Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1437ھ

ہ رسالہ

15 - 17
حقوق العباد کی تاکید واہمیت

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ
	
”عن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:”من کانت لہ مظلمة لاخیہ من عرضہ او شیٴ فلیتحللہ منہ الیوم قبل ان لا یکون دینار ولا درھم، ان کان لہ عمل صالح اخذ منہ بقدر مظلمتہ، وان لم تکن لہ حسنات اخذ من سیئات صاحبہ، فحمل علیہ․“(رواہ البخاری)

”حضرت ابوہریرة رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ،جس کے ذمہ کسی ( مسلمان یا انسان) بھائی کا کچھ حق ہو، اس کی آبرو کے متعلق یا اور کسی قسم کا، وہ اس سے آج معاف کرالے، ایسے وقت سے پہلے کہ نہ اس کے پاس دینار ہو گا نہ درہم، اگر اس کے پاس کچھ عملِ صالح ہو گا، تو بقدر اس کے حق کے اس سے لے کر صاحب حق کو دے دیا جائے گا او راگر اس کے پاس نیکیاں نہ ہوئیں تو اس کے فریق کے گناہ لے کر اس پر لاد دیے جائیں گے۔“

”وعن أبی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: اتدرون ما المفلس؟ قالوا: المفلس فینا من لا درھم لہ ولا متاع، فقال: ان المفلس من امتی من یأتی یوم القیامة بصلوة وصیام وزکوٰة ویأتی قد شتم ھذا، وقذف ھذا، وأکل مال ھذا وسفک دم ھذا، وضرب ھذا، فیعطی ھذا من حسناتہ، وھذا من حسناتہ، فان فنیت حسناتہ قبل ان یقضی ما علیہ اخذ من خطایاھم، فطرحت علیہ، ثم طرح فی النار․“

حضرت ابوہریرة رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ حضرات صحابہ کرام رضی الله عنہم نے عرض کیا مفلس ہم میں سے وہ شخص ہے جس کے پاس نہ درہم ہے نہ مال واسباب۔ ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے، میری امت میں حقیقت میں مفلس وہ شخص ہے کہ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گا کہ مقبول نمازیں، روزے، زکوٰة (اور دیگر عبادتیں) اس کے پاس ہوں گی اور وہ اس حال میں آئے گا کہ کسی کو گالی دی ہو گی ،کسی پر تہمت لگائی ہوگی ، کسی کا مال کھا گیا ہو گا ،کسی کو ناحق قتل کیا ، کسی کو ناحق مارا ہو گا، پس مظلوم صاحب حق کو اس کی نیکیوں ( کا ثواب) دیا جائے گا اور اس کی تمام نیکیاں ختم ہو گئیں او رابھی اہل حق کے حقوق اس کے ذمہ رہے، تو ان اہل حق کے گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے، پھر اس شخص کو دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(ایک دوسری جگہ ہے):
”المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ․“
”یعنی پورا مسلمان وہی ہے، جس کی زبان او رہاتھ سے مسلمان سالم رہیں۔“

اس مختصر مگر نہایت جامع حدیث میں ایک ضروری فائدہ بیان کیا گیا ہے، جو مصالحہ شرعیہ وتمدنیہ ( شرعی او رتمدنی مصلحتیں) دونوں کو شامل ہے، شریعت کی غرض تمدن کو محفوظ رکھنا نہیں، بلکہ اس کی غرض صرف یہ ہے کہ رضائے خداوندی حاصل ہواور الله تعالیٰ وبندہ کے درمیان تعلق صحیح پیدا ہو، لیکن حق تعالیٰ کی غایت ہے کہ اس نے احکام اس طور پر مقرر فرمائے کہ ان پر مصالح تمدنی مرتب ہو جاتے ہیں۔

”من سلم المسلمون․“جس سے مسلمان سالم رہیں کا یہ مطلب نہیں ہے کہ غیر مسلم کی رعایت ضروری نہیں، کیوں کہ حدیث میں یہ بھیہے ”المؤمن من امن الناس بوائقہ“ یعنی مومن وہ ہے، جس کے خطرہ سے تمام آدمی امن میں رہیں ، تو تمام لوگوں کی رعایت ضروری ہوئی، خواہ وہ مسلم ہوں یا کافر، ان سب کے حقوق کی بھی رعایت ہے، البتہ حربی اس حکم میں داخل نہیں اور ” مسلمون“ جو جمع کے صیغہ سے ہے، تو کبھی مجموعہ مراد ہوتا ہے، کبھی ہر ہر واحد، اس سے ظاہر تویہ معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ہر ہر واحد مراد لیا جائے کہ ہر مسلمان اس کی ایذا سے محفوظ رہے۔

”من لسانہ ویدہ“ اس کی زبان اور اس کے ہاتھ سے، اس میں دو قسم کے حقوق کی طرف اشارہ ہے، گویہ تین قسم کے مالی، جانی، عرضی حقوق چھڑانے کے ہیں، جس کو اس حدیث میں صاف فرما دیا کہ:”ان دمائکم واموالکم واعراضکم علیکم حرام، کحرمة یومکم ھذا․“ (تحقیق تمہارے خون، تمہارے مال او رتمہاری آبروئیں، تم پر حرام ہیں مثل تمہاری اس دن کی حرمت کے ) یعنی آپس میں نہ ایک دوسرے کو قتل کرے۔ نہ ناحق مال لے۔ اور نہ آبروریزی کرے۔

پس یہ تین قسم کے حق ہیں، مگر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مال وجان کے حقوق تو اکثر ہاتھ سے تلف ہوتے ہیں اور عرضی اکثر زبان سے ۔ مال کا حق، مثلاً کسی کا مال لوٹ لیا، یا کسی کو لکھ دیا لوٹنے کے لیے، اس کا آلہ یہی ہاتھ ہو گا، اب رہا جان کا حق یہ بھی ہاتھ سے ہوتا ہے اور اگر کسی کو زبان سے قتل کرنے کو کہا، تو یہ بھی پورا ہاتھ ہی سے ہو گا، اب رہی آبرو تو وہ کبھی ہاتھ سے تلف کی جاتی ہے اور اکثر زبان سے، گویہ حقوق تین قسم کے ہیں، مگر انہیں دو صورتوں میں داخل ہیں، ”من لسانہ ویدہ“ پیشحاصلِ حدیث یہ ہوا کہ نہ جان کو تکلیف دے، نہ مال کو، نہ آبرو کو۔

خلاصہ یہ ہوا کہ ہمیں حقوق العباد کی بھی رعایت کرنا چاہیے، مثلاً اکثر لوگ مسجد کے اندر پچھلی دیوار سے مل کر نیت باندھتے ہیں، اگر اب وہاں سے کوئی نکلنا چاہے تو نکلے گا تو گنہگار ہو گا، گناہ سے بچ نہیں سکتا اور گناہ سے بچے تو نکل نہیں سکتا، اسے تکلیف ہوئی، غرض ہر عمل میں اس کا لحاظ رکھنا چاہیے۔ (کف الاذی ص،23،ص:35-34)

”عن ابی ھریرة رضی الله عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: لتؤدن الحقوق الی اھلھا یوم القیامة، حتی یقاد الشاة الجلجاء من الشاة القرناء“ (رواہ مسلم)

حضرت ابوہریرة رضي الله عنه سے روایت ہے کہ ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم  نے کہ قیامت کے دن اہل حقوق کے حقوق دلوائے جائیں گے، یہاں تک کہ بے سینگ والی بکری کو سینگ والی بکری سے بدلہ دلایا جائے گا۔

بکری اگرچہ مکلّف احکام کی نہیں ، مگر حق سبحانہ وتعالی شان عدل وانصاف کااظہار فرمانے کے لیے ایسا فرمائیں گے۔ وقال علیہ الصلوٰة والسلام: من حج لله، فلم یرفث ولم یفسق رجع کیوم ولدتہ امہ․(متفق علیہ)

یعنی ارشاد فرمایا جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے کہ جس شخص نے ( خاص) الله کے لیے حج کیا اور اس میں نہ فحش گوئی کی اور نہ گناہ کیا، تو وہ شخص اس دن کی مانند لوٹتا ہے، جس دن اس کی ماں نے اس کو جنا تھا۔

اور گناہ سے مراد حقوق الله ہیں، کیوں کہ کہ حقوق العباد شہادت سے بھی معاف نہیں ہوتے۔ ( الحدیث :الا الدین، کما فی المشکوٰة عن مسلم) (حیوة المسلمین)

حقوق العباد ضائع کرکے حج کو جانا گنا ہ ہے
محض سفر مکہ سے خدا نہیں ملتا، مثلاً اگر کوئی حج نفل کرکے بیوی کا حق ضائع کرے، تو خدا تعالیٰ کب راضی ہو سکتے ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ بعض صورتوں میں حج بھی ناجائز ہے، حضرت امام غزالی رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ ایسے شخص کے سامنے کعبہ کے حالات بیان کرنا، جس سے وہ مغلوب الشوق ہو کر سفر میں چلا جائے جائز نہیں۔ دیکھو! ظاہر نظر میں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی، لیکن و اقع میں بالکل صحیح فرمایا، کیوں کہ اس سفر کے حالات سن کر اس کو سفر کا شوق پیدا ہو گا اور بوجہ عدم استطاعت ( شرعی قدرت نہ ہونے کی وجہ سے ) سفر معصیت ہو گا، تو اس کا جو سبب ہے وہ بھی معصیت ہو گا۔ (طریق القرب ،ص:7، معارف اشرفیہ ،ص:142)

Flag Counter