رشتے داروں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا رحیمانہ سلوک
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
انسانیت کے بے شمار طبقات ایسے ہیں جو رحم وکرم کے مستحق ہیں،اگر ان طبقات کی جانب بر وقت توجہ نہ دی گئی کہ تویہ طبقات انسانی حقوق سے محروم ہوجائیں گے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے امت کے جن کمزور طبقات کی جانب بر وقت توجہ فرمائی، انہیں میں رشتہ داروں کا بھی طبقہ ہے، ایک بھائی کمزور وبے سہارا ہے تو دوسرا بھائی مال دار وصاحب ثروت ہے، ایسے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے رشتہ داری کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے صاحب ثروت کو اپنے رشتہ داروں کا خیال رکھنے کی تلقین فرمائی، کمزور کونصیحت فرمائی کہ وہ اپنے بھائی سے جڑا رہے، اس طرح سے گویا آپ صلی الله علیہ وسلمنے رشتہ داروں کے حقوق بیان کر کے موقع بموقع ان پر خرچ کرنے کی ترغیب دے کر، ان کے مصالح کی رعایت پر آمادہ کر کے ان کے ساتھ رحیمانہ طرزِ عمل اپنانے کی تلقین کرکے، بہر صورت رشتے داری کو باقی رکھنے کا حکم دے کر رشتے داروں پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے رحم کیا ہے، یہ آپ کے رحم وکرم کا ہی اثر تھا کہ انسانیت کے اس طبقے نے بھی اس سے وافر حصہ پایا، رحم کے معنی رشتہ داری کے ہیں، گویا رحم وکرم کا پہلو اور رحمت کا عنصر رشتہ داروں کے ساتھ لازمی ہے، اگر رشتہ داروں کے ساتھ ہی رحیمانہ طرز عمل نہ اپنایا جائے تو پھر یہ رحمت کا پہلو کس کام آئے گا؟! انسانی رحمت کے اولین حق دار اس کے عزیز واقارب ہی تو ہیں، اگر کوئی شخص اہل دنیا کے ساتھ رحیمانہ برتاوٴ اپنائے؛ لیکن جو عین رحمت کے مستحق ہیں انہیں سے صرف نظر کرے تو یہ بڑے خسارے کی بات ہے، ایک تو آپ صلی الله علیہ وسلمکے اقوال میں صلہ رحمی کی اہمیت بتائی گئی ہے، دوسرے آپ صلی الله علیہ وسلمنے عملی طور پر صلہ رحمی کی وہ مثالیں پیش کی ہیں، جس کی نظیر پیش کرنے سے دنیا عاجز ہے۔
صلہ رحمی کی اہمیت
حدیث قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میں ہی اللہ ہوں، میں ہی رحمن ہوں، میں نے ہی رشتہ داری کو پیدا کیا ہے، جو شخص رشتہ داری کو جوڑے گا میں اس کو جوڑ دوں گااور جو رشتہ ناطہ توڑے گا میں اس کو توڑدوں گا۔(بخاری:5528)ایک حدیث میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے فرمایا: رشتہ داری عرش کے ساتھ معلق ہے، جو شخص رشتہ داری قائم رکھے گا اللہ تعالیٰ اس کو جوڑیں گے اور جو قطع تعلق کرے گا، اللہ تعالیٰ اسے کاٹ دیں گے۔(مسلم: 4635) ان دونوں احادیث میں اللہ تعالیٰ کی جانب سے قطع رحمی پر جو وعیدذکر کی گئی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی رحمت خاصہ سے دور کردیں گے۔ (مشکوٰة ص:402)
پسندیدہ عمل وناپسندیدہ عمل
آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک محبوب عمل کیا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلمنے جواب دیا کہ اللہ پرایمان لانا، اس کے بعدسائل نے دو بارہ سوال کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے جواب دیا، صلہ رحمی کرنا۔
