خواتین کے متعلق مرد وں کو نصیحت
مولانا محمد حبیب الرحمن حسامی
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا عورتوں کے ساتھ حسن سلوک ( بہتر برتاؤ) کرنے کے معاملہ میں میری نصیحت قبول کرو! عورت چوں کہ پسلی سے پیدا کیگئی ہے (اس لیے اس میں خلقی طور پر کچھ کجی ضرور رہے گی، جس کی وجہ سے کوتاہیاں ضرور ہوں گی) اگر تم اسے سیدھا کرنے لگو تو اسے توڑ ڈالوگے ( مگر سیدھا نہیں کر سکو گے ) اور اگر یوں ہی رہنے دو گے تو ( اگرچہ) کجی باقی رہے گی (مگر نباہ ہوتا رہے گا، پھر مکرر کہتا ہوں کہ ) عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کے معاملہ میں میری نصیحت مانو! (بخاری:2/779 ) پیارے آقا ،سر کار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے مختلف موقعوں اور متعدد مرتبہ خصوصیت سے مرد حضرات کو تاکید فرمائی کہ وہ اپنی ازواج کے ساتھ بہتر اور اچھا برتاؤ کریں، حدیث بالا میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے خواتین کی فطری کم زوریوں کی طرف اشارہ فرمایا ہے، جس کا مرد حضرات کو خیال کرنا چاہیے، جب کبھی ایسا کوئی ناخوش گوار مرحلہ پیش آتا ہے تو فوراً قطع تعلق کر لیتے ہیں، حدیث پاک میں خاتون کی کمزوری اور نزاکت کو بیان کیا گیا ہے اور اس کے ٹیڑھے پن کو بھی بتایا گیا ہے اور اس کو توڑ دینے سے مراد طلاق ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت مرد حضرات کو یہ ہے کہ خواتین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آئیں اور شدت اختیار کرنے کے بجائے نرمی وحکمت سے معاملات طے کیے جائیں، نہ کہ کمزوریوں کو بنیاد بنا کر ترک تعلق کا فیصلہ کیا جائے، رسول الله کا ارشاد ہے کہ ”لا یفرک مؤمن مؤمنة إن کرہ منھا خلقا رضی منھا آخر․“(مسلم:1/475، باب الوصیة بالنساء) یعنی کوئی شوہر اپنی بیوی سے ( کسی ایک آدھ ناگوار بات کی بنا پر) تعلقات یک دم ختم نہ کر لے (کیوں کہ اس کی کوئی بات) اگرناگوار ہوئی ہے تو کچھ باتیں اس میں ضرور پسندیدہ بھی ہوں گی، لہٰذا خواتین کی نیک صفات واخلاق سے تجاہل عارفانہ نہیں برتنا چاہیے، ان کی کسی بھی ایک آدھ صفت حسنہ کو مدنظر رکھ کر حسنِ سلوک والا معاملہ برتنا چاہیے اور حکمت عملی سے کام لینا چاہیے۔
کامل الایمان اور بہتر شخص کون؟
حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ سب سے کامل ایمان والا وہ شخص ہے جو سب سے زیادہ بااخلاق ہو اور تم میں بہتر وہ ہے جو سب سے زیادہ اچھا ہو اپنی بیوی کے ساتھ۔(ترمذی:1/219 باب ماجاء فی حق المراة علی زوجھا)
رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ہر موقع وہر حال میں خواتین کی رعایت فرمائی ہے اور ان کے حقوق ادا کرنے پر مردوں کو تاکید ونصیحت فرمائی اور ان کو ابھارا ہے، حتی کہ حیات مبارکہ کے آخری خطبہ میں بھی حقوق نسواں ادا کرنے کی نصیحت فرمائی او راس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو خواتین کا کتنا خیال تھا، حدیث پاک میں کامل الایمان اس خاوند ( شوہر) کو قرار دیا گیا کہ جو بااخلاق ہو اور اپنی بیوی کے ساتھ اچھا ہو، اس کے ساتھ اچھا معاملہ وبرتاؤ کرتا ہو، جس شوہر کا برتاؤ اس کی بیوی کے ساتھ اچھا نہ ہو اور وہ بااخلاق نہ ہو تو اس شخص میں ایمان مکمل نہیں۔ ( مندرجہ بالا حدیث پاک کے مفہوم سے یہی معلوم ہوتا ہے) کما ل ایمان کی ایک شق بیوی کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا بھی ہے، جس شوہر کا برتاؤ اس کی بیوی کے ساتھ اچھا نہ ہو گویا وہ شخص بھی اچھا نہیں، اسلام کی نظر میں شوہر وبیوی کے تعلق کی بنیاد محبت ورحمت ہے، اسلام چاہتا ہے کہ زوجین ( شوہر وبیوی ) میں کامل محبت اور والہانہ تعلق ہو یہ محبت ورحمت ہی ہے جو ہر دو کو رشتہ ازواج میں منسلک رکھتی ہے، اگر یہ ختم ہو جائے تو یہ رشتہ بھی نہیں رہ پائے گا اور یہ محبت کا ہی تقاضا ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس لقمہ میں بھی اجر ہے جو تم اپنی بیویوں کے منھ میں ڈالتے ہو ۔ ( بخاری:1/173، باب رثاء النبی صلی الله علیہ وسلم سعد بن خولہ ابی وقاص) لہٰذا زوجین کے مابین حسن سلوک ، بہتر برتاؤ، محبت وخلوص، ہم دردی وتعاون، عدل وانصاف اور عفو ودرگذر کا معاملہ ہونا ضروری ہے اورایک شوہر اور رفیق حیات کی حیثیت سے رسول صلی الله علیہ وسلم کا جو کردار ہے وہ ہر شوہر کے لیے اُسوہ ہے، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنے اہل وعیال کے حق میں بہتر ہو اور میں تم لوگوں میں اپنے اہل کے معاملہ میں سب سے بہتر ہوں۔ (ترمذی: 2/228، ابواب المناقب)
بیوی کا حق
بیوی کے حق کی وضاحت کرتے ہوئے ایک موقعہ پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا بیوی کا حق شوہر پر یہ ہے کہ جب خود کھائے تو اس کو کھلائے، جب خود پہنے تو اس کو پہنائے، نہ اس کے منھ پر تھپڑ مارے، نہ اس کو برا بھلا کہے، نہ گھر کے علاوہ ( سزا کے لیے) اس کو علیحدہ کرے۔ (ابن ماجہ:133، باب حق المرأة علی الزوج)
اسلامی تعلیمات میں عموماً ہر ایک کو اس کی ذمہ داریاں اور فرائض بتا کر انہیں پورا کرنے پر زور دیاگیا ہے، جس کے نتیجہ میں ہر ایک کے حقوق بھی مل جاتے ہیں اور ہر ایک کو اطمینان وراحت بھی نصیب ہوتا ہے اور حقوق کی پاس داری گھر میں ایک ایسا ماحول فراہم کرتی ہے کہ گھر جنت نظیر بن جاتا ہے، اسی بنا پر خاص طورپر مرد حضرات کو تاکید کی گئی ہے کہ وہ خواتین سے حسن اخلاق سے پیش آئیں اور ان کے نان نفقہ اور دیگر ضروریات زندگی کا خاص خیال رکھیں اور جو چیز اپنے لیے مرد حضرات پسند کریں، وہی اپنی ازواج کے لیے بھی پسند کریں ۔سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے دوسروں کے جذبات کا پاس ولحاظ رکھنے کی بھی اپنی امت کو تعلیم دی ہے اور دوسروں کی جائز خواہشوں کو حتی الامکان پورا کرنا بھی آپ صلی الله علیہ وسلم ضروری سمجھتے تھے، اسی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے عید کے دن جب چند حبشی باشندے حرم نبوی کے قریب ایک تماشا دکھا رہے تھے تو حضرت عائشہ صدیقہ نے وہ تماشا دیکھنے کی خواہش ظاہر فرمائی تو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم دروازے میں کھڑے ہو گئے اور ام المومنین حضرت عائشہ رضی الله عنہا آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے سے تماشا دیکھنے لگیں اور دیر تک دیکھتی رہیں، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: کیوں جی نہیں بھرا؟ حضرت عائشہ رضی الله عنہا تھک کر ہٹ گئیں، نیز بیویوں کے ساتھ ظلم وزیادتی، بربریت وحیوانیت سے پیش آنا یقینا جرم ہے، چناں چہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے کوئی اپنی بیوی کو غلاموں کی طرح نہ مارے، پھر دن کے آخری حصہ میں اس سے مباشرت کرے۔ (بخاری:2/784، باب مایکرہ من ضرب النساء الخ)۔
جو عورت مرد کے لیے سکون وراحت مہیا کرتی ہے اسے مارنانہ صرف عورت کی عزت ووقار اور وجاہت کے منافی ہے، بلکہ خود مردوں کی شرافت اور وجاہت سے گری ہوئی بات ہے ، منکوحہ بیویوں کو تکلیف دینا تو دور کی بات ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے باندی وغلام ( نوکروں) کو بھی اذیت پہنچانے سے منع فرمایا ہے اور بیوی سے جب کوئی ناگوار بات سر زد ہو جائے تو ان کو تکلیف واذیت دینے اور ناروا سلوک اپنانے کے بجائے حکمت ومصلحت سے کام لیں اور غلطی کو صرفِ نظر کر دیں اور جب حقیقت میں کوئی سنگین معاملہ پیش آجائے جو خلاف شریعت ہو تو اس وقت بیوی کو برا بھلاکہنے اور کوئی رویہ اپنانے کے بجائے سزا کے طور پر گھر کے اندر ہی علیحدہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے، تاکہ کوئی ناخوش گوار واقعہ پیش نہ آئے او رحتی الوسع آپس میں مسئلہ سلجھا لینا چاہیے، کیوں کہ قرآن پاک کے پانچویں پارہ میں نافرمان بیویوں کا علاج بتلایا گیا ہے کہ پہلے ان کو نصیحت کریں، ثانیاً علیحدہ کریں، ثالثا ہلکی ما رماریں (جس سے خراش یا جسمانی نقصان نہ ہو)۔ مزید تفصیل تفسیر قرآن میں د یکھ لیں۔