Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق رمضان المبارک 1437ھ

ہ رسالہ

8 - 17
20رکعات نمازِ تراویح

مولانا محمد نجیب قاسمی
	
نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم کے ارشادات کی روشنی میں امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ نمازِ تراویح فرض نہیں بلکہ سنت ہے۔ البتہ 1400 سال سے جاری عمل کے خلاف بعض حضرات 20 رکعات نمازِ تراویح کو بدعت یا خلاف ِسنت قرار دینے میں ہر سال رمضان اور رمضان سے قبل اپنی صلاحیتوں کا بیشتر حصہ صرف کرتے ہیں جس سے امت مسلمہ کے عام طبقہ میں انتشار ہی پیدا ہوتا ہے، حالانکہ اگر کوئی شخص 8 کی جگہ20 رکعات پڑھ رہا ہے تو یہ اس کے لیے بہتر ہی تو ہے کیونکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں ساری امت مسلمہ متفق ہے کہ رمضان کی راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرنی چاہئے، نیز حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے امت مسلمہ جماعت کے ساتھ20ہی رکعات تراویح پڑھتی آئی ہے، حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں آج تک کبھی بھی 8 رکعات تراویح نہیں پڑھی گئیں۔

اس موضوع سے متعلق احادیث کا جتنا بھی ذخیرہ موجود ہے، کسی بھی ایک صحیح ،معتبر ،اور غیر قابل نقد وجرح حدیث میں نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم سے تراویح کی تعداد رکعات کا واضح ثبوت نہیں ملتا ہے، اگرچہ بعض احادیث میں جن کی سند میں یقینا کچھ ضعف موجود ہے 20 رکعات کا ذکر ملتا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ  نے تحریر کیا ہے کہ جس شخص کا یہ خیال ہے کہ نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے تراویح کی کوئی تعداد مقرر کی ہے جس میں کمی بیشی نہیں ہوسکتی تو وہ غلطی پر ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 401) اسی طرح علامہ شوکانی  نے تحریر کیا ہے کہ مسئلہ تراویح کی تمام روایات میں نماز تراویح کا باجماعت یا تنہا پڑھنا تو ثابت ہے لیکن خاص کر تراویح کی تعداد اور اس میں قراء ت کی تعیین نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم سے منقول نہیں ہے۔ (نیل الاوطار ج3 ص64) میں نے اِن دو شخصیات کا ذکر اس لیے کیا ہے کیونکہ 8 رکعات تراویح کا موقف اختیار کرنے والے حضرات اِن دو شخصیات کی رائے کو حرف آخر تسلیم کرتے ہیں۔

خلیفہٴ ثانی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں بیس رکعات تراویح اورتین رکعات وتر جماعت کے ساتھ پڑھنے کا اہتمام ہواجیساکہ محدثین،فقہاء ، موٴرخین اور علماء کرام نے تسلیم کیا ہے۔ علامہ ابن تیمیہ  فرماتے ہیں کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں جمع کیا تو وہ بیس رکعات تراویح اور تین وتر پڑھاتے تھے۔ حضرت عمر فاروق ان خلفاء راشدین میں سے ہیں جن کی بابت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کرو اور اسی کو ڈاڑھوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رکھو۔ علامہ ابن تیمیہ  فرماتے ہیں کہ حضور اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے ڈاڑھوں کا ذکر اس لیے کیا کہ ڈاڑھوں کی گرفت مضبوط ہوتی ہے، لہٰذا حضرت عمر فاروق  کا یہ اقدام عین سنت ہے۔ (فتاوی ابن تیمیہ ج 2 ص 401) (فتاوی ابن تیمیہ ج 22ص 434)

ام الموٴمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات 57 یا58 ہجری میں ہوئی او ر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے 15 ہجری میں تراویح کی جماعت حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں باقاعدہ شروع فرمائی، اگر بیس رکعات تروایح کا عمل بدعت ہوتا تو 42سال کے طویل عرصہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا آٹھ رکعات والی حدیث کو بیس رکعات پڑھنے والوں کے خلاف پیش کرنا ثابت ہوتا، حالانکہ ایسا نہیں ہوا، بلکہ سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی 1999) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب لکھی ہے جسمیں ثابت کیا ہے حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے آج تک حرمین (مسجد حرام اور مسجد نبوی) میں کبھی بھی 20 سے کم تراویح نہیں پڑھی گئیں۔

تراویح کے معنی
بخاری شریف کی مشہور ومعروف شرح لکھنے والے حافظ ابن حجر العسقلانی  نے تحریر کیا ہے کہ تراویح ترویحہ کی جمع ہے اور ترویحہ کے معنی ایک دفعہ آرام کرنا ہے، جیسے تسلیمہ کے معنی ایک دفعہ سلام پھیرنا۔ رمضان المبارک کی راتوں میں نمازِ عشاء کے بعد باجماعت نماز کو تراویح کہا جاتا ہے، کیونکہ صحابہٴ کرام کا اتفاق اس امر پر ہوگیا کہ ہر دوسلاموں (یعنی چار رکعات ) کے بعد کچھ دیر آرام فرماتے تھے ۔ (فتح الباری شرح صحیح البخاری، کتاب صلاة التراویح)

نماز تراویح کی فضیلت
حضرت ابوہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو شخص رمضان (کی راتوں) میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے (عبادت کے لیے) کھڑا ہو ، اس کے پچھلے تمام گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ (بخاری ومسلم) ثواب کی امید رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ شہرت اور دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ خالص اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے عبادت کی جائے۔

نماز تراویح کی تعدادِ رکعت
تراویح کی تعداد ِرکعت کے سلسلہ میں علماء کرام کے درمیان اختلاف ہے۔ تراویح پڑھنے کی اگرچہ بہت فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے، لیکن فرض نہ ہونے کی وجہ سے تراویح کی تعدادِ رکعت میں یقینا گنجائش ہے۔ جمہور محدثین ،فقہاء وعلماء کرام کی رائے ہے کہ تراویح 20 رکعات پڑھنی چاہیے۔ تراویح کی تعداد ِرکعت میں علماء کرام کے درمیان اختلاف کی اصل بنیاد یہ ہے کہ تراویح اور تہجد ایک نماز ہے یا دو الگ الگ نمازیں۔ جمہور محدثین،فقہاء وعلماء کرام نے اِن دونوں نمازوں کو الگ الگ نماز قرار دیا ہے، اُن کے نقطہٴ نظر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے، جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعات سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے۔ جس کے انہوں نے مختلف دلائل دئے ہیں، جن میں سے بعض یہ ہیں :
1..امام بخاری  نے اپنی مشہور کتاب (بخاری) میں نمازِ تہجد کا ذکر (کتاب التہجد) میں جبکہ نماز تراویح کو (کتاب صلاة التراویح) میں ذکر کیا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا کہ دونوں نمازیں الگ الگ ہیں جیساکہ جمہور علماء اور ائمہ اربعہ نے فرمایا ہے، اگر دونوں ایک ہی نماز ہوتی تو امام بخاری  کو دو الگ الگ باب باندھنے کی کیوں ضرورت محسوس ہوتی۔ حضرت عائشہ  والی حدیث کتاب التہجد میں ذکر فرماکر امام بخاری نے ثابت کردیا کہ اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے۔
2..تراویح صرف رمضان میں پڑھی جاتی ہے، اور اِس حدیث میں ایسی نماز کا ذکر ہے جو رمضان کے علاوہ بھی پڑھی جاتی ہے۔
3..اگر حضرت عائشہ  کے فرمان کا تعلق تراویح کی نماز سے ہے تو حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں جب باضابطہ جماعت کے ساتھ 20 رکعات تراویح کا اہتمام ہوا تو کسی بھی صحابی نے اِس پر کوئی تنقید کیوں نہیں کی؟ (دنیا کی کسی کتاب میں ، کسی زبان میں بھی، کسی ایک صحابی کا حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں 20 رکعات تراویح کے شروع ہونے پر کوئی اعتراض مذکور نہیں ہے)۔ اگر ایسی واضح حدیث تراویح کی تعداد کے متعلق ہوتی تو حضرت عمر فاروق  اور صحابہ کرام کو کیسے ہمت ہوتی کہ وہ8 رکعات تراویح کی جگہ20 رکعات تراویح شروع کردیتے۔ صحابہ کرام تو ایک ذرا سی چیز میں بھی آپ  صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی مخالفت برداشت نہیں کرتے تھے اور نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے کا جذبہ یقینا صحابہٴ کرام میں ہم سے بہت زیادہ تھا۔ بلکہ ہم (یعنی آج کے مسلمان) صحابہ کی سنتو ں پر عمل کرنے کے جذبہ سے اپنا کوئی مقارنہ بھی نہیں کرسکتے۔ نیز نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے : ہم خلفاء راشدین کی سنتوں کوبھی مضبوطی سے پکڑلیں۔ (ابن ماجہ)
4..اگر اس حدیث کا تعلق واقعی تراویح کی نماز سے ہے (اور تہجد و تراویح ایک نماز ہے) تو رمضان کے آخری عشرہ میں نمازِ تراویح پڑھنے کے بعد تہجد کی نماز کیوں پڑھی جاتی ہے؟
5..اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے جیساکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج1 ص 154، ابوداوٴد ج1 ص 196، ترمذی ج1 ص58، نسائی ج1 ص 154، موطا امام مالک ص 42) ۔

علامہ شمس الدین کرمانی (شارح بخاری) تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کے بارے میں ہے اور حضرت ابوسلمہ  کا مذکورہ بالا سوال اور حضرت عائشہ  کا جواب تہجد کے متعلق تھا۔ (الکوکب الدراری شرح صحیح البخاری ج ۱ ص 155۔156)

حضرت شاہ عبد الحق محدث دہلوی  فرماتے ہیں کہ صحیح یہ ہے کہ حضور اکرم  صلی الله علیہ وسلم گیارہ رکعات (وتر کے ساتھ) پڑھتے تھے وہ تہجد کی نماز تھی۔

حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی  تحریر فرماتے ہیں کہ یہ حدیث تہجد کی نماز پر محمول ہے جو رمضان اور غیر رمضان میں برابر تھی۔ (مجموعہ فتاوی عزیزی ص 125)

نمازِ تراویح نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں
٭... حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم نے (رمضان کی) ایک رات مسجد میں نماز تراویح پڑھی۔ لوگوں نے آپ  صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر دوسری رات کی نماز میں شرکاء زیادہ ہوگئے، تیسری یا چوتھی رات آپ  صلی الله علیہ وسلم نماز تراویح کے لیے مسجد میں تشریف نہ لائے اور صبح کو فرمایا کہ میں نے تمہارا شوق دیکھ لیا اور میں اس ڈر سے نہیں آیا کہ کہیں یہ نماز تم پر رمضان میں فرض نہ کردی جائے۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح) … اِن دو یا تین دن کی تراویح کی رکعت کے متعلق کوئی تعداد احادیث صحیحہ میں مذکور نہیں ہے۔

٭...حضرت ابوہریرہ  کہتے ہیں کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  قیام رمضان کی ترغیب تو دیتے لیکن وجوب کا حکم نہیں دیتے۔ آپ  صلی الله علیہ وسلم  فرماتے کہ جوشخص رمضان کی راتوں میں نماز (تراویح) پڑھے اور وہ ایمان کے دوسرے تقاضوں کو بھی پورا کرے اور ثواب کی نیت سے یہ عمل کرے تو اللہ تعالیٰ اس کے سابقہ گناہ معاف فرمادیں گے۔ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم کی وفات تک یہی عمل رہا، دورِ صدیقی اور ابتداء عہد فاروقی میں بھی یہی عمل رہا۔ (مسلم ۔ الترغیب فی صلاة التراویح)

صحیح مسلم کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم کی حیات میں ، حضرت ابوبکر صدیق کے دورِ خلافت اور حضرت عمر فاروق  کے ابتدائی دور خلافت میں نماز تراویح جماعت سے پڑھنے کا کوئی اہتمام نہیں تھا، صرف ترغیب دی جاتی تھی۔ البتہ حضرت عمر فاروق  کے عہد خلافت میں یقینا تبدیلی ہوئی ہے، اس تبدیلی کی وضاحت مضمون میں محدثین ،فقہاء اور علماء کرام کی تحریروں کی روشنی میں آرہی ہے۔

٭...حضرت عائشہ  کی روایت (جس میں انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم رمضان اور رمضان کے علاوہ گیارہ رکعات سے زائد نماز نہیں پڑھتے تھے) میں لفظ ِتراویح کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذا اس حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے کیونکہ محدثین نے اس حدیث کو تہجد کے باب میں نقل کیا ہے نہ کہ تراویح کے باب میں۔ (ملاحظہ ہو : مسلم ج1 ص 154، ابوداوٴد ج1 ص 196، ترمذی ج1 ص58، نسائی ج1 ص154، موطا امام مالک ص 42) اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ان محدثین کے نزدیک یہ حدیث تہجد کی نماز سے متعلق ہے نہ کہ تراویح سے۔

امام محمد بن نضر مروزی نے اپنی مشہور کتاب (قیام اللیل ، ص 91 اور92) میں قیام رمضان کا باب باندھ کر بہت سی حدیثیں اور روایتیں نقل فرمائی ہیں مگر مذکورہ بالا حدیث ِعائشہ نقل نہیں فرمائی، اس لیے کہ ان کے نزدیک یہ حدیث تراویح کے متعلق ہے ہی نہیں۔

علامہ ابن قیم نے اپنی مشہور ومعروف کتاب (زاد المعاد ص 86) میں قیام اللیل (تہجد) کے بیان میں یہ حدیث نقل فرمائی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کے متعلق حافظ حدیث امام قرطبی  کا یہ قول بھی نظر انداز نہیں کیا جانا چاہئے کہ بہت سے اہل علم حضرات اس روایت کو مضطرب مانتے ہیں۔ (عینی شرح بخاری ج7 ص 187)

نمازِ تراویح خلفاء راشدین کے زمانے میں
٭...حضرت ابو بکر صدیق  کے عہد میں کتنی تراویح پڑھی جاتی تھیں، احادیث صحیحہ میں صحابہٴ کرام کا کوئی واضح عمل مذکور نہیں ہے۔ گویا اس دور کا معمول حسب سابق رہا اور لوگ اپنے طور پر نماز تراویح پڑھتے رہے ۔

٭...حضرت عمر فاروق  نے جب اپنے عہد خلافت میں لوگوں کو دیکھا کہ تنہا تنہا تراویح کی نماز پڑھ رہے ہیں تو حضرت عمر فاروق  نے سب صحابہ کو حضرت ابی بن کعب  کی امامت میں جمع کیا ، اور عشاء کے فرائض کے بعد وتروں سے پہلے باجماعت 20 رکعات نماز تراویح میں قرآن کریم مکمل کرنے کا باضابطہ سلسلہ شروع کیا۔ ملاحظہ ہو کہ حضرت عمر فاروق کے زمانے میں یہ سب کچھ شروع ہو ا :
1..پورے رمضان تراویح پڑھنا۔(جس پر پوری امت کا عمل ہے)
2..تراویح کا مستقل باجماعت پڑھنا۔(جس پر پوری امت کا عمل ہے)
3..رمضان میں وتر باجماعت پڑھنا۔(جس پر پوری امت کا عمل ہے)
4..بیس رکعات تراویح پڑھنا۔ تراویح کی کیفیت تو قابل قبول ہے لیکن تعداد تراویح محل نظر ؟

٭...حضرت عبد الرحمن قاری  فرماتے ہیں کہ میں حضرت عمر فاروق کے ہمراہ رمضان میں مسجد میں گیا تو دیکھا کہ لوگ مختلف گروپوں میں علیحدہ علیحدہ نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، کوئی اکیلا پڑھ رہا ہے اور کسی کے ساتھ کچھ اور لوگ بھی شریک ہیں، اس پر حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ واللہ! میرا خیال ہے کہ اگر ان سب کو ایک امام کی اقتداء میں جمع کردیا جائے تو بہت اچھا ہے اور سب کو حضرت ابی بن کعب  کی اقتداء میں جمع کردیا … حضرت عبدالرحمن فرماتے ہیں کہ پھر جب ہم دوسری رات نکلے اور دیکھا کہ سب لوگ ایک ہی امام کی اقتداء میں نماز تراویح ادا کررہے ہیں تو حضرت عمر فاروق  نے فرمایا کہ یہ بڑا اچھا طریقہ ہے اور مزید فرمایا کہ ابھی تم رات کے جس آخری حصہ میں سوجاتے ہو ،وہ اس وقت سے بھی بہتر ہے جس کو تم نماز میں کھڑے ہوکر گزارتے ہو۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان)

٭...حضرت یزید بن رومان  فرماتے ہیں کہ لوگ (صحابہ کرام) حضرت عمر فاروق کے دور خلافت میں 23 رکعات (20 تراویح اور3وتر) ادا فرماتے تھے۔ (موٴطا امام مالک ، باب ماجاء فی قیام رمضان، ص 98)

٭...علامہ بیہقی نے کتاب المعرفہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے دور حکومت میں ہم 20 رکعات تراویح اور وتر پڑھا کرتے تھے۔ امام زیلعی  نے اس حدیث کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔ (نصب الرایہ ج 2 ص 154)

٭...حضرت ابی بن کعب  سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے انہیں حکم دیا کہ رمضان کی راتوں میں نماز پڑھائیں۔ چنانچہ فرمایا کہ لوگ سارا دن روزہ رکھتے ہیں اور قراء ت اچھی طرح نہیں کرسکتے۔ اگر آپ رات کو انہیں (نماز میں) قرآن سنائیں تو بہت اچھا ہوگا۔ پس حضرت ابی بن کعب  نے انہیں 20 رکعتیں پڑھائیں۔ (مسند احمد بن منیع بحوالہ اتحاف الخیرہ المہرہ للبوصیری علی المطالب العالیہ ج2 ص 424)

٭...موٴطا امام مالک میں یزید بن خصیفہ کے طریق سے سائب بن یزید  کی روایت ہے کہ عہد فاروقی میں بیس رکعات تراویح تھیں۔ (فتح الباری لابن حجر ج4 ص 321، نیل الاوطار للشوکانی ج2 ص514)

٭...حضرت محمد بن کعب القرظی  (جو جلیل القدر تابعی ہیں) فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر  کے دور میں بیس رکعات تراویح پڑھتے تھے۔ (قیام اللیل للمروزی ص 157)

٭...حضرت یحیی بن سعید  کہتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  نے ایک آدمی کو حکم دیا کہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے۔ (مصنف بن ابی شیبہ ج 2 ص 285)

٭...حضرت حسن  سے روایت ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے لوگوں کو حضرت ابی بن کعب  کی امامت پر جمع فرمایا۔ وہ لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح پڑھاتے تھے۔ (ابو داوٴد ج1 ص211، باب القنوت والوتر)

٭...حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے دور میں تین رکعات (وتر) اور بیس رکعات (تراویح) پڑھی جاتی تھیں۔ (مصنف عبد الرزاق ج 4 ص 201، حدیث نمبر 7763)

٭...حضرت سائب بن یزید  فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق  کے زمانے میں ہم 20 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، اور قاری صاحب سو سو آیات والی سورتیں پڑھتے تھے اور لمبے قیام کی وجہ سے حضرت عثمان غنی  کے دور میں لاٹھیوں کا سہارا لیتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج2 ص496)

٭...حضرت ابو الحسناء سے روایت ہے کہ حضرت علی  نے ایک شخص کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھائے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)

٭...حضرت ابو عبدالرحمن السلمی سے روایت ہے کہ حضرت علی  نے رمضان میں قاریوں کو بلایا۔ پھر ان میں سے ایک قاری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو بیس رکعات تراویح پڑھائے اور حضرت علی  خود انہیں وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 496)

نماز ِ تراویح سے متعلق صحابہ وتابعین کا عمل
٭...حضرت اعمش  فرماتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود  کا معمول بھی بیس رکعات تروایح اور تین رکعات وتر پڑھنے کا تھا۔ (قیام اللیل للمروزی ص 157)

٭...حضرت حسن بصری حضرت عبد العزیز بن رفیع  سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب  رمضان میں لوگوں کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص 285)

٭...حضرت عطا بن ابی رباح  (جلیل القدر تابعی، تقریباً 200 صحابہ کرام کی زیارت کی ہے) فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں (صحابہ ) کو بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھتے پایا ہے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)

٭...حضرت ابراہیم نخعی (جلیل القدر تابعی، کوفہ کے مشہور ومعروف مفتی) فرماتے ہیں کہ لوگ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعات پڑھتے تھے۔ (کتاب الآثار بروایت ابی یوسف ص 41)

٭...حضرت شیتر بن شکل  (نامور تابعی، حضرت علی  کے شاگرد) لوگوں کو رمضان میں بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 496)

٭...حضرت ابو البختری  (اہل کوفہ میں اپنا علمی مقام رکھتے تھے، حضرت عبد اللہ بن عباس ، حضرت عمر  اور حضرت ابو سعید  کے شاگرد) ۔ آپ کے بارے میں روایت ہے کہ آپ رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 2 ص 285)

٭...حضرت سوید بن غفلہ  (حضرت ابوبکر ، حضرت عمر ، حضرت علی اور حضرت عبد اللہ بن مسعود وغیرہ صحابہ کی زیارت کی ہے)۔ آپ کے بارے میں ابو الخضیب فرماتے ہیں کہ حضرت سوید بن غفلہ  رمضان میں پانچ ترویحہ سے بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔ (السنن الکبری للبیہقی ج 2 ص 496)

٭...حضرت ابن ابی ملیکہ  (جلیل القدر تابعی، تقریباً تیس صحابہ کرام کی زیارت سے مشرف ہوئے) آپ کے متعلق حضرت نافع بن عمر فرماتے ہیں کہ حضرت ابن ابی ملیکہ  ہمیں رمضان میں بیس رکعات تراویح پڑھاتے تھے۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج2 ص285)

نماز ِ تراویح سے متعلق اکابرین امت کے اقوال
امام ابو حنیفہ  ۔ علامہ ابن رشد  لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ  کے ہاں قیام رمضان بیس رکعات ہے۔ (بدایہ المجتہد ج1 ص214)

امام فخر الدین قاضی خان  لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ  فرماتے ہیں کہ رمضان میں ہر رات بیس یعنی پانچ ترویحہ وتر کے علاوہ پڑھنا سنت ہے۔ (فتاوی قاضی خان ج1 ص112)

علامہ علاء الدین کاسانی حنفی  لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے حضرت ابی بن کعب  کی امامت میں صحابہ کرام کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انہوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی اور صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)

امام مالک: امام مالک  کے مشہور قول کے مطابق تراویح کی 36 رکعات ہیں جبکہ ان کے ایک قول کے مطابق بیس رکعات سنت ہیں۔ علامہ ابن رشدقرطبی مالکی  فرماتے ہیں کہ امام مالک  نے ایک قول میں بیس رکعات تراویح کو پسند فرمایا ہے۔ (بدایہ المجتہد ج1 ص 214)مسجد حرام میں تراویح کی ہر چار رکعات کے بعد ترویحہ کے طور پر مکہ کے لوگ ایک طواف کرلیا کرتے تھے، جس پر مدینہ منورہ والوں نے ہر ترویحہ پر چار چار رکعات نفل پڑھنی شروع کردیں تو اس طرح امام مالک کی ایک رائے میں 36 رکعات (20 رکعات تراویح اور 16 رکعات نفل) ہوگئیں۔

امام شافعی : امام شافعی  فرماتے ہیں کہ مجھے بیس رکعات تراویح پسند ہیں، مکہ مکرمہ میں بیس رکعات ہی پڑھتے ہیں۔ (قیام اللیل ص159) ایک دوسرے مقام پر امام شافعی  فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں لوگوں کو بیس رکعات نماز تراویح پڑھتے پایا ہے۔ (ترمذی ج 1ص 166) علامہ نووی شافعی  لکھتے ہیں کہ تراویح کی رکعت کے متعلق ہمارا (شوافع) مسلک وتر کے علاوہ دس سلاموں کے ساتھ بیس رکعات کا ہے، اور بیس رکعات پانچ ترویحہ ہیں اور ایک ترویحہ چار رکعات کا دوسلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ  اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل  اور امام داوٴد ظاہری کا مسلک ہے اور قاضی عیاض  نے بیس رکعات تراویح کو جمہور علماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)

امام احمد بن حنبل : فقہ حنبلی کے ممتاز ترجمان علامہ ابن قدامہ  لکھتے ہیں : امام ابو عبد اللہ (احمد بن حنبل) کا پسندیدہ قول بیس رکعات کا ہے اور حضرت سفیان ثوری  بھی یہی کہتے ہیں اور ان کی دلیل یہ ہے کہ جب حضرت عمر فاروق  نے صحابہ کرام کو حضرت ابی بن کعب  کی اقتداء میں جمع کیا تو وہ بیس رکعات پڑھتے تھے، نیز حضرت امام احمد ابن حنبل  کا استدلال حضرت یزید وعلی کی روایات سے ہے۔ ابن قدامہ  کہتے ہیں کہ یہ بمنزلہ اجماع کے ہے۔ نیز فرماتے ہیں کہ جس چیز پر حضور اکرم کے صحابہ عمل پیرا رہے ہوں ، وہی اتباع کے لائق ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج2 ص139، صلاة التراویح)

امام ترمذی  فرماتے ہیں کہ جمہور اہل علم کا مسلک وہی ہے جو حضرت علیو حضرت عمر  اور دیگر صحابہ کرام سے منقول ہے کہ تراویح میں بیس رکعات ہیں، حضرت سفیان ثوری، ابن مبارک  اور امام شافعی  کا بھی یہی مسلک ہے اور امام شافعی  فرماتے ہیں کہ میں نے اہل مکہ کو بیس رکعات پڑھتے دیکھا۔ (ترمذی، ماجاء فی قیام شہر رمضان) امام ترمذی نے اس موقع پر تحریر کیا ہے کہ بعض حضرات مدینہ منورہ میں 41 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے۔ لیکن امام ترمذی  نے اہل مکہ یا اہل مدینہ میں سے 8 تراویح پر کسی کا عمل نقل نہیں کیا۔

مسلم شریف کی سب سے مشہور ومعروف شرح لکھنے والے علامہ نووی  جو ریاض الصالحین کے مصنف بھی ہیں فرماتے ہیں کہ قیام رمضان سے مراد تراویح ہے اور تمام علماء متفق ہیں کہ یہ نماز اللہ تعالیٰ کو محبوب ہے البتہ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ گھر میں اکیلا پڑھنا بہتر ہے یا مسجد میں باجماعت؟ تو امام شافعی  ، امام ابو حنیفہ ، امام احمد بن حنبل ، بعض مالکی اور دیگر حضرات فرماتے ہیں کہ باجماعت پڑھنا بہتر ہے چونکہ حضرت عمر فاروق  اور حضرات صحابہ کرام نے ایسا ہی کیا اور اس پر مسلسل عمل جاری ہے حتی کہ یہ مسلمانوں کی ظاہری علامات میں سے ایک علامت ہے۔ (شرح مسلم للنووی، ملخص: الترغیب فی قیام رمضان)

نیز علامہ نووی  فرماتے ہے کہ جان لو کہ نماز تراویح کے سنت ہونے پر تمام علماء کا اجماع ہے اور یہ بیس رکعات ہیں جن میں ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔ (الاذکار ص 83)

علامہ عینی (بخاری شریف کی شرح لکھنے والے) تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق ، حضرت عثمان ، حضرت علی  کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعات پڑھی جاتی تھیں۔ (عینی ج7 ص 178)

شیخ امام غزالی  فرماتے ہیں کہ تراویح بیس رکعتیں ہیں جن کا طریقہ معروف ومشہور ہے اور یہ سنت موٴکدہ ہے۔ (احیاء العلوم ج1 ص 132)

شیخ عبد القادر جیلانی  فرماتے ہیں کہ تراویح نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم  کی سنت مبارکہ ہے اور یہ بیس رکعات ہیں ۔ (غنیة الطالبین ص 267،268)

مولانا قطب الدین خان محدث دہلوی  فرماتے ہیں : اجماع ہوا صحابہ کا اس پر کہ تراویح کی بیس رکعات ہیں۔ (مظاہر حق ج1 ص436)

حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی  نے اپنی سب سے مشہور ومعروف کتاب (حجة اللہ البالغہ ) میں تحریر کیا ہے کہ صحابہ کرام اور تابعین کے زمانہ میں تراویح کی بیس رکعات مقرر ہوئی تھیں، چنانچہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام اور تابعین نے قیام رمضان میں تین چیزیں زیادہ کی ہیں :
1..مسجدوں میں جمع ہونا کیونکہ اس سے عوام وخواص پر آسانی ہوتی ہے۔
2..اس کو شروع رات میں ادا کرنا جبکہ اخیر رات میں پڑھنا زیادہ افضل ہے جیساکہ حضرت عمر فاروق  نے اس طرف اشارہ فرمایا۔
3..تراویح کی تعداد بیس رکعات ۔ (حجة اللہ البالغہ ج2 ص 67)

مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی  نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرت عمر فاروق کے دور میں جو طریقہ بیس رکعات پڑھانے کا ہوا ، اس کو علماء نے اجماع کے مثل شمار کیا ہے۔ (عون الباری ج4 ص 317)

حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی حدیث کی مکمل عبارت اور اس کا صحیح مفہوم
عَنْ اَبِی سَلْمة بنْ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ اَنَّہ اَخْبَرَہ اَنَّہ سَألَ عَائِشَةَ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہَا کَیْفَ کَانَتْ صَلَاةُ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَا کَان رَسُولِ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَا فِیْ غَیْرِہ عَلَی اِحْدَی عَشَرَةَ رَکْعَةً یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ اَرْبَعاً فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِہِنَّ وَطُولِہِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثاً۔ قَالَتْ یَارَسُولَ اللّٰہِ اَتَنَامُ قَبْلَ اَنْ تُوتِرَ فَقَالَ: یَا عَائِشَةُ! اِنَّ عَیْنَیَّ تَنَامَانِ وَلَا یَنَامُ قَلْبِیْ․“ (بخاری۔ کتاب التہجد)
حضرت ابوسلمہ بن عبدالرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی رمضان میں نماز کی کیا کیفیت ہوا کرتی تھی؟ تو حضرت عائشہ  نے فرمایا کہ اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھاکرتے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم پہلے چار رکعات ادا کرتے تھے اوران کی خوبی اور ان کی لمبائی کے بارے میں مت پوچھو (کہ وہ کتنی خوب اور کتنی لمبی ہوا کرتی تھیں) پھر آپ چار رکعات اسی طرح پڑھا کرتے تھے۔ پھر تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے۔ حضرت عائشہ  فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ ! میری آنکھیں سوتی ہیں، میرا دل نہیں سوتا۔

یاد رکھیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس حدیث کا اصل تعلق تہجد کی نماز سے ہے اور تہجد اور تراویح دو الگ الگ نمازیں ہیں، یہی جمہور علماء کا مسلک ہے۔

اس حدیث میں حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت بیان کی گئی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم پہلے خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعات ادا کرتے تھے پھر خوب لمبے قیام ورکوع وسجدہ والی چار رکعات ادا کرتے تھے، اور پھر تین رکعات وتر پڑھا کرتے تھے۔ حدیث کے الفاظ سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ سوال اور جواب کا اصل مقصد حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی نماز کی کیفیت کو بیان کرنا ہے نہ کہ تعداد رکعت کو۔ بعض حضرات نے تہجد اور تراویح کی نماز کو ایک سمجھ کر حدیث میں وارد گیارہ میں سے آٹھ کے لفظ کو تراویح کے لیے لے لیا لیکن گیارہ رکعات پڑھنے کی کیفیت اور تین رکعات وتر کو نظر انداز کردیا۔

اگر نمازِ تہجد اور نمازِ تراویح ایک ہی نماز ہے اور تراویح کے آٹھ رکعات ہونے کی یہی حدیث دلیل ہے تو چاہئے کہ اس حدیث کے تمام اجزاء پر عمل کیا جائے اور اس میں بیان کردہ پوری کیفیت کے ساتھ نماز تراویح ادا کی جائے یا کم از کم اس کے مسنون ہونے کو بیان کیا جائے۔مگر اس حدیث سے صرف آٹھ کا لفظ تو لے لیا مگر آٹھ رکعات نماز کی کیفیت کو چھوڑ دیا کیونکہ اس میں لمبی لمبی چار چار رکعات پڑھنے کاذکر ہے اور تین رکعات وتر کا ذکر ہے، نیز وتر کے لیے تین کے لفظ کو چھوڑ کر صرف ایک ہی رکعت وتر کو اپنی سہولت کے لیے اختیار کرلیا۔ اس حدیث میں ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم آٹھ رکعات پڑھنے کے بعد سوجاتے پھر وتر پڑھتے تھے، حالانکہ ماہِ رمضان میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت سے سارے حضرات نماز عشاء کے ساتھ تراویح پڑھنے کے فوراً بعد وتر جماعت کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ بخاری کی اس حدیث کے صرف آٹھ کے لفظ کو لے کر باقی تمام امور چھوڑ نا یہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث پر عمل کرنا نہیں ہوا بلکہ اپنے اسلاف کے قرآن وحدیث فہمی پر قناعت کرنا ہے اور یہی تقلید ہے، حالانکہ بخاری میں ہی حضرت عائشہ  کی دوسری حدیث ہے : کَانَ رَسُولُ اللّٰہِ صلی الله علیہ وسلم یُصَلِّی بِالَّیْلِ ثَلَاثَ عَشَرَةَ رَکْعَةً ثُمَّ یُصَلِّیْ اِذَا سَمِعَ النِّدَا بِالصُّبْحِ رَکْعَتَیْنِ خَفِیْفَتَیْنِ (باب ما یقرأ فی رکعتی الفجر) یعنی اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم تہجد کی نماز تیرہ رکعات پڑھتے تھے اور جب فجر کی اذان سنتے تو دو ہلکی رکعات ادا کرتے (یعنی فجر کی سنت)۔غور فرمائیں کہ گیارہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں ہے اور تیرہ رکعات والی حدیث بھی بخاری میں اور دونوں حدیثیں حضرت عائشہ  سے ہی مروی ہیں تو سمجھ میں نہیں آتا کہ گیارہ رکعات والی حدیث میں سے لفظ آٹھ کو تو لے لیا اور تیرہ رکعات والی حدیث کو بالکل ہی چھوڑدیا، حالانکہ تیرہ رکعات والی حدیث میں کان کالفظ استعمال کیا گیا ہے جو عربی زبان میں ماضی استمرار کے لیے ہے یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کا تیرہ رکعات پڑھنے کا معمول تھا۔ نمازِ تہجد اور نماز تراویح کو ایک کہنے والے حضرات قرآن وحدیث کی روشنی میں دونوں احادیث میں تطبیق دینے سے قاصر ہیں۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ حضرت عائشہ  کی آٹھ رکعات والی حدیث میں تو چار چار رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے لیکن عمل دو دو رکعات پڑھنے کا ہے تو جواب میں دوسری حدیث کا حوالہ دیا جاتا ہے جس میں نماز تہجد کو دو دو رکعات پڑھنے کا تذکرہ ہے، اور وہ حضرت عبد اللہ بن عباس  کی حدیث ہے جو بخاری ہی (کتاب الوتر) میں ہے: ثُمَّ صَلّٰی رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ رَکْعَتَیْنِ، ثُمَّ أوْتَّرَ۔حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے وضو وغیرہ سے فارغ ہوکر نماز تہجد پہلے دو رکعات ادا کی، پھر دو رکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر دورکعات ادا کی،پھر وتر پڑھے۔ بخاری کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نمازِ وتر کے علاوہ دو دو رکعات کرکے تہجد کی کل بارہ رکعتیں ادا فرماتے۔ آٹھ رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات کے نزدیک تراویح اور تہجد ایک ہی نماز ہے تو ان احادیث میں تطبیق کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ غرضیکہ حضرت عائشہ  کی پہلی حدیث سے آٹھ کا لفظ لیا اور حضرت عبد اللہ بن عباس  کی اس حدیث سے دو دو رکعات پڑھنے کو لیا تو نہ تو حضرت عائشہ  کی حدیث پر عمل ہوا اور نہ حضرت عبداللہ بن عباس  کی حدیث پرعمل ہوا بلکہ اپنے اسلاف کی تقلید ہوئی، حالانکہ یہ تینوں احادیث صحیح بخاری کی ہی ہیں۔ معلوم ہوا کہ نمازِ تراویح اور نمازِ تہجد کو ایک قرار دینا ہی غلط ہے کیونکہ اس کا ثبوت دلائل شرعیہ سے نہیں دیا جاسکتا ہے۔ چاروں ائمہ میں سے کوئی بھی دونوں نمازوں کو ایک قرار دینے کا قائل نہیں ہے۔ امام بخاری  تو تراویح کے بعد تہجد بھی پڑھا کرتے تھے، امام بخاری  تراویح باجماعت پڑھا کرتے تھے اور ہر رکعت میں بیس آیتیں پڑھا کرتے تھے اور پورے رمضان میں تراویح میں صرف ایک ختم کرتے تھے، جب کہ تہجد کی نماز امام بخاری  تنہا پڑھا کرتے تھے اور تہجد میں ہر تین رات میں ایک قرآن کریم ختم کیا کرتے تھے۔ (امام بخاری کے اس عمل کی تفصیلات پڑھنے کے لیے صحیح بخاری کی سب سے مشہورومعروف شرح ”فتح الباری“ کے مقدمہ کا مطالعہ فرمائیں)۔

بس بات صحیح یہی ہے کہ نماز تراویح اور نماز تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں، تہجد کی نماز تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے متعین ہوئی ہے، سورہٴ المزمل کی ابتدائی آیات ﴿یَااَیَّہَا الْمُزَّمِّلُ قُمِ اللَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلا…﴾ پڑھ لیں ۔ جبکہ تراویح کا عمل حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے فرمان سے مشروع ہوا ہے جیساکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے : سَنَنْتُ لَہ قِیَامَہ (نسائی، ابن ماجہ) تراویح کا عمل میں نے مسنون قرار دیا ہے۔ حضرت عمر فاروق  کے عہد میں جماعت کے ساتھ بیس رکعات کا باقاعدہ اہتمام کے ساتھ شروع ہونا روز روشن کی طرح واضح ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کئے جاچکے ہیں۔ لہذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف اور صرف ہٹ دھرمی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث کا تعلق تہجد کی نماز سے ہے جو آپ صلی الله علیہ وسلم کبھی کم کبھی زیادہ پڑھا کرتے تھے۔

ایک شبہ کا ازالہ
بعض حضرات نے (ابن خزیمہ وابن حبان) میں وارد حضرت جابر  کی روایت سے ثابت کیا ہے کہ آپ  صلی الله علیہ وسلم نے رمضان میں آٹھ رکعات تراویح پڑھیں۔ حالانکہ یہ روایت اس قدر ضعیف ومنکر ہے کہ اس سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ اس میں ایک راوی عیسیٰ بن جاریہ ہے جس کی بابت محدثین نے تحریر کیا ہے کہ اس کے پاس منکر روایات ہیں، جیساکہ 8 رکعات تراویح کا موقف رکھنے والے حضرات نے دوسرے مسائل میں اس طرح کے راویوں کی روایات کو تسلیم کرنے سے منع کیا ہے۔ اس نوعیت کی متعدد احادیث ہمارے پاس بھی موجود ہیں جس میں مذکور ہے کہ حضور اکرم  صلی الله علیہ وسلم نے بیس رکعات تروایح پڑھیں: حضرت عبد اللہ بن عباس  سے روایت ہے کہ بیشک نبی اکرم  صلی الله علیہ وسلم  ماہِ رمضان میں بلاجماعت بیس رکعات اور وتر پڑھتے تھے۔ (بیہقی، ج1 ص 496، اس حدیث کو طبرانی نے کبیر میں، ابن عدی نے مسند میں اور علامہ بغوی نے مجمع صحابہ میں ذکر کیا ہے) (زجاجة المصابیح) حافظ ابن حجر عسقلانی نے امام رافعی کے واسطہ سے نقل کیا ہے کہ حضور اکرم نے لوگوں کو بیس رکعات دو راتیں پڑھائیں پھر تیسری رات کو لوگ جمع ہوگئے، مگر آپ باہر تشریف نہیں لائے۔ پھر صبح کو فرمایا کہ مجھے اندیشہ تھا کہ یہ تمہارے اوپر فرض نہ ہوجائے اور تم اس کو ادا نہ کرسکو،اس لیے باہر نہیں آیا۔

دوسرے شبہ کا ازالہ
بعض حضرات نے ایک روایت کی بنیا د پر تحریر کیا ہے کہ حضرت عمر فاروق  نے گیارہ رکعات تراویح کا حکم دیاتھا، حالانکہ یہ حدیث تین طرح سے منقول ہے اور حدیث کی سند میں شدید ضعف بھی ہے… نیز حضرت عمر فاروق  کے زمانہ میں بیس رکعات تراویح پڑھی گئیں، یہ بات سورج کی روشنی کی طرح محدثین واکابرین امت نے تسلیم کی ہے، جیساکہ محدثین وعلماء کرام کے اقوال حوالوں کے ساتھ اوپر تحریر کئے جاچکے ہیں۔ لہٰذا اس حقیقت کا انکار کرنا صرف ہٹ دھرمی ہے۔ امام ترمذی، امام غزالی ، علامہ نووی ، شاہ ولی اللہ محدث دہلوی، علامہ ابن قدامہ ، علامہ ابن تیمیہ  اور مشہور غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان مرحوم بھوپالی نے بھی وضاحت کے ساتھ اس حقیقت کا اعتراف کیا ہے۔ مشہور غیر مقلد عالم مفتی محمد حسین بٹالوی نے جب پہلی دفعہ 1284ھ میں باضابطہ طور پر فتوی جاری کیا کہ آٹھ رکعات تراویح سنت اور بیس رکعات بدعت ہے تو اس انوکھے فتوے کی ہر طرف سے مخالفت کی گئی۔ مشہور غیر مقلد بزرگ عالم مولانا غلام رسول صاحب نے خود اس فتویٰ کی سخت کلمات میں مذمت کی، اور اس کو سینہ زوری قرار دیا۔ (رسالہ تراویح ص 28، 56)

تیسرے شبہ کا ازالہ
کچھ حضرات کہتے ہیں کہ نبی اکرم ا اور صحابہ کرام کے اقوال میں اگر کوئی تضاد ہو تو صحابہ کے اقوال کو چھوڑکر نبی اکرم ا کے قول کو لیا جائے گا۔ اس میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اِس میں شک بھی کرے ، تو اُسے اپنے ایمان کی تجدید کرنی ہوگی۔ لیکن یہاں کوئی تضاد نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم ا کے اقوال وافعال میں کہیں بھی تراویح کی کوئی تعداد مذکور نہیں ہے ۔ نبی اکرم ا کی سنتوں سے صحابہ کرام کو ہم سے زیادہ محبت تھی۔ اور دین میں نئی بات پیدا کرنے سے صحابہ کرام ہم سے زیادہ ڈرنے والے تھے۔

خصوصی توجہ
سعودی عرب کے نامور عالم ، مسجد نبوی کے مشہور مدرس اور مدینہ منورہ کے (سابق) قاضی الشیخ عطیہ محمد سالم (متوفی 1999) نے نماز تراویح کی چودہ سو سالہ تاریخ پر عربی زبان میں ایک مستقل کتاب (التراویح اکثر من الف عام فی المسجد النبوی) لکھی ہے۔ کتاب کے مقدمہ میں تصنیف کا سبب بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ مسجد نبوی میں نماز تراویح ہورہی ہوتی ہے تو بعض لوگ آٹھ رکعات پڑھ کر ہی رک جاتے ہیں ، ان کا یہ گمان ہے کہ آٹھ رکعات تراویح پڑھنا بہتر ہے اور اس سے زیادہ جائز نہیں ہے، اس طرح یہ لوگ مسجد نبوی میں بقیہ تراویح کے ثواب سے محروم رہتے ہیں۔ ان کی اس محرومی کو دیکھ کر بہت افسوس ہوتا ہے ، لہذا میں یہ کتاب لکھ رہا ہوں تاکہ ان لوگوں کے شک وشبہات ختم ہوں اور ان کو بیس رکعات تراویح پڑھنے کی توفیق ہوجائے… اس کتاب میں 1400سالہ تاریخ پر مدلل بحث کرنے کے بعد شیخ عطیہ محمد سالم  لکھتے ہیں: اس تفصیلی تجزیہ کے بعد ہم اپنے قراء سے اولاً تو یہ پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ایک ہزار سال سے زائد اس طویل عرصہ میں کسی ایک موقع پر بھی یہ ثابت ہے کہ مسجد نبوی میں مستقل آٹھ تراویح پڑھی جاتی تھیں؟ یا چلیں بیس سے کم تراویح پڑھنا ہی ثابت ہو؟ بلکہ ثابت تو یہ ہے کہ پورے چودہ سو سالہ دور میں بیس یا اس سے زائد ہی پڑھی جاتی تھیں۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ کیا کسی صحابی یا ماضی کے کسی ایک عالم نے بھی یہ فتویٰ دیا کہ 8 سے زائد تراویح جائز نہیں ہیں اور اس نے حضرت عائشہ  کی حدیث کو اس فتوے کی بنیاد بنایا ہو ؟

خلاصہٴ کلام
تراویح فرض نہیں ہے، لیکن 20رکعات پڑھنے میں احتیاط ہے کہ 8 رکعات 20 رکعات میں داخل ہیں، اور رمضان کی راتوں میں عبادت کرنے کی خاص فضیلت احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ نیز مذکورہ بالا احادیث، متفق علیہ محدثین اور معتبر علماء کے اقوال کی روشنی میں 20 رکعات تراویح کا موقف ہی زیادہ مضبوط ہے۔

Flag Counter