غور کیجیے! اس حدیث پاک میں آپ صلی الله علیہ وسلمنے بنیادی چیز ایمان کے بعد جس کا تذکرہ کیا ہے وہ صلہ رحمی ہے اور یہ بھی بتایا کہ صلہ رحمی اللہ کے نزدیک محبوب ترین عمل ہے، گویا صلہ رحمی کو اپنانے والا بندہ اللہ تعالیٰ کے محبوب بندوں میں شامل ہوتا ہے، جس نے صلہ رحمی کو اپنا شیوہ ووطیرہ بنالیا اس نے اللہ کے نزدیک پسندیدہ عمل میں رغبت کا اظہار کیا، اس کے آگے سائل نے سوال کیا کہ اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل کونسا ہے؟ تو آپ صلی الله علیہ وسلمنے جواب دیا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا شرک کے بعد سب سے زیادہ ناپسندیدہ عمل وہ قطع رحمی ہے۔ ان احادیث میں غور طلب امر یہ ہے کہ اہم اور بنیادی چیز ایمان کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلمنے صلہ رحمی کا تذکرہ فرمایا ہے، اسی سے صلہ رحمی کی اہمیت خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ جو بھی مومن ہوگا وہ صلہ رحمی کے زیور سے خود بخود آراستہ ہوگا اور جو شخص بھی مومن بننا چاہ رہا ہو، اسے صلہ رحمی سے متصف ہونا ہی پڑے گا اور وعید کے طور پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے ذکر فرمایا: اگر کوئی بد ترین عمل اللہ کو زیادہ ہی ناپسند ہے تو وہ شرک ہے، اس شرک جیسے بد ترین عمل کے تذکرے کے بعد قطع رحمی کاتذکرہ اس بات کی طرف اشارہ کررہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو بھی قطع رحمی انتہائی ناپسند ہے، اور قاطعِ رحم اللہ کی نگاہوں سے گر جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ قاطعِ رحم کو اپنی خصوصی عنایات والطاف ورحمتوں سے محروم کردیتے ہیں۔
جنت میں داخلے کا سبب
کسی بھی مسلمان کی اولین خواہش یہ ہوتی ہے کہ وہ اخروی اعتبار سے کام یاب ہو اور جہنم سے نجات پاکر جنت میں داخل ہوجائے، اور جنت میں داخلے کے کئی اسباب ہیں، جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ذکر فرمائے ہیں، انہیں میں ایک سبب آپ صلی الله علیہ وسلم نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کو بھی جنت میں داخلہ کا ذریعہ قرار دیا اور جو شخص قطع رحمی یا تعلقات ورشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ رکھے اور رشتہ داروں سے بے اعتنائی وبے توجہی برتے اس کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑی سخت وعید ذکر فرمائی کہ ایسا شخص جنت میں داخلے کا مستحق نہیں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: رشتہ داری توڑنے والا جنت میں داخل نہ ہوگا۔(مسلم: 4637) نیز آپ صلی الله علیہ وسلم سے ایک صحابی نے سوال کیا کہ مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے جس کے ذریعہ میں جنت میں داخل ہوجاوٴں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے جوابا ارشاد فرمایا: ایک اللہ کی عبادت وبندگی کرو، اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو، نیز نماز ادا کرو، زکوٰة دیاکرو اور رشتہ داری کو جوڑا کرو۔ (بخاری:1309) گویا ان چاروں میں سے کسی ایک میں بھی کمی کر ے تو اس کے جنت میں داخلے کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔
صلہ رحمی کا بدلہ دنیا میں
بعض نیک کاموں کے فوائد تو اخروی اعتبار سے ظاہر ہوتے ہیں، لیکن بعض نیک کام ایسے ہیں کہ جن کا نقد فائدہ دنیا میں بھی ہوتا ہے، انہی میں ایک صلہ رحمی ہے کہ اس کا فائدہ دنیا ہی میں ظاہر ہوتاہے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے عمر میں اضافہ کا ایک ذریعہ صلہ رحمی کو قرار دیا، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم نے اقارب پر رحم وکرم کو نقد ثواب کا ذریعہ قرار دیا، ٹھیک اسی طرح قطع رحمی کا بدلہ اللہ تعالیٰ آخرت میں تو دیں گے ہی، لیکن ان کے نقصانات دنیا میں بھی ظاہر ہوتے ہیں، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی سے زیادہ جلد کسی اور چیز میں پکڑ نہیں ہوتی، ایک اور موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: قطع رحمی سے بڑھ کر کوئی ایسا گناہ نہیں ہے جس پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے پکڑ ہوتی ہے۔
رشتہ دار پر صدقہ کا دُگنا اجر
عموما قاعدہ ہے کہ انسان احسان کے تابع رہتا ہے، عموی طور پر انسان اپنے محسنین کے ساتھ اچھا ہی رویہ اپناتا ہے، تعلقات کی برقراری کو اہمیت دیتا ہے اوروں کے بہ نسبت محسنین کو ہر کوئی اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے، لہٰذا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس احسان کے ذریعہ بھی رشتہ داری کو جوڑنے کو اہم قرار دیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے عام افراد پر صدقہ کرنے کے بجائے رشتہ داروں پر خرچ کو بھی ثواب کا ذریعہ ووسیلہ قرار دیا، اس سے آگے بڑھ کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ عام مسکین پر صدقہ سے تو ایک گناہی ثواب پائے گا لیکن اگر کوئی شخص غریب رشتہ دار کو صدقہ دیتا ہے تو اس کو دُگنا ثواب واجر ملے گا، ایک اجر تو صدقے ہی کا، دوسرا صلہ رحمی کا اجر۔ (مشکوٰة المصابیح) ایک اور موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے مال دار عورتوں کو جو اپنے شوہروں پر اور ان کے بچوں پر خرچ کرتی ہیں انہیں دُگنے اجر کی بشارت سنائی، ایک رشتہ داری کا اجر، دوسرے صدقہ کا اجر۔(بخاری: 3730) نیز حضرت ابو طلحہ نے جب اپنے انتہائی قیمت درخت راہ ِخدا میں صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اسے اپنے رشتہ داروں پر صدقہ کرنے کا حکم دیا۔ (بخاری: 1368)
برابری کرنے والا جوڑنے والا نہیں
خاندانی تعلقات کی بقا کے لیے انسان کو جس حد تک بھی گذرنا پڑسکتا ہے اس کواختیار کرنے سے دریغ نہ کرنے کا حکم دیا اور ہر حال میں اسے اپنانے کی تلقین کی اور بہر صورت رشتہ داری باقی رکھنے کا حکم دیا، اگر ایک جانب سے زیادتی ہورہی ہے اور شتہ داری کاٹنے کی کوشش کی جارہی ہے تو ایسی صورت میں دوسرے فریق کو برابری کرنے کا حکم نہیں دیا، بلکہ یہاں تک فرمادیا کہ برابری کرنے والا رشتہ داری کو جوڑنے والا نہیں، بلکہ رشتہ داری کو جوڑنے والا تو وہ ہے جب قطع رحمی کی جائے تو یہ صلہ رحمی کرے۔(بخاری: 5532) نیز ایک صحابی رسول نے آکر آپ صلی الله علیہ وسلمکو یہ خبر دی کہ میں تو صلہ رحمی کرتا ہوں اور مخالف قطع رحمی کرتا ہو تو میں کیا کروں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تم قطع رحمی کرنے والوں کے ساتھ صلہ رحمی اسی طرح کرتے رہو، جب تک تم یہ طرزِ عمل اختیار کروگے اللہ کی مدد تمہارے ساتھ ہوگی۔(مسلم: 4640)
بہترین صدقہ
مال دار کو اگر خرچ کی اہمیت وفضیلت بتائی جائے تو خرچ پر آمادہ ہوسکتا ہے، رشتہ داروں پر خرچ کے لیے تیار ہوبھی سکتا ہے، لیکن اگر کسی ایسے آدمی پر خرچ کرنے کی ترغیب دی جائے جو ظالم بھی ہو، قریبی رشتہ دار بھی ہو تو مظلوم مال دار پر کیا گذرے گی؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے نہ صرف ظالم رشتہ دارپر خرچ کرنے کی ترغیب دی، بلکہ اگر مظلوم ظالم رشتہ دار پر خرچ کرے تو اس کو بہترین صدقہ قرار دیا، آپ کے رحیمانہ وکریمانہ اثرات سے ظالم رشتہ داروں تک نے بھی وافر حصہ پایا۔
زرق میں کشادگی کا ذریعہ
صلہ رحمی کے فوائد کا تذکرہ کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ اس کے رزق میں اضافہ کیا جائے اس کا تذکرہ زیادہ دیر تک باقی رہے تو چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے، صلہ رحمی سے رزق میں کشادگی ہوگی۔ رزق جیسی اہم چیز جس کے اضافہ کے لیے انسان ہر وقت کوشاں وساعی رہتا ہے اس کے بھی اضافہ کا ذریعہ صلہ رحمی ہی کو قرار دیا، نیز موت میں تاخیر کا مطلب یہ ہے کہ یا تو عمر میں برکت ہوگی یا یہ کہ ایسا شخص عمر کو ضائع نہیں کرے گا، یا اس کا ذکر طویل زمانے تک باقی رہے گا، یہ عمر میں اضافہ مخلوق کے اعتبار سے ہے، نہ کہ خالق کی اعتبار سے۔(حاشیہ مشکوٰة: ص: 419)
الغرض نہ صرف یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کی زبانی ہی ترغیب دی ہے بلکہ عملی طور پر اس کے نمونے ومثالیں آپ صلی الله علیہ وسلمنے اپنے عمل سے پیش فرمائی ہیں، چناں چہ سیرت کی کتابوں میں اس کی بے شمار نظیریں ومثالیں موجود ہیں، حضرت علی جو ابو طالب کے بیٹے تھے ان کی کفالت اپنے ذمہ لی، کیوں ابو طالب معاشی اعتبار سے نہایت تنگ دست تھے، جس کی بنا پر آپ صلی الله علیہ وسلمنے حضرت علی کی تعلیم وتربیت اور کفالت کا انتظام کیا اور ایک بھائی حضرت عثمان کے حوالے کیا کہ ابو طالب کا بوجھ ہلکا ہوسکے، آج امت مسلمہ کا عالم یہ ہے کہ جتنے حقوق جتنی اہمیت رشتہ داری کی آپ صلی الله علیہ وسلم نے بتلائی ہے امت مسلمہ اتنی ہی زیادہ ان سے لا پروا ہے او رجتنی وعیدیں قطع تعلق کے سلسلہ میں بیان فرمائی ہے او رجتنا قطع رحمی سے دور رہنے کی تلقین فرمائی ہے اتنی ہی زیادہ امت مسلمہ قطع رحمی سے قریب ہوتی جارہی ہے، مسلم معاشرہ میں قطع رحمی ایک محبوب ترین مشغلہ بن چکا ہے، تھوڑی سی اَن بَن پر رشتہ داروں سے زندگی بھر کے لیے دوری روز مرہ کا معمول بن چکا ہے، ایک گھر میں رہتے ہوئے برسہا برس تک ایک بھائی دوسرے بھائی کی صورت دیکھنا تک گوارہ نہیں کرتا، کوئی عفو ودر گذر سے کام لے کر صلح کے لیے آمادہ نہیں، لہٰذا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی، عفو ودر گذر کو لازم پکڑے، اور قطع رحمی وغیرہ سے مکمل پر ہیز کرے۔اللہ تعالیٰ عمل کی توفیق دے، آمین!