبت آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی طرف درست نہیں۔
اس کتاب میں درج احادیث کے نمبر شمار میں موضوع روایات ”حدیث“ کا اطلاق لغوی معنی کے اعتبار سے کیا گیا ہے ۔ اصطلاحی معنی یعنی حدیثِ نبوی کے اعتبار سے لفظِ حدیث کا اطلاق نہیں کیا گیا۔
احادیث پر موضوع او رمن گھڑت ہونے کا حکم لگانے کے لیے محتاط اور معتدل ائمہ حدیث کے اقوال او رکتب کا سہارا لیا گیا ہے۔ مثلاً حافظ ابن حجر عسقلانی ، علامہ سخاوی ، علامہ سیوطی، حافظ عجلونی او رملا علی قاری وغیرہ۔ اپنی ذاتی رائے یا ذاتی تحقیق سے کلی طور پر اجتناب کیا گیا ہے ۔ یعنی اس کتاب میں مصنف کی حیثیت محقق کی نہیں بلکہ محض ناقل کی ہے۔
جو ائمہ حدیث، احادیث پر حکم لگانے میں متشدد مشہور ہیں، ان کے اقوال کی بنیاد پر کسی حدیث پر موضوع ہونے کا حکم نہیں لگایا گیا ہے۔ بلکہ ایسے حضرات کے اقوال کو بعض مقامات پر محض تائیدی حیثیت سے ذکر کیا گیا ہے۔
اس کتاب میں احادیث کو استقرائی طور پر جمع کیا گیا ہے، یعنی جو موضوع روایات میرے سننے میں آئیں، ان کو جمع کیا گیا ہے ۔ ممکن ہے کہ بہت سی ایسی موضوع روایات مزید بھی موجود ہوں جو مواعظ میں عام ہیں لیکن اس کتاب میں ذکر نہ کی گئی ہوں۔
اس کتاب میں جن روایات کو موضوع کہا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ روایات آپ صلی الله علیہ وسلم کی فرمودہ نہیں ہیں، مطلق ثبوت کی نفی نہیں کی گئی ہے۔ یعنی ہو سکتا ہے کہ وہ کسی بزرگ کا مقولہ ہو جیسا کہ کئی مقامات پر اس کی نشان دہی بھی کی گئی ہے۔“
یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک عمدہ او ربہترین علمی کاوش ہے اور اس کی اہمیت وافادیت کے لیے اتنی بات کافی ہے کہ اس کی وجہ سے کسی غیر حدیث کی نسبت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی طرف نہیں ہو سکے گی، علماء، خطباء، طلبہ اور عوام الناس سب کے لیے یہ کتاب مفید وکار آمد ہے، اور عوام وخواص سب کو اس کتاب کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ مؤلف اس کاوش پر آفریں کے مستحق ہیں۔ الله تعالیٰ ان کی اس کاوش کو قبول فرما کر اسے دنیا وآخرت میں خیر کا ذریعہ بنائے۔ آمین
یہ کتاب عمدہ ورق، مضبوط جلد بندی اور لیمینیشن کے ساتھ شائع کی گئی ہے۔
کتابیات مفتی اعظم
تالیف: پروفیسر بشیر حسین حامد
صفحات:208 سائز:23x36=16
ناشر: مکتبہ معارف القرآن، کراچی
جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ زیر نظر کتاب میں مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمة الله علیہ کی تصنیفات وتالیفات کا جامع اشاریہ اور فہرست مرتب کی گئی ہے، جس میں یہ بتایا گیا ہے کہ حضرت مفتی صاحب رحمة الله علیہ کی کون سی تالیف، رسالہ یا مضمون ، کس سن میں، کس مکتبہ یا رسالہ میں شائع کیا گیا ہے، نیز خود حضرت مفتی صاحب کا تذکرہ جس رسالے یا کتاب میں آیا ہے اس کا تفصیلی اشاریہ بھی اس میں دے دیا گیا ہے۔
یہ کتاب پروفیسر حافظ بشیر حسین حامد نے مرتب کی ہے اور ”مقدمہ“ میں کتاب کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:
”کتابیاتِ مفتی اعظم “ پر کام کرنے کا داعیہ اس وقت پیدا ہوا جب حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب کی علمی وتصنیفی خدمات پر مشتمل”کتابیات طیب“ جون1999ء میں طبع ہو کر منظر عام پرآئی، تو اہل علم کی طرف سے حوصلہ افزائی ہوئی، جس پر مزید کام کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا۔ چناں چہ توکلاً علی الله حضرت مفتی صاحب پر کام شروع کر دیا۔ اور تقریباً 12 سال کی تگ و دو کے بعد یہ تحقیقی کاوش پایہٴ تکمیل کو پہنچی۔ ” کتابیاتِ مفتیٴ اعظم“ کے جو حصے مکمل ہوتے گئے ماہنامہ ”البلاغ“ میں طباعت کے لیے بھیجتا رہا۔ الله تعالیٰ جزائے خیر دے ادارہ کو کہ نہ صرف میری ہمت افزائی فرمائی بلکہ میری اس ناقص وناتمام سعی کو ” البلاغ“ کی زینت بخشتے رہے۔ جس کی تفصیل یہ ہے:
حیاتِ مفتیٴ اعظم ۔ ایک نظر میں: جولائی2000ء۔
مقدمات وتقاریظ مفتیٴ اعظم: فروری2002ء۔
تذکرہ مفتیٴ اعظم کتب ورسائل :
(قسط نمبر:1) جولائی2002ء۔
(قسط نمبر:2) اپریل2006ء
(قسط نمبر:3) اگست2006ء
خطبات ومجالسِ مفتیٴ اعظم : جون2007ء۔
مقالات ومضامین مفتیٴ اعظم:
(قسط نمبر1) مئی2010ء
(قسط نمبر2) مئی2010ء
(قسط نمبر3) جولائی2010ء
الحمدلله یہ تحقیقی کام 30/ مارچ2011ء کو مکمل ہوا۔ یہ تکمیل اس معنی میں نہیں کہ اس میں کسی ترمیم واضافہ کی گنجائش نہیں، بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ حتی المقدور سعی وکاوش سے جو مہیا ہو سکا اکٹھا کر دیا۔
ماہنامہ ”القاسم“ دیوبند، ماہنامہ”المفتی“ (عربی) دیوبند، ماہنامہ ”دارالعلوم“ دیوبند وغیرہ میں حضرت مفتی صاحب کے جو مضامین ومقالات طبع ہوتے رہے ہیں ان سب تک اپنی نارسائی کا اعتراف کرتے ہوئے ان احباب سے درخواست کرتا ہوں جن کو یہ رسائل میسر آسکیں مجھے ضرور مطلع فرماتے رہیں۔“
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب عثمانی رحمة الله علیہ کی تصنیفات وتالیفات کو الله تعالیٰ نے جو قبولیت عطا فرمائی ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے۔ زیر نظر اشاریہ سے یہ معلوم ہو سکے گا کہ حضرت مفتی صاحب کی کون سی کتاب، مضمون ،مقالہ، مقدمہ یا تقریظ کہاں چھپی ہے اور خود حضرت مفتی صاحب کا تذکرہ کس کتاب، مقالے یا رسالے میں ہے۔ اس سے حضرت کی تصنیفات وتالیفات سے استفادہ کرنے والوں کے لیے سہولت وآسانی پیدا ہو گی اور امید کی جاتی ہے یہ کتاب اپنے مقصد میں کام یاب ثابت ہو گی۔
کتاب کا کاغذ رنگین واعلیٰ ہے اور طباعت واشاعت معیاری وخوب صورت ہے۔