ظلم او رمکر وفریب کا دور دورہ
محترم اوریا مقبول جان
کسی کو اندازہ ہے کہ اس گھر کے باسیوں پر کیا بیتتی ہے ، جب پولیس دندناتی ہوئی چاروں طرف سے اسے گھیر لیتی ہے، کچھ چھتوں پر چڑھ جاتے ہیں ،گلیوں کے کونوں پر بندوق بردار ناکے لگا لیتے ہیں۔ اس کے بعد چاک، چوبند اور مستعد جوان پستولیں تھامے ٹھڈے مارتے ہوئے دروازہ کھولنے کا اشارہ کرتے ہیں، اندر سے خوف زدہ لوگوں کا باپ، بیٹا، یا بھائی باہر آتا ہے، اسے گردن سے پکڑ کر دھکے دیتے ہوئے ایک جانب کیا جاتا ہے اور پھر یہ فاتحین گھر میں داخل ہوتے ہیں، کانپتے ہوئے اہل خانہ کو دھکیلتے ہوئے ایک جانب کیا جاتا ہے، خواہ ان میں اسی سا ل کی بڑھیا او رایک ماہ کا بچہ کیوں نہ ہو، مکان کے کونوں کھدروں کی تلاشی لی جاتی ہے۔
سب کچھ ادھیڑ کر رکھ دیا جاتا ہے۔ ملزم مل جائے تو واہ واہ، نہ ملے تو اہل خانہ میں سے اپنی پسند کے مطابق باپ، بھائی، بیٹا، بیوی، بہن جس کو چاہا گاڑی میں ڈال کر تفتیش کے لیے تھانے لے جایا جاتا ہے۔ تھانے کی خوف ناک فضا کا شاید کسی کو اندازہ نہیں اور اس بات کا بھی بہت کم لوگوں کو علم ہوتا ہے کہ کس طرح تھانے کے بڑے گیٹ بند کر لیے جاتے ہیں او رپھر صحن سے حوالات تک جاتے جاتے لاتوں، گھونسوں، ڈنڈوں اور بیدوں کی برسات شروع ہو جاتی ہے او رانہیں حوالات میں ایسے پھینکا جاتا ہے جیسے ذبح کرنے والی مرغیاں پنجروں میں۔ چند لمحے سانس لینے کے بعد یہ ” عظیم اور ذہین“ پولیس تفتیش کا آغاز کرتی ہے۔
یہ طریقہ کار اس قدر خوف ناک او راذیت ناک ہوتا ہے کہ روح کانپ اٹھتی ہے۔ اگر گھر سے بہت سے لوگوں کو اٹھایا ہوتا ہے تو ایک شخص کو ساتھ والے کمرے میں لے جایا جاتا ہے اور پھر اس کی دل دہلا دینے والی چیخیں اس کے باپ، بھائی یا بیٹے تک حوالات میں پہنچتی ہیں۔ اگر پولیس کے وہ آلات تشد دعام لوگوں کے لیے نمائش کے طور پر رکھ دیے جائیں یا پھر ان کے طریقوں پر کوئی ڈاکو مینٹری بنائی جائے تو لوگ خوف سے کانپ اٹھیں۔
ایک زمانہ تھا کہ پولیس کا یہ ظلم وتشدد او ربربریت کا لمحہ خاموشی سے بیت جاتا تھا۔ ملزم مل جاتا تھا یا پھر پتہ چل جاتا تھا کہ یہ ملزم نہیں، بلکہ پولیس سے غلطی ہو گئی اور پھر ان مظلوم اور مضروب اہل خانہ کو خاموشی سے گھر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ وہ بھی اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر چپ سے ہو جاتے۔ بس اسی بات پر شکر ادا کرتے تھے کہ عزت بحال ہو گئی۔
لیکن آج اذیت او رتکلیف ہزار گنا زیادہ ہو گئی ہے۔ اس ملک کے افق پر آزاد میڈیا بندوق سے بھی زیادہ خوف ناک ہتھیار، یعنی کیمرہ اٹھائے گھوم رہا ہے اور یہ اس قدر اخلاقیات سے عاری ہے کہ کسی بھی بے گناہ شریف آدمی کی عزت نفس کو پامال کرکے، اسے ذلیل ورسوا کرکے بھاگ جاتا ہے۔ اس کو علم بھی ہو جائے کہ اس نے ایک ایسے گھر کی رسوائی اور بدنامی میں حصہ ڈالا، اسے بے آبرو کیا ہے ،پھر بھی خاموش ہو جاتا ہے۔
کبھی اپنا قصور مان کر معافی نہیں مانگتا۔ اس گھر کی عزت بحال نہیں کرتا۔ میڈیا اس معاملے میں متعصب بھی ہے، وہ جس کو چاہتا ہے کہ بے آبرو کرے، اسی کو کرتا ہے اور جس ملزم، بلکہ مجرم کا جرم چھپانا چاہے تو اس پر خاموشی کی چادرتان دیتا ہے۔ اسے معزز اور عزت دار بلکہ عوامی نمائندہ کہہ کر چپ کر جاتا ہے۔ گزشتہ چند دن پولیس کی اسی بدمعاشی اور میڈیا کی ملی بھگت کا شکار وہ گھرانہ ر ہا ہے جس کے بارے میں پنجاب پولیس کے ”مستعد“ اور ”چاک وچوبند“ ماہرین نے یہ اعلان کر دیا کہ ہمیں اقبال پارک کے خود کش بمبار محمدیوسف کا سر مل گیا ہے او رسات ہی اس کا شناختی کارڈ بھی۔ فوری طور پر اس کے پتے پر مظفر گڑھ پولیس پارٹی اس طرح دندناتی ہوئی پہنچ گئی جیسے دنیا کے خطر ناک ترین مجرم کو گرفتار کرنا ہے۔ اس کے چار بھائیوں اور ایک چچا کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس کا والد ایک سبزی فروش تھا، جو عمرے کی ادائیگی کے لیے حجاز گیا ہوا تھا۔
اب یہاں میڈیا میدان میں اترا۔ میڈیا کے لیے یہی کافی تھا کہ مرنے والے کے منھ پر داڑھی ہے اور اس کی شکل مولوی کی طرح ہے اور سونے پر سہاگہ یہ کہ اس کا والد عمرے پر گیا ہوا ہے۔ اسے کسی نے ملزم یا مجرم نہیں کہا، سیدھا دہشت گرد کہہ دیا ۔ اس کے بعد اس ملک کے ”ذہین اور عالی دماغ“ تبصرہ نگاروں اینکر پرسنوں، رپورٹروں، تجزیہ نگاروں کا ایک سیلاب آگیا، کوئی اس کے مدرسے تک جا پہنچا، کوئی اس کے محلے میں کسی نوجوان کو کیمرے اور مائیک سے خوف زدہ کرتا رہا، تبصرہ نگاروں کی لن ترانیاں عروج پر تھیں۔ ہم تو پہلے کہتے تھے یہ جنوبی پنجاب دہشت گردوں کی پناہ گاہ بن چکا ہے۔
یہاں کا ہر مدرسہ دہشت گردوں کی فیکٹری ہے۔ کوئی طالبان تک جا پہنچتا ہے او رکوئی فرقہ وارانہ تنظیموں تک ، میڈیا باہر گرجتا رہا اور پولیس والے ان چار بھائیوں اور چچا پر تھانے میں برستے رہے اور اس مظلوم محمد یوسف کی لاش دفن ہونے سے بھیمحروم رہی۔ بلکہ اس کی تصویروں پر تین دن لعنت ملامت ہوتی رہی۔ کوئی حقیقت بتانے کی جرأت نہیں کرتا تھا۔ جھوٹ کے یہ ملکی ہیرو اپنے چینلوں پر یہاں تک کہتے رہے کہ اس نے دہشت گردی کی تربیت وانا سے حاصل کی تھی۔ اس دوران اس کے دوست محمد یعقوب نے ہمت کی او ربتایا کہ وہ تین دوست اس دن علامہ اقبال پارک سیر کرنے گئے تھے۔
وہ اسے آٹھ سال سے جانتا تھا اور وہ اس کے ساتھ تین ماہ سے چوبرجی میں ایک اکیڈمی میں لوگوں کو قرآن پاک کی آن لائن تعلیم دیتا تھا۔ پولیس نے کہا ہم نے غلط بیان دیا تھا ،لیکن اس کے بعد ان تجزیہ نگاروں، اینکر پرسنوں اور رپورٹروں کو سانپ سونگھ گیا۔ ایسا لگتا تھا ان کے گھر صف ماتم بچھ گئی ہو۔ سب اس معاملے سے ایسے غائب ہوئے جیسے ٹڈی دل اسپرے کے بعد غائب ہوتے ہیں۔
چار بھائی او رچچا نامعلوم مقام سے واپس آگئے۔ کسی نے جا کر پوچھا تک نہیں کہ وہ کس اذیت سے گزرے۔ ان کے خاندان پر تین دن ایسی بدنامی اور رسوائی کو میڈیا نے مسلط کیا کہ وہ اپنے لخت جگر کا جنازہ اٹھانے کے قابل تک نہ تھے۔ پولیس نے تو اسے ملزم کہا تھا، لیکن میڈیا نے تو اسے دہشت گرد کی گردان کرکے اس معاشرے کا گھٹیا ترین شخص ثابت کر دیا۔ کس قدر زعم ہے تمہیں اپنی تفتیشی صحافت پر اور کس قدر ناز ہے تمہیں اپنے آزاد ہونے پر۔ اگر ان تمام تجزیہ نگاروں کے خاندانوں پر ایسے چار دن بیتے ہوتے جیسے محمد یوسف کے گھر والوں پر گزرے تو میں دیکھتا ان میں کون ہوتا جو اس میڈیا کے خلاف نفرت بھرا ہوا کالم نہ لکھتا، تجزیہ نہ کرتا۔
لیکن میرے ملک کے میڈیا کا مسئلہ تفتیش ، تحقیق یا حقائق کی کھوج نہیں ہے۔ اس کا مسئلہ ریٹنگ ہے۔ اسی محمدیوسف کے معاملے میں کتنے چینلوں کے پروگراموں کی ریٹنگ بڑھی ہو گی۔ ان اینکر پرسنوں کی تنخواہوں میں بھی شایداضافہ ہو جائے۔ ریٹنگ کے بعد اس میڈیا کا دوسرا بڑا مسئلہ اسلام، مولوی اور داڑھی ہے۔ اسے بس ایک چھوٹی سی اطلاع ملنی چاہیے خواہ وہ جھوٹی ہی کیوں نہ ہو۔ بھارت اس میڈیا کے تجزیہ نگاروں کالاڈلا ہے۔
آج سے چند سال پہلے جب کوئی کہتا کہ یہاں تخریب کاری یا دہشت گردی بھارت کروارہا ہے تو ہمیں طعنے دیتے،پہلے اپنا گھر صاف کرو، سب بھارت پر الزام لگاتے ہیں، ہمارے ہاں انتہا پسندی ہے، مولوی ہے، دہشت گردی ہے، میڈیا کے پاس ایک ای میل آتی ہے یا پھر کوئی چینل یہ اعلان کرتا ہے کہ فلاں واقعہ کی ذمے داری طالبان نے قبول کر لی او رپھر یہ دھڑا دھڑ اس اطلاع پر شروع ہو جاتے ہیں، کلبھوشن یادیو جو بھارتی را کا افسرپکڑا گیا، اس کے اعترافات سن لیں تو میڈیا کی کذب بیانیوں، جھوٹ اورمسالہ بازی پر ہنسی آتی ہے۔
اس نے کہا ایس ایس پی اسلم کو میں نے مروایا۔ اس دن کے اخبار اٹھائیں، ٹی وی کے پروگراموں کی ریکارڈنگ دیکھیں او رپھر دیکھتے چلے جائیں، یہ ایس پی اسلم کے قتل سے شروع ہوئے اور پھر نصاب تعلیم میں شدت پسندی سے ہوتے ہوئے قرارداد مقاصد تک جاپہنچے اور ثابت کرتے رہے کہ یہاں یہ قتل وغارت اس لیے ہے کہ قرارداد مقاصد میں اسلام اس ملک کا مذہب قرار دیا گیا۔ کلبھوشن یادیو نے صانحہ صفورا گوٹھ کا جرم مانا، فرقہ وارانہ دہشت گردی کا اقبال کیا۔ صفورا گوٹھ کے زمانے کا میڈیا اٹھائیں۔ اگر اس میں کسی کو بھارت کا نام مل جائے تو اس شخص کو عالمی ریکارڈ سے نوازنا چاہیے۔
سب کی زبانیں اسلام، مولوی، دہشت گرد، طالبان اور مدرسوں پر برس رہی تھیں۔ پھر پتہ چلا یہ تو یونی ورسٹیوں کے طالب علم ہیں، ذرا خاموش ہوئے، مدرسے اور طالبان نکل گئے ،لیکن اسلام اور شدت پسندی باقی رہ گئی۔ ان کالا ڈلا بھارت پھر بھی سامنے نہ آیا۔ یہ کس بلا کے لوگ ہیں جس ملک کا کھاتے ہیں اسی کے دشمن سے محبت کرتے ہیں، جس کی کشتی میں بیٹھتے ہیں اسی میں سوراخ کرتے ہیں۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا”دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکا اور فریب کے ہوں گے، سچے کوجھوٹا بنا دیا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنا دیا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانت دار بنا دیا جائے گا او رامانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اوران میں رویبضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا رویبضہ کون ہیں؟ فرمایا: گھٹیا لوگ، جو لوگوں کے اہم معاملات میں گفت گو کریں گے۔(مسند احمد، مسند ابی یعلی، السنن الواردة فی الفتن)
رات کو آپ کوئی بھی چینل کھول کر دیکھ لیں۔ آپ پہچان لیں گے۔ رویبضہ کون ہیں اور کیسے بولتے ہیں!!